بدقسمتی سے یہاں ہوں میں
نہ تم ہوں نہ تم سا ہوں میں
دل پھوٹ کے روتا ہے مگر آنسو نہیں نکلتے
کیا خون جگر بتا باقی کتنا رہ گیا ہوں میں
سنبھلتا نہیں کہ دل اک بار پھر سے
ضرب کلب لگا کر کہتا ہے دشمن ہوں میں
رنجشیں مٹا دیتا ہوں سبھی مگر
رنجشوں سے مگر بچتا نہیں ہوں میں
میں ڈھونڈتا رہتا ہوں اس کو سبھی لوگوں میں
وہ جو کہتا ہے کہ شاہرگ سے بھی قریب ہوں میں
گفتگو کے لیے کانچ کا ٹکڑا بھی میسر نہیں
وقت بتاتا ہے کہ آئینے کے پار ہو ں میں
سمیٹ ڈالوں گا اک روز سبھی کرچیاں اپنیں
تم جو کہتے تھے کہ ٹوٹ کے بکھرتا نہیں ہوں میں
آج میں بات ہجر کی نہیں کروں گا
یہ میں ہوں میرا سایہ نہیں ہوں میں
خشک دریا پر آکر بلند ی سے پکارا
اگر یہ دنیا ہے تو سائل ہوں میں
تم سمجھے ہی نہیں مجھ کو یہ خطا ہے تمہاری
ہزار ہا پکارا تھا کہ گھائل ہوں میں
جیسے کوٹھے پہ بیٹھی رقص کرتی ہوئی دیوی
جھنکار یہ پکارے دشت بھری پائل ہوں میں
میں کس کو سناؤں گا اب لفظوں کی کہانی
لوگ تو کہتے ہیں کہ پاگل ہوں میں
چھوڑ جاؤں گا اک روز اس دنیا کو بھی سبھی کی طرح
لوگ پکاریں گے کہ منیب ہے! میں کہوں گا کہ نہیں ہوں میں
عبدالمنیب