Written by 7:55 pm ناولز

ازروح قصص

قسط: 04

سیف الدین سلمی سے فون پر بات کرکے بہت زیادہ رو رہا تھا وہ اس قدر رو رہا تھا کہ اس کی ہچکی بند گئی تھی، سلمقسط:

بھی سیف الدین کو روتے ہوئے دیکھ کر خود پر بھی قابو نا پاسکی اور کال بند کردی اور اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے گھر چلی گئی۔ گھر داخل ہوئی تو آتے ہی سامنے میمونہ ہاشمی دروازے پر ہی کھڑی تھی اور سلمی کو بہت غصے سے دیکھ رہی تھی۔
میمونہ ہاشمی: آگئی کم بخت کہاں تھی تم!! بے شرم تجھے پتہ نہیں ہے کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے اور تم باہر مٹر گشتیاں کرتی پھر رہی ہو۔ چل جا دفع ہو اور جا کر کھانا بنا۔
سلمی بغیر کچھ کہے اندر چلی گئی اور اپنے آنسوؤں کو چھپائے برتن دھونے لگ گئی اور کھانا بھی بنایا اور گھر کے سارے کام بھی کئے ہر ایک چیز کو سیٹ کیا اور بہتر بنایا۔ سلمی اتنی خدمت کرتی تھی مگر اس کو اس بات کا صلہ نہیں ملتا تھا۔ اور سلمی تنہائی میں بہت روتی رہتی تھی۔ میمونہ بھی اپنا دل سلمی کے لئے بہت بری طرح سے بدظن کر چکی تھی اس کے دل میں سلمی کے لئے تھوڑا سا بھی رحم نہیں تھا۔ سلمی آغا بھی اللہ کے بہت قریب ہوتی جا رہی تھی وہ عبادات میں مصروف رہتی، ذکر الہیٰ کیا کرتی تھی اور اللہ کی یاد میں روتی رہتی تھی۔ سلمی آغا کی نندیں بھی بہت ظالم تھی اور وہ بس چاہتی تھی کہ سلمی پر ظلم و ستم ہوتا رہے اور یہ تکلیف میں رہا کرے اور اس کو خوشیاں کم ہی نصیب ہوں اور یہ اس کے حق میں بدعائیں بھی کیا کرتی تھیں۔ جہاں یہ سب ظلم و ستم ہو رہا تھا وہاں احمد پاسپورٹ لے کر اسی انتظار میں تھا کہ کسی طرح سے سلمی آغا کو ائیرپورٹ لے جایا جائے اور سیف الدین کے سپرد کر دیا جائے مگر اس کی ساس کی نظر اس سے ہٹتی ہی نہیں تھی۔ مگر جب اللہ کی پاک ذات کن کا حکم دے تو ہر بند دروازے کھل جاتے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ سلمی کی دادی کا انتقال ہو گیا اور اس دن سلمی کو میمونہ ہاشمی کے لئے روکنا مشکل ہو جانا تھا اور سلمی یہاں آگئی اور یہ صحیح موقع تھا۔ مرتضی آغا نے اپنی بیٹی سلمی آغا کے لئے ٹکٹ کنفرم کی اور اس کے لئے جو بھی سامان خریدا تھا اسے ایک بیگ میں رکھ کر سلمی آغا کے حوالے کیا۔ اور احمد نے اپنی کار میں سارا سامان رکھا اور ائیرپورٹ جا کر سلمی آغا کو یروشلم کے لئے روانہ کردیا۔ سلمی آغا تو یروشلم کے لئے روانہ ہو چکی تھی مگر یہاں اب بہت بڑا کہرام مچنے والا تھا۔ سلمی آغا یہاں سے یروشلم کے لئے روانہ ہو چکی تھی اور سیف الدین کو بھی یہ اطلاع مل چکی تھی اور وہ اب بے صبری سے سلمی آغا کا انتظار کر رہا تھا۔ اب سلمی جس جہاز میں بیٹھی تھی وہیں میمونہ ہاشمی کی ایک کزن کی بیٹی بھی سوار تھی اور اس نے سلمی کو پہچان بھی لیا تھا اور اس سے پوچھا کہ یروشلم آپ سیف الدین کے پاس جا رہی ہیں یہ سب دیکھ کر سلمی تھم سی گئی تھی وہ بہت زیادہ پریشان ہو گئی کہ اب کیا ہوگا یہ میمونہ ہاشمی کو سب کچھ بتادے گی مگر سلمی آغا نے اپنی پریشانی پر قابو پایا اور پر سکون دکھنے لگی۔ اور یہی ہوا میمونہ ہاشمی تک اس بات کی خبر پہنچ گئی اور اس نے تہلکہ مچادیا اور وہ سیدھا سلمی آغا کے گھر پہنچ گئی اور اس کی ماں رافیعہ کو اچھی خاصی سنائی اس کو ذلیل کیا اور بہت گالیاں بھی دی اور وہیں سے سیف الدین کو کال کی کہ ابھی کہ ابھی سلمی آغا کو طلاق دو، ورنہ تمہارا اور ہمارا کوئی واسطہ نہیں اور میں تمہارے لئے مر گئی۔ سیف الدین یہ سب دیکھ کر بہت پریشان ہو گیا ایک طرف اس کی ماں تھی اور ایک طرف اس کی بیوی تھی اور اس کی آنے والی اولاد تھی۔ سیف الدین اب بس سلمی آغا کے یہاں آنے کا انتظار کر رہا تھا اور اس نے سوچا کہ وہ اپنی ماں کو بعد میں سمبھال لے گا۔ سلمی آغا بھی اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی کہ وہ اب سیف الدین کے پاس جا رہی ہے اس کے لئے سیف الدین ہی اب سب کچھ تھا۔سلمی آغا کو یروشلم جانے کے لئے کئی جگہ پر رکنا پڑا اور کئی فلائٹس بدلنی پڑی اور اس کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی مگر سیف الدین سے ملنے کی خوشی بہت زیادہ تھی اور وہ اپنے اس پیارے سفر پر گامزن تھی اور ادھر میمونہ ہاشمی نے اپنے ہی سگے بھائی پر جھوٹا مقدمہ درج کردیا تھا۔ اور پہلی مرتبہ مرتضی آغا کے گھر پولیس آئی تھی اور سب حیران تھے کہ مرتضیٰ کی سگی بہن نے یہ مقدمہ درج کیا ہے۔ میمونہ ہاشمی نے جھوٹا مقدمہ درج کیا اور مرتضی کو جیل کروانا چاہی تاکہ سلمی آغا واپس آجائے تب ہی وہ اپنا کیس واپس لے گی۔ میمونہ ہاشمی نے بہت برا کیا اور اپنے شریف بھائی کو عدالت میں لے آئی اب مرتضیٰ آغا بھی ایک قابل انسان بن گیا تھا اس کی بہت جان پہچان بن گئی تھی اور اس کے پاس کافی قابل وکیل بھی تھے جو مرتضیٰ کا ساتھ دینے کو تیار تھے۔ میونہ ہاشمی کبھی بھی اس بات پر راضی نہیں تھی کہ سلمی اس کے بیٹے کے پاس چلی جائے اور اسے دھوکہ کے ساتھ فریب کے ساتھ میرے بیٹے کے پاس بھیجا ہے۔ میمونہ ہاشمی کو یہ بات گنوارا نہیں تھی وہ اس بات کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرسکتی تھی اسے اس حرکت پر بہت غصہ تھا اور یہ ایک آگ میں جل رہی تھی جو کہ سب کو جلا سکتی تھی۔
سیف الدین کو بھی یروشلم میں اپنے سسر پر کئے مقدمہ کا پتہ چلا اور وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ وہ اب سلمی کو کیا جواب دے گا اور سلمی اپنے باپ سے بہت محبت کرتی ہے وہ اپنے باپ کو اس مشکل سے نکالنے کے کئے دوبارہ اس جہنم میں بھی جا سکتی تھی۔ سیف الدین نے بھی مرتضیٰ کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور اسے منع کیا کہ سلمی تک اس بات کی خبر نا پہنچے تاکہ وہ پریشان نا ہو کیونکہ وہ بچے کو جنم دینے والی تھی۔ سیف الدین بھی ائیرپورٹ پر سلمی کے آنے کا بے صبری سے انتظار کر رہا تھا اسکو سلمی آغا کے آنے کا بہت شدت سے انتظار تھا وہ سلمی آغا کو اپنے پاس دیکھنا چاہتا تھا اس کی نظریں سلمی کا ہی تعقب کر رہی تھی بس انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی اور سیف الدین نے اپنی پیاری سلمی کو دور سے دیکھ لیا اور اس کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگ گئے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وقت رک سا گیا ہو۔ سلمی کی بھی جب پہلی نظر سیف الدین پر پری تو اس کی بھی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے ،جب دونوں بہت قریب آگئے تو بس ایک دوسرے کو گلے سے لگا لیا اور خوب روئے ان کو اب اس دنیا سے یہاں میں بسنے والے لوگوں سے کوئی غرض نہیں تھی وہ بس ایک دوسرے کے گلے لگ کر خوب روئے کہ جیسے وقت تھم سا گیا ہو۔ آج کئی مہینوں کے بعد وہ دونوں مل رہے تھے مگر ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے صدیاں گزر گئی ہوں۔ دونوں آج بہت خوش تھے کہ آج دونوں مل چکے تھے۔
( ابھی جاری ہے)

Visited 7 times, 1 visit(s) today
Last modified: December 31, 2023
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!