سرد راتوں میں چھت پہ ٹہلتا ہوں
چاند سے اکثر تمہاری باتیں کہتا ہوں
میں شب آگ کے حصار میں بیٹھتا ہوں
غزل ایک سہانی کہتا ہوں
میری غزل کا عنوان تم ہوتی ہو
تمہیں کو تم سے تم کہتا ہوں
اس خاموش رات کے سناٹے چیختے ہیں
جب تم کو خود سے جدا ہونے کا کہتا ہوں
طاقتور نہیں رہتا وہ جب میں
عشق کو سمندر کہتا ہوں
شرما کر سمٹ جاتی ہوں مجھ میں تو
تم کو جب بھی اپنی پری کہتا ہوں
ڈھیٹ بہت ہے وہ میری طرح
وہ مجھ کو جان اور میں اس کو جان جاں کہتا ہوں
وہ مجھ سے روٹھ نہیں سکتی کبھی بھی
یہ بات میں سب کو کہتا ہوں
آگ کی تپش کم ہوجائے تو
چونک اٹھتا ہوں
چادر سنبھال کر انگڑائی لیتے
منیب خواب کو غزل کہتا ہوں
عبدالمنیب
Visited 3 times, 1 visit(s) today
Last modified: July 1, 2024