Written by 6:36 pm International, شاعری

ترکِ محبت

بھلے ہی جسم کو زخموں سے بھر دیا جائے
ارادہ ترکِ محبت کا کیوں کیا جائے

شریکِ جرم نہیں ہوں مگر یہ ڈر ہے مجھے
کہ ہمنوائی میں مجھ کو نہ دھر لیا جائے

کہا تھا کس نے کہ دیجے جنوں کا درس مجھے
ہُوا ہوں چاک گریباں تو اب سیا جائے

پیالہ ہاتھ میں لینا ہی مے گساری ہے
بھلے ہی اُس سے نہ اک گھونٹ بھی پیا جائے

جہاں پہ آ کے سبھی رہ تمام ہوتے ہیں
سفر شروع وہیں سے نہ کیوں کیا جائے

جو وجہِ زیست تھی وہ اب تو جا چکی وانی
تو کس کے رحم و عنایت پہ اب جیا جائے

بھلے ہی جسم کو زخموں سے بھر دیا جائے
ارادہ ترکِ محبت کا کیوں کیا جائے

شریکِ جرم نہیں ہوں مگر یہ ڈر ہے مجھے
کہ ہمنوائی میں مجھ کو نہ دھر لیا جائے

کہا تھا کس نے کہ دیجے جنوں کا درس مجھے
ہُوا ہوں چاک گریباں تو اب سیا جائے

پیالہ ہاتھ میں لینا ہی مے گساری ہے
بھلے ہی اُس سے نہ اک گھونٹ بھی پیا جائے

جہاں پہ آ کے سبھی رہ تمام ہوتے ہیں
سفر شروع وہیں سے نہ کیوں کیا جائے

جو وجہِ زیست تھی وہ اب تو جا چکی وانی
تو کس کے رحم و عنایت پہ اب جیا جائے

Visited 13 times, 1 visit(s) today
Last modified: October 11, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!