سوچتا ہوں کوئی خط تیرے نام لکھا جائے
تیرا نام میرے نام سے لکھا جائے
عشک تیرے بہیں اور آنکھ میری ہو
کوئی کام تیرا میرے کام سے لکھا جائے
تو تھک جائے دن بھر کی مسافت سے
تب ایک شام کو تیرے نام کیا جائے
موج در موج ملتی ہیں لہریں آپس میں
کسی روز طوفان کو نیلام کیا جائے
مجھ سے سمٹ ہی نہ پائیں خوشیاں میری
میرا دکھ اب میرے نام کیا جائے
میں وہ قیدی جسے کھا گیا غم رہائی کا
اب مجھے پر کہانی کا اختتام کیا جائے آئے
اب اسکا کبھی نام نہ لینا اے زمیں والو
مجھے بدنام بھی کسی اور نام سے کیا جائے
کئی یادوں کے کئی ڈھیر بسے ہیں مجھ میں
اب اس دل کو گودام کیا جائے
تیرا نام لے کر جگتا ہوں اے صبح سفر
مجھ کو رات میں تیرے خوابوں کا جام دیا جائے
میں وہ لمحہ جو نگل گیا کئی سال
اب مجھے جام زندگی تمام دیا جائے
عبدالمنیب
Visited 6 times, 1 visit(s) today
Last modified: July 1, 2024