آس کا بندھن ٹوٹا تھا
میں کب تم سے روٹھا تھا؟
تم کو جلدی تھی جانے کی
سورج بھی کب ڈوبا تھا
بادہ نشیں تھی آنکھیں اس کی
میں تو بس ان میں ڈوبا تھا
تنہائیوں کا قصور نہیں کوئی
مجھے تو ہجوم نے لوٹا تھا
تیرا ہاتھ چھوٹا میرے ہاتھوں سے
جیسے میری قسمت کا دھاگہ ٹوٹا تھا
روشنی تھی میرے دل میں بہت
جیسے آتش فشاں پھوٹا تھا
میں ازلوں سے ہو بھٹکا ہوا
میں ابد سے ہی ایسا تھا
تم نے جب مجھ کو چھوڑا
میں پاگل مارا پھرتا تھا
وجہ نہیں تھی کوئی خاموشی کی
میں بس لفظوں سے روٹھا تھا
میں جب آخری بار ہنسا
جانے آنسو کیوں پھوٹا تھا
ہاں منیب یاد آیا
تم کو میں نے محبت سے روکا تھا
عبدالمنیب
Visited 3 times, 1 visit(s) today
Last modified: July 1, 2024