وہ عشاق کے قبیلے کا سلطان
جس کی پاکیزہ محبت سطح افق پر نور سے کنداں تھی
وہ اپنے جذبات کا دیپ لہو سے روشن کرتا رہا
سفید کاغذ پر خوشبو سے محبت نامے لکھنا اعزاز سمجھتا رہا
پھر اک روز
قیامت بپا ہو گئی
مجھ سے ملا
کہنے لگا
اے دانشور ! ایک سچ لکھو
میں نے قلم کو جنبش دی۔۔
جسم کے آبی طبلوں پر
نسائی انگ کے لمس کی لذت
اور
چھو لینے کے آلاپ میں ایک رجل ہی سرور نہیں پاتا
بلکہ
وہ جس کی پرستش کرتا ہے
وہ خدائے محبت تو کسی اور کے انگ سے انگ ملا کر لطف اندوز ہو رہی ہے
عشقیہ راگ میں یہ بدلاؤ
نسائی عظمت کی توہین ہے
مگر
اب یہ چلن عام ہے
مرد و زن تو چند سکوں کی حرص میں مبتلا ہو کر
ایک پر اکتفا نہیں کرتے
یہی تضاد ان کے گلوں میں ذلت و رسوائی کا طوق ڈال دیتا ہے
لیکن
سمجھتے سمجھتے بہت دیر ہو جاتی ہے
بہت دیر ہو جاتی ہے
خالددانش