شگفتہ پھولوں سے حسیں،نور کی پاکیزہ کرن اور اک گل خنداں ہو تم۔۔
گلہائے عقیدت:
تمھاری گہری باحیا آنکھوں میں رب کائنات کا سچا نور دکھائی دیتا ہے جو اس امر پر دلیل ہے کہ۔۔
جب پاک دامن عورت اپنے رب واحد کے نور و تجلیات پر نظر رکھتی ہے تو اس کی باطنی کیفیت کا حسن اس کے چہرے پر چمک و کشش بن جاتا ہے جو ہمیں یہ کہنے پر آمادہ کرتا ہے کہ۔۔
سبحان اللہ دیکھئے اس پیکر شرم و حیا کو جو عورت کی عظمت کا نشاں ہے۔۔
تم مجسم خلوص ہو اور صدق و وفا کا استعارہ ہو،بناوٹ اور ظاہری نمود و نمائش سے مبرا بھی۔۔
قدرت کا اک شاہکار ہو جس کے سینے میں عجز ، انکسار ، مروت ، سادگی اور سچائی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تمھارے کردار کی زیبا کو چہار چند کرتا ہے یہی وجہ ہے۔۔
کہ تمھیں ہر طبقہ فکر و فن کے لوگوں میں وہ نیک نامی و معتبری حاصل ہے جو شاید فی زمانہ انگلیوں کے پاروں پر گنے جانے والے مرد و زن کو مقدر ہے۔۔
تمھاری خوبصورت عادات عین خوشبو کی مثل ہیں اور قطرہ شبنم کی طرح بھی کہ۔۔جو سبھی رنگین پھولوں اور پتوں پر گرتی ہے اور اپنی پاکیزگی سے انھیں خوشبودار اور معتبر کر دیتی ہے۔۔
تم صبح صادق کی وہی شبنم ہو۔۔پاکیزہ شبنم
یقین کر لو
یقین کر لو
خیراندیش
خالددانش۔
ہماری زندگیوں میں شکر کا عارضہ بڑا ہی محدود ہو گیا ہے اور ۔ہم صرف لفاظی طور پر شکر استعمال کرتے ہیں ۔کسی سے پوچھو اپ کیسے ہیں تو بڑی پرجوش انداز میں جواب دیتے ہیں شکر الحمدللہ ۔کسی سے پوچھو حالات کیسے ہیں تو کہتے ہیں کرم اللہ کا ۔لیکن شکر اور کرم کا عارضہ صرف الفاظ تک ہی محدود ہے ۔میں نے بہت پہلے اشفاق احمد کا ایک باپ پڑا تھا جس میں وہ کہتے تھے ہماری اماں ہمیشہ ہمیں شکر ادا کرنے کے لیے کہتی تھی اور ہم پوری روٹی ڈکار کر شکر کا کلمہ ادا کرتے تھے اور اماں کی جوتی ہوا میں اڑتی ہوئی اتی اور ٹھیک ٹکانے پہ بجتی اور اماں مزے سے کہتی شکر یہ نہیں ہوندا پوری روٹی ڈکار کے بہ جا شکر تو اہ ہوندا ہے ادی کھا تے ادی ونڈ ۔تو میرے سامنے بھی جب کوئی شکر بجا لاتا ہے تو میرے ذہن میں اشفاق احمد کی اماں کی اڑتی ہوئی جوتی ا جاتی ہے ۔ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں شکر کو الفاظ کی بجائے عملی جامہ پہنانا چاہیے ۔ہمارے گھروں میں بھی ایسے ہی ہوتا ہے اکثر صدقے خیرات اور امداد کے نام پر گھر کی پرانی اور بوسیدہ چیزیں کسی شہنشاہ کی طرح غریبوں کو دان کرتے ہیں ۔اور کسی مغلیہ شہنشاہ کی طرح شکر کا کلمہ بجا لاتے ہیں اور کہتے ہیں شکر اللہ پاک کا تو نے ہمیں دینے والا بنایا ۔اور اللہ نے ہمیں ایک کے بدلے دس دینے کا وعدہ کیا ہے ۔تو کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے گھر کی پرانی اور بوسیدہ چیزوں کے بدلے اللہ ایک کے بدلے دس کیسے دے گا وہ تو اللہ ہے کائنات کا خالق و مالک رازق اور انسان کی شہ رگ سے سب سے زیادہ قریب ہمارے دینی کی توفیق کو سے بڑھ کر کون جانتا ہے خیر جب بھی کوئی چیز ایک کے بدلے 10 کے لالچ میں دیا کریں تو ہمیشہ محسوس کیا کریں اللہ ہمارے بڑے ہی قریب ہے ۔انسان کبھی اپنی تخلیق پر غور کرے تو وہ یہ راز بڑے احسن طریقے سے جانتا ہے کہ جب وہ اس دنیا میں اتا ہے تو بھی خالی ہاتھ جب اس دنیا سے جاتا ہے تو بھی خالی ہاتھ لیکن انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود جو جاننا چاہتا ہے بس اتنا ہی جانتا ہے ۔کبھی محسوس کیجئے گا جب کسی چیز پہ ہاتھ رکے اور وہ چیز دینے کا دل نہ چاہے وہ دے دو تو دینے کی توفیق تب ہی حاصل ہوتی ہے ۔اس ساری گفتگو کے پیچھے صرف ایک چھوٹی سی کہانی تھی اج میری اماں کے پاس ایک خاتون ائی جو غربت اور حالات کی ستائی ہوئی تھی اور اس نے ہم سے ایک رضائی کی درخواست کی اماں نے ملکہ الزبت کی قبر کو لات مارتے ہوئے اسے رضائی دینے کا حکم صادر کیا ۔جب میں رضائی دینے ائی تو باقاعدہ چیک کرنے ائی کون سی رضائی دی ہے اور چیک کرنے کے باوجود بڑے مزے سے بولی خیر ہے یہی دے دو کسی کو دو تو اچھا ہی دو ۔ ہم سب کو بھی شکر اور کرم کو اشفاق احمد کی اماں کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے استعمال کرنا چاہیے ۔بس نام رہے صرف اللہ کا جو حاضر بھی ،اور نائب بھی۔