Written by 5:42 am شاعری

سنتی ہے نا وہ کچھ سناتی ہے

سنتی ہے نا وہ کچھ سناتی ہے
یہی بات ہم دونوں کو لڑاتی ہے

کبھی نام تک نہیں لیتی میرا
کبھی مجھے چھوکر بھی چلی جاتی ہے

کوئی بات نہ کرو اس سے اور موڈ خراب ہو اس کا
آدھی جلی روٹی اپنے ہاتھوں سے کھلاتی ہے

میں روٹھ جاتا ہوں اس سے اکثر بلاوجہ
بس وہ اچھی لگتی ہے جب مجھ کو مناتی ہے

دعائیں دے کر وہ مجھ کو گھر سے روانہ کرتی ہے
میں تھک کر آؤں تو شام کو مجھ کو دباتی ہے

وہ زندگی ہی نہیں کل کائنات ہے میری
وہ جب یہ سنتی ہے تو بہت شرماتی ہے

میں اس کی آغوش میں سب دکھ بھول جاتا ہوں
میں سو جاتا ہوں وہ دیر تک میرے بال سہلاتی ہے

اور وہ ایسے آتی ہے جیسے کوئی طوفان آئے
اور جاتی ہے تو آنکھوں میں برسات دے جاتی ہے

میں خواب بھی دیکھو تو صرف اس کے دیکھوں
وہ خوابوں میں بھی مجھے یہی بات بتلاتی ہے

میں کچھ اس لیے بھی کسی اور کی طرف نہیں دیکھتا اب
وہ قیامت لگتی ہے جب بن سنور کر میرے سامنے آتی ہے

عبدالمنیب

Visited 3 times, 1 visit(s) today
Last modified: April 18, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!