آتش ہجر میں مجھے لا ڈالا گیا
کوزہ گر کی مرضی سے ڈھالا گیا
جنگ میں لا ڈالا سپاہی کی مانند
پھر سایہ شمشیر مجھے سے نکالا گیا
وقت الفت تو ساتھ نہیں تھا میرے
وقت وحشت تیرے ساتھ نکالا گیا
ہر روز اخبار میں کئی لاشیں دیکھتا ہوں
پھر ایک دن اخبار سے نکالا مجھے گیا
تو گر ہے گریزاں تو بتا میرے ہم نوا
ڈال کر بیڑیاں مجھے زندان میں کیوں ڈالا گیا
صحرا میں حل چل ہے کسی بادوبراں کی
پھر کسی کہسار سے مجھے نکالا گیا
ایک چمکتا چاند شب کو راہ دیکھاتا تھا مجھے
پھر آسمان سے سورج کی طرح نکالا مجھے گیا
وسوسوں نے اڑا دی تھی نیند میری
پھر خوابوں میں میرے تجھ ڈالا گیا
پہلے تو نکالا تیرے شہر سے مجھے لوگوں نے
منیب پھر ظلم تیرے دل سے بھی نکالا گیا
عبدالمنیب
Visited 3 times, 1 visit(s) today
Last modified: June 6, 2024