خالددانش
وہ جو جنگلوں میں گونجے تو جنگلوں کو گلستاں کر دے۔۔
سوکھی ہوئی شاخ کو اپنی نازک انگلیوں کا لمس بخشے تو ہرا کر دے۔۔
سنو۔۔
روح کے درد عبث شل ہو چکے تھے
قلب آشفتہ
آنکھوں تلے سیاہ داغ
پلکوں پر جال عنکبوت
پھر
اک آواز کی روشنی میری رگوں میں پیوست ہوئی
گویا
سماعتوں میں شبنمی قطرے
شفا بن کر اتر گئے
اب
اس آواز کو تراش کر
معطر مجسم میں لکھوں گا
تب
بٹھا کر سامنے
نازک ہونٹوں پر رقصاں مسکراہٹ کو جادو ہی لکھوں گا
لب و لہجے کو خوشبو
اور
اس خوشبو کو گل طاؤس
گل لالہ
اور گل تسبح میں لکھوں گا
دراز گیسوؤں کو سائباں
ضو فشاں آنکھوں کو جام حیات لکھوں گا
لبوں کو پنکھڑی گلاب
ستواں ناک کو بہار
اور
مرمریں گال خوشبو بھرا گلاب لکھوں گا
آخر کار
اس پیکر جمال سے اٹھتی مہک کو سمیٹ کر نقرئی گلدان لکھوں گا
ہو جب لب کشا
تو انداز تکلم کو سمپورن راگ لکھوں گا
جب اتروں جھیل آنکھوں میں
ان ساعتوں کو قوس قزح کا رنگ لکھوں گا
جب کھنکنا کر ہنس پڑے وہ
تو
اسے مترنم جھرنوں کی لیکار لکھوں گا