بدگمانی کھا رہی ہے مجھے دھیرے دھیرے
ایک شام سہانی جا رہی ہے دھیرے دھیرے
چہرے پہ سلوٹیں میری سنجیدگی کی نشانی ہیں
یہ جوانی جا رہی ہے دھیرے دھیرے
مستقبل سمجھتا تھا اپنا تمہیں پھر حال پر آگئی
بات اب ماضی پر جارہی ہے دھیرے دھیرے
سنبھال کر رکھنا ساری عداوتیں اپنی
بات دوستی کی طرف آ رہی ہے دھیرے دھیرے
مجھ پر جو الزام تھے بغاوت کے سبھی رد ہو گئے
بات میری رہائی پر آرہی ہے دھیرے دھیرے
لوٹے مسافروں سے حال نہیں پوچھتے کبھی
بات رسوائی پر آرہی ہے دھیرے دھیرے
ایک پیوند لگا کلب پر اور رفو ہو گیا
بات سچائی پر آرہی ہے دھیرے دھیرے
مرضی کا مطلب سمجھتے ہیں لوگ میرے لفظوں کو
منیب بات پھر مطلب پر آرہی ہے دھیرے دھیرے
عبدالمنیب
Visited 4 times, 1 visit(s) today
Last modified: June 6, 2024