Written by 5:07 am بچوں کی کہانیاں, ناولز

بادشاہ اور سامری جادوگر

کسی ملک کا ایک بہت نیک دل بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ وہ عوام سے محبت کرتا تھا اور پورے ملک کے عوام اس سے محبت کیا کرتے تھے۔ اس کے گھر دو شہزادے تو ضرور تھے لیکن اسے ایک بیٹی کی بہت تمنا تھی لیکن کافی عمر گزر جانے کے باوجود بھی اس کی یہ تمنا پوری نہیں ہو سکی۔ ملک کی ساری عوام نیک دل بادشاہ کے حق میں دعاگو رہتے تھے کہ اللہ ہمارے نیک دل بادشاہ کی یہ تمنا بھی پورے کر دے۔ کیونکہ نیک دل بادشاہ اپنے عوام کی ہر خوشی کا خیال رکھا کرتا تھا اس لئے اس کے عوام بھی یہی چاہتے تھے کہ ہمارا بادشاہ بھی ہمیشہ خوش و خرم رہے۔ بادشاہ کی اس تمنا اور خواہش کا چرچہ ملک کی سرحدوں کے اس پار بھی ہونے لگا۔ نیک دل بادشاہ کے ملک کے ساتھ ایک اور بڑے ملک کی سرحدیں بھی ملی ہوئی تھیں۔ اس ملک کے نیک دل بادشاہ کی شہرت بھی بہت اچھی تھی لیکن یہ بات بڑی تشویشناک تھی کہ اس ملک میں ایک جادوگر بھی رہتا تھا جو سامری جادو گر کے نام سے مشہور تھا۔ وہ جادو گر بادشاہ کیلئے اکثر بڑی مصیبتیں کھڑی کر دیا کرتا تھا۔ وہ تو بادشاہ کی خوش قسمتی تھی کہ اسی کے ملک میں اللہ کے ایک بہت ہی برگزیدہ بندے بھی تھے جس کی وجہ سے سامری جادو گر کے جادو کا ہر حملہ ناکام ہو جایا کرتا تھا۔

بادشاہ کی یہ خواہش کہ اللہ اس کے گھر میں بھی اپنی رحمت (بیٹی) بھیج دے، کی شہرت سامری جادوگر کے کانوں تک بھی جا پہنچی۔ یہ سن کر اس نے ایک خوبصورت نو عمر لڑکے کا روپ بھرا اور اس نو عمری کے روپ میں ایک مشہور معالج بن کر نیک دل بادشاہ کے دربار میں جانے کا قصد کیا۔ اس ارادے کے ساتھ ہی اس نے ایک بہت شاندار منصوبہ بنایا اور اپنے کئی کارندوں کو نیک دل بادشاہ کے ملک کی جانب روانہ کیا تاکہ وہ نیک دل بادشاہ کے دربار میں جانے سے پہلے نیک دل بادشاہ کے دل میں ایسی جگہ بنا سکے کہ جب وہ دربار میں جائے تو اسے وہ عزت و تکریم مل سکے جو کسی بہت ماہر اور بڑے معالج کو مل سکتی ہے۔

سامری جادو گر کے یہ کارندے اس نیک دل بادشاہ کے ملک میں جہاں جہاں بھی جاتے اور جس جس شہر یا بستی میں قیام کرتے وہ ایک ایسے معالج کا ذکر کرتے جو ایسے مریضوں کے مرض کو بھی دور کردیا کرتا تھا جس کے علاج سے کسی بھی شہر کے معالج ہاتھ اٹھا لیا کرتے تھے اور اس کے حق میں دواؤں کی بجائے دعائیں کرنے کی درخواست کیا کرتے تھے۔ سامری جادوگر نے اپنے کارندوں کو کچھ جعلی دوائیں بھی دی تھیں جن کو کھلانے سے بظاہر خطرناک سے خطرناک بیماریوں والے مریضوں کو شفا نصیب ہو جایا کرتی تھی لیکن اصل میں وہ مریض دواؤں سے نہیں بلکہ اس جادوئی جنتر منتر سے ٹھیک ہو جایا کرتے تھے جو سامری جادو گر نے اپنے کارندوں کو سکھا رکھے تھے۔ ان کے صحتیابی کے بعد وہ کہتے تھے کہ جب ہمارے استاد معالج کی دی ہوئی دواؤں سے خطرناک سے خطرناک امراض چند گھنٹوں میں دور ہوجاتے ہیں تو پھر ہمارے استاد کا کیا عالم ہوگا۔ نیک دل بادشاہ کے ملک کے سادہ دل عوام سامری جادو گر کے کارندوں سے اپنے استاد معالج کی تعریفیں سن سن کر اس کو دیکھنے اور اس سے ملنے کی تمنائیں کرنے لگے۔ وہ جب بھی اپنی تمنا کا اظہار سامری جادو گر کے جعلی کارندوں سے کرتے تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ ان کے استاد اپنے مریضوں میں اس بری طرح گھرے رہتے ہیں کہ ان کو کہیں اور جانے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ ہم تم سب کی درخواست اپنے استادِ محترم تک ضرور پہنچا دیں گے اب یہ آپ سب کی قسمت ہوگی کہ وہ تم سب کو اپنا دیدار کرا سکیں۔ آہستہ آہستہ سامری جادو گر کے بہت پہنچے ہوئے طبیب کی شہرت نیک دل بادشاہ کے کانوں تک بھی جا پہنچی اور اس نے اپنے درباریوں کو حکم دیا کہ کسی نہ کسی طرح اس ماہر معالج کو کہیں سے ڈھونڈ کر ہمارے دربار میں حاضر کیا جائے۔ نیک دل بادشاہ کے کچھ خاص مصاحب ان کارندوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے جن کی وجہ سے اس ماہر طبیب کی شہرت کے چرچے ملک کے کونے کونے میں پھیلتے چلے جا رہے تھے۔ سامری جادو گر کے بھیجے ہوئے کارندے کیونکہ کسی ایک مقام پر بہت ہی مختصر قیام کیا کرتے تھے اس لئے نیک دل بادشاہ کے مصاحب جہاں جہاں بھی پہنچتے لوگ ان کے کمال کا ذکر تو بہت شدت سے کرتے نظر آتے لیکن وہ یہ بات بتانے سے قاصر ہی رہتے کہ اب وہ کارندے کہاں ملیں گے۔ نیک دل بادشاہ تک جب یہ اطلاع پہنچی تو اس نے ہر شہر، گاؤں اور بستی کے شاہی ذمہ داروں کو یہ پیغام بھیج دیا کہ ایسے نیک دل لوگ جو کسی بہت ماہر معالج کا ذکر کرتے ہوں اور اس کی دی ہوئی ادویات سے خطرناک سے خطرناک امراض کے شکار مریضوں کا علاج کرنے کے بعد اپنے ماہر معالج استاد کا ذکر کرتے ہوئے دیکھے جائیں تو ان کو فوراً پکڑ لیا جائے اور اس طرح پکڑا جائے کہ انھیں گرفتاری جیسے فعل کا اندازہ نہ ہو سکے اور پھر ان کو بہت عزت و وقار کے ساتھ ہمارے دربار میں حاضر کیا جائے۔

سامری جادو گر کا بنایا ہوا سارا منصوبہ بہت ہی کامیابی کے ساتھ آگے سے آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ اس منصوبے کے مطابق سامری جادوگر یہی چاہتا تھا کہ ایک جانب خود اس کی شہرت کا پورے ملک میں خوب چرچہ ہو اور دوسری جانب نیک دل بادشاہ کے تجسس میں اتنا بے پناہ اضافہ ہو کہ وہ پاگلوں کی طرح پورے ملک میں اس کی تلاش و جستجو شروع کردے۔ اپنے بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق اسے بڑی کامیابیاں حاصل ہو رہی تھیں۔ وہ اپنے جادو کے زور سے ایک ایک پل کی خبر رکھے ہوئے تھا اس لئے اس نے جادوئی آلات کی مدد سے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ وہ دارالسلطنت کا رخ کریں اور وہاں اسی طرح اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں جس طرح وہ اب تک کئی شہروں اور بستیوں میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نیک دل بادشاہ کے درباری ان ہی تلاش میں ہیں اور وہ جیسے ہی تمہاری سرگرمیوں کی اطلاع پائیں گے فوراً تمہاری تلاش میں وہیں آ نکلیں گے جہاں تم لوگ ہوگے۔ جب وہ تم تک آنکلیں اور تم سے نیک دل بادشاہ کے پاس چلنے کا کہیں تو پہلے تو تم انھیں ٹالتے رہنا لیکن جب ان کے ارادے خطرناک دیکھو تو پھر چلے جانا۔ اس کے بعد تمہیں وہاں کیا کرنا ہے، اس کا علم تو تم سب کو پہلے سے ہی ہے۔

جب نیک دل بادشاہ کے درباریوں کو اس بات کا علم ہوا کہ اس کے اپنے دارالسلطنت میں ایسے لوگوں کا ڈیرہ لگا ہوا ہے جو خود بھی خطرناک امراض کا علاج کررہے ہیں اور جب بھی ان کے علاج سے کوئی مریض صحتیاب ہو جاتا ہے تو وہ اپنے استاد کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں تو وہ فوراً حرکت میں آگئے اور آخر کا ان کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ باد شاہ کے درباریوں اور ان کے ساتھ خاص شاہی دستے کو دیکھ کر سامری جادوگر کے کارندوں نے پہلے تو بہت خوفزدگی کا اظہار کیا، جانے سے بھی انکار کیا لیکن جب انھوں نے محسوس کیا کہ آنے والے درباری اور نیک دل بادشاہ کے خاص سپاہیوں کے ارادے خطرناک ہیں تو انھوں نے جانے کی حامی بھر لی۔ ویسے بھی سارے کام منصوبے کے مطابق ہی ہو رہے تھے اور ان کے خوفزدہ ہونے کی اداکاری بھی دکھاوے کی تھی۔ انھوں نے اپنا سب ساز و سامان اٹھایا اور سپاہیوں کے ساتھ لائی گئی بڑی سے گھوڑا گاڑی میں سوار ہو گئے۔

نیک دل بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ آپ نے ہم سب کو جن کا کھوج لگا کر دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا تھا ان کو دربار میں حاضر کردیا گیا ہے تو نیک دل بادشاہ نے کہا کہ ان سب کو بہت عزت و تکریم کے ساتھ پہلے مہمان خانے میں لے جاؤ، ان کی خاطرداری کرو پھر دربار میں پیش کرو ہم بھی تیار ہوکر دربار میں آتے ہیں۔کچھ دیر کے بعد سارے مہمانوں کو دربار میں دوبارہ حاضر کیا گیا۔ نیک دل بادشاہ دربار میں ہی موجود تھا۔ جب وہ سارے دربار میں آکر بیٹھ گئے تو نیک دل بادشاہ نے ان سے کہا کہ ہم اس کی بہت شہرت سن رہے ہیں جس کی تعریف تم سب بہت اچھے الفاظ میں شہر شہر اور گاؤں گاؤں کر رہے ہو۔ ہم نے سوچا کہ اگر تم سب خود اتنے اچھے معالج ہو کہ جو بھی تمہارے پاس آتا ہے وہ صحتمند اور تندرست ہو کر گھر جاتا ہے تو پھر جو تمہارا استاد ہے وہ کتنا ماہر معالج ہوگا۔ یہ سن کر سامری جادوگر کے سارے کارندے بیک زبان بولے کہ آپ کا اقبال بلند ہو، ہمارا استاد ایسا ہی ہے کہ وہ پوجا کے لائق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی طبیب یا معالج نہیں، ہم سب کے پاس تو اس کی دی ہوئی کچھ دوائیں ہیں جن کو کھانے کے بعد ایسا مریض جس کے علاج سے دنیا بھر کے طبیب ہاتھ اٹھا چکے ہوں، وہ بھی ٹھیک ہوجایا کرتا ہے علاوہ ایسا فرد جس کے دن گنے جا چکے ہوں۔ نیک دل بادشاہ ان کی باتیں غور سے سننتا رہا اور ان کی شریفانہ گفتگو سے متاثر بھی ہوتا رہا۔ جب وہ خاموش ہوئے تو اس نے کہا کہ ہم تمہارے استاد سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ اس کو ہمارے دربار میں بھیجا جائے۔ یہ سن کر سامری جادو گر کے سارے کارندے کچھ دیر کیلئے خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔

نیک دل بادشاہ نے ان کے خاموش ہوجانے کی وجہ دریافت کی تو ان میں سے ایک کارندہ کھڑا ہو گیا اور بہت ادب کے ساتھ عرض کرنے لگا کہ نیک دل بادشاہ سلامت ہم آپ کی بات اپنے استاد تک پہنچا تو سکتے ہیں لیکن ہمارے ادب کا تقاضہ ہے کہ ہم اسے مجبور نہیں کر سکتے۔ آپ ایک نیک دل بادشاہ ہیں، ہمیں یقین ہے کہ آپ ہمارے اس جواب کو حدِ ادب ہی خیال کریں گے اور ہمارے اس جواب پر ہمارے حق میں کوئی سزا تجویز نہیں کریں گے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمارے دل میں اپنے استاد کیلئے ایسا ہی احترام ہے جیسا احترام آپ اپنے درباریوں سے چاہتے ہیں۔ نیک دل باد نے ان کے سامنے تو کسی جذبے کا اظہار نہیں کیا لیکن ایسے لائق شاگردوں کی قدر اس کے دل میں اور بھی بڑھ گئی۔ نیک دل بادشاہ نے کہا کہ ہم آپ کے استاد کے مثبت جواب کا انتظار کریں گے اور ہمیں پوری امید ہے کہ آپ سب کے استاد ہماری درخواست کو ضرور قبول کر لیں گے۔ نیک دل بادشاہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمیں علم ہے کہ آپ سب ہمارے پڑوس ملک سے تشریف لائے ہیں اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کے ملک کے بادشاہ سے بھی درخواست کر سکتے ہیں۔ یہ بات سن کر وہ سارے کے سارے کارندے دل ہی دل میں بہت ہی پریشان ہو گئے کیونکہ انھیں معلوم تھا نہ تو ان کے ملک کے بادشاہ کو کسی ایسے مشہور طبیب کے وجود کا علم ہے اور نہ کوئی ایسا طبیب جو مردوں تک کو زندہ کردینے کی صلاحیت رکھتا ہو، ان کے اپنے ملک میں تھا، لیکن وہ سب اتنے عیار تھے کہ انھوں نے اپنی اس پریشانی کا اظہار اپنے کسی بھی انداز یا رویے سے نہیں ہونے دیا اور نہایت ادب سے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت، ہمارے ملک کے بادشاہ سے درخواست کرنے کی کوئی ضرورت نہیں،

پڑوسی ملک کے بزرگ کی دیئے ہوئے رنگین پانی کے چھینٹوں اور پانی کے ساتھ ملاکر دینے والے قطروں نے ایسا جادوئی اثر دکھایا کہ ملکہ عالیہ ٹھیک تیسرے دن اپنے پاؤں پر اس طرح کھڑی ہو گئیں جیسے کبھی بیمار ہی نہیں رہی ہوں۔ ان کے اس طرح تندرست ہوجانے پر پورے ملک میں زبردست جشن منایا گیا۔

اِدھر ملکہ عالیہ صحتیاب ہوئیں اْدھر نیک دل بادشاہ کی پری شہزادی شادی کی عمر پر پہنچی۔ بادشاہ جانتا تھا کہ شہزادی کے بڑے ہوتے ہی وہی حسین و جمیل طبیب حسب وعدہ اس کے دربار میں ضرور حاضر ہوگا۔ نیک دل بادشاہ نے سوچا کہ اگر وہ حقیقی طبیب ہوا تو کیا ہی اچھی بات ہے لیکن اگر وہ نوسرباز ہوا اور بقول دوست ملک کے بادشاہ، وہ سامری جادو گر ہوا تو اچھا ہے کہ اس کا راز کھل ہی جائے لیکن اگر وہ جادو گر ہوا اور بزرگ کے بیان کئے ہوئے خدشے کے مطابق اگر سامری جادوگر نے کوئی نقصان پہنچایا تو وہ کس نوعیت کا ہوگا اور اس کا توڑ کیا ہوگا۔

ابھی نیک دل بادشاہ دربار میں اسی سوچ میں گم تھا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ وہی نوجوان طبیب دربار میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کر رہا ہے لیکن۔۔۔۔۔ لیکن کہہ کر درباری خاموش ہو گیا۔ نیک دل بادشاہ نے کہا لیکن کیا؟۔ درباری نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو خود ہی اس “لیکن” کا مطلب سمجھ لیں۔ بادشاہ درباری کی بات سن کر استعجاب کا شکار ہوا لیکن درباری سے پوچھے بغیر ہی طبیب کو حاضر کرنے کا حکم دیا۔ جب طبیب نیک دل بادشاہ کے سامنے آیا تو بادشاہ کو درباری کے “لیکن” کا مطلب خوب اچھی طرح سمجھ میں آگیا۔ وہی طبیب جو اس سے پندرہ سولہ سال پہلے ملا تھا اس کی شکل و صورت اور حسن و جمال میں رتی برابر بھی کوئی فرق نہیں تھا۔ وہ اسی طرح نو عمر، حسین اور خوش شکل دکھائی دے رہا تھا جیسا سولہ سال قبل تھا۔ باد شاہ نے جب اسی طبیب کو اسی عمر اور شکل و صورت میں دیکھا تو اسے حیرت سے زیادہ اس بات کا یقین ہو چلا کہ اس تک پہنچی ہوئیں اطلاعات درست ہی ہیں اور یہ طبیب حقیقی طبیب نہیں بلکہ کوئی بہت ہی بڑا بہروپیا ہے لیکن نیک دل بادشاہ نے اپنے کسی بھی انداز اور رویے سے اپنے شک کا اظہار نہیں ہونے دیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ بہروپیا اپنے کہنے کے مطابق اس سے فرمائش کیا کرتا ہے۔ نیک دل بادشاہ نے اسی طرح اٹھ کر اس کا استقبال کیا اور اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کی سدا بہار جوانی کا راز پوچھا تو اس نے کہا کہ میرے پاس ایسے ایسے نسخے ہیں جو بوڑھے کو جوان اور جوان کو بچہ بنا سکتے ہیں۔ باد شاہ نے بظاہر اس بات پر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ بھرا دربار طبیب کو دیکھ کر حیرت زدہ تھا کیونکہ جو درباری اس وقت کڑیل جوان تھے وہ بڑھاپے میں داخل ہو چکے تھے اور جو عمر والے تھے وہ بہت ہی معمر نظر آنے لگے تھے لیکن طبیب تو آج سے سولہ برس پہلے جیسا تھا آج بھی وہ ان سب کو ویسا ہی دکھائی دے رہا تھا۔

نیک دل باد شاہ نے وہ سارے کلمات بہت اچھی طرح ذہن نشین کر لئے تھے جو دوست ملک کے باد شاہ نے اپنے بزرگ سے لکھواکر بھیجے تھے تاکہ وہ موقع کی مناسبت سے ان کو پڑھ کر سامری جادو گر پر پھونک کر اس کی اصلیت کو بھانڈا پھوڑ سکے۔

بادشاہ نے بظاہر خوش ہوتے ہوئے سامری جادو گر سے کہا کہ اب کہو تم ہم سے کیا طلب کرنا چاہتے ہو۔ بادشاہ نے کہا کہ اپنی جان کے علاوہ جو مانگو گے ہم تمہیں عنایت کریں گے لیکن ہم تمہیں یہ نہیں بتائیں گے کہ ہماری جان کس میں ہے۔ سامری جادو گر یہ سن کر بہت زور سے چونکا اس لئے کہ یاتو جنوں اور بھوتوں کی جان ان کے جسم کی بجائے کسی اور شے میں رکھی جاسکتی ہے یا پھر جادوگروں کی جان کسی اور چیز میں منتقل کی جاسکتی ہے، جیسے کہ خود اس کی جان طوطے کے انڈے میں ہے جو ایک نہایت خطرناک پہاڑی کے غار میں ایک سونے کے بکس میں رکھا ہے، تو کیا میرے سامنے جو بادشاہ ہے وہ کوئی جن بھوت یا جادو گر ہے۔ سامری جادو گر نے اپنے سر کو جھٹکا دیکر ہر خیال کو دل سے نکال پھینکا اور کہا کہ حضور مجھے آپ سے کچھ بھی نہیں چاہیے بس میں آپ کی صاحب زادی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ یقین مانیں اگر آپ نے مجھے قبول کر لیا تو پوری زندگی آپ کا غلام بن کر رہونگا، آپ، ملکہ عالیہ اور آپ کی بیٹی کو ہمیشہ ہمیشہ جوان بنا کر رکھوں گا۔

نیک دل بادشاہ سمجھ گیا کہ یہ وہی بہروپیا سامری جادو گر ہے جس کی اطلاع اسے پڑوسی ملک کے بادشاہ نے اس کو پہلے ہی دے دی تھی۔ نیک دل بادشاہ نے سامری جادوگر سے جھوٹ بھی نہیں بولا تھا کہ وہ سب کچھ اسے عطا کر سکتا ہے لیکن اپنی جان اس کے حوالے نہیں کر سکتا اور اس کی پری شہزادی دراصل اس کی جان سے بڑھ کر تھی اور اس نے سوچ رکھا تھا کہ وہ اپنے جگر گوشے کو اْس کے حوالے کرے گا جو اس کی بیٹی یعنی خود اس کی جان کا اصل امین ہوگا۔ بادشاہ اس بہروپیئے سامری جادو گر کی فرمائش سن کر سخت طیش میں آگیا لیکن اس نے اپنے چہرے پر ساری خوشیوں کو ایسا سجایا جیسے اس نے سامری جادو گر کو واقعی قبول کر لیا ہو۔ وہ سارے کلمات اس نے دل ہی دل میں دہرائے جو بزرگ کی جانب سے بادشاہ نے بھجوائے تھے۔ سامری جادوگر کو نہایت پیار سے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔ سامری جادو گر خوشی سے سرشار ہوکر بادشاہ کے قریب پہنچا تو بادشاہ نے اسکے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں سے مضبوطی کے ساتھ تھام کر زور سے اس کے چہرے پر پھونک ماری تو اچانک سامری جادو گر کا سارا حسن ملیا میٹ ہو گیا اور اس کی کتے جیسے شکل نکل کر سامنے آگئی اور ایک کربناک چیخ کے ساتھ وہ نظروں کے سامنے سے غائب ہو گیا۔ دربار میں جیسے بجلی سی کوند کر رہ گئی اور ساری فضا ساکت سی ہو گئی۔ چیخ کے ساتھ ہی سامری جادوگر کی نہایت بھیاک آواز بھی گونجی کہ اے بادشاہ میں تجھ سے ایسا انتقام لونگا کہ نہ تو تو جی سکے گا اور نہ ہی مر سکے گا۔

ماحول سازگار ہونے میں کافی وقت لگا۔ درباری بہت دیر کے بعد اپنے ہوش و حواس میں آئے۔ بادشاہ بھی زناٹے میں آگیا اور سوچنے لگا کہ دیکھو اب ہوتا کیا ہے لیکن اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کی جان (شہزادی) سامری جادو گر کے کے چنگل میں آنے سے بچ گئی۔ نہ ہی پڑوس ملک کا بادشاہ اسے حقیقت سے آگاہ کرتا اور نہ اس کے ملک کے بزرگ کوئی عمل اسے سکھاتے تو آج وہ اپنی بیٹی اس دھوکے باز کے حوالے کر ہی دیتا۔

ہلکی سردیوں کا زمانہ تھا۔ واقعے کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے۔ ابھی تک تو سامری جادو گر کی جانب سے جوابی وار سامنے نہیں آیا تھا لیکن بادشاہ جانتا تھا کہ اپنی اتنی بڑی شکست کے بعد سامری جادو گر کوئی نہ کوئی اوچھا وار ضرور کرے گا۔ نیک دل بادشاہ، ملکہ عالیہ اور اس کی حوروں سے بھی حسین بیٹی شاہی محل کے بڑے سارے لان میں بیٹھے تھے۔ بیٹی تتلیوں سے کھیلتے کھیلتے نیک دل بادشاہ اور ملکہ عالیہ کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ ابھی وہ دونوں اس کو پیار بھری نگاہوں سے دیکھ کر خوش ہی ہو رہے تھے کہ انھوں نے دیکھا کہ تین رنگین لکیریں ہوا میں تتلیوں کی طرح پرواز کرتی ہوئی شہزادی کے قریب آئیں اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ سکیں، وہ تینوں رنگین لکیریں شہزادی کی ناک میں داخل ہو کر غائب ہو گئیں۔ اب اللہ جانے یہ ان لکیروں کا شاخسانہ تھا یا کچھ اور شہزادی کی آنکھیں آہستہ آہستہ بوجھل ہوتی چلی گئیں اور وہ ان کی گود میں لیٹ کر گہری نیند میں چلی گئی۔ کل شب وہ اپنی ہم جولیوں کے ساتھ رات گئے کھیلتی رہی تھی اور صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی بیدار ہو گئی تھی اس لئے بادشاہ اور ملکہ یہی سمجھے کہ شہزادی کو نیند آ گئی ہے۔ کنیزوں کی مدد سے شہزادی کو اس کی اپنی خوبگاہ میں پہنچا کر وہ دونوں خود بھی شہزادی کے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ وہ کسی حد تک غیر مطمئن بھی تھے اس لئے کہ آخر وہ کیسی تین رنگین لکیریں تھیں جو شہزادی کے ناک میں داخل ہو گئی تھیں جس کے فوراً بعد ہی شہزادی گہری نیند میں چلی گئی تھی۔

شہزادی کی نیند تھی کہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ نہ تو وہ بولتی تھی اور نہ ہی خود سے کروٹ بدلتی تھی البتہ جو کچھ بھی اسے کھلایا پلایا جاتا تھا وہ ایک نارمل انسان کی طرح کھا پی لیا کرتی تھی مگر اس دوران بھی شہزادی کی آنکھیں بند ہی رہتی تھیں۔ ملک بھر کے سارے حکیموں اور طبیبوں سے علاج کرالیا گیا تھا لیکن نیند تھی کہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ بادشاہ سمجھ گیا تھا کہ یہ بیماری نہیں بلکہ جادوئی اثر ہے۔ اسے اس دھوکے باز سامری جادو گر کے الفاظ اچھی طرح یاد تھے کہ میں تمہاری وہ حالت کردونگا کہ نہ تو تم جی سکو گے اور نہ ہی مرسکو گے۔ یہی حالت اس وقت بادشاہ کی تھی۔

آہستہ آہستہ یہ خبر پڑوسی دوست ملک کے بادشاہ تک بھی پہنچی۔ وہ سمجھ گیا کہ ہونہ ہو یہ میری سلطنت کے سامری جادو گر کی ہی حرکت ہو سکتی ہے۔ جس ماہر حکیم کی شہرت کا ذکر نیک دل بادشاہ نے اس سے کیا تھا یہ وہی خبیث سامری جادو گر ہی رہا ہوگا جو اپنا بھیس بدل کر اور ایک حسین ترین نوجوان کے شکل میں نیک دل بادشاہ کے دربار میں گیا ہوگا اور اب راز کھل جانے کی وجہ سے بادشاہ سے انتقام پر اتر آیا ہو گا۔ نیک دل بادشاہ کے حالات جان کر اسے بہت دکھ تھا اور اسی دکھ کے عالم میں وہ اپنے محل کے بہت عالی شان باغ میں بیٹھا کسی سوچ میں گم تھا کہ اس کا سب سے چھوٹا بیٹا اس کے پاس آیا اور کہنےلگا۔۔

کہ والد محترم کیا میں آپ کی اداسی کا سبب پوچھ سکتا ہوں۔ کئی دنوں سے میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ اداس بھی ہیں اور ہر وقت کسی سوچ میں گم رہتے ہیں۔ اس طرح اداس رہنے کی وجہ سے آپ کے امور مملکت بھی متاثر ہو سکتے ہیں اور آپ کی صحت بھی خراب ہو سکتی ہے۔

بادشاہ اپنے بیٹے کی بات سن کر کچھ دیر تو خاموش رہا پھر بہت ہی مغموم آواز میں بولا کہ بیٹا ہمارے پڑوس میں جو ملک ہے اس کے نیک دل بادشاہ کی بیٹی پر ہمارے ملک کے سامری جادوگر کا جادو چل گیا ہے اور وہ کئی دنوں سے گہری نیند میں ہے۔ نیک دل بادشاہ نے بہت جتن کر لئے، ہر قسم کا علاج کرالیا، علما سے دعائیں بھی کرالیں اور عاملوں سے جھاڑ پھونک بھی کرالی لیکن شہزادی کی نیند ہے کہ ختم ہو کر نہیں دیتی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ اس کی نیند ختم ہونے کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ سامری جادو گر کو ہلاک کردیا جائے۔ میں نے اپنے ملک کی بزرگ ترین ہستی سے بھی مشورہ کیا تھا تو ان کا جواب بھی یہی تھا کہ جو حربہ سامری جادو گر نے شہزادی پر استعمال کیا ہے وہ مجھ سمیت دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے بزرگ کی دعا سے برباد نہیں کیا جاسکتا۔ وہ تین رنگین لکیریں جو شہزادی کی ناک کے ذریعے اس کے جسم میں داخل ہوئی ہیں یا تو اس کو خود سامری جادو گر ہی نکال سکتا ہے یا سامری جادو گر کی موت ان لکیروں کو باہر نکال سکتی ہیں۔ نیک دل بادشاہ اپنی بیٹی کی جان بچانے کیلئے ممکن ہے سامری جادوگر کے آگے سر ٹیکنے پر مجبور ہو جائے۔ سامری جادوگر اس کی بیٹی پر عاشق ہو چکا ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ جب اس نے شادی کا ارادہ بادشاہ پر ظاہر کیا تھا اس وقت وہ ایک حسین ترین نوجوان کی شکل میں اس کے پاس موجود تھا لیکن کیونکہ نیک دل بادشاہ سے ہم اس شک کا اظہار کر چکے تھے کہ وہ حسین نوجوان جو ایک ماہر طبیب کی شکل میں آپ کے دربار میں ہے وہ ہمارے ملک کا سامری جادو گر بھی ہو سکتا ہے لہٰذا ہم نے اپنے بزرگ سے چند کلیمات لکھواکر بادشاہ کی خدمت میں پیش کئے تھے اور کہا تھا کہ اگر ان کو دل ہی دل میں دہراکر اس نوجوان پر پھونکے جائیں گے تو اس کی اصلیت سامنے آ جائے گی۔ بادشاہ کا ایسا کرنا تھا کہ سامری جادوگر کی اصل شکل سامنے آ گئی لیکن اس خبیث نے جاتے جاتے نیک دل بادشاہ کو دھمکی دی کہ وہ اس کی ایسی حالت بنادے گا کہ اس کا شمار نہ تو زندوں میں رہے گا اور نہ ہی مردوں میں۔ اس کے چند دن بعد ہی اس کی بیٹی تتلیوں سے کھیلتے کھیلتے اچانک گہری نیند میں چلی گئی اور کسی بھی صورت اس کی نیند ٹوٹ کر نہیں دے رہی۔

شہزادہ اپنے والد محترم کی باتیں بہت غور اور حیرت سے سنتا رہا۔ کافی سوچ بچار کے بعد اس نے اپنے والد محترم سے عرض کیا کہ کیا آپ مجھے سامری جادو گر کو ڈھونڈ کر قتل کرنے کی اجازت دیدیں گے۔ میں اپنی جانب سے اپنی آخری سانس تک اس کا مقابلہ کرونگا اور اس کو قتل کرکے ہی دم لونگا۔

باد شاہ بہت دیر تک خاموش رہا پھر اس نے کہا کہ اچھی بات ہے۔ میری جانب سے تمہیں اجازت ہے۔ اللہ نیک کام کرنے والوں کا حامی و ممد گار ہوتا ہے۔ اگر تم ایک نیک کام کیلئے پوری سچائی سے اترنا چاہتے ہو تو بسم اللہ لیکن یہ ضروری ہے کہ نیک دل بادشاہ سے بھی اجازت لے لو۔ ممکن ہے کہ اس نے کوئی تدبیر سوچ رکھی ہو۔

تین دن کا سفر طے کرکے شہزادہ نیک دل بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہونے کیلئے اس کے دربار تک پہنچا۔ طویل مسافت کی وجہ سے نیک دل بادشاہ کے سنتری اسے شہزادے کی حیثیت سے نہ پہچان سکے لیکن جب اس نے اپنا مکمل تعارف کرایا اور اپنے ملک کے بادشاہ کی تحریر دکھائی تو باد شاہ کو آکر بتایا کہ آپ کے پڑوسی دوست ملک کا شہزادہ آپ سے ملنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔ یہ سن کر باد شاہ نے کہا کہ اسے فوراً حاضر کیا جائے اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیا جائے۔ شہزادہ اس کے سامنے حاضر ہوا تو بادشاہ نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا۔ شہزادے نے اپنی حاضری کا مدعا بیان کیا اور اجازت طلب کی تو بادشاہ نے کہا کہ یہ مجھے بہت ہی پْر خطر کام لگتا ہے۔ میرے ملک کے کئی کڑیل نوجوان سامری جادوگر کی تلاش میں روانہ ہوئے تھے۔ اس بات کا علم سب کو تھا سامری جادوگر کی جان ایک طوطے کے انڈے میں ہے اور وہ انڈا کہاں اور کس چیز میں بند ہے لیکن جتنے بھی نوجوانوں نے اس پہاڑ کے قریب جانے کی کوشش کی وہ اطلاعات کے مطابق سب کے سب پھتر کے بن چکے ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ سکتے ہیں، کانوں سے سن سکتے ہیں اور ان کی عقل سمجھ عام انسانوں کی طرح ہی ہے لیکن زبان سمیت ان کا پورا جسم پتھر کا بن کر رہ گیا ہے اس لئے نہ تو وہ بول سکتے ہیں اور نہ ہی چل پھر سکتے ہیں۔ ایسے عالم میں میں یہ بات کیسے گوارہ کر سکتا ہوں کہ میرے اپنے بہترین دوست ملک کے بادشاہ کا کوئی بیٹا کسی مشکل میں پھنس جائے۔

شہزادے نے کہا اے نیک دل بادشاہ۔ کوئی بھی اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کیلئے نہیں آیا بس کوئی پہلے چلا جائے گا اور کوئی بعد میں۔ میں نے سنا ہے کہ اللہ ہمت کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں اپنی کوشش میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا اس لئے کہ میرا اللہ میرے ساتھ ہے۔ بس آپ کی اجازت چاہیے۔

نیک دل بادشاہ نے کہا کہ میری جانب سے تمہیں اجازت ہے۔ اللہ تمہارا حامی و مدد گار ہو۔

بادشاہ سے اجازت لینے کے بعد شہزادہ اپنے ملک واپس آیا، اپنے والد محترم کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا، اپنی ماں کی دعائیں لیں اور ضروری ساز و سامان اپنے ساتھ لیکر اپنی مہم پر روانہ ہو گیا۔

شہزادہ یہ تو جانتا تھا کہ سامری جادوگر کی جان جس طوطے کے انڈے میں ہے وہ انڈا کونسے ملک کے کونسے جزیرے کے کس پہاڑ میں ہے لیکن اس کو سارے راستوں کا علم نہیں تھا اس لئے یہ ضروری تھا کہ وہ نہ صرف تمام راستوں کی معلومات کرے بلکہ راستے میں جتنے بھی خطرات یا مشکلات درپیش ہونگی، ان سے نمٹنے کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے، وہ سب مہیا کرے۔ بہت سوچ بچار کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ وہ سب سے پہلے اپنے ملک کے ان برگزیدہ بندے کی خدمت میں حاضر ہو جن کی دعاؤں اور پاکیزہ عملوں کی وجہ سے ان کا ملک سامری جادو گر کی شیطانیوں سے اب تک محفوظ ہے۔ اللہ کے وہ برگزیدہ بندے ایک دن کی مسافت کی دوری پر ایک بہت اونچے پہاڑ کے دامن میں رات دن اللہ کی عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔

یہاں پہنچ کر شہزادے کو ایسا سکون ملا جو اسے کبھی اپنے عالی شان محل میں بھی نہیں ملاتھا۔

اگلی صبح خوش پوش میزبانوں نے اس سے آکر کہا کہ بزرگ آپ کو یاد فرمارہے ہیں۔ جب شہزادے ان کے غار میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ خود اس نے جس غار میں رات گزاری وہ بہت ہی سجا سجایا تھا اور جس بستر پر وہ سویا تھا وہ اتنا آرام دہ تھا کہ اس پر لیٹتے ہی اسے نیند آ گئی تھی لیکن برزگ کا غار نہ تو پردوں اور قالینوں سے آراستہ تھا اور نہ ہی اس میں آرام دہ بجھونے بچھے ہوئے تھے۔ بزرگ کے غار میں ایک دری بچھی ہوئی تھی اور وہ خود ٹاٹ کی چٹائی پر دو زانوں ہو کر بیٹھے ہوئے تھے۔ شہزادے کے غار میں داخل ہوتے ہی ہاتھ کے اشار سے بزرگ نے شہزادے کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

شہزادے نے فرش پر بیٹھتے ہی کچھ کہنے کیلئے منھ کھولا ہی تھا کہ بزرگ نے ہاتھ کے اشارے سے شہزادے کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ پھر غار میں بزرگ کی آواز نے ایک عجیب سا جادو جگا دیا۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بزرگ ایک مرتبہ پھر گویا ہوئے اور کہا زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ موت سے پہلے کوئی جن و بشر انسان کو نہیں مارسکتا۔ اللہ تمہاری حفاظت کرنے والا ہے۔ راستہ پر خطر اور دشوار ضرور ہے لیکن خوف زدہ یا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ میرے پاس چند مخصوص لباس ہیں جن کو پہن اوڑھنے سے حشرات الارض، موزی جانور اور کیڑے مکوڑے تم سے دور دور رہیں گے۔ اس لباس میں ایسی ناپسندیدہ بو ہے جسے حشرات لارض، موزی جانور اور کیڑے مکوڑے ہی سونگھ سکتے ہیں اور یہ بو ان کو تمہارے نزدیک بھی نہیں آنے دیگی۔ چند کلیمات تم دل ہی دل میں دہراتے رہو گے تو کسی بھی قسم کا ڈر اور خوف تمہیں پریشان نہ کر سکے کا۔ میری تیار کردہ جڑی بوٹیوں سے بنیں کچھ گولیاں ہیں جو مہینوں تمہیں بھوک کا احساس نہیں ہونے دیں گی اور میرے پڑھے ہوئے پانی کے چند قطرے تمہیں سارا سارا دن پیاس کا احساس تک نہیں ہونے دیں گے۔ درندے اس راستے میں نہیں ہیں جس کی وجہ سے تمہیں کوئی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ احتیاطاً ایک لاٹھی ضرور تمہارے پاس ضرور ہونی چاہیے جو تم کو دی جائے گی اور یہ بھی دم شدہ ہے جو کسی بھی درندے کے حملے کو ناکام بنانے کیلئے کافی ہوگی۔ ہمارے علم کے مطابق فی الحال اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ سامری جادو گر اس غار میں آئے جس میں طوطے کا انڈا رکھا ہے اس لئے کہ وہ بہت ہی خاص جنتر منتر سیکھنے میں مصروف ہے اور میں بھی یہ چاہتا ہوں کہ اس کا عمل مکمل ہونے سے پہلے ہی اس کا کام تمام ہو جائے کیونکہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ ہے کہاں اور جو کچھ وہ سیکھ رہا ہے اس کی نوعیت کیا ہے۔

کل صبح سے اللہ کا نام لیکر اپنے سفر کا آغاز کردو۔

شہزادے نے کہا کہ مجھے راستوں کا کوئی علم نہیں ہے، کیا مجھے اس سلسلے میں آگاہی دینا پسند فرمائیں گے۔

بزرگ نے شہزادے کو اٹھ جانے کا اشارہ کیا اور کہا کہ جو جو ضروری باتیں اور خطرات تمہیں درپیش ہو سکتے تھے اس سے میں نے تمہیں آگاہ کر دیا ہے۔ میں تمہارے لئے مسلسل دعا گو رہونگا۔ اللہ تمہاری حفاظت کرے، کل صبح پو پھوٹتے ہی اپنے سفر کا آغاز کردینا۔ اللہ حافظ۔

بزرگ کے باادب خدمت گار شہزادے کو اس کی آرام گاہ تک لائے اور پھر اللہ حافظ کہہ کر اور آرام کرنے کا مشورہ دے کر اپنے اپنے فرائض پر مامور ہونے چلے گئے۔

صبح صادق کے ہوتے ہی شہزادے نے اپنا سامان سفر اٹھا یا اور جیسے ہی اپنے غار سے باہر نکلا، ایک بلبل کے برابر لیکن چڑیا کی رنگت والا پرندہ اڑ کر اس کے کندھے پر آکر بیٹھ گیا۔ جونہی شہزادے نے اپنے قدم سفر کیلے بڑھائے، پرندہ اس سے آگے آگے اڑنا شروع ہو گیا۔ پرندہ آڑتا جاتا اور شہزادہ اس کی پرواز کی سمت بڑھتا جاتا۔ کئی گھنٹے کی مسافت کے بعد پرندہ ایک گھنے درخت کی شاخ پر بیٹھ گیا گویا یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب کچھ دیر آرام کرنا چاہیے۔ درخت کیا تھا ایک پناہ گاہ معلوم ہوتا تھا جس کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں پہنچ کر شہزادے کو بڑی فرحت محسوس ہوئی۔ گھنٹے بھر آرام کے بعد سفر پھر شروع ہوا اور سورج غروب ہونے تک جاری ریا۔ راستے میں شہزادے نے صاف محسوس کیا کہ زمین پر رینگنے والی موزی مخلوق اور طرح طرح کے حشرات الارض اس کے راستے سے خود ہی ہٹتے چلے جا رہے ہیں۔ اسے خیال آیا کہ بزرگ کا عنایت کیا ہوا لباس واقعی کراماتی ہے ورنہ سانپوں، بچھوؤں اور حشرات الارض سے مقابلہ کوئی آسان بات نہیں تھی۔

شہزادے کی آنکھوں کے سامنے وہ وادی تھی جس وادی میں ایک بلند پہار صاف نظر آرہا تھا۔ اسی پہاڑ کے دامن میں وہ غار تھا جہاں تک اسے پہنچنا تھا۔ گوکہ ابھی اس غار کا دہانہ تو دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن اب شہزادے کو یقین ہو چلا تھا کہ وہ اپنی مہم میں لازماً کامیاب ہو جائے گا۔ وادی کے قریب ایک چھوٹی پہاڑی کی بلندی پر اسے ایک غار کا دہانہ صاف نظر آرہا تھا اور اس نے پرندے کو اسی جانب جاتے ہوئے دیکھ بھی لیا تھا اس لئے شہزادہ سمجھ گیا کہ آج سارا دن اور اگلی پوری رات شاید یہی قیام کرنا ہے۔ شہزادے نے سوچا کہ پہاڑی کی بلندی سے وادی کا اور بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے اس لئے اچھا ہی ہے کہ اپنے اہم ترین مقصد کے حصول سے پہلے پہلے خوب آرام کر لیا جائے۔

غار اندر سے کافی کشادہ تھا اور گھٹن کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا تھا۔ پرندہ اور شہزادہ غار میں داخل ہوئے اور اپنا رخت سفر ایک جانب رکھ کر آرام کرنے لگے۔

اللہ جانے تھکن کا اثر تھا یا منزل کے بہت قریب پہنچ جانے کی خوشی، شہزادے نے کمر سیدھی ہی کی تھی کہ اسے گہری نیند نے آلیا۔ اچانک وادی میں ایک عجیب سی ہلچل شروع ہو گئی۔ ہر جانب سے عجیب قسم کی خوفناک آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ پرندے نے دیکھا کہ شہزادہ بے خبر سو رہا ہے تو اسے بہت تشویش ہوئی۔ وہ باہر کا جائزہ لینے غار سے باہر آیا تو ہر جانب بڑی چہل پہل لگی ہوئی تھی اور عجیب عجیب مخلوق کسی خاص تیاری میں لگی ہوئی تھی۔ اس نے سوچا کہیں جادو گر کی آمد آمد تو نہیں۔ وہ گھبرا کر غار میں داخل ہوا تو دیکھا شہزادہ اسی طرح گہری نیند میں ہے۔ اس نے شہزادے کو جگانے کیلئے اپنی مخصوص آواز نکالی چونچیں ماریں لیکن شہزادہ شاید بہت ہی گہری نیند میں چلا گیا تھا۔ ابھی وہ پریشانی کے عالم میں کبھی غار اور کبھی باہر کے چکر لگا رہا تھا کہ ایک زوردار کڑاکا ہوا اور بجلی کی تیز چمک دکھائی دی۔ آسمانی بجلی کی تیز چمک اور کڑاکے کی آواز سے شہزادے کی آنکھ کھل گئی۔ شہزادے نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور کود کر غار سے باہر نکلا تو دیکھا کہ وادی میں ایک عجیب سی ہلہچل مچی ہوئی ہے۔ آسمان کی جانب دیکھا تو دور دور تک بادل کا ایک ٹکڑا تک دکھائی نہیں دیا تو پھر یہ بجلی کی چمک اور زوردار کڑا کا کیسا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جادو گر کی آمد آمد ہو۔ گویا اب وقت بالکل بھی نہیں تھا اس لئے کہ اگر جادو گر آگیا تو نہ تو وہ اس غار کے قریب پہنچ سکے گا اور نہ ہی اس انڈے کو توڑ سکے گا جس میں جادو گر کی جان ہے۔ بس پھر کیا تھا، شہزادے نے کوئی انتظار کئے بغیر بہت تیزی کے ساتھ وادی میں داخل ہوتے ہی غار کی جانب دوڑنا شروع کردیا۔ جس طرح بزرگ نے بتایا تھا کہ تمہیں بہت خوفناک آوازیں بھی آئیں گی اور بظاہر ٹھوس جسم رکھنے والی ڈراؤنی مخلوق تمہارے اوپر حملہ آور بھی ہوگی بالکل اسی طرح ہی ہوا۔ انسانی فطرت میں ڈر اور خوف تو ہوتا ہی ہے۔ شدید ڈراؤنی آوازوں سے اور عجیب و غریب مخلوق کو حملہ کرتے دیکھ کر ایک مرتبہ تو شہزادہ لرز کے رہ گیا لیکن اب یا تو مر جانا تھا یا جس کام کیلئے یہاں تک کا سفر کرکیا تھا وہ کام کر گزرنا تھا۔ یہ خیال آتے ہی اسے اپنے والد محترم اور اماں حضور کی دعائیں دینا یاد آیا، بزرگ کی عطا کردہ کلمات مقدسہ دل و دماغ میں گونجنے لگے اور وہ ان کلمات کو ادا کرتا کرتا، خوفناک مخلوقات کا مقابلہ کرتا آگے سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ یہ ساری ہلچل اور چہل پہل جادو گر کے آنے کی وجہ سے ہی مچی ہوئی ہے اور چند ہی منٹوں میں وہ یہاں پہنچنے والا ہے۔ وہ آندھی طوفان کی طرح دوڑتا ہوا غار کے دہانے تک پہنچ ہی گیا۔ ابھی وہ غار میں داخل ہی ہوا تھا کہ وادی لرزنا شروع ہو گئی۔ اور اس نے دیکھا کہ باہر کھڑی مخلوق سجدہ ریز ہونے لگی۔ اس کا مطلب تھا کہ جادوگر اب چند سیکنڈ کے اندر ہی اندر وادی میں داخل ہونے والا ہے۔ یہ جان کر شہزادہ چیتے کی طرح اس بکس کی جانب دوڑا جو اسے ایک کونے میں رکھا ہوا نظر آرہا تھا۔ جیسے ہی اس نے بکس کھول کر اس میں سے انڈا نکالا اسی وقت تمام وادی سے جادوگر کے کو خوش آمدید کہنے کی صدائیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ اب شہزادے کے پاس کسی بھی سوچ بچار کا وقت نہیں تھا۔ اس نے انڈے کو پوری قوت کے ساتھ زمین پر دے مارا۔ اِدھر انڈا زمین پر ٹوٹ کر گرا ادھر پوری وادی میں جیسے زلزلہ سا آگیا۔ پورا غار پتے کی طرح کانپنا شروع ہو گیا اور وادی چیخوں کی آواز سے گونج اٹھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے سیکڑوں گائے بھینسوں کے گلے ایک ساتھ کاٹے جا رہے ہوں۔ شہزادہ غار کے ایک کونے میں کانوں میں انگلیاں ڈال کر بیٹھا رہا۔ آدھے گھنٹے تک ایسا ہی ماحول رہا لیکن اس کے فوراً بعد ایسا لگا جیسے سارا ماحول روشن ہو گیا ہو۔ جب وہ جادوگر کی وادی میں داخل ہوا تھا تو ہر جانب ایک عجیب سی وحشت چھائی ہوئی تھی اور فضا دھندلائی ہوئی سی تھی لیکن اب لگا جیسے موحول روشن ہو گیا ہو۔ رات کا نصف پہر ہونے کے باوجود پوری وادی روشنی میں نہائی ہوئی سی لگتی تھی۔ فضا میں چھائی ہوئی دھند چھٹ چکی تھی، اور ہر قسم کی چیخ و پکار بند ہو چکی تھی۔ پوری وادی میں چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔ آج پورا چاند تھا اور وہ آسمان کا آدھا سفر مکمل کر چکا تھا۔ شہزادہ غار سے باہر آیا تو دھانے کے بالکل قریب ہی سامری جادو گر درخت کے تنے کی طرح ذبح ہوا پڑا تھا اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر چکا تھا۔ وہ ساری عجیب و خلقت مخلوق جو بظاہر ٹھوس جسموں میں اس سے آ آ کے ٹکرارہی تھی اس کا دور دور تک کہیں نام و نشان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ فضا میں یا تو چکوروں اور الوؤں کی آوازیں گونج رہی تھیں یا چھینگروں کی مخصوص آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ اچانک کچھ فاصلے پر اسے کچھ انسانوں کی آوازیں بھی سنائی دیں۔ شہزادہ حیران تھا کہ اس وادی میں انسانوں کا کیا کام۔ اچانک اسے بزرگ کی یہ بات یاد آئی کہ شہزادی کی خاطر کچھ بہادر نوجوان بھی جادو گر کو مارنے کے ارادے سے اس وادی میں داخل ہوئے تھے لیکن سامری جادو گر نے ان سب کو پتھر کا بنادیا تھا۔ جیسے ہی اسے بزرگ کی بات یاد آئی وہ تیزی کے ساتھ آوازوں کی سمت لپکا۔ نو جوان اس تبدیلی پر حیران تھے اور اپنے دوبارہ انسان بن جانے کا راز جاننا چاہتے تھے۔ جب انھوں نے اپنے ہی جیسے ایک خوبصورت نو جوان کو دیکھا تو وہ حیران تو ہوئے لیکن پریشان بھی ہو گئے۔ وہ سمجھے کہ اب سامری جادوگر ان کے ساتھ کوئی نیا کھیل کھیلنا چاہتا ہے لیکن شہزادے نے ان کے قریب جاکر جب ان سب کو سلام کیا تو ان کی جان میں جان آئی کیونکہ سلام کرنے والا کوئی برا آدمی ہو ہی نہیں سکتا۔ شہزادے نے سلام کرنے کے بعد ان کو ساری کہانی سنائی اور بتایا کہ وہ سامری جادو گر کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ وہ سب کے سب یہ سن کر سجدے میں گر گئے اور اللہ کا شکر ادا کرنے لگے۔

اِدھر نیک دل بادشاہ اپنی بیٹی کیلئے تو پریشان تھا ہی، اب شہزادے کیلئے بھی فکر مند رہتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ سامری جادوگر بہت ہی طاقتور ہے اور اپنے پاس بہت سارے جادوئی حربے رکھتا ہے۔ اس کو مارنا کوئی آسان کام نہیں۔ میری بیٹی کی خاطر اس نے بہت بڑا قدم اٹھانے کا جو فیصلہ کیا ہے، معلوم نہیں اسے اس میں کامیابی ہوسکے یا نہ ہو سکے۔ اللہ اس کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ شہزادے کو سامری جادو گر کی تلاش میں نکلے کافی عرصہ گزرچکا تھا اور اب تک کسی کو بھی اس کی خیر خیریت معلوم نہیں ہو سکی تھی۔ شہزادی کی نیند تھی کے ٹوٹنے میں نہیں آرہی تھی۔ وہ اپنی خوابگاہ میں سوتی رہتی تھی۔ اس کی اس کیفیت کی وجہ سے اس کی اپنی حالت تو بری تھی ہی، اس کی ماں (ملکہ عالیہ) کا بھی رو رو کے برا حال ہوا جارہا تھا۔ بادشاہ نے سوچا کہ کیوں نہ میں آج اپنی بیٹی کو باغ ہی میں لے آؤں۔ اس طرح اسے کچھ تو تازہ ہوا ملے گی اور ملکہ عالیہ بھی اس بہانے باغ کی تازہ ہوا کھا لیں گی۔ چنانچہ اس نے کنیزوں کی مدد سے پھولوں کی ایک سیج باغ میں سجوائی اور پھر کنیزوں کو حکم دیا کہ وہ میری شہزادی اور ملکہ عالیہ کو باغ ہی میں لے آئیں۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور شہزادی کو باغ میں بنی پھولوں کی سیج پر لاکر لٹا دیا گیا۔ نیک دل بادشاہ اور ملکہ عالیہ باغ ہی میں بیٹھے اپنی بیٹی کو بڑے رنج و غم سے دیکھے جارہے تھے کہ اچانک انھوں نے کیا دیکھا کہ شہزادی کی ناک سے تین رنگین لکیریں نکل کر ہوا میں تحلیل ہو گئیں یہ لکیریں بالکل اسی رنگ کی تھیں جو انھوں نے آج سے کئی ماہ پہلے شہزادی کی ناک میں داخل ہوتے دیکھیں تھیں اور جن کے داخل ہونے کے بعد شہزادی گہری نیند میں چلی گئی تھی۔ ابھی وہ ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھ ہی رہے تھے کہ انھوں نے دیکھا کہ شہزادی نے ایک کروٹ بدلی اور اپنی سیج پر بیٹھ گئی۔ شہزادی کی پیٹھ ان کی جانب تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے ابا اور اماں حضور کو فوراً نہ دیکھ سکی۔ اِدھر باد شاہ اور ملکہ کا خوشی کے عالم میں یہ حال تھا کہ منھ سے کوئی آواز ہی نہیں نکل پارہی تھی۔ نیک دل بادشاہ اور ملکہ عالیہ نے دیکھا کہ شہزادی بڑی حیرت سے پھولوں سے سجی سیج کو دیکھ رہی ہے۔ پھر وہ مڑی اور اپنے ابا حضور اور اماں حضور کی جانب متوجہ ہوئی اور دوڑتی ہوئی ان سے لپٹ گئی۔ دونوں کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ خوشی سے قہقہے لگائیں یا خوب زور زور سے روئیں۔ شہزادی ان سے لپٹ کر کہنے لگی کہ میں تو آپ کی گود میں سوئی تھی لیکن پھولوں کی یہ سیج میرے لیئے کس نے سجائی۔ اس بات سے ظاہر ہورہا تھا کہ شہزادی کو اپنے سونے سے لیکر ابھی ابھی جاگ جانے تک کے وقت کا کچھ اندازہ ہی نہیں تھا۔ اپنے والدین کو خوشی سے روتا دیکھ کر وہ بہت ہی حیران ہوئی اور اس طرح بچوں کی طرح بلکتے دیکھ کر اس نے رونے کی وجہ پوچھی۔ جب اپنی والدہ اور والد حضور سے ساری تفصیل معلوم ہوئی تو اسے بہت ہی حیرت ہوئی اور وہ گہری سوچ میں چلی گئی۔ والدین نے اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے شہزادی سے پوچھا کہ وہ اتنی گہری سوچ میں کیوں ہے تو شہزادی کہنے لگی کہ بات بہت عجیب سی ہے۔ آپ کی بات پر حیرت کروں یا اپنے جگائے جانے پر۔ نیک دل بادشاہ اور ملکہ عالیہ نے کہا کہ بیٹی تمہاری بات سمجھ میں نہیں آئی کہ تم کہنا کیا چاہتی ہو۔ شہزادی کہنے لگی کہ مجھے ابھی تھوڑی دیر پہلے ہمارے پڑوسی ملک کے ایک شہزادے نے آکر جگایا تھا اور وہ کہہ رہا تھا کہ اٹھو اب تم سامری جادو گر کی قید سے آزاد ہو چکی ہو۔ میں نے تو آج تک پڑوسی ملک کے بادشاہ کے بیٹے کو دیکھا بھی نہیں تو مجھے وہ پڑوسی ملک کا شہزادہ کیوں لگا۔ شہزادی کی بات سن کر اور شہزادی کے جاگ جانے پر ان کو یقین ہو گیا تھا کہ شہزادہ لازماً اپنے ارادوں میں کامیاب ہو گیا ہے۔ واقعی جو نیک کام کے ارادے سے نکلتے ہیں اللہ ان کی لازماً مدد کرتا ہے۔

پورے ملک میں جشن کا سماں تھا اور ملک کے عوام شہزادی کی صحتیابی کی خوشی میں جشن منارہے تھے۔ اِدھر نیک دل بادشاہ کے ملک میں شہزادی کے بیدار ہوجانے پر جشن منایا جارہا تھا اور ادھر پڑوسی ملک میں سامری جادو گر کی ہلاکت اور شہزادے کی کامیابی کی خوشیاں منائی جارہی تھیں۔

ایک دن نیک دل بادشاہ کی ملکہ عالیہ کہنے لگیں کہ بیشک لڑکیوں کیلئے کوئی آکر رشتہ مانگا کرتا ہے لیکن میں سوچ رہی ہوں کہ جس ملک کے شہزادے نے میری بیٹی کی زندگی کی خاطر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر سامری جادوگر جیسے مضبوط اور طاقتور جادوگر کو ہلاک کیا ہے کیوں نہ ہم خود اس کو اپنا بیٹا بنانے کی درخواست کریں۔ نیک دل بادشاہ نے کہا کہ ملکہ عالیہ آپ نے تو ہمارے دل کی بات کہہ دی۔ کیوں نہ کل سورج نکلتے ہی ہم اور تم دونوں اپنے پڑوسی ملک کے بادشاہ کے پاس جاکر اپنی بیٹی کیلئے اس کا بیٹا مانگنے چلیں۔

ابھی سورج افق کا محل چھوڑ کر شفق کے گلستان میں آیا بھی نہیں تھا کہ نیک دل باد شاہ کے کانوں میں خوش آمدید خوش آمدید کی آوازیں گونجنے لگیں۔ ان آوازوں کا مطلب ابھی وہ پوری طرح سمجھ بھی نہیں پایا تھا کہ کئی درباریوں نے بھاگتے ہوئے آکر بتایا کہ ہمارے پڑوسی ملک کے بادشاہ ہمارے ملک کی سرحدوں میں داخل ہو چکے ہیں اور کچھ ہی دیر میں آپ کے پاس پہنچنے والے ہیں۔ نیک دل بادشاہ یہ سن کر حیران ہوا اور فوراً ہی اعلان کیا کہ آنے والے بادشاہ اور ملکہ عالیہ کا شایان شان استقبال کیا جائے۔

پڑوسی ملک کا بادشاہ بہت تپاک کے ساتھ ملا اور عرض کی کہ ہم آپ کے پاس ایک گزارش لیکر آئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی بیٹی کو ہم اپنی بیٹی بنالیں۔ بس پھر کیا تھا، دونوں ممالک میں جشن منایا جانے لگا اور اتنی دھوم دھام سے شادی ہوئی

Visited 52 times, 1 visit(s) today
Last modified: April 7, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!