قسط: 02
تحریر: پروفیسر صفرانی
(نوٹ: یہ ناول پیلشر کے ساتھ کاپی رائٹ ہے کاپی کرنا منع ہے ورنہ قانونی قاروائی ہوگی۔ یہ صرف مفت میں آپ سب کے پڑھنے کے لئے پوسٹ کیا جا رہا ہے تو احتیاط کریں۔ بلا اجازت یا اجازت لے کر بھی کاپی نہیں کرسکتے ہیں میں رائیٹر ہوں اس لئے پوسٹ کر رہا ہوں)
رخسانہ بابا عامل کی طرف غور سے دیکھ رہی تھی کہ یہ سب ان کو کیسے معلوم ہے اور بابا عامل بھی اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
بابا عامل: دھی رانی فکر کیوں کرتی ہے سیف الدین تیرا ہی ہے اور تو بس دیکھ آگے کیا ہوتا ہے، سلمی کیسے مرتی ہے اور سیف الدین صرف تمہارا ہوگا بس جو جو میں کہوں وہ ماننا ہوگا وہ وہ سب تم کو لازمی کرنا ہوگا اگر تو میری بات مانتی جائے گی تو تجھے وہ سب ملے گا جو تو چاہتی ہے۔ اب چلی جا مجھے آگے بھی بہت سے لوگوں کو دیکھنا ہے بس مجھ پر یقین رکھ میں ایک جلالی عامل ہوں تجھے ابھی میرا معلوم نہیں ہے اور ہاں میری بات سن تو نے میرے بارے میں اپنی سہیلی کو کیوں بتایا اور یہ بھی کہ میں نے تم سے اتنے پیسے لے لئے ہیں۔ ( یہ سننا ہی تھا کہ رخسانہ کے چہرے کے رنگ آنے جانے لگ گئے اس کے ماتھے پر پسینہ آنا شروع ہو گیا اس کی طبیعت جیسے خراب ہونے لگ گئی)
رخسانہ: ب ب با ب با جی۔۔ آپ کو کیسے پتہ چلا ( رخسانہ حیرانگی کے ساتھ عامل بابا کو دیکھ رہی تھی)
بابا عامل: بیٹا میرے جنات موکل ہر طرف ہیں جو مجھے تیری پل پل کی خبر دیتے رہتے ہیں مجھے ایک ایک پل کی خبر ہے میرا ذکر اب کسی کے بھی ساتھ مت کرنا اور تو نے یہ بھی کہا کہ میں ایک جعلی عامل ہوں تیرے پیسےکھا رہا ہوں۔ میری دھی تو سدھر جا اب تونے ایسی حرکت کی تو اپنے انجام کے لئے بھی تم تیار رہنا۔ ( بابا عامل کا کہنے کا انداز بہت سخت تھا)
رخسانہ: بابا جی مجھے معاف کر دو مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ کا علم تو بہت زیادہ ہے مجھے معاف کردو آئندہ سے ایسا نہیں ہوگا۔ ( رخسانہ نے ڈرتے ہوئے کہا)
بابا عامل: دھی تجھے اگر مجھ پر ابھی بھی شک ہے یا یقین نہیں ہے تو ابھی بھی چلی جا اور یہ پیسے بھی اٹھا لے مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر میرے بارے میں ایسی باتیں مت کیا کرو۔
رخسانہ: بابا جی مجھے آپ پر پورا یقین ہے میں اب ایسا نہیں کروں گی مجھے آپ معاف کردو۔ ( رخسانہ جلدی سے اٹھ گئی اور اپنی سہیلی کے ساتھ اس بابا عامل کے آستانے سے باہر آگئی۔
عینی: یہ بابا تو بہت پہنچا ہوا ہے مجھے نہیں پتہ تھا کہ اس کا علم اتنا گہرا اور اصل ہے مگر رخسانہ میرا یہی کہنا ہے کہ ان جیسوں بابا سے بھی دور دور ہی رہنا چاہیے کیونکہ یہ خود ہی جن چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے مسائل پوری زندگی ہی حل نہیں ہوتے ہیں اور ان کی جیبیں بھی بڑھتی رہتی ہیں۔ ان کے ہتھے جو چڑھ گیا ہے وہ تاعمر ان کے چنگل سے نہیں نکل سکتا ہے۔
رخسانہ: عینی کی بچی اب تم مجھے مت ڈراؤ میں آگے بہت ڈر گئی ہوں جو آج اس بابا نے کہا میں بہت حیران ہوں۔ ( یہ کہتے کہتے دونوں اس آستانے سے نکل گئے۔
سلمی آغا جائے نماز میں سجدے کی حالت میں زاروقطار رو رہی تھی اور اللہ کو پکار رہی تھی۔ بہت کمرے میں صرف اس کی سسکیوں کی آواز گونج رہی تھی وہ بلکل اکیلی تھی یہاں اس کے لئے کوئی بھی نہیں تھا۔روتے روتے وہ وہیں سو گئی اور رات کے ایک پہر اچانک اس کی آنکھ کھلی تو اس کی طبیعت بہت زیادہ خراب تھی اسے متلی آرہی تھی اور شدید چکر آرہے تھے اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی ہمت کرکے وہ اٹھی اور واش روم چلی گئی اور وہاں اسے بہت متلی ہوئی اس نے پھر ہمت کرکے منہ کو واش کیا اور اپنے کمرے میں آگئی جائے نماز اٹھائی اور بستر پر آکر سو گئی۔ صبح ہوتے ہی میمونہ ہاشمی کی آوازیں آنا بھی شروع ہوگئی۔
میمونہ ہاشمی: ارے کہاں ہے سلمی ابھی تک نہیں آئی مہنوس کہیں کی۔ آ دیکھ کتنے کام پڑے ہوئے ہیں یہ سارے کام کیا تیری اماں آ کر کرے گی کیا میری مار بھول گئی ہے ، تم جیسیوں کو مجھے بلکل ٹھیک کرنا آتا ہے میں تیرا وہ حال کروں گی کہ تو یاد کرے گی۔ باہر آجا اب جلدی سے اور یہاں مر۔
سلمی آغا کی طبیعت بہت زیادہ خراب تھی مگر اس نے بیڈ کا سہارا لیتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی اور وہ بمشکل ہی کچن میں آئی۔ اس کی کچن میں آتے ہی میمونہ ہاشمی نے اسے بری طرح دبوچ لیا۔
میمونہ: تجھے شرم آتی بھی ہے یا نہیں۔۔۔ میں نے کتنی آوازیں دی ہیں کیاں تھی تم۔ چل اب مجھے یہ پورا کچن صاف ستھرا چاہیئے یہاں ہر چیز کو ٹھیک سے صاف کرنا مجھے زرا سا بھی میل نظر آیا تو تیری ہڈیاں توڑ دوں گی سمجھ آئی۔ ( میمونہ نے سلمی کو پکڑ کر جکڑ لیا اور غصے سے یہ سب بولتی رہی اور سلمی کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے مگر وہ بس سنتی رہی اور چپ رہی۔ اب وہ برتن صاف کرنے میں لگ گئی، برتن آج بھی روز کی طرح بہت زیادہ تھے اور ان میں سے کسی کو بھی شرم نہیں آتی تھی کہ اتنا ظلم وہ اس پر کیسے کسی پر کر سکتے ہیں۔اور یہی روز کا معمول تھا۔ کام اتنا زیادہ تھا اور سلمی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی تو اسے شدید چکر آئے اور وہ زمین پر گر گئی اور بے ہوش ہو گئی۔ سلمی کئی گھنٹے اسی طرح زمین پر بے ہوش رہی اور وہاں کسی کو بھی کانوں کان خبر تک نہیں تھی۔ سلمی کی بے ہوشی کا تب پتہ چلا جب باہر دستک ہوئی اور کافی مرتبہ دستک ہونے کے باوجود دروازہ نہیں کھولا گیا تو میمونہ غصے سے باہر آئی اور جب کچن میں غصے سے داخل ہوئی تو وہاں سلمی زمین پر بے ہوش پڑی ہوئی تھی۔
میمونہ: اب اسے کیا ہو گیا ہے یہ کیا مصیبت ہے اب مجھے ہی اسے دیکھنا ہوگا۔ ( میمونہ نے پانی کا گلاس بھرا اور اس کے منہ پر پانی کی چھینتے بھی ڈالے مگر سلمی کو ہوش نہیں آیا اور پھر اسے کلینک میں لے جانے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ سیف الدین کو بھی جواب دینا تھا۔ اور وہاں کلینک میں یہ خوشخبری ملی کہ سلمی اب ماں بننے والی تھی۔ اس خبر سے سلمی نے شکر ادا کیا مگر میمونہ کو اس بات کی کوئی خوشی نہیں ہوئی اور اس نے اس بات کو سنجیدہ تک نہیں لیا۔ میمونہ کے لئے اب ایک نئی زندگی کا وجود آنے والا تھا تو اب وہ اپنی جان کی زیادہ سے زیادہ فکر کرتی تھی تاکہ نئی آنے والی جان بھی سلامت رہے اور اچھی زندگی گزار سکے۔ سلمی ایک دن بہت خوش تھی وہ سیف الدین کو کال کرنے گئی اور سیف الدین سے کہا کہ آپ بس آجاؤ، مجھے اور آپ کی اولاد کو آپ کی بہت ضرورت ہے ہمارا یہاں کوئی نہیں ہے۔ سیف الدین بھی اپنی جگہ مجبور تھا وہ جاب کرتا تھا اور پاکستان آنا اس کے لئے آسان نہیں تھا وہ بس سلمی کو تسلی ہی دے سکتا تھا۔ وہ سلمی سے بہت محبت کرتا تھا مگر ابھی اس کے لئے کچھ بھی نہیں سکتا تھا بس مجبوری اسے کھائی جا رہی تھی اور تنہائی اس کا حال بے حال کر رہی تھی۔ وہ بھی اب بہت رویا کرتا تھا۔ دن بھی گزرتے رہے اور ایک دن وہ وقت بھی آیا جب سیف الدین کا دوست سلمی کو اپنے گھر لے آیا تھا اور اب سیف الدین کا دوست اور اس کی بیوی اسے پاسپورٹ بنوانے کے حوالے سے بتارہی تھی اور یہ بھی بتایا کہ سیف الدین تمہیں اپنے پاس بلانا چاہتا ہے اب بس یہ پاسپورٹ بن جائے۔ سلمی پڑھی لکھی تھی اور اسے پاسپورٹ کا بھی علم تھا۔ ساری تفصیل بتانے کے بعد سب نے فیصلہ کیا کہ پاسپورٹ آفس جا کر سلمی کے لئے پاسپورٹ کو آج لازم ہی بنوا دیا جائے تاکہ جلدی سے ویزہ جاری ہو اور یہ سیف الدین کے پاس چلی جائے۔ مگر سیف الدین کے پاس جانا ابھی اتنا بھی آسان نہیں تھا۔ سب ہی پاسپورٹ بنوانے کے لئے پاسپورٹ آفس گئے اور سلمی پاسپورٹ بنوانے کے تمام مراحل کو طے کر رہی تھی اور وہاں ایک آدمی تھا جو کہ میمونہ ہاشمی کو بہت اچھے طریقے سے جانتا تھا اور میمونہ کو بھی یہی شک تھا کہ اب یہ پاسپورٹ بنوا کر کسی نا کسی طرح سیف الدین کے پاس چلی جائے گی اور میمونہ کا سارا کام خراب ہو جائے گا کیونکہ میمونہ نے کافی قرضہ اٹھایا ہوا تھا اور اسے یہ سب رقم چکانی بھی تھی۔ سلمی نے پاسپورٹ بنوانے کے تمام مراحل طے کر لئے اور درخواست سینڈ کروادی اور پھر سیف الدین کے دوست اور اس کی بیوی نے سلمی کو گھر پر چھوڑدیا۔مگر جاتے ہی کہرام برپا ہو گیا تھا آج سلمی کی خیر نہیں تھی۔ میمونہ ہاتھ میں ڈنڈا لئے کھرے ہوئے تھی اور بہت غصے میں تھی اسے اس آدمی نے مکمل خبر اور حقیقت کے بارے میں آگاہ کیا۔
میمونہ: مہنوس تم اب میرے بیتے کے پاس جاؤ گی تیری یہ مجال میں تیری آج ٹانگیں ہی توڑ دوں گی۔ تم پاسپورٹ بنوانے گئی تھی تجھے زرا سی بھی شرم نہیں آئی۔ ( میمونہ نے ڈنڈا زور سے سلمی کی ٹانگوں پر مارا اور وہ بیچاری چیختی رہی چلاتی رہی مگر کوئی بھی نہیں آیا۔ جب تک میمونہ کا دل نہیں بھرا وہ مارتی ہی رہی اتنا مارا کہ اس کی ٹانگوں سے خون نکلنے لگا اور ڈنڈا بھی ٹوٹ گیا میمونہ نے سلمی کے سارے بال کھینچ کر اس کی آنکھوں میں دیکھا) سن میری بات جو بھی یہاں ہوا ہے،یا جو اب تک ہوتا آیا ہے اگر اس کی خبر میرے بیٹے کو ہوئی تو میں تیری جان لے لوں گی جا اب دفع ہوجا میری نظروں کی آگے سے چلی جا۔ ( میمونہ نے سلمی کو زور سے دھکا دیا اور وہاں سے چلی گئی)۔
سلمی کو بہت تکلیف ہو رہی تھی، اس کا جسم شدید درد اور خون سے لپٹا ہوا تھا، ایک تو سلمی ماں بننے والی تھی مگر یہاں کوئی بھی اس کی داد رسی کرنے والا نہیں تھا سلمی زمین پر ہی لیٹ گئی اور زاروقطار رونے لگ گئی اور اللہ کو پکارنے لگی۔ سلمی بہت تکلیف میں تھی اور وہ روتے روتے سو گئی۔ سوتے سوتے اسے نیند آگئی۔
ایک بہت ہی خوبصورت جگہ تھی ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ نور ہی نور تھا اور باغات تھے جہاں پھل ہی پھل تھے اور یہیں ایک طرف سلمی ایک جگہ بیٹھی منہ نیچے کر کہ زاروقطار رو رہی تھی۔
بزرگ: بیٹا سلمی کیا ہوا یوں کیوں رو رہی ہو۔( بزرگ مسکرا کر سلمی کو دیکھ رہے تھے)
سلمی: مجھے بہت مارا گیا ہے میں بہت تکلیف میں ہوں میں ماں بننے والی ہوں اور یہ سب میری جان کے دشمن ہیں یہ میرے اور میرے ہونے والے بچے کی بھی دشمن ہیں۔ ( سلمی روتے ہوئے بزرگ کی طرف دیکھ کر بولی)
بزرگ: بیٹی اب تیرے سارے غم دور ہونگے تجھے نیک اور صالح اولاد نصیب ہو گی اور تو فکر نا کر تیرا امتحان جلد ختم ہونے والا ہے تجھے بہت خوشی ملنے والی ہے اور وہ تیرا سہارا ہوگا تجھ پر سفلی جادو ٹونہ کا بھی وار ہے۔ بس میری بیٹی نے ہمت اور صبر رکھنا ہے (بزرگ نے یہ کہتے ہوئے ایک سبز چادر سلمی کے پاس رکھ دی)۔
سلمی کی پھر آنکھ کھل گئی تو اسے اپنے ہاتھ میں کوئی کپڑا محسوس ہوا دیکھا تو اپنے ہاتھوں میں وہی سبز رنگ کی چادر دیکھی جو اس کو خواب میں ایک بزرگ نے دی تھی۔ یہ دیکھ کر سلمی مسکرائی اور اس چادر کو چومتی رہی اور اسے سنبھال کر رکھ دی۔جب وہ رکھ کر واپس آئی تو اس نے محسوس کیا کہ کمرے میں ایک بہت پیاری خوشبو بھی آرہی تھی اور پھر اچانک سلمی کو اپنے سر پر بھاری پن محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے سلمی کے سر پر ہاتھ رکھا ہو، یہ سب حیرت کدہ چیزیں محسوس کرکے سلمی کو زرا بھی ڈر نہیں لگا کیونکہ اس کا بھروسہ اللہ کی ذات پاک پر بہت زیادہ تھا اس کا ماننا تھا کہ سب کچھ اللہ کے ہی حکم سے ہے۔ اچانک سلمی کو کمرے سے سفید روشنیاں بھی آگے پیچھے گھومتی ہوئی نظر آئی اور اسی دوران ایک مکمل سفید کپڑے کا عکس بھی دیکھا پھر یہ سب غائب ہو گیا۔ ابھی سلمی یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ ایک آواز آئی۔
اے بیٹی پریشان مت ہو تجھے بہتر منزل ملنے والی ہے، اللہ پر توکل کر کسی سے مت ڈر یہ سب جادو ٹونہ کا بھی اثر ہے اور تیرا امتحان بھی ہے جیسے اللہ اپنے نیک بندوں کو آزماتا ہے یہ سب کچھ بھی ختم ہوجائے گا ہاں ختم ہو جائے گا۔ یہ آواز آئی پھر کمرے میں مکمل سناٹا ہو گیا۔
( جاری ہے

👌👌