دل بے قرار کو سکون ملنے لگا ہے
اب اذیت مندوں کا دل بہل جائے گا
اک بات سنی تھی یا خنجر اترا تھا دل میں
ہائے میرا دل اس تکلیف سے مر جائے گا
پہلے آدھے سر میں تکلیف رہتی تھی میرے
کیا اب درد بھی حصے میں آدھا رہ جائے گا؟
ہر دکھ سہہ لیتا ہوں ایسا سمجھتے ہیں لوگ
سنا ہے کل مجھ کو نیا دکھ پہنایا جائے گا
اس کی باتوں سے بے حد نفرت عیاں تھی مجھ پر
وہ شخص لفظوں کی قیمت ادا کرنے سے مکر جائے گا
معلوم ہے اسکو کو میں آئینے کے شہر میں رہتا ہوں
سنگ دل ہے صنم میرا پتھر مار جائے گا
کئی مسافتوں کے بعد پہنچا ہوں میں اس موڑ پر
یہی موڈ مجھے تیری ہر خطا بتائے گا
یہ کون سی مزل پر آکر رک گیا ہوں میں اخر منیب
یوں لگتا ہے تجھکو سوچوں تو ضمیر مر جائے گا
عبدالمنیب
Visited 4 times, 1 visit(s) today
Last modified: July 1, 2024