ممتاز مفتی
ایک تھا بادشاہ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ ۔ بادشاہ کا نام اسادا تھا۔ جب اسادا بوڑھا ہو گیا تو اسے یہ فکر دامنگیر ہوئی جیسے کہ ہر بادشاہ کو ہوتی ہے کہ کہیں راج پاٹ اس کے ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ شاہ اسادا سوچ سوچ کر ہار گیا کہ کون سا طریق کار اختیار کرے۔ چونکہ بادشاہ تھا لہٰذا کسی سے مشورہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ دل کی بات کسی سے کہہ نہیں سکتا تھا۔ بادشاہ لقمان کے اس کوے کے مصداق ہوتا ہے جو منہ میں پنیر کا ٹکڑا پکڑے درخت پر بیٹھا ہو۔ درخت کے نیچے مشیر وزیر کھڑے یک زبان ہو کر کہہ رہے ہوں ” شاہ عالم آپ کتنے خوش گفتار ہیں ۔ بولتے ہیں تو پھول جھڑتے ہیں، پھول جھڑیں یا نہ جھڑیں پنیر کا ٹکڑا منہ میں ہو تو کیسے بات کرے۔ شاہ اسادا کا وزیر بڑا با تدبیر تھا۔ جیسے وزیر ہمیشہ ہوتا ہے۔ اس حد تک با تدبیر تھا کہ بادشاہ خود اس کی با تدبیری سے خوف زدہ تھا۔وزیر بادشاہ کی فکرمندی کو بھانپ گیا۔ ایک روز موقع پا کر تخلیے میں بولا عالی جاہ میری گردن کاٹنے کا حکم صادر فرمائیے“ بادشاہ یہ سن کر بہت حیران ہوا بولا ” تم نے کون سا جرم کیا ہے کہ میں ایسا حکم صادر کروں۔وزیر بولا ” شاہ عالم اگر بادشاہ سلامت کی پیشانی پر فکر مندی کی سلوٹیں موجود ہوں تو اسے ایسے چھپاؤ کہ برتاؤ کے کسی در بچے سے جھانکنے نہ پائے اور اگر جھا کے تو پھر چھپانا سعی
لا حاصل ہے اور عالم پناہ بادشاہ سلامت کو سعی لاحاصل زیب نہیں دیتی ۔اب بادشاہ کیلئے کوئی چارہ نہ رہا بولا ” وزیر با تدبیر ہم چاہتے ہیں کہ جیتے جی راج پاٹ اپنے بڑے بیٹے کو سونپ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جا ئیں ۔ وزیر نے جواب دیا ”عالی جاہ اس میں فکر مندی کی کیا بات ہے۔ حکم دیجئے تعمیل ارشاد ہوگی۔“ہے؟بادشاہ نے کہا وزیر با تدبیر ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اس بارے میں تمہاری کیا رائے وزیر بولا۔ بادشاہ عالم ویسے تو حکم پر سر تسلیم خم ہے لیکن سیانے کہتے ہیں کہ بادشاہ کا بیٹا نہیں ہوتا شہزادہ ہوتا ہے اور شہزادے کا باپ نہیں ہوتا بادشاہ ہوتا ہے آگے آپ مالک ہیں۔یہ سن کو بادشاہ گھبرا گیا لیکن خاموش رہا۔وزیر نے اپنی بات جاری رکھی۔ کہنے لگا عالی جاہ شہزادہ ساجھانا گزشتہ آٹھ سال سے یورپ میں یونیورسٹی آف ویسٹرن آرٹس اینڈ سائنس میں زیر تعلیم ہے۔ شہزادے کی تاج پوشی کا اعلان کرنے سے پہلے ان کا عندیہ معلوم کرنا مناسب رہے گا۔ حکم ہو تو شہزادہ سلامت کو بلانے کیلئے ایلچی روانہ کر دیا جائے۔شہزادے کی آمد کے بعد بادشاہ اور وزیر یہ جان کر حیران رہ گئے کہ وہ کسی صورت بادشاہ بننے پر رضا مند نہ تھا۔ اس میں شہزادے کا کوئی قصور نہ تھا سالہا سال مغربی یونیورسٹی میں تعلیم و تربیت پانے کے بعد وہ بادشاہ کے نام سے ہی الرجک ہو چکا تھا۔ میں نہیں چلتا ۔ وزیر بولا ۔ شہزادہ سلامت آپ کتاب وشنید کے چکر میں آچکے ہیں ۔ یہ کتابی علم جو درسگاہوں میں رائج ہے عملی زندگی شہزادے نے جواب دیا۔ محترم وزیر بادشاہ پرانے زمانے کی چیز ہے۔ وہ مدت سے مر چکا ہے۔ آپ مجھے بادشاہ بنا کر مرحوم و مغفور نہ کریں میں زندہ رہ کر زندگی چاہتا ہوں وزیر بولا ”شہزادہ عالی یہ کہنا کہ بادشاہ مر چکا ہے ایک کتابی خوش فہمی ہے۔ عملی زندگی میں وہ آج بھی جوں کا توں زندہ و پائندہ ہے۔ میں جانتا ہوں کہ بادشاہ نے بھیس بدل لیا ہے کہیں نمائندے کا سوانگ رچائے بیٹھا ہے کہیں سامراجی طاقتوں کے خلاف نعرے لگا رہا ہے کہیں خدمت خلق کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ شہزادہ سلامت یاد رکھیے کہ بھیس بدلنے سے کردار نہیں بدلتا ۔یہ بھیس بدلنے کی رسم بھی نئی نہیں ۔ بادشاہ نے کہا ” بلکہ صدیوں پرانی ہے۔ پرانے زمانوں میں بھی بادشاہ بھیس بدل کر شہر میں گھوما کرتے تھے تا کہ عوام سے رابطہ قائم ہو۔وزیر نے بادشاہ کی بات کائی بولا گستاخی معاف عالم پناہ لیکن یہ وضاحت ضروری ہے کہ بادشاہ عوام سے رابطہ پیدا نہیں کرتے بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ ایسا طرز عمل اپنائیں کہ عوام سمجھیں کہ وہ ان سے رابطہ پیدا کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ بادشاہ نے بات کا رخ بدلنے کیلئے کہا۔ شہزادہ ساجھا نا تم اپنے چچا آدورا کی مثال سامنے رکھو۔“چا تو بادشاہ نہ تھا۔ سا جھانا بولا ” وہ تو عوام کے منتخب نمائندے تھے۔ بے شک بے شک ۔ آپ درست فرماتے ہیں۔ شہزادہ سلامت وزیر با تدبیر نے ہامی بھری ۔ عوام آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ شاہ آدورا بادشاہ نہ تھا اور وہ کوئی کام عوام کی مرضی پوچھے بغیر نہ کرتے تھے عالی جاہ بادشاہ کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ وہ بادشاہ تو ہو لیکن عوام اسے بادشاہ نہ سمجھیں .بے شک بے شک ۔ بادشاہ نے وزیر پر تحسین بھری نظر ڈالی ۔ وزیر نے سلسلہ کلام جاری رکھا بولا ” شاہ آدور ا عوام کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن ان کی نظر میں ایسا جادو تھا کہ وہ محبت سے بھری ہوئی نظر آتی تھی۔ جب وہ زبان کی لاٹھی چلاتے تو عوام فرط محبت سے دم ہلانے پر مجبور ہو جاتے ۔“ شہزادہ اپنے چا کا پرستار تھا۔ وزیر کی بات سن کر اسے دھچکا لگا بولا ” بادشاہ سلامت!سفر کی کوفت کی وجہ سے میں بہت تھک گیا ہوں اجازت ہو تو ذرا آرام کرلوں ۔ ظاہر ہے کہ شہزادے پر پند و نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا تھا۔ وہ مغربی رنگ میں رنگا ہوا ایک نو جوان تھا۔ اسی رات جب بادشاہ ملکہ اکلیمہ کے پاس پہنچا تو وہ ایک ہی نظر میں تاڑ گئی کہ سارنگی کے تار ڈھیلے پڑے ہوئے ہیں۔ ملکہ اکلیمہ بڑی سیانی تھی۔ ویسے تو ہر عورت سیانی ہوتی ہے۔ چونکہ اسے ایک ڈھکے چھے ظل الٰہی کے ساتھ رہنا سہنا پڑتا ہے۔ رہنا کم سہنا زیادہ لیکن ملکہ تو ایک ننگ دھڑنگ قل انہی کے زیر سایہ رہتی تھی۔ اس لئے کچھ زیادہ ہی سیانی تھی۔ اس کیلئے زندگی گویا شطرنج کی بساط تھی۔ پتا نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ پر ایسا ہوتا ضرور ہے ۔ کشش ثقل کی ، کشش ثقل کی روک نہ ہو تو بوٹا اگ نہیں سکتا، بندشوں کے کانٹے نہ ہوں تو گلاب کا پھول کھل نہیں سکتا۔ خیر بادشاہ کو دیکھتے ہی ملکہ سمجھ گئی کہ پیشانی کی سلوٹوں میں دبی ہوئی بات ہونٹوں پر اترنے والی ہے لہذا وہ رنگ روپ ناز نخرے کے پیادے چلانے میں مصروف ہوگئی۔جس طرح عورت کا کام یہ ہوتا ہے کہ مرد سے معتبری کا چھلکا اتار کر اندر سے کھلنڈرا بچہ نکال لے۔ اسی طرح ملکہ کا کام یہ ہوتا ہے کہ ظل الٰہی کا پتھر توڑ کر اندر کا انسان باہر نکالے انسان باہر نکلا تو اس نے ساری بات ملکہ سے کہہ دی۔شاہ کی بات سن کر ملکہ بولی عالی جاہ بادشاہت ایک میوہ ہے۔ ایک بار اس کا سواد چکھ لو تو منہ کو لگ جاتا ہے۔ پھر چھڑانے سے نہیں چھوٹتا اگر آپ چاہتے ہیں کہ شہزادہ بادشاہ بنا قبول کرلے تو پہلے اس میں بادشاہ بننے کی آرزو پیدا کیجئے ۔ پھل کا سواد چکھائیے۔ چاٹ لگائیے۔سواد کیسے چکھا ئیں؟“ بادشاہ نے پوچھا۔پہلے اسے جلسے جلوسوں میں لے جائیں ۔ محل سے نکلے تو توتیاں(ساز) بجیں۔ بازاروں سے گزرے تو سیکورٹی کی موٹریں چلاؤں چلاؤں کرتی ہوئی آگے آگے دوڑیں ٹریفک بند ہو جائے ۔ پولیس والے راستے روک کر کھڑے ہو جائیں راہ چلتوں کو روک کر زبردستی دو رو یہ کھڑے کر دیں۔ جیسے وہ خیر مقدم کیلئے گھر سے نکلے ہوں تا کہ شہزادہ سمجھے کہ وہ لوگ نہیں پروانے ہیں۔ جلسوں میں پرجوش استقبال ہو۔ زندہ باد کے نعرے لگیں۔ پھول برسائے جائیں۔ ہار پہنائے جائیں۔ فوٹو گرافر تصویریں کھینچیں؟ اخبار شہ سرخیاں سجائیں تصویریں لگائیں ریڈیو اور ٹی وی والے ان مصور خبروں کو دہرا دہرا کر ناظرین و سامعین کو مفرح کریں لیکن شہر ہے شاہ عالم ملکہ رک گئی ” پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لیجئے۔ کیا شہزادے کا بادشاہ بنانے کا فیصلہ مناسب ہے؟“ر اس پر بادشاہ کی پیشانی پر بل پڑ گئے بولا کیا مطلب ہے تمہارا ملکہ اکلیمہ !” ملکہ بولی عالی جاہ اگر شہزادے کے منہ کو بادشاہت کا سواد لگ گیا تو وہ بادشاہ بننے کیلئے اتنا بے صبرا ہو جائے گا کہ آپ نہ بنائیں گے تو بھی بننے کے خواب دیکھے گا اور بن گیا تو وہ بیٹا بن کر نہیں جیے گا۔ ظل الٰہی سیانے کہتے ہیں شیر اس وقت تک شیر نہیں بنتا جب تا تک اسکے منہ کو انسان کا خون نہ لگ جائے ۔ اس پر بادشاہ چپ ہو گیا۔ سوچ میں پڑ گیا۔ بہر صورت بادشاہ نے حکم صادر کر دیا کہ شہزادے کو جلسے جلوسوں میں گھمایا پھرایا جائے ۔ وزیر با تدبیر بولا ” عالی جاہ اگر نشر و تشہیر مقصود ہے تو بہتر ہوگا کہ آپ ذرائع ابلاغ کے محکمے والوں سے مل کر اپنا عندیہ بیان کریں ۔ذرائع ابلاغ کا سربراہ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو بادشاہ نے برسبیل تذکرہ پوچھا آپ کا محکمہ کیا کام کرتا ہے؟ اس پر سر براہ گھبرا گیا بولا ” شاہ عالم جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔“شاہ نے امان دے دی تو وہ بولا ” عالی جاہ ہمارے دو کام ہیں۔ ایک یہ کہ بادشاہ کو حقیقت حال کی خبر نہ ہونے پائے ۔ دوسرے یہ کہ عوام میں یہ گمان پیدا کیا جائے کہ انہیں صورتحال سے باخبر رکھا جا رہا ہے۔“بادشاہ کی سمجھ میں بات نہ آئی بولا ۔ بات ہمارے پلے نہیں پڑی ۔“اس پر سر براہ کی باچھیں کھل گئیں بولا عالی جاہ یہی ہمارا کام ہے کہ بات کہہ دی جائے لیکن پلے نہ پڑے۔ عالی جاہ ہم پر اعتماد کیجئے ہم ٹیکنیکل ایکسپرٹ ہیں۔ کام خوش اسلوبی سے سر انجام دیں گے صرف یہ فرما دیجئے کہ مقصود کیا ہے ۔ ؟پیدا ہو۔ سربراہ یہ سن کر گھبرا گیا بولا شاہ عالم یہ تو ایک خطرناک بات ہوگی ۔ اسکے علاوہ یہ بادشاہ نے جواب دیا ” ہم چاہتے ہیں کہ شہزادے کے دل میں بادشاہ بننے کی آرزو طریق کار پرانا ہے۔ جدید طریقہ یہ ہے کہ عوام پر زور مطالبہ کریں کہ شہزادہ گدی سنبھال لے ان کے اس پرزور مطالبے سے مجبور ہو کر شہزادہ تخت نشینی پر رضا مند ہو جائے ۔“
آپ عوام کو رضا مند کیسے کریں گے؟“ شاہ نے پوچھا۔ عالی جاہ سربراہ بولا ”عوام رضا مند ہوں نہ ہوں لیکن یہ بھی تو خیال فرمائے کہ عوام کو مطالبات کرنے سے دلچسپی ہے اور یہ گمان کہ شہزادے نے ان کی خواہشات پر تسلیم خم کر دیا ہے ان کیلئے کتنی تسکین کا باعث ہوگا ۔“ تو جناب دفتر پہنچ کر سربراہ نے احکامات جاری کر دیئے کہ فی الفور ایسے اقدامات کئے جائیں کہ شہزادہ عوام کی آنکھوں کا تارا بن جائے۔ اس پر محکمہ کے کارکن فورا حرکت میں آگئے ۔ شہزادے کی تصاویر کھینچی گئیں آرٹسٹوں نے ان تصاویر میں رنگ بھرے۔ آنکھوں میں سیکس اپیل پیدا کی۔ ساجھانا کی سپاٹ آنکھوں میں گلیڈ آئی چمکنے لگی کھلی اور خالی پیشانی پر مردانہ گھوری آ بیٹھی سیدھے ہونٹ خم آلود ہو گئے ۔ اس کے بعد اخباروں اور رسائل کے نام ایک سرکلر آرڈر روانہ کیا جس میں ان تصویروں کی کاپیاں ملفوف تھیں تاکہ ان تصاویر کے علاوہ شہزادے کی کوئی اور تصویر کو جو بھی لڑکی دیکھتی اسے ایسا لگتا جیسے شہزادہ اس کی طرف دیکھ رہا ہو اور اس کی نگاہوں میں اس کیلئے ایک خاص الخاص پیغام ہو۔اس کے فورا بعد شہزادے کا ایک انٹرویو چھپا جے محکمے والوں نے مرتب کیا تھا۔ایک سوال کے جواب میں شہزادے نے کہا کہ میں شاہی خاندان کی لڑکی سے نہیں بلکہ عوامی در کنگ وومن سے شادی کروں گا میں ذات پات عہدے مرتبے کا قائل نہیں البتہ لڑکی سمارٹ ہو ذہین ہو کلچرڈ ہو ضروری نہیں کہ خد و خالی یا گوری ہو۔“اس اعلان کے بعد شہزادے کے جلسوں اور جلوسوں میں لڑکیوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہو گیا کہ مینا بازار کا شبہ پڑنے لگا۔ادھر وزیر با تدبیر نے شاہ کی خدمت میں گزارش کی کہ عالی جاہ جلسے جلوسوں کا پروگرام لانگ رینج پروگرام – ہے۔ فوری نتائج کے لئے کے لئے مناسب ہوگا کہ شہزادے کو سمجھانے بجھانے کیلئے ایک ٹیوٹر مقرر کر دیا جائے جسے عرف عام میں کمپئین کہا جائے تا کہ شہزادہ بدظن نہ ہو میری رائے میں یہ کمپئن مغربی رنگ میں رنگا ہوتا کہ شہزادے پر اثر انداز ہو سکے۔ اس مقصد کیلئے محکمہ تعلقات عامہ نے یونیورسٹی کے بہت سے پروفیسروں سے انٹرویو کیے اور آخر میں ایک ادھیڑ عمر کی ڈیپلومیٹک ریلیشنز کی ڈاکٹر مادام زیوری کو منتخب کر لیا گیا۔ فائل اپروول کیلئے مادام کو بادشاہ کی خدمت میں حاضر کر دیا گیا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ محترمہ آج کل بادشاہ کیلئے سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔ مادام بولی عالی جاہ آج کے دور میں شاہوں کیلئے صرف ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے پاور پالیٹکس کا مسئلہ“ شاہ نے کہا ”بی بی بندھے سکے الفاظ میں بات نہ کر یہ بتا کہ پاور پالیٹکس سے تیری کیا مراد ہے۔؟“ مادام بولی عالی جاہ دنیا میں بادشاہوں کیلئے صرف ایک ہی مسئلہ ہے جو باوا آدم سے آج تک جوں کا توں قائم و دائم ہے اور وہ ہے لاٹھی اور بھینس کا مسئلہ۔ پہلے یہ مسئلہ افراد تک محدود تھا پھر قبیلوں تک جا پہنچا اور آج کل اقوام پر حاوی ہو چکا ہے ۔وہ کس طرح ؟ شاہ نے مزید کریدا ۔مادام نے جواب دیا ” شاہ عالم آج کی دنیا میں کچھ تو میں لاٹھی تو میں ہیں، باقی بھینس تو میں ہیں۔ لاٹھی قوموں کی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ بھینسوں کو ہانک کر اپنے گلے میں لے جائیں۔ ان کا دودھ پئیں کھال سے اپنے لئے جوتے بنائیں۔ عالی جاہ ہر بھینس کی خواہش ہے کہ وہ اپنے تحفظ کیلئے کسی لاٹھی قوم کو اپنالے لیکن در پردہ ہر بھینس قوم چاہتی ہے کہ وہ بھی لاٹھی قوم بن جائے ۔ ” وہ کیوں؟“ بادشاہ نے پوچھا۔ مادام نے جواب دیا ” عالی جاہ قدرت کا اصول ہے کہ اگر تم لاٹھی نہیں بنو گے تو یقیناً بھینس بنا لیے جاؤ گے۔“ وزیر با تدبیر جو اس دوران میں خاموشی سے مادام کی باتیں سنتا رہا تھا بولا ” مادام یہ بتائیے کے بادشاہ کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟“مادام بولی محترم بادشاہ خود ایک لاٹھی ہے جو بظاہر عوام کو سہارا دیتی ہے لیکن در پردہ انہیں ہانکتی ہے بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس نے مادام کو شہزادے کا کمپین مقرر کر دیا۔ جب بادشاہ کی والدہ راج ملکہ کو مادام کی تعیناتی کا علم ہوا تو اس نے احتجاج کیا بولی بیٹے تم نے مادام کو شہزادے کا ساتھی بنا کر اچھا نہیں کیا ۔بادشاہ نے جواب دیا ”والدہ محترم ہم نے مادام کو اس کیلئے متعین کیا ہے کہ وہ شاہ راج ملکہ کا اشارہ سمجھ گیا بولا ”والدہ محترم مادام ادھیڑ عمر کی عورت ہے۔ شہزادے کو سمجھائے بجھائے ۔“ شہزادے کی ماں بجا ہے۔“یہی تو ہے راج ملکہ بولی ”اگر وہ تو جوان ہوتی تو کوئی اندیشہ نہ تھا ماں بجا عورت گود میں ڈالنے کا گر جانتی ہے بیٹا شہزادے کو راہ راست پر لانا کچھ مشکل نہ تھا۔ اس کا بیاہ کر دیتے۔ شہزادہ چاہے بادشاہ بننے پر رضا مند نہیں لیکن اس کی بیوی ملکہ بننے پر چل جاتی پھر کوئی مسئلہ ہی نہ رہتا ۔“ بادشاہ نے کہا آپ بجا فرماتی ہیں۔ ہم جلد از جلد شہزادے کے بیاہ کے انتظامات کر دیں گے۔ اس پر راج ملکہ مطمئن ہوگئی ۔ ۔ ۔ ادھر شہزادے کو علم تھا کہ مادام اس کی اتالیق مقرر کی گئی ہے تا کہ اسے سمجھائے بجھائے۔ اس لئے اس نے مادام سے سرد مہری اختیار کرلی ۔ مادام نے اس کی سرد مہری کو درخور اعتنا نہ سمجھا اور ایسا رویہ اختیار کر لیا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ شہزادہ آخر نوجوان تھا کچا تھا ایکروز پھوٹ پڑا۔ مادام سے کہنے لگا۔ ” مجھے پتا ہے آپ مجھے سمجھانے بجھانے پر مامور ہو گئی ہیں۔ ہاں مادام نے اثبات میں سر ہلایا ” شاہ عالم ہی سمجھتے ہیں کہ میں شہزادہ سلامت کو سمجھانے بجھانے پر مامور ہوں ۔یہ سن کر شہزادہ بوکھلا گیا بولا اور آپ کیا بجھتی ہیں۔“مادام بولتی میں نہیں چاہتی کہ آپ بادشاہ بننے پر رضا مند ہوں ۔“ شہزادے نے حیرت سے مادام کی طرف دیکھا ۔ مادام نے اپنی بات جاری رکھی بولی “شہزادہ سلامت یہ بڑے بوڑھے ہم نوجوانوں کے راستے کی رکاوٹ ہیں شہزادہ سلامت میں جدید تعلیم سے آراستہ ہوں مروجہ رسمی خیالات سے باغی ہوں ۔ حیرت سے شہر دانے کی آنکھیں اہل آئیں بولا ” پھر آپ نے میری اتالیق بننا کیوں منظور کیا ؟مادام نے جواب دیا ” پیارے شہزادے مجھے آپ سے بے پناہ ہمدردی ہے۔ آپ کو بڑے بوڑھوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھنے کا صرف یہی طریقہ تھا کہ میں آپ کی اتالیق بن جاؤں ۔ شہزادے کی آنکھوں میں حیرت کی جگہ تحسین جھلکی اور وہ سرک کر مادام کے قریب تر ہو گیا اس کے ارد گرد ایک ممتا بھری گود پھیل گئی ۔۔۔ پھیلتی گئی پھیلتی گئی حتیٰ کہ مسلط و محیط ہو گئی۔تین مہینے کے بعد اخبارات کے پہلے صفحے پر سیاہ حاشیے کے اندر جلی حروف میں خبر چھپی کہ شاہ اسادا شہزادہ سا جھانا اور ان کی اتالیق کے ہمراہ سیر و تفریح کیلئے ہل اسٹیشن کی طرف جارہے تھے کہ راستے میں اتفاقا کار کا دروازہ کھل گیا شاہ کار سے نیچے پھسل کر گھاٹی میں گر گئے شاہ اسادا کی آخری وصیت کے مطابق اور عوام کے پر زور مطالبے پر شہزادہ سا جھانا اور ملکہ مادام زبوری کی تاج پوشی کی رسم سات دن کے سوگ کے بعد ادا کی جائے گی۔
Nice story of king
Thank you