سحر شب تمناؤں کا ڈیرہ ہے
تم نے کیا کوئی پہاڑ ادھیڑا ہے
مزدور مرگئے تمہاری تعمیر میں
تم پر تو کسی آسیب کا پہرا ہے
میں ڈھل بھی جاؤں تو جلتا رہتا ہوں چراغ کی طرح
مجھ میں تیرے نام کا سویرا ہے
میں نکل گیا وقت سے بہت آگے
مقدر میرا اب بھی اس موڑ پر ٹھہرا ہے
بس رک جاؤ میری دہلیز پر چوکٹھ نا پار کرنا
اس در سے آگے میرے دشت کا اندھیر ہے
سب شامیں جمع تھیں ایک شام میرے گھر
اس شام کا تذکرہ میں نے شب میں بکھیرا ہے
عجب تقاضے تھے تیری گرفت چاہت میں میرے
یہ دنیا ساری تیری ہوجائے اک تو بس میرا ہے
سوچا یے اگر میں منظر پر آ بھی جاؤں تو کیا ہوگا
ابھی دنیا نے میرا جلوا ہی کہاں دیکھا ہے
ابھی بچھڑا نہیں ہوں ابھی بکھرا نہیں ہوں منیب
بس تھم گئیں ہیں یہ ہوائیں اور دل کش سویرا ہے
عبدالمنیب
Visited 2 times, 1 visit(s) today
Last modified: July 1, 2024