عبدلمنیب
حالات کے افق پہ دھندلا سا چھایا ہے
ہر سمت بے یقینی کا موسم دکھایا ہے
چپ چاپ ہیں فضائیں، خاموش ہے جہاں بھی
اندیشوں نے دلوں پہ پہرا بٹھایا ہے
وقت کے ہاتھ میں بھی زنجیریں سی پڑی ہیں
خوابوں کے قافلوں نے رستہ گنوایا ہے
ہر سوچ کے دریچے پہ تالے ہیں سوالوں کے
حقیقتوں نے دھوکے کا نقشہ بنایا ہے
یہ دور ظلمتوں کا، کب روشنی دکھائے؟
امید کا چراغ بھی کس موڑ آیا ہے
دنیا کے فیصلوں میں وفا کم نظر آئی
ہر شخص نے یہاں پر خود کو ستایا ہے
نہ کوئی چارہ گر ہے، نہ کوئی راہبر ہے
دل نے ہر اک قدم پہ صدمہ اٹھایا ہے
آنکھوں میں روشنی تھی، اب خواب جل چکے ہیں
یہ وقت کس مقام پہ ہم کو لے آیا ہے
تقدیر کے اندھیروں میں رستے ہوئے سوال
ہر حال میں نصیب نے بس امتحان پایا ہے
پھر بھی امید باقی ہے دل کے دریچوں میں
منیب دکھوں کے درمیاں بھی چراغ جلایا ہے