قسط: 03
تحریر: پروفیسر صفرانی
(نوٹ: یہ ناول پیلشر کے ساتھ کاپی رائٹ ہے کاپی کرنا منع ہے ورنہ قانونی قاروائی ہوگی۔ یہ صرف مفت میں آپ سب کے پڑھنے کے لئے پوسٹ کیا جا رہا ہے تو احتیاط کریں۔ بلا اجازت یا اجازت لے کر بھی کاپی نہیں کرسکتے ہیں میں رائیٹر ہوں اس لئے پوسٹ کر رہا ہوں)
سلمی آغا بہت زیادہ خوشی محسوس کر رہی تھی جیسے اس میں ایک نئی جان آگئی ہو۔ اس میں امید کی اب نئی کرن زندہ ہو رہی تھی خواب میں ان بزرگ ہستی کو دیکھ کر اور چادر دیکھ کر اور یہ سب خوشبوئیں اور آواز سن کر سلمی آغا میں بہت روحانی طاقت اور تسلی سی آگئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ میمونہ ہاشمی کے ظلم بھی اب بہت بڑھ چکے تھے وہ آئے روز سلمی آغا پر ظلم و ستم کرتی رہتی تھی وہ بس چاہتی تھی کہ اس گھر میں صرف اسی کی سنی جائے اور صرف اسی کی مانی جائے باقی یہاں کسی کا بھی کوئی بھی حکم نا چل پائے۔ اور جب سے سیف الدین کام کے سلسلے میں باہر گیا تھا تب سے ہی میمونہ ہاشمی بہت حد تک بدل چکی تھی اور اس میں اب غرور و تکبر بھی بہت زیادہ آچکا تھا۔ سیف الدین کو بھی اپنی ماں کا سب علم تھا مگر پھر بھی وہ اپنی ماں کی عزت کرتا تھا اور اسے پیسے سینڈ کیا کرتا تھا اور اس کی ہر ایک ضرورت کا خاص خیال رکھتا تھا مگر اس کی ماں کبھی بھی سیف الدین کی بیوی کا احساس نہیں کرتی تھی جب کہ یہ اسے کے بھائی کی بیٹی تھی اور اسی کی پسند بھی تھی مگر اب سب کچھ بدل سا گیا تھا۔ سلمی آغا کا اب پاسپورٹ بھی بن چکا تھا اور سیف الدین کا دوست اپنی بیوی کے ساتھ سلمی آغا کے گھر اس کے والد صاحب سے ملنے گئے اور انہیں ساری تفصیل سے آگاہ کیا۔ مرتضیٰ آغا یہ سب باتیں سن کر سکتے میں آگیا کیونکہ اسے ان تمام باتوں کا اور صورتحال کا علم نہیں تھا۔ احمد جو کہ سیف الدین کا اچھا دوست تھا وہ ان تمام گھرانوں کو اچھی طرح جانتا تھا احمد کے والد صاحب ان تمام گھرانوں کے ایک معزز ترین فرد تھے۔
مرتضی آغا: مجھے تو یقین نہیں آرہا کہ آپا یہ سب میری پھول جیسی بیٹی کے ساتھ کر رہی ہے اور میری بیٹی اس جہنم میں جی رہی ہے، مجھے اپنی بیٹی کو اس جہنم سے نکالنا ہی ہوگا۔
احمد: (پاسپورٹ مرتصی آغا کو دیتے ہوئے)انکل یہ باجی سلمی کا پاسپورٹ ہے اور ویزہ بھی بہت جلد لگ جائے گا آپ کسی طرح اسے سیف الدین کے پاس بھیج دیں وہ پھر خود بھابھی اور بچے کو خیال کرلے گا، یہاں اس کا کوئی نہیں ہے۔ وہاں وہ اس کا بہتر خیال رکھ سکتا ہے۔
مرتضی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے اپنے انسو صاف کئے۔
مرتضی: میں اب کس کو اپنی پریشانی بتاؤں میری اپنی سگی آپا ہیں جن سے مجھے بے حد محبت تھی اور وہی اب میری اولاد کے ساتھ ظلم وستم کر رہی ہے۔ میں نے جس کا ساتھ پوری زندگی دیا ہے آج وہی مجھے ازیت دے رہی ہے۔ اسے اس چیز کا اب حساب دینا ہوگا میں اسے سیف الدین کے پاس بھیج کر ہی اب دم لوں گا۔
احمد: جی انکل آپ فکر مت کریں ہم باجی کو سیف الدین بھائی کے پاس بھیج کر ہی دم لے گے۔ اب جب ویزہ نکل آئے گا تو یہاں کسی بھی طرح سے لے آئیں تو ان کو ہم ائیرپورٹ کے زریعے سے سیف الدین کے پاس یروشلم بھجوا دیں گے۔
مرتضی: بیٹا بہت بہت شکریہ کہ تم ہماری اتنی مدد کر رہے ہو۔ یہ بہتر ہوگا کہ میری بیٹی سیف الدین کے پاس ہی یروشلم چلی جائے تاکہ اس کا اچھا سا خیال رکھا جائے۔
احمد: اچھا انکل اب آپ ہمیں اجازت دیں ہم چلتے ہیں انشاء اللہ جب بھی ویزہ کی خبر ملے گی ہم آپ کو لازمی بتادیں گے پھر آگے کا سب سوچتے ہیں۔
احمد اور اس کی بیوی مرتضی کے گھر سے نکل گئے۔ اور مرتضی یہ سب جان کر بہت غمگین اور پریشان ہو چکا تھا۔ وہ اپنی بیٹی کو اس حال میں دیکھ کر بہت پریشان تھا اور اس کی آنکھوں میں بار بار آنسو آرہے تھے۔
سلمی آغا کے بطن میں اب ایک اولاد جنم لینے کو تیار تھی مگر ساتھ ہی ساتھ ظلم و ستم کی وجہ سے سلمی آغا میں بہت کمزوری ہو چکی تھی اس کی طبیعت بھی بہت خراب رہنے لگ گئی تھی اور اسے کھانے کو بھی زیادہ نہیں دیتے تھے اس کی صحت کا کوئی بھی خیال نہیں کیا جاتا تھا پورا دن گھر کے کام کاج کے بعد یہ نماز، قرآن میں دل لگاتی، ذکر الہیٰ کیا کرتی تھی اور پھر نفل ادا کیا کرتی تھی اور اپنی تکلیفوں کی ذکر اللہ سے کیا کرتی تھی۔
سیف الدین یروشلم میں ہر وقت سلمی کو ہی یاد کیا کرتا تھا اور اس کے ویزہ کے لئے بہت کوششیں کر رہا تھا کہ کسی بھی طرح سے سلمی آغا کو ویزہ مل جائے اور وہ بھی یہاں آجائے۔ سیف الدین کی بھی طبیعت اب ٹھیک نہیں رہتی تھی اکثر بیمار ہو جاتا ہے کام بھی بہت زیادہ کیا کرتا تھا اور اوور ٹائم بھی لگایا کرتا تھا تاکہ زیادہ پیسے کما سکے اور سب کی ضروریات پوری ہو سکے اور ایک سلمی کی ٹینشن نے بھی سیف الدین کو بہت کمزور کردیا تھا جیسے اسے اندر توڑ دیا گیا ہو اور وہ اندر سے ریزہ ریزہ ہو رہا تھا۔ سیف الدین سلمی سے بہت محبت کرتا تھا اس کی جان سلمی میں بستی تھی اور آج جو کچھ اس کے ساتھ ہو رہا تھا یہ بہت تکلیف دہ تھا۔ سیف الدین روز ہی ویزہ کے لئے جایا کرتا تھا اور اسی طرح کئی دنوں تک وہ جاتا رہا اور بالآخر ایک دن اسی یہ خوشی مل ہی گئی اب سلمی کا ویزہ نکل گیا تھا۔ اب اس کے بعد اصل مسئلہ سلمی کو ائیرپورٹ کی طرف لے کر آنا تھا۔ کئی دنوں کے انتظار کے بعد سلمی کو سیف الدین سے ٹیلی فون پر بات کرنے کا موقع ملا۔
سیف الدین: سلمی تمہارا ویزہ نکل چکا ہے بس اب کسی بھی طرح سے یہاں آجاؤ میں اب تمہیں وہاں نہیں رہنے دوں گا۔ بہت مشکلوں کے بعد ویزہ نکل آیا ہے اور اب تم آجاؤ۔ مجھے تمہارا اور اپنی اولاد کا بہت انتظار ہے۔ میں یہاں تمہارے ساتھ رہوں گا۔ اور ہمیشہ تمہارا ساتھ دوں گا تمہیں اب رونے نہیں دوں گا۔
سلمی: ( روتے ہوئے) میں بھی آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔ ( سلمی نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا) ہماری اولاد بھی آپ کے پاس آنا چاہتی ہے اگر ہم یہاں رہیں تو شاید کوئی بھی زندہ نا رہے۔
سیف الدین: سلمی تم ایسی باتیں مت کیا کرو تمہیں اور اس بچے کو کچھ بھی نہیں ہوگا میں تم دونوں کو کچھ بھی نہیں ہونے دوں گا۔ میں جلد ہی تمہارے یہاں آنے کا انتظام کرتا ہوں اور تم بس جلدی سے یہاں آجاؤ باقی میں سب دیکھ لوں گا۔ مجھے تم دونوں کی بہت فکر ہے میں تم دونوں کو خود سے الگ نہیں ہونے دوں گا۔ تم دونوں میں میری جان بستی ہے تم دونوں ہی میرا سرمایہ ہو۔ ( سیف الدین کی رونے کی آواز آرہی تھی)
(جاری ہے)
ازروح قصص

Visited 6 times, 1 visit(s) today
Last modified: December 31, 2023