“میری چارپائی ہلائی گئی تھی”

چارپائی پر مجھے اکیلا سونے کی عادت تھی۔ بیوی بچے دوسری کمرے میں سوتے تھے، آہٹ اور ہلچل تھی۔ کمرے میں اندھیرا تھا، روشنی میں مجھے نیند نہیں آتی۔ اس لئے گھر کی تمام روشنیاں جن کی رسائی میرے کمرے تک ہو سکتی ہے رات گًل کر دی جاتی ہیں۔

لیکن چارپائی زور سے ہلی تھی، خیال آیا کہ شاید زلزلہ ہے۔ لیکن آنکھ نہ کھولی، کلمہ شہادت پڑھا اور کروٹ بدل لی، لیکن احساس ہوا کہ کوئی چارپائی کے پاس کھڑا ہے، یہ چارپائی سے مس ہونے کا احساس تھایا سرسراہٹ۔ ایک دم گردن پلٹ کر دیکھا تو ایک ہیولہ دیکھا — نیند میں تھا ــــ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا سر چھت سے لگ رہا ہو۔ لمبے بالوں سے ڈھکا چہرہ، میں اٹھ بیٹھا اور کرخ لہجے میں پوچھا ــــ “کون ــــکیا چاہتے ہو؟

یہ میں ہوں ـــ جہاں آراء ـــ مجھے ڈر لگ رہا ہے، اس لئے آپکے کمرے چلی آئی۔ یہ میری مسز تھیں ـــ میں دل ہی دل میں نادم ہوا۔اندھیرے اور نیند کے خمار نے پہچاننے میں غلطی کی تھی۔

،”ڈر، کیسا ڈر؟” ــــ آپکی طبیعت ٹھیک ہے؟ ـــ میں ـــ میں نے پوچھا

“میری چارپائی، بار بار زور زور سے ہل رہی ہے”، بیگم نے بتایا ـــ “بچے سو رہے ہیں، مجھے ڈر لگا اس لئے چلی آئی”ــــ انہوں نے کہا

چارپائی میری بھی ہل رہی تھی ــــ اسکا مطلب ہے کہ زلزلہ آیا تھا ــــ میرے کمرے میں سر کی جانب ایک اور چارپائی بچھی رہتی تھی ـــ میں نے اس کی طرف اشارہ کرکے کہا

‘یہاں لیٹ جائیں” ـــــ میں جاگ رہا ہوں

وہ ـــ چارپائی پر بیٹھ گئیں ـــ میں بھی بیٹھا ہوا تھا ـــ آپ سو جائیں میں جاگ رہا ہوں ـــ پریشان نہ ہوں ـــ شاید زلزلہ تھا ـــ سو جائیں۔

وہ ـــ لیٹ گئیں اور میں حفظ ما تقدم کے طور پر بیٹھا رہا ـــ کہ اگر دو بارہ کوئی افٹر شاک آئے تو دیکھا جا سکے۔

جہاں آراء بیگم ـــ نے چادر اوڑھی اور آنکھیں بند کر لیں۔ میں بھی چارپائی کے اوپر بیٹھ گیا اور دیوار سے ٹیک لگا لی۔ ابھی چند لمحے گزرے تھے کہ میرے جسم کے بال کھڑے ہونا شروع ہو گئے ـــ میری چارپائی ہل رہی تھی ـــ میں نے کمرے میں اور چیزوں پر نظر دوڑائی کہ زلزلہ کو محسوس کر سکوں ـــ لیکن دروازہ ساکت تھا ـــ سامنے ٹنگی ہوئی گھڑی ساکت تھی ـــ جبکہ میری چارپائی زور زور سے ہل رہی تھی ـــ میں نے آیت الکرسی پڑھنی شروع کر دی ـــ اسی اثناء میں جہاں آرا بیگم بھی اٹھیں اور دوڑ کر کمرے کی لائٹ آن کر دی ـــ میں حیرت زدہ چارپائی پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا ـــ ٹھیک اسی وقت ایسا محسوس ہوا کہ گرم ہوا کا ایک تیز جھونکا دروازے سے مشرقی جانب کھڑکی سے کود گیا ہو ـــ سرسراہٹ، اور رونگھٹے کھڑے کرنے والا کوئی اسیب گھر سے نکل بھاگا تھا۔ روشنی میں ہمیں صرف کچھ سیراب نظر آیا لیکن وہ تھا کیا؟ یہ معلوم نہ تھا۔

جہاں آراء بولیں ـــ دیکھا ـــ یہاں کچھ تھا ـــ میں نے جوابا کہا ـــ آپ نیند میں ہیں کچھ نہیں تھا ــــ لیکن حقیقت میں ـــ میں خود بھی خوفزدہ ہو گیا تھا۔

ہم ـــ دوسری منزل کے اس سرکاری فلیٹ میں چند دن پہلے ہی شفٹ ہوئے تھے۔ اس ٹاور میں کل 8 فلیٹ تھے ـــ ہر منزل دو فلیٹس پر مشتمل تھی ـــ3 نمبر میں ایک فیملی رہتی تھی ــــ جو پہلی منزل پر تھا ـــ دوسری منزل پر ہم رہتے تھے یہ 5 نمبر تھا۔ باقی رات جاگ کر گزاری ــ منزل پڑھ کر پانی دم کیا اور فلیٹ کے کونوں میں پھینکا ـــ بچوں کو پلایا اور مسز کو بھی۔ سحری کر کے سو گئے۔

اگلی شام ــــ ابھی افطاری میں کچھ وقت بقایا تھا ـــ میں فلیٹ کے اپنے کمرے میں بیٹھا تھا کہ مسز تیز قدموں سے دروازے سے داخل ہوئیں ـــ اپنے روز مرہ کے سخت لہجے میں کچھ بڑبڑائی اور بالکونی کے دروازے سے نکل گئیں۔ میرے جسم کے بال کھڑے ہو گئے ـــ اچانک کمرے میں گرمی زور پکڑ گئی۔

ابھی چند لمحے بھی نہ گزرے تھے کہ وہ بالکل اسی دروازہ سے دوبارہ داخل ہوئی جہاں سے پہلے آئیں تھیں اور میرے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔ میں محو حیرت تھا کہ بالکونی سے کوئی اور راستہ فلیٹ کے اندر رسائی کا نہیں تھا سوائے میرے کمرے کے۔ یہ بالکونی تھی ہی میرے کمرے کی۔ تو پھر یہ اصل جہاں آراء ہیں یا وہ؟ میں دوڑ کر بالکونی میں گیا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ جھٹ واپس کمرے میں آیا ـــ جہاں مسز ابھی بیٹھیں تھی۔

اب مجھے ـــ سمجھ آ گئی کہ یہاں کچھ اور ماجرہ ہے۔ اب اگلے دو تین دن میں نے مسلسل منزل پڑھی اور اپنے کنبے پر دم کرتا رہا۔ اب صرف آہٹیں آتیں تھیں ـــ مسز نے بتایا کہ دن میں فلیٹ کی گھنٹی خود بخود بجنے لگتی ـــ وہ خراب ہو سکتی تھی ـــ میں نے بدلا دی لیکن ڈھاک کے تین پات ـــ اوپر والی منزل پر کوئی نہیں رہتا تھا ـــ لیکن اوپر شور آتا ـــ آوازیں آتی ـــ جا کر فلیٹ میں دیکھتا کچھ نہ ہوتا۔

ویک اینڈ پر گھر جانا ہوا تو ـــ رات اپنے گھر کے پرانے آسیب سے ملاقات کی ـــ اسکو بتایا کہ میرے فلیٹ میں یہ معاملہ چل رہا ہے ــــ میں اس پر بھی شاکی تھا کہ میرے گھر چھوڑنے پر یہ گھر کا آسیب ـــ شرارت نہ کر رہا ہو۔ اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ میرے ساتھ بچپن سے ہی ایک آسیب مانوس تھا ـــ جو شاید 7 نسلوں سے گھر کے بڑے بیٹے کے ساتھ مانوس رہتا ہے۔ یہ ایک خاتون مسلمان جن ہے ـــ شرارت نہیں کرتا ـــ ہم پورا خاندان اسکو “ماسی” کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔اپنی مرضی سے صرف میں مل سکتا ہوں ـــ جبکہ باقی گھر والوں کو وہ کبھی کبھار خود سے اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔

میں نے “ماسی” کو فلیٹ کی صورتحال سے آگاہ کیا ـــ اس نے تسلی دی کہ وہ اس معاملہ کو دیکھے گی ــــ بات آئی گئی ہو گئی۔

اس کے بعد ـــ ہم آج تک اسی فلیٹ میں سکون سے رہائش پزیر ہیں۔

اس رمضان کے اختتام پر میں عید پر جب گھر گیا ـــ تو عید کے دوسرے روز رات کو “ماسی” حاضر ہو گئی ــ اس نےبتایا کہ وہ اس فلیٹ کے علاقہ میں گئی تھی ـــ جہاں چند جنات آباد ہیں ـــ اس نے ان سے اس بابت پوچھا ـــ ان کے بڑے نے سب سے پوچھا کہ فلاں جگہ کون دھما چوکڑی مچا رہا ہے؟ لیکن کوئی بھی نہ مانا ـــ تو ان کے سربراہ نے تسلی دی کہ اگر ہم میں سے کسی نے یہ حرکت کی بھی ہے تو مستقبل میں نہیں ہو گی ـــ اس نے کہا کہ ہم خود خیال رکھیں گے کہ کوئی باہر سے آ کر یہ حرکت نہ کر رہا ہو۔

اس کے بعد ہم نے کبھی اس جگہ کوئی آسیب محسوس کیا ـــ نہ دیکھا ــــ ہاں ماسی کبھی کبھی ملنے آ جاتیں ہیں ـــ لیکن ان سے بھی اس موضوع پر کبھی بات نہیں ہوئی۔ ہم سے پہلے جن کے پاس یہ فلیٹ تھا ـــ ان سے ایک مرتبہ ملاقات ہوئی تو انہوں نے تصدیق کی کہ وہ صرف 6 ماہ رہ سکے تھے اس فلیٹ میں ـــ انہوں نے صرف اس وجہ سے فلیٹ چھوڑا تھا کہ ـــ کوئی اسیب تھا جو تنگ کر رہا تھا۔

Visited 136 times, 4 visit(s) today
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!