جولائی کی ایک یاداشت

مون سون کی بارشیں اور ساون کی آندھیاں اب کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جبکہ گاؤں میں بارش دور سے آتی نظر آیا کرتی تھی اور آندھیوں کا پتا قبل از وقت بادلوں کے موڈ سے چل جاتا تھا۔ اب شاید شہر بن گئے اور وہ موسم ہم سے روٹھ گئے۔

جو واقعہ آپ کو سنانے جا رہا ہوں وہ اسی موسم کا ہے اور بقول شخصے سچا اور سُچا واقعہ ہے۔

رات ــــ بہت بارش تھی، بادلوں نے پوری رات کڑک کڑک کر ماحول کو گرمائے رکھا۔ رات پچھلے پہر سرخ آندھی نے خوب مینہ برسایا۔ عموما سرخ آندھیاں دن میں ہی آتیں تھیں ـــ ظاہری بات ہے ــــ ہم جاگ رہے ہوتے تھے تو ہمیں یہی لگتا کہ یہ دن میں آتیں ہیں۔ لیکن اس رات سرخ آندھی نے بہت خوفزدہ کیا تھا ـــــ ویسے بادلوں کا شور اور تیز ہوائوں کی آوازیں ہمیں بھی رات ڈراتی رہی تھی ـــ سرخ آندھی کا ہمیں امی نے بتایا تھا۔

یہ سنہ 1984ء کا جولائی تھا۔

جب کبھی سرخ آندھی آتی ماں جی کہتیں کہیں بڑا ظلم ہوا ہے ـــ کہیں کوئی قتل ہوا ہے ــــ ہم دادی اماں کو ماں جی کہتے تھے۔ ایسا وہ اپنے تجربہ کی بنیاد پر کہتیں تھیں ـــ وہ بتاتیں کہ جس سال پاکستان بنا تھا اس سال بھی بہت سی سرخ آندھیاں آئیں تھیں۔

اس رات بھی سرخ آندھی آئی اور ہمارے گاؤں کے جنوبی میدان سے آنے والا پانی کا ریلا ہماری حویلی کے مغرب میں واقع برساتی نالے سے گزر کر شمالی جانب نشیب کی طرف گیا تھا۔ جہاں اب ایک چھوٹا بازار بن رہا تھا ـــ اس بازار کے ـــ مشرق کی طرف ایکسپریس وے تھی جہاں سے ایک بڑی گلی آتی اور اس بازار کے درمیان سے گزر کر رحیم ٹاؤن جاتی تھی۔ رحیم ٹاؤن ہمارے گاؤں شکریال کا پہلا قصبہ تھا ـــ اس بازار سے آگے شمال میں خلیل ستی کے کھیت تھے ــــ افغان مہاجروں نے یہاں ڈیرے ڈالے تھے ــ کچی جھونپڑیاں اور ترپال کے ٹینٹ ـــ ان سے اٹھتا کچی لکڑ کا دھواں ـــ عجیب ماحول بناتا تھا ـــ مہاجرین کی اس عارضی بستی نے گاؤں کو قصبہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ـــ بکریوں اور دنبوں کے ریوڑ لئے ـــ یہ افغان مہاجر ــ بڑی بڑی پگیں پہنے ـــ بچوں کو ڈرانے کا آسیب تھے۔

جنوبی میدان، جو ہمارے گاؤں سے قدراونچائی پر واقع تھا کبھی میلوں ٹھیلوں کا مسکن رہا تھا۔ یہ سرکار کی اراضی تھی ـــ پاکستان ایئر فورس کی ملکیت ـــ یہاں بھی ایک مہاجر کیمپ لگایا گیا تھا ـــ اس کے ساتھ 71 کی ـــ بنگلہ کالونی تھی ـــ جو اب بہاری کالونی کہلاتی ہے ـــ اس کے ساتھ کاسویوں کی ایک ڈھوک تھی ـــ شریف آباد۔

صبح ــــ شمالی افغان بستی کی جانب جانا ہوا ـــ میری عمر اس وقت بمشکل 5 سال ہو گی۔ گولی ٹافی کھانے کے لئے ہمارے پاس دو دوکانیں تھیں ـــ ایک حوالدار کی دوکان اور دوسری گلبدین افغان کی دوکان ـــ گلبدین افغان کی دوکان تک رسائی قدرے دشوار تھی ـــ درمیان میں ایک بڑا چھپڑ (تالاب) تھا جہاں ہماری بطخیں رہتی تھیں۔ اس چھپڑ کے دائیں جانب سے نکل کر ہم درزیوں کے گھر سے بائیں مڑتے تو ایک بڑا نالا کراس کر کے ہمیں افغان بستی کی اس دکان پر پہنچنا ہوتا تھا۔ یہ نالا اسی چھپڑ سے نکل کر آتا تھا جو ہم کراس کرتے۔

رات بارش بہت ہوئی ـــ سرخ آندھی آئی ـــ شمالی میدان ـــ اس میں واقع تالاب ـــ ہمارے گاوں کے چھپڑ ـــ اور اردگرد سے جو کباڑ تھا سب پانی کے ریلے میں بہہ کر آگے نکلا گیا ــ یہ پانی خلیل ستی کے کھیتوں سے نکل کر ایکسپریس وے کی پلی سے نکلتا دریائے کورنگ میں گر جاتا تھا۔

گاوں کے چپڑ کے بعد 200 گز دور نالے میں ـــ ایک بھری ہوئی بوری پھنس گئی تھی جس نے نالے کے پانی کو روک رکھا تھا، اس رکاوٹ نے گاؤں کا چھپڑ پانی سے بھر دیا تھا۔ اس بوری کو مولوی حبیب نالے کے کنارے کھڑا ڈنڈے سے ہلانے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ پانی نکلے ـــ چھپڑ کنارے اس کا گھر تھا اور ساتھ ہی مسجد ـــ شاید پانی رکنے کی وجہ سے اس کا گھر زیر آب تھا۔

اس کےگمان میں بھی نہ تھا کہ اس بوری میں کیا ہے ـــ اسے پتا ہوتا تو اس کو چھیڑنے کا سوچتا بھی نہ۔ بڑے ڈنڈے سے وہ بوری کو ہلا جلا رہا تھا لیکن کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ یہ تماشہ دیکھنے کے لئے ہم بھی وہاں رک گئے۔ ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا کہ بجائے اس بوری کو ہلانے کے اس کے منہ پر بندھی رسی کھولو ـــ اس کا منہ پانی کے بہاو کی سمت کرو ـــ کوڑا بوری سے نکل کر بہہ جائیگا اور بوری آزاد ہو کر پانی کو راستہ دے دے گی ـــمولوی حبیب نے اس کا مشورہ مان لیا ـــ اور نالے کے دونوں جانب پاؤں رکھ کر بوری پر جھکا اور بوری کا منہہ کھولنے لگا ـــ اس نے بوری کو ہاتھ لگایا تو اس میں کوئی گول بھاری چیز محسوس کی ـــ مجھے یاد ہے مولوی نے کہا ـــ یہ تربوز ہیں جو کسی نے بوری میں بھر کر بہا دیئے ـــ اس نے بوری نالے میں بہانے والے انجان مجرم کو بے نقطہ سنا دیں ـــ اگلے ہی لمحے بوری کا منہ کھل گیا اور ـــ مولوی حبیب نے چیختے ہوئے چھلانگ لگائی اور دور ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔

ہم نے بھی نالے میں جھانکا ـــ اور چیخ کی وجہ جاننے کی کوشش کی ـــ بوری کھلتے ہی اس میں سے ایک انسانی سر نکل کر پانی کے بہاو کی جانب نالے میں گرا تھا ـــ سر ڈھر سے الگ تھا ـــ ڈھڑ اب بھی بوری کے اندر تھا ــــ اس بوری میں ایک لاش تھی ـــ جو ٹکڑے ٹکڑے تھی۔

جنوبی افغان بستی ــــ سے ملحقہ شریف آباد کی ایک پرانی حویلی میں ایک افغان تاجر اپنی فیملی سمیت کرایہ داری پر آن ٹھہرا تھا ـــ لحیم شحیم ــ بلند قدوقامت ـــ سرخ وسفید رنگ ـــ اس کو باقی مہاجروں سے ممتاز کرتا تھا — اس کے پاس اپنی ایک جیپ تھی ـــ ویسے بھی ان مہاجرین کو پیسوں کی کوئی کمی نہ تھی ـــ یو این او کی امداد ان کے لئے فی فرد 300 ڈالر ماہانہ آتی تھی۔ جس سے انکی بھوک بھی مٹ گئی اور کاروبار بھی شروع ہو گئے۔

حکمت یار خان کا تعلق کابل کے گاوں غرقہ سے تھا۔ ان کے گاوں سے ملحقہ ان کی زمینیں غرقہ ڈیم کے منصوبے میں آ گئیں تھیں جس کی وجہ سے انکو جنوب کی اور نیم پہاڑی علاقے میں اپنے املاک شفٹ کرنا پڑے۔ روس کے حملہ کی وجہ سے اسے بھی اور لوگوں کے ساتھ پاکستان شفٹ ہونا پڑا۔ وہ اپنے قبیلہ کا سردار تھا۔ اس کی آبائی زمینوں پر پوست کاشت کی جاتی تھی ، جس کی عالمی منڈی میں ادوایات کی وجہ سے بہت مانگ تھی۔

موہ خود بھی یورپ سے پڑھ کر آیا تھا اور بیرون ملک بھی اس کے اثاثہ جات موجود تھے۔ ہجرت کی وجہ سے اس کو بمعہ اہل و عیال اپنا گاوں، جائیداد چھوڑنا پڑا۔

مال ہی کی بنا پر وہ بجائے مہاجر کیمپ کے اندر رہتا، ملحقہ شریف آباد میں ایک کرایہ کے گھر میں رہنے لگا۔ اس کی بہت سی اولادیں تھیں۔ اُس کی شادی بہت کم عمری میں ہوئی تھی اس کی بنا پر اس کی اولاد جوان تھی وہ خود بھی اپنی وجاہت کی بنا پر خاصہ جوان لگتا تھا۔ اکثر اوقات وہ اپنی جیپ پر گاوں کے آلے دوالے گھومتا پایا جاتا۔ بنیادی طور پر شریف النفس آدمی تھا۔

اس کی اولادوں میں سب سےبڑی بیٹی گلبانو تھی جو کہتے ہیں کہ اُس وقت ۱۷ سال کی رہی ہو گی۔ جس کو صرف قسمت والوں نے ہی دیکھا تھا۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ پردہ میں ہی اکثر اوقات جیپ میں دیکھی جاتی۔

بھلے لوگ تھے جو گاوں کنارے، بہاریوں کے ساتھ ہی رہا کرتے۔ بہاری کالونی میں ایک چھوٹا بازار تھا اور اس میں ڈاکٹر سلیم کا کلینک اس پوری آبادی کا واحد مرکز صحت تھا۔ جہاں کلینک پر ہمہ وقت رش رہتی تھی۔ جہاں گاوں کے لوگ صحت کے معاملات میں وہاں کا رخ کرتے، یہاں کی مہاجر بستی کے لوگ بھی وہیں جاتے۔

گلبانو کو ایک دن نزلہ اور بخار تھا اور وہ اپنی والدہ کے ہمراہ ڈاکٹر سلیم کے کلینک میں گئی، جہاں نواز نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا اور فریفتہ ہو گیا۔ گلبانو نے بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھا تو نواز کی بھی ہمت بندھی اور اس نے موقع دیکھ کر اس کو پشتو میں اپنے دل کی بات بھی کہہ دی۔ نواز کو پشتو آتی تھی۔

نواز کا گھر ہمارے گاوں کے مغربی کنارے پر تھا، جہاں کمہار ، ستی اور دھنیال آباد تھے۔ نواز کی فیملی یہاں کی مقامی نہ تھی کچھ عرصہ پہلے سائیں دین محمد اور اس کی بیوی محبوب بیگم نے یہاں جگہ خرید کر اپنا گھر بنایا تھا۔ نواز کے او ر بھائی بھی تھے مشتاق، رفاق، رفاقت، پیرو اور بہنیں بھی تھیں۔

یہ محبت کی کہانی اندر ہی اندر پروان چڑھی جانے کب ملاقاتیں ہوئیں اور عہد و پیمان باندھے گئے۔ پورا گاوں اس سے ناواقف رہا۔

حکمت یار خان کے قبیلے کے لوگ ملحقہ مہاجر بستی میں رہتے تھے، ان میں اس کی خدمت گزار بھی شامل تھے۔ ساتھ اس کے برادری اور لوگ اور ۳ بھائی بھی رہتے تھے

گل بانو کو اب اکثر ڈاکٹر سلیم کے پاس جانا پڑتا تھا۔ کبھی سر درد کے بہانے کبھی کچھ کبھی کچھ۔ نادان عمر میں انسان بہک جاتا ہے _ نواز اور گل بانو کو ایک دوسرے سے ملنے کا یہی ایک موقع ہوتا تھا۔

اسی دوران 2 منٹ کی ملاقات دونوں کے دل میں گھر کر گئیں _ عہد و پیمان ہونے لگے لیکن انجام سے بے خبر۔ نواز نے گل بانو کو ملنے پر مجبور کیا _ لیکن گل بانو اکیلے میں کہیں آ جا نہیں سکتی تھی _ اس لئے کوئی سبیل نہ بنی۔ نواز اب اکثر اس کے گھر کے گرد بھی منڈلاتا پایا جاتا _ شاید گل بانو کا دیدار ہو جائے __ کبھی کبھی وہ ایک دوسرے کو ایسے میں دیکھ بھی لیتے تھے۔

ایک مرتبہ 2 منٹ کی ملاقات میں کلینک پر ہی نواز نے گل بانو سے کہا کہ وہ رات گئے اس کے گھر آئے گا _ وہ کسی طرح دروازہ کھول رکھے _ اس طرح کچھ زیادہ لمحات مل جائیں گے ملاقات کے _ شیطان نے گل بانو کی بھی ہمت بندھائی اور وہ بھی تیار ہو گئی اور اگلی رات کا پلان ترتیب دے دیا گیا۔

اس دن نواز نے حکمت یار خان کی حویلی کی ریکی کی _ وہ اردگرد پر بھی نظر رکھنا چاہتا تھا۔ اسے احساس تھا کہ پکڑے جانے پر اس کی ٹھیک ٹھاک دھلائی ہو سکتی ہے۔ حویلی سے ملحقہ افغان بستی اس کے لئے مصیبت کھڑی کر سکتی ہے۔ سب افغان ایک جیسے تھے _ شکلوں سے انکو الگ الگ پہچاننا مشکل تھا _ ان میں ایک حکمران یار خان ہی تھا جو ہزار لوگوں میں اپنی الگ شناخت رکھتا تھا۔ اس کی وضعدار اور بارعب شخصیت اسے باقی افغانوں سے ممتاز کرتی تھی۔ اس کا رہن سہن قطعا کسی دھاتی جیسا نہیں تھا گو کہ وہ کابل کے ایک پہاڑی گاوں سے آیا تھا۔

کرایہ داری پر لی گئی حویلی کافی بڑی تھی _ جس میں دس کے قریب کمرے رہے ہونگے۔ برآمدہ اور صحن اس کے علاوہ تھا۔ چاردیواری کی دیواریں 8 فٹ سے اونچی نہ تھیں۔ ریکی کر کے نواز اگلی رات جانے کے لئے بے تاب تھا _ جو اس کے زعم میں محبت کے حصول کا ایک طریقہ تھا __ لیکن انجام بخیر نہ ہوا۔

اگلی رات _ وہ چپکے سے اپنے گھر سے نکلا _ آج اس نے بوسکی پہن رکھی تھی زرد تلے سے بنی کھیڑی [زری جوتا] اس نے حال ہی میں لی تھی اور آج وہ بن ٹھن کر گل بانو سے ملنے جا رہا تھا۔ عطر کی پوری شیشی اس نے اپنی بنیان پر انڈیلی تھی _ اس کا سامنے کا ایک دانت اس کو باقی لڑکوں سے ممتاز کرتا تھا _ اس نے سامنے والے دانت پر سونا چڑھا رکھا تھا۔

رات پچھلے پہر وہ افغان بستی پہنچا _ جبکہ گزشتہ کل شام سے ہی ساون اپنی رم جھم میں تھا _ افغان بستی سے ملحقہ حویلی پہنچ کر اس نے ٹارچ بند کر دی جو وہ گھر سے اپنے ساتھ لایا تھا حویلی کے دروازے پر پہنچ کر اس نے آواز سے کوئی مخصوص اشارہ دیا تاکہ گل بانو دروازہ کھول دے اور وہ جھٹ حویلی کے اندر جا کر شرف ملاقات پائے۔ اشارہ ملتے ہی دروازے کی کنڈی گری اور دروازہ ہلکا سا کھل گیا _ اندھیرے نے یہ نہیں بتایا کہ دروازہ کھولنے والا کون تھا _ نواز محبت کی آغوش میں جانے کا گمان رکھے _ دنیا سے بے نیاز _ دھڑکتے دل سے دروازے کھول کر اندر داخل ہوا _ وہ جونہی دروازے سے اندر داخل ہوا بھاری ہاتھوں اور مضبوط بازوں نے اس کو دبوچ لیا۔ اس کے اوسان خطا ہو گئے _ نرم و نازک کے بجائے آہنی ہاتھوں نے اس کا استقبال کیا تھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا _ حویلی کا دروازہ بند کر دیا گیا _ صحن میں پوری افغان بستی کے مرد جمع تھے ایک ہاتھ اس کے منہ پر تھا کہ آواز اب باہر نہ جا سکے _ پھر اس کے منہ پر پٹی باندھ دی گئی _ حویلی کی تمام لائٹس بند کر دی گئیں تھیں۔ حویلی کے داخلی دروازے کے باہر تین عدد ٹرالیاں کھڑیں تھیں جن میں مختصر سامان لدا ہوا تھا __ اس کے علاوہ اسی رات کچھ اور لوڈر گاڑیاں بھی مہاجر بستی میں آئیں تھیں۔

افغانوں نے پہلے نواز کو حویلی کے اندر برآمدہ کے پلر سے باندھ دیا _ حکمت یار خان نے پوری پلاننگ کر رکھی تھی _ اس کی بیوی جو گل بانو کے ساتھ باہر جاتی تھی نے اسے شک کی بنا پر بتایا تھا کہ وہ گل بانو کی بیماری سے شاکی ہے۔ معاملہ کچھ اور ہے _ اس پر حکمت یار خان نے افغان بستی کے کچھ لڑکوں کو بیوی اور گل بانو کی ریکی پر لگایا _ لڑکوں نے نواز کو بھانپ لیا _ گل بانو پر تھوڑا گھریلو تشدد کیا گیا تو اس نے ساری بات باپ کو بتا دی _ خود کو بے قصور کہا اور نواز کو قصوروار ٹھہرا دیا۔ جس پر افغانوں نے نواز کے قتل کا منصوبہ بنا لیا۔ اسی دوران جب نواز نے حویلی جانے کا قصد کیا اور گل بانو کو اس پر آمادہ کیا تو یہ بات بھی حکمت یار خان کو گل بانو نے بتا دی۔ اس سے افغانوں کو اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں آسانی ہو گئی۔

بتانے والوں نے بتایا کہ نواز کو صحن کے درمیان رسیوں سے باندھ کر لٹایا گیا، اس کی گردن علاحدہ کی گئی پھر اس کے جسم کے اعضاء کاٹے گئے۔ اس کے بعد اس ٹکڑے ٹکڑے لاش کو بوری میں ڈال دیا گیا۔ اور بوری بند لاش حویلی میں رکھ کر تمام شواہد مٹائے گئے۔

اس رات بارش تو ہوئی لیکن اتنی نہیں _ اگلے دن صبح صبح یہ افغان بستی خالی کر دی گئی اور سو میں سے ننانوے لوگ ٹریکٹر ٹرالیوں _ ٹرکوں اور مال بردار گاڑیوں میں بیٹھ کر سامان سمیت یہاں سے شمالی علاقوں میں چلے گئے جبکہ حویلی میں چند لوگ موجود تھے جنکا پلان اگلی رات نکلنے کا تھا _ افغانوں کی اس موومنٹ پر کسی کو کوئی شک نہ گزرا۔ کیونکہ یہ لوگ اکثر ادھر سے ادھر ہوتے رہتے تھے۔

ادھر _ دین محمد کو صبح اپنا بیٹا گھر میں نہ ملا _ اس کو تھوڑا پریشان ہونا چاہئے تھا لیکن اس دور میں اکثر لوگ دو چار دن کے لئے ایسے ہی غائب ہو جاتے _ کوئی اپنے دوستوں کے ہمراہ لاہور چلا جاتا _ کوئی اپنے عزیزوں کے ہاں دوسرے گاوں میں _ کسی کی گمشدگی اس وقت تک کنفرم نہ ہوتی جب تک مہینوں کوئی برآمد نہ ہوتا۔ موبائل اب آئے ہیں کہ بندہ ہر وقت ہی معاشرہ سے بندھا ہوا ہے۔ شام تک دن محمد اور محبوب بیگم بہرحال پریشان ہو گئے _ کیونکہ رات وہ گھر پر ہی تھا جبکہ اس کے بعد گھر والوں سمیت اہل علاقہ کے کسی نے بھی اسے نہ دیکھا تھا۔ شام پڑتے ہی گہرے بادل امنڈ آئے اور مینہ برسنا شروع ہو گیا _ ساتھ تیز ہواوں نے آندھی کو بھی پیغام بھیجا کہ آ جاو _ ظلم ہوا ہے _ سرخ آندھی اس رات آئی تھی_ اور خوب آئی۔

رات گہری ہوئی تو _ آندھی بھی جوبن پر آگئی _ اسی دوران لگی بارش اور طوفان میں دو سائیوں نے حویلی سے باہر قدم رکھا _ ایک آدمی پہلے ہی جیپ سٹارٹ کر کے انکا انتظار کر رہا تھا ان دو سایوں نے ایک بوری اٹھا رکھی تھی جس پر پانی پڑا تو سرخی کیچڑ میں شامل ہو گئی۔ بوری کو جیپ کے پچھلے دروازے کو کھول کر اندر پھینک دیا گیا۔ ایک اور گاڑی اس جیپ کے پیچھے کھڑی تھی _ اس کی بھی ہیڈ لائٹس آن ہو گئیں۔ دونوں گاڑیوں نے شمالی شکریال کا رخ کیا اور کچے راستہ پر چلتیں چلتیں دوسری افغان بستی کے قریب پہنچ گئیں _ آندھی طوفان نے تمام علاقہ مکینوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کر رکھا تھا _ ویسے بھی گاوں میں رات کو چوکیدار کے سوا کوئی باہر نہ نکلتا _ مشرقی گلی سے گزر کر دونوں گاڑیاں رکیں _ دو چار لوگ لگی بارش اور آندھی میں گاڑیوں سے اترے _ جیپ سے بوری نکالی اور برساتی نالے میں پھینک دی۔

اسی دوران _ بجلی زور سے کڑکی _ عرش والے نے شاید ان لوگوں کو خوف دلانا چاہا لیکن _ وہ اپنا کام کر کے گاڑیوں میں بیٹھے _ اور ملحقہ ایکسپریس وے پر گاڑی ڈال کر اپنا رخ شمال کی جانب کر دیا _ انکو کل تک وزیرستان پہنچنا تھا۔


مولوی حبیب کی چیخ نے راز افشاں کر دیا کہ بوری میں لاش ہے _ بجائے خود اہل علاقہ بوری کو نکالتے _ گاوں کے نمبردار اور کونسلر کو بلایا گیا _ ان کی موجودگی میں _ نالے کے اوپر ایک چارپائی رکھی گئی اور بوری کو نکال کر چارپائی پر رکھ دیا گیا _ کچھ ہی گھنٹوں میں وہاں پولیس بھی آگئی _ تمام شہادتیں اور وقوعہ کو نوٹ کیا گیا _ اسی دوران جوان کے والدین کو خبر ہوئی تو ماں بال کھولے چارپائی پر آ کر بیٹھ گئی _ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا کہ کیا ہوا، کیسے ہوا اور کیوں ہوا۔ اسی شام جوان کو سپرد خاک کر دیا گیا۔


افغان وزیرستان پناہ گزین ہوئے _ انکے بارے یہ عقد بہت بعد کھلا _ یہ پولیس رپورٹ تھی شاید _ لیکن قاتل پہنچ سے دور تھے _ کچھ نے کہا کہ وہ علاقہ غیر میں ہیں _ لیکن انکا ٹھکانہ کسی کو معلوم نہ تھا _ آندھی نے بہت بین کیا تھا

ختم شد

نوٹ: کہانی کے نام کردار اور جگہ فرضی ہے۔ کسی قسم کی مماثلت اتفاقیہ ہو گی۔

Visited 105 times, 1 visit(s) today
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!