Written by 9:41 am عمومی کہانیاں, ناولز

حسینہ بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لیے

انابیہ خان

“ناچوں میں آج چھم چھم چھم
کہ ناچوں میں آج چھم چھم چھم ۔۔۔
اوپر چھت پر فل والیم ڈیک چل رہا تھا ، جس پر حسینہ اپنے موٹے جسم کو نچا کم ہلا زیادہ رہی تھی ۔۔
“ابے موٹی جس دھرتی پر کھڑی تو ناچ رہی ہے ناں ، وہ بے چاری توبہ توبہ کر رہی ہو گی ، اور وہ تجھے جھولی بھر بھر کے بددعائیں دے رہی ہو گی ، کچھ تو خدا کا خوف کر لے ، کیوں کسی کی اتنی بددعا لے رہی ہے ، مت لے دھرتی ماں کی بددعا ، نہیں تو اس بھری جوانی میں ہی اس دھرتی ماں سے کوچ کر جائے گی تو “۔۔۔۔۔۔۔۔
دلکش جو کہ ان کا دیوار شریک ہمسایہ تھا ، اس کی اور حسینہ کی آپس میں کبھی نہیں بنی تھی ، وہ اپنی مشترکہ اکلوتی دیوار پر بیٹھا اپنے بڑے بڑے دانت نکالے اسے ناچتے ہوئے دیکھ رہا تھا ، پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا
“ویسے آپس کی بات ہے تمہاری جوانی ہے کہاں ، مجھے تو کہیں سے بھی نظر نہیں آ رہی ، کمبخت تیرے اس موٹاپے نے تجھ سے تیری جوانی ہی چھین لی ہے ، بائیس کی ہوتے ہوئے پچاس کے لگ بھگ کی تو نظر آتی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔
“دلکش مجھے تنگ مت کرو ، چلے جاوّ یہاں سے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک پل کے لیے رک کر اسے دیکھتے ہوئے غصییلے لہجے میں بولی ۔
“ابے موٹی اگر میں نہ گیا ، تو تو کیا کر لے گی ، بھاگ تو ویسے تو سکتی نہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بڑے بڑے دانت نکالتے ہوئے پوچھا ۔ ؟
” مجھے مت غصہ دلایا کر ، مجھے ایسا لگ رہا ہے ، یہ جو تیرے بڑے اور پیلے دانت ہیں ناں ایک دن مجھ سے ہی ٹوٹیں گئے ، اور یہ جو تمہاری چند گنی چنی ہڈیاں اور پسلیاں ہیں ناں وہ بھی میرے ہی ہاتھوں ضائع ہوں گی ، تو لکھ لے آج میری اس بات کو ، ہزار بار کہا ہے ، میرے سامنے ان لمبے اور پیلے دانتوں کو مت نکلا کرو ، زاہر لگتے ہو مجھے اپنے پیلے دانتوں کی یر وقت نمائش کرتے ہوئے “۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شعلہ بار نظروں سے اسے دیکھ کر اس کے پتلے پن پر چوٹ مارتے ہوئے بولی ۔
وہ تھا بھی تو بے حد سوکھا پتلا سڑیل سا ایک نوجوان ، بالکل ایک سوکھی لکڑی کی طرح ، جو دھوپ پر ڈالنے کی وجہ سے مزید سوکھ جاتی ہے کمزوری کی وجہ سے اس کے دانت باہر کو نکلے ہوئے تھے
“میں نے تو کبھی تم سے نہیں کہا ، کہ اپنا یہ موٹاپا مجھ سے کہیں چھپا لیا کرو ، میرے سامنے اپنے اس پستہ قد اور رات کی طرح سیاہ رنگت کے ساتھ نظر نہ آیا کرو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنی بے عزتی کا بدلہ لیتے ہوئے اپنے بڑے بڑے دانتوں کا ایک بار پھر سے مظاہرہ کراتے ہوئے کہا ۔
“نام دیکھو دلکش اور چہرہ دیکھو ؟ مجھے تو کہیں سے بھی دلکشی نظر نہیں آ رہی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے جل بھن کر کہا ۔
“ہاہاہاہا اور اپنا نام دیکھو حسینہ ، الله ہو اکبر ، ایسی ہوتی ہے موٹی حسینہ ، پستہ قد ، چارپائی کے پائے جتنا ، موٹاپا وہ بھی بھنیسوں جتنا ،
اور رنگت چیری بلاسم جیسی ، اگر ایسی ہوتی ہے حسینہ تو اللہ مجھے موت دے ، دے پر تیرے جیسی حسینہ قیامت تک نہ دے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی بے عزتی کا ایک ایک بدلہ لے رہا تھا ۔۔۔
اس نے ڈیک کے والیم کی آواز کو آہستہ کیا پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔
“دلکش نام رکھ لینے سے ، کوئی دلکش بن نہیں جاتا ، ویسے حیرت ہوتی ہے مجھے تمہاری ماں اور باپ پر ، کیا سوچ کر انہوں نے تمہارا یہ نام رکھا ہوگا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی کسی سے کم نہیں تھی ٹکا کر جواب دیا ۔
“جو تمہارے ماں باپ نے سوچ کر رکھا ہوگا ، ح س ی ن ہ “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے تیزی سے اس کی بات کاجواب دیتے ہوئے اس کے نام کے ایک ایک لفظ کو الگ الگ کر کے اس کے سامنے اسکے نام کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
“اب تم یہاں سے جاتے ہو یا تیرے اماں ابا کو بلانا پڑے گا “۔۔۔۔۔۔۔ ؟ اس نے
بے زار ہوتے ہوئے اسے جانے کے لیے آخری حربہ استعمال کیا تھا ، پھر تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس سوکھے سڑیل انسان کو جانا پڑا ، وہ ایک دل جلانے والی مسکراہٹ اس پر اچھال کر نیچے اتر گیا ، وہ اپنے ماں باپ سے بہت ڈرتا تھا ، یہ بات حسینہ بھی اچھی طرح جانتی تھی ، اس لیے ہی تو اس نے آخری حربہ استمعال کیا تھا ۔۔۔

Visited 5 times, 1 visit(s) today
Last modified: February 10, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!