Written by 3:09 pm عمومی کہانیاں, ناولز

بنت حوا

انابیہ خان

“میں کہاں سے لاوّں اور پیسے ، جو بھی تھے آپ کے حوالے کر دیے ہیں ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ عاجزی سے بولی تھی ۔۔۔
“مجھے کچھ نہیں سننا مجھے 80 ہزار ہر صورت چاہیے کیونکہ مجھے موٹر سائیکل لینی ہے” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کرختگی سے بول کر اس کا پرس چیک کرنے لگا تھا ۔۔۔۔
“آج پانچ تاریخ تھی ، تو یکم کو تمہیں تمھاری تنخواہ ملی ہو گی کس یار پر لوٹائے ہیں اتنے پیسے ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے اپنی بیوی کو تھپڑ مارتے ہوئے پوچھا ؟؟
“پچھلی بار تمہیں دکان پر لوس ہوا تھا ، میں نے اپنی کولیگ سے پیسے ادھار لے کر تمہیں دیے تھے ، تو اس بار اس کولیگ کو بھی تو وہی پیسے لوٹانے تھے ، میں نے کچھ پیسے اسے دیے ہیں کچھ بجلی کا بل بھرا ہے ، اور کچھ کا مہینے کا راشن لیا ہے ، تو سب مل ملا کے میری تنخواہ پوری ہو گئی ہے ، تو میں اور کہاں سے لاوّں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے روتے ہوئے بولی تھی ۔
“مجھے اور کچھ نہیں سننا مجھے ہر حال میں کل تک 80 ہزار روہے چاہیں تو بس چاہیں ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے سر اٹھا کر اس جابر کو دیکھا جو اپنی ڈیمانڈ بتاتے ہوئے اسے ذہنی اذیت میں ڈال کر گھر سے باہر چلا گیا تھا


“بیٹی کیا بات ہے میں کافی دیر سے دیکھ رہی ہوں تم کچھ پریشان ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جب سے ماں کے گھر ان سے ملنے آئی تھی تب سے کھوئی کھوئی سی تھی ، اور ماں تب سے اپنی بیٹی کو کڑھتے ہوئے دیکھ رہی تھی ، وہ ماں تھی ناں ، سمجھ تو چکی تھی کہ اس کی لاڈلی کچھ پریشان ہے ، اسے کیا پریشانی تھی ماں کو یہ پریشانی کھائے جا رہی تھی ۔
“کچھ نہیں مما “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مصنوعی ہنسی ہونٹوں پر سجائے ہوئے بولی تھی ، اس کی آنکھوں میں چھپا کرب ماں بخوبی جان چکی تھی
” اب میری بیٹی اتنی بڑی ہو گئی ہے ، وہ اپنی ماں سے اپنے دکھ درد اور غم چھپانے لگی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں نے اس کے بال کانوں کے پیچھے اڑاستے ہوئے شکوہ کیا
وہ ماں کی محبت پاتے ہی ایک نئے سرے سے بکھر گئی تھی
” ماں اس نے ہولے سے پکارا “۔۔۔۔۔۔
“جی ماں کی جان “۔۔۔۔۔۔
ماں نے اس کے قریب آ کر بڑے پیار سے کہا ۔۔۔۔
“میں بہت تھک گئی ہوں ، اس زندگی سے اور اس زندگی سے جڑے ہر ایک رشتے سے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کرب کی آخری حد پر تھی تب ہی تھکے تھکے لہجے میں بولی ۔
“کیا بات ہے میری جان تم اب سے تھکنے لگی ہو یہ زندگی تو چٹان کی مانند سخت ہے تم اب سے تھکنے لگی تو آگے تیرا کیا ہو گا “۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔ ماں نے اسے گلے سے لگا کر ماتھے پر شفقت بھرا بھوسہ دیتے ہوئے پوچھا ؟
“ماں میری شادی کو دس سال ہو گئے ہیں ، اور مجھے جاب کرتے پندرہ سال “۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہا ۔
ماں اس کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اسے دیکھنے لگی جو آنکھیں میچے جانے کس اذیت سے دو چار تھی ۔۔۔۔
“تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے میری جان تم کچھ بتاتی کیوں نہیں ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں کا دل ڈوب رہا تھا اپنی نازوں پلی بیٹی کو اس حال میں دیکھ کر
“ماں آخر کب تک یہ حوا کی بیٹی یوں ہی خوار ہوتی رہے گی آدم کے بیٹے کے پیچھے “۔۔۔۔۔۔ اس نے ٹھنڈی سانس خارج کرتے ہوئے کہا ۔
“کیا ہوا ہے تم بتاو گی تو ہی کچھ اس بات کا حل نکلا جائے گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ماں میں یہ جاب چھوڑنا چاہتی ہوں “۔۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھِیں پانی سے بھر گئیں ۔
“تو گزارا کیسے ہو گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں نے فکرمندی سے پوچھا ؟
“ماں مجھے آپ سے مشورہ چاہیے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیسا مشورہ میری جان “۔۔۔۔۔۔۔۔
“جاب چھوڑوں ، یا احمد کو ، کیونکہ اب میں تھک چکی ہوں اس کی فرمائشیں پوری کرتے کرتے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ روتے ہوئے بولی ۔
“تم پاگل تو نہیں ہو گئی ہو ، جو ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو ، اور نا ہی تم اس دنیا کی واحد لڑکی ہو ، جس کے ساتھ یہ سب ہوا ہے ، تم نے نجمہ کی بہن کو نہیں دیکھا ، سارے جاب کے پیسے اپنے نکمے شوہر کے حوالے کرتی ہے ، اس کا شوہر جوا کھیل کر سارے ہیسے اڑا دیتا ہے ، ایک ایک پائی کا محتاج بنا دیا اس نے اس بے چاری کو ، اس سب کے باوجود وہ اپنے شوہر کے پاس پڑی ہے ، اس کی پوری فیملی کے تانے الگ سنتی ہے ، مار الگ کھاتی ہے ، اس نے تو کبھی ایسی بات نہیں کیں ، تمہیں کوئی مار نہیں ہے ، تانے نہیں ہیں ، پھر بھی اسے چھوڑنے کی باتیں کر رہی ہو ، طلاق شدہ عورت کتنی اذیت سے میں ہوتی ہے ، تمہیں کیا پتہ ، اور اس بارے میں کبھی سوچنا بھی مت ، اگر تم جاب چھوڑو گی تو کیسے گزارا کرو گی ، ہم بھی اتنے امیر نہیں کہ تمہاری مدد کر سکیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ غصے سے بولتے ہوئے کمرے سے باہر چل پڑی
وہ افسردگی سے انہیں جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی
” میرے دل سے تو کوئی پوچھتا ہی نہیں کہ تم کس اذیت میں ہو ، کیا یہ کام آدم کے بیٹے کا نہیں ہے ، اللہ نے تو نان نفقہ مرد کے ذمے لگایا ہے ، تو کوئی ان مردوں سے کیوں نہیں پوچھتا ، کیوں یہ حوا کی بیٹیوں پر ظلم و ستم کرتے نہیں تھکتے ، کیوں یہ جاب کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ، جب یہ نان نفقہ نہیں اٹھا سکتے تو شادی کیوں کرتے ہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب تک حوا کی بیٹی کوئی قدم نہیں اٹھائے گی ، تب تک وہ یوں ہی آدم کے بیٹے کے ہاتھوں خوار ہوتی رہے گی ۔ ذلیل ہوتی رہے گی
ختم شد

Visited 3 times, 1 visit(s) today
Last modified: February 10, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!