اندیشہ بدن تھا سو وہم نکلا
عظیم سورج چمکتا گریہن نکلا
میں دھڑکتا تھا ہمیشہ اس کے نام پر
اک آگ کا ٹکڑا میرا پیرہن نکلا
وقت رخصت مجھے مارڈالتا تھا
میرے دل میں اس کے نام کا دہن نکلا
وہ جو مفلوج ذہن تھا دراصل وہ
میری غزل کا وہ سخن نکلا
اندازہ تھا مجھے میرے حالات کا
تیرا قافلہ ہی میرا وزن نکلا
میرے قریب تھا ایک شخص ہمیشہ سے
وہ شخص ہی میرے خیالوں کا الجھن نکلا
عبدالمنیب
Visited 4 times, 1 visit(s) today
Last modified: July 1, 2024