ایک نوجوان غریب مچھیرا ہوا کرتا تھا۔
بہت نیک سیرت اور خوب صورت۔
والدین بچپن میں ہی انتقال کر گئے تھے اور اسے اس کے رشتے داروں نے پالا تھا۔ جب وہ بڑا ہو گیا تو انھوں نے اس کی شادی اس ہی کے جیسی حیثیت والی ایک لڑکی سے کر دی۔ سچ پوچھیں تو دونوں ہی بہت نیک، اچھی صورت اور اخلاق والے تھے۔
سب ہی ان سے خوش رہتے تھے۔ مچھیرا بھی بہت محنتی تھا اور محنت کرکے ہی ترقی کرنا چاہتا تھا۔ وہ روز مچھلیاں پکڑنے دریا کے کنارے جاتا اور جو بھی اس کی قسمت میں آتا، بازار جاکر اسے فروخت کرتا اور اس سے جو بھی رقم حاصل ہوتی اس سے اپنی ضرورت پوری کرتا۔ دونوں میاں بیوی خوش رہتے اور ان کو دیکھ کر مچھیروں کی بستی والے اور خاص طور سے جن رشتے داروں نے مچھیرے کو پالا تھا وہ تو بہت ہی خوش ہوتے۔ آہستہ آہستہ مچھیرے نے ایک بڑا جال خرید لیا جس میں ایک ہی دن میں اتنی مچھلیاں قابو میں آجایا کرتیں کہ دوچار دن مزید مچھلیوں کو پکڑنے کی ضرورت نہ پڑتی اور آمدنی بھی کافی ہوجاتی ۔
جس کی وجہ سے گھر میں مزید خوشحالی بڑھنے لگی جس پر دونوں میاں بیوی بہت ہی خوش تھے۔ ایک صبح جب مچھیرے نے دریا میں پڑا جال دریا سے باہر نکالا تو اس میں ڈھیر ساری مچھلیاں پھنسی ہوئی تھیں۔ وہ ان ڈھیر ساری مچھلیوں کو دیکھ کر بے حد خوش ہوا لیکن اسے حیرت اس بات پر تھی ان مچھلیوں میں ایک بہت ہی خوبصورت اور بالکل سونے کی طرح سنہری مچھلی بھی موجود تھی۔ ایسا ہی لگتا تھا جیسے وہ پوری کی پوری خالص سونے کی بنی ہوئی ہے۔
مچھیرے نے سوچا کہ اگر میں اس کو بازار لے کر گیا اورا سے پانی میں زندہ رکھ کر بیچا تو مجھے اس کے منھ مانگے دام مل سکتے ہیں لیکن فوراً ہی اسے یہ خیال آیا کہ یہ تو نایاب مچھلی ہے ایسی مچھلیوں کو مارنا یا بیچنا نہیں چاہیے تاکہ ان کی نسل بڑھے اور دنیا میں ہمارے ملک کا نام ہو۔ یہ سوچ کر اس نے سونے جیسی سنہری مچھلی کو جال سے نکال کر دریا میں پھینک دیا اور دوسری مچھلیوں کو جال سے نکال کر ساحل پر پھینکنا شروع کر دیا۔ ابھی اس نے جال میں سے ایک دو مچھلیاں ہی نکال کر ساحل پر پھینکی ہونگی کہ اس کے کانوں میں ایک خوبصورت آواز آئی۔ شکریہ مچھیرے۔
اتنی خوبصورت آواز تو اس نے آج تک نہیں سنی تھی۔ وہ حیرت سے زیادہ خوف زدہ ہوکر ادھر ادھر دیکھنے لگا لیکن اسے ساحل پر دور دور تک کوئی نظر نہ آیا۔ اس کے کانوں میں پھر آواز آئی کہ اے رحم دل مچھیرے دریا کی طرف دیکھو، میں یہاں ہوں۔
مچھیرے نے دریا کی طرف دیکھا تو اسے وہی سنہری مچھلی نظر آئی جس کو اس نے دریا میں واپس ڈال دیا تھا۔ مچھلی کو انسانی آواز میں بولتا دیکھ کر پہلے تو وہ ڈرا لیکن پھر سوچا کہ ذرا دیکھیں تو مچھلی اس سے کہنا کیا چاہتی ہے۔ مچھیرے نے اس سے کہا کہ تم کون ہو، مچھلی نے کہا کہ میں در اصل پریوں کی ملکہ ہوں لیکن کبھی کبھی سنہری مچھلی بن کر دریا میں تیرنے آجاتی ہوں۔ مجھے دریا میں تیرنا اور نہانا بہت ہی اچھا لگتا ہے لیکن آج میں تمہارے جال میں پھنس گئی۔ مجھے یقین تھا کہ مجھے پاکر تم لازماً میری قیمت وصول کرو گے لیکن تم ایک نیک دل انسان ہو اور لالچ تم میں بالکل بھی نہیں اس لئے تم نے مجھے پانی میں واپس پھینک دیا اور میری جان بچ گئی۔
مچھیرے نے کہا کہ جب تم جال میں پھنسی ہوئی تھیں تو تم کیوں نہ بولیں تو سنہری مچھلی نے کہا کہ پانی سے باہر میں بولنے کی صلاحیت اس وقت تک نہیں رکھ سکتی جب تک دوبارہ پری نہ بن جاؤں جس میں ابھی کچھ گھنٹے باقی ہیں۔ میں تم سے بہت خوش ہوں، جب تک زندہ ہوں تمہاری مدد کرتی رہوں گی اور جب بھی تم ساحل پر آکر مجھے پکارو گے میں اگر پرستان میں بھی ہوئی تب بھی مچھلی بن کر تمہاری بات سننے کیلئے آ جایا کروں گی یہ تم سے میرا پکا وعدہ ہے۔ یہ کہہ کر مچھلی نے اللہ حافظ کہا اور پانی میں غائب ہو گئی۔
مچھیرا بہت خوش ہوا اور ڈھیروں مچھلیاں لے کر بازار کی جانب روانہ ہو گیا۔
مچھیرے کی بیوی خوش بھی تھی اور حیران بھی کہ آج کل مچھیرا ڈھیروں پیسے لے کر گھر لوٹتا ہے اور خوش بھی بہت رہتا ہے۔ گھر کی صورت بھی آہستہ آہستہ بدلتی جارہی ہے۔ آمدنی میں اضافے کی وجہ سے گھر میں نئی نئی چیزوں کا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کپڑے اور پلنگ کی چادریں بھی نئی ہو گئی ہیں۔
ایک دن اس نے پوچھا کہ آخر تمہارے مچھلیوں کے کاروبار میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کیسے ہو رہی ہے۔ مچھیرے نے جواب دیا کہ کہ نہ جانے کیوں آج کل جب بھی میں جال دریا سے نکالتا ہوں، اس میں بیشمار مچھلیاں پھنسی ہوئی ہوتی ہیں اور وہ سب مچھلیاں بڑی اور عمدہ قسم کی ہوتی ہیں۔ ان کی بازار میں بہت مانگ ہے اور دیکھتے دیکھتے وہ سب کی سب اچھے داموں فروخت ہو جاتی ہیں۔
میرے ساتھ کے مچھیرے خود میری مچھلیاں، ان کی تعداد اور قسم دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ بزرگ دعائیں دیتے اور نوجوان رشک کرتے ہیں۔ بس اسی لئے میں بھی خوش ہوں، تم بھی خوش ہو اور ہمارے گھر کی رونقوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
سناہے خواتین کی ایک ایسی بھی حس ہوتی ہے جو مردوں میں نہیں ہوتی۔ یہی حس مچھیرے کی بیوی کو بار بار اکسا رہی تھی کہ اس کا شوہر بے شک جھوٹ نہیں بول رہا لیکن کوئی بات ضرور ایسی ہے جسے وہ اس سے چھپا رہا ہو۔ اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ لگتا ہے جیسے کوئی خاص بات ایسی ہے جو دانستہ یا نادانستہ تم مجھ سے چھپا رہے ہو۔ آخر ایسی کیا بات ہے جو تم میرے علم میں نہیں لانا چاہتے۔ بیوی کے کہنے سے اسے یاد آیا کہ وہ اپنی بیوی سے سنہری مچھلی کا ذکر کرنا بھول جاتا ہے۔
شروع شروع میں تو اس نے کئی بار چاہا کہ وہ اپنی بیوی کو اس حیرت انگیز مچھلی کے بارے میں کچھ بتائے لیکن آہستہ آہستہ اس کا خیال شاید ذہن سے اس لئے نکل گیا کہ وہ ایک محنت پسند انسان تھا اور اسے اللہ کے علاوہ کسی سے بھی مدد مانگنا پسند ہی نہیں تھا۔
جب اسے حقیقتاً سنہری مچھلی کی مدد کی ضرورت ہی نہیں تھی تو اس کا خیال ذہن سے نکل جانا بھی کو عجب بات نہ تھی۔ بیوی نے توجہ دلائی تو اسے ایک بار پھر وہی سنہری مچھلی یاد آ گئی تب اسے دوبارہ یہ احساس ہوا کہ اس کے جال میں آجکل جو بہت زیادہ اور اعلی قسم کی مچھلیاں پھنسی ہوتی ہیں وہ ممکن ہے اسی سنہری مچھلی پر احسان کئے جانے کا بدلہ ہو۔
سنہری مچھلی کا خیال آتے ہی اس نے اپنی بیوی کو ساری کہانی سنائی اور کہا کہ اب مجھے خیال آرہا ہے کہ کہیں میرے جال میں ڈھیروں اور اعلیٰ اقسام کی مچھلیوں کا پھنسنا اسی مچھلی کی عنایت نہ ہو۔ مچھیرے کی بیوی نے ساری کہانی سننے کے بعد ایک لمبی سانس کھینچی اور برہمی کے ساتھ کہا کہ لگتا ہے کہ تم زندگی بھر مچھیروں کی زندگی ہی گزارنے کا فیصلہ کر چکے ہو۔ مچھیرا بیوی کے اس بدلے ہوئے لہجے اور انداز پر حیران رہ گیا اور پریشان ہوکر کہنے لگا کہ تم کہنا کیا چاہتی ہو۔
مچھیرے کی بیوی نے کہا کہ اگر تم یہ بات مجھے کئی ماہ قبل اسی وقت بتا دیتے تو آج ہماری حیثیت بادشاہوں جیسی ہوتی۔ مجھے تم بہت ہی بے وقوف اور ناسمجھ لگتے ہو۔ ارے وہ تو پری ہے پری۔ پریوں کے مرد جن ہوا کرتے ہیں اور جنوں کو اللہ نے بہت طاقتور بنا یا ہے۔ وہ پلک جھپکتے میں کایا پلٹ کر رکھ دیا کرتے ہیں۔
تم فوراً دریا کے کنارے جاؤ، پری کو بلاؤ اور اس سے کہو کہ وہ ہمیں عالی شان مکان بنا کر دے۔ دیکھ لینا تم ساحل سے واپس بھی نہیں آؤ گے اور ہمارا یہ چھوٹا سا گھر ایک عالی شان مکان بن چکا ہوگا اور اس کی ہر شے اسی کے مطابق ہوگی۔ اپنی بیوی کی بات سن کر اسے اس بات پر یقین ہی نہیں آیا کہ یہ وہی عورت ہے جس کے متعلق وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اندر سے اتنی دنیا پرست اور لالچی ہوگی۔ اسے اس کی باتیں سن کر افسوس بھی ہوا اور دل ہی دل میں رونا بھی آیا۔
اس نے اپنے جذبات پر قابو پاکر اپنی بیوی سے کہا کہ مانگنا صرف اللہ سے چاہیے۔ دیکھو اس گاؤں میں ہمارے کتنے دوست دو وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں۔ ہماری حالت بھی کوئی مثالی نہ تھی لیکن اب ہم سیکڑوں سے اچھے ہیں اور ہم عنقریب ایک چھوٹی موٹی کشتی بھی لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ گہرے پانی میں زیادہ بڑے جال کے ساتھ اور بھی زیادہ مچھلیاں شکار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ دیکھو جو عزت محنت کرکے کمانے کھانے اور ترقی کرنے میں ہے وہ شان مانگ کر کھانے میں نہیں۔ تم اللہ کا شکر ادا کرو کہ تمہارے شوہر کے ہاتھ پاؤں توانا ہیں اور اللہ بھی ہم پر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مہر بان ہے۔ اللہ کا شکر اسی میں ہے کہ ہم اپنے زورِ بازو پر کمائے کھائیں اور اس کی حمد و ثنا کریں۔
اس کی بیوی پر اس کی نصیحتوں کا الٹا ہی اثر ہوا اور وہ لڑائی جھگڑے پر اتر آئی۔ مچھیرے کو اپنی بیوی سے بہت پیار تھا۔ اسے اپنے والدین کی شرافت کا بھی بہت خیال تھا اور جن رشتے داروں نے اس کی پرورش کی تھی اور پال پوس کر جوان کیا تھا، اسے ان کی عزت بھی بہت پیاری تھی اس لئے وہ اپنی زندگی کو عذاب اور اپنے آپ کو تماشہ نہیں بنانا چاہتا تھا اس لئے وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس بات پر راضی ہو گیا کہ وہ دریا کے کنارے جائے گا اور پری کے سامنے اس کی فرمائش ضرور رکھے گا۔
میرے ساتھ کے مچھیرے خود میری مچھلیاں، ان کی تعداد اور قسم دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ بزرگ دعائیں دیتے اور نوجوان رشک کرتے ہیں۔ بس اسی لئے میں بھی خوش ہوں، تم بھی خوش ہو اور ہمارے گھر کی رونقوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
سناہے خواتین کی ایک ایسی بھی حس ہوتی ہے جو مردوں میں نہیں ہوتی۔ یہی حس مچھیرے کی بیوی کو بار بار اکسا رہی تھی کہ اس کا شوہر بے شک جھوٹ نہیں بول رہا لیکن کوئی بات ضرور ایسی ہے جسے وہ اس سے چھپا رہا ہو۔ اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ لگتا ہے جیسے کوئی خاص بات ایسی ہے جو دانستہ یا نادانستہ تم مجھ سے چھپا رہے ہو۔ آخر ایسی کیا بات ہے جو تم میرے علم میں نہیں لانا چاہتے۔ بیوی کے کہنے سے اسے یاد آیا کہ وہ اپنی بیوی سے سنہری مچھلی کا ذکر کرنا بھول جاتا ہے۔ شروع شروع میں تو اس نے کئی بار چاہا کہ وہ اپنی بیوی کو اس حیرت انگیز مچھلی کے بارے میں کچھ بتائے لیکن آہستہ آہستہ اس کا خیال شاید ذہن سے اس لئے نکل گیا کہ وہ ایک محنت پسند انسان تھا اور اسے اللہ کے علاوہ کسی سے بھی مدد مانگنا پسند ہی نہیں تھا۔
جب اسے حقیقتاً سنہری مچھلی کی مدد کی ضرورت ہی نہیں تھی تو اس کا خیال ذہن سے نکل جانا بھی کو عجب بات نہ تھی۔ بیوی نے توجہ دلائی تو اسے ایک بار پھر وہی سنہری مچھلی یاد آ گئی تب اسے دوبارہ یہ احساس ہوا کہ اس کے جال میں آجکل جو بہت زیادہ اور اعلی قسم کی مچھلیاں پھنسی ہوتی ہیں وہ ممکن ہے اسی سنہری مچھلی پر احسان کئے جانے کا بدلہ ہو۔ سنہری مچھلی کا خیال آتے ہی اس نے اپنی بیوی کو ساری کہانی سنائی اور کہا کہ اب مجھے خیال آرہا ہے کہ کہیں میرے جال میں ڈھیروں اور اعلیٰ اقسام کی مچھلیوں کا پھنسنا اسی مچھلی کی عنایت نہ ہو۔ مچھیرے کی بیوی نے ساری کہانی سننے کے بعد ایک لمبی سانس کھینچی اور برہمی کے ساتھ کہا کہ لگتا ہے کہ تم زندگی بھر مچھیروں کی زندگی ہی گزارنے کا فیصلہ کر چکے ہو۔ مچھیرا بیوی کے اس بدلے ہوئے لہجے اور انداز پر حیران رہ گیا اور پریشان ہوکر کہنے لگا کہ تم کہنا کیا چاہتی ہو۔ مچھیرے کی بیوی نے کہا کہ اگر تم یہ بات مجھے کئی ماہ قبل اسی وقت بتا دیتے تو آج ہماری حیثیت بادشاہوں جیسی ہوتی۔
مجھے تم بہت ہی بے وقوف اور ناسمجھ لگتے ہو۔ ارے وہ تو پری ہے پری۔ پریوں کے مرد جن ہوا کرتے ہیں اور جنوں کو اللہ نے بہت طاقتور بنا یا ہے۔ وہ پلک جھپکتے میں کایا پلٹ کر رکھ دیا کرتے ہیں۔ تم فوراً دریا کے کنارے جاؤ، پری کو بلاؤ اور اس سے کہو کہ وہ ہمیں عالی شان مکان بنا کر دے۔ دیکھ لینا تم ساحل سے واپس بھی نہیں آؤ گے اور ہمارا یہ چھوٹا سا گھر ایک عالی شان مکان بن چکا ہوگا اور اس کی ہر شے اسی کے مطابق ہوگی۔
اپنی بیوی کی بات سن کر اسے اس بات پر یقین ہی نہیں آیا کہ یہ وہی عورت ہے جس کے متعلق وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اندر سے اتنی دنیا پرست اور لالچی ہوگی۔ اسے اس کی باتیں سن کر افسوس بھی ہوا اور دل ہی دل میں رونا بھی آیا۔ اس نے اپنے جذبات پر قابو پاکر اپنی بیوی سے کہا کہ مانگنا صرف اللہ سے چاہیے۔ دیکھو اس گاؤں میں ہمارے کتنے دوست دو وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں۔
ہماری حالت بھی کوئی مثالی نہ تھی لیکن اب ہم سیکڑوں سے اچھے ہیں اور ہم عنقریب ایک چھوٹی موٹی کشتی بھی لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ گہرے پانی میں زیادہ بڑے جال کے ساتھ اور بھی زیادہ مچھلیاں شکار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ دیکھو جو عزت محنت کرکے کمانے کھانے اور ترقی کرنے میں ہے وہ شان مانگ کر کھانے میں نہیں۔ تم اللہ کا شکر ادا کرو کہ تمہارے شوہر کے ہاتھ پاؤں توانا ہیں اور اللہ بھی ہم پر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مہر بان ہے۔ اللہ کا شکر اسی میں ہے کہ ہم اپنے زورِ بازو پر کمائے کھائیں اور اس کی حمد و ثنا کریں۔ اس کی بیوی پر اس کی نصیحتوں کا الٹا ہی اثر ہوا اور وہ لڑائی جھگڑے پر اتر آئی۔ مچھیرے کو اپنی بیوی سے بہت پیار تھا۔ اسے اپنے والدین کی شرافت کا بھی بہت خیال تھا اور جن رشتے داروں نے اس کی پرورش کی تھی اور پال پوس کر جوان کیا تھا، اسے ان کی عزت بھی بہت پیاری تھی اس لئے وہ اپنی زندگی کو عذاب اور اپنے آپ کو تماشہ نہیں بنانا چاہتا تھا اس لئے وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس بات پر راضی ہو گیا کہ وہ دریا کے کنارے جائے گا اور پری کے سامنے اس کی فرمائش ضرور رکھے گا۔
اگلی صبح وہ بہت دکھے دل اور بوجھل ذہن کے ساتھ ساحل پر گیا۔ بہت دیر تک سر جھکائے اس سوچ میں بیٹھا رہا کہ وہ اپنی زبان کھولے یا نہ کھولے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اسے اتنی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ سنہری مچھلی (پریوں کی ملکہ) کو پکارے۔ ابھی وہ اس تذبذب میں تھا کہ کیا کرے، اس کے کانوں میں وہی رس گھولتی آواز گونجی جو کبھی اس نے کئی ماہ پہلے سنی تھی۔ اس نے سنا کہ کوئی اسے بہت ملائم آواز میں کہہ رہا کہ اے نیک دل مچھیرے مجھے معلوم ہے کہ آج تم ساحل پر کیوں آئے ہو اور اتنے اداس کیوں ہو۔ جب سے میں تم سے دور ہوئی ہوں میں نے اپنے ایک خاص جن کو تمہاری خدمت کیلئے مقرر کیا ہوا ہے جس کا کام تمہاری ایک ایک خبر سے مجھے آگاہ کرنا اور تمہارے جال میں اعلیٰ قسم کی مچھلیاں جمع کرنا ہے۔ پورے پرستان میں تمہاری محنت، ایمانداری اور دیانتدارے کے قصے مشہور ہیں۔ سب یہی کہتے ہیں کہ تم نے میری حقیقت جان لینے کے باوجود بھی کبھی مجھے مدد کیلئے نہیں پکارا۔ تمہارا ایمان خود محنت کرکے کھانے پر ہے۔ اسی نگراں جن نے ہمیں تمہارے گھر کی تازہ ترین صورت حال سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم پریوں اور جنوں کو اللہ نے بڑی قدرت دی ہے لیکن انسانوں کی عقل کے آگے ہماری ظاہری طاقت رائی کے بربر بھی نہیں۔ انسان اپنی عقل سے پوری کائینات کو مسخر کرسکتا ہے لیکن ہم صرف بھاری بھرکم کام ہی کر سکتے ہیں۔ بہر حال تم گھر کی جانب جاؤ، جو تمہاری بیوی نے تم سے کہا ہے وہ پورا ہو چکا ہے لیکن یاد رکھو محنت سے کبھی جی نہ چرانا۔ اچانک آواز تھم گئی اور یوں لگا جیسے کسی نے ریڈیو کا سوئچ آف کر دیا ہو۔
مچھیرا کچھ دیر تو عجب کیفیت میں ڈوبا ساحل پر ہی بیٹھا رہا، روتا رہا اور دل ہی دل میں شرمندہ ہوتا رہا پھر بوجھل قدموں سے چلتا ہوا اپنی بستی کی جانب روانہ ہو گیا۔ جب وہ بستی سے کچھ ہی فاصلے پر تھا تو اس نے دیکھا کہ بستی سے کچھ باہر ایک عالی شان بنگلہ بنا ہوا ہے۔ ایسا بنگلہ اس نے اپنی بستی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ ساری کہانی سمجھ چکا تھا اور اس کا کوئی ارادہ اس بنگلے میں جانے کا نہیں تھا۔ وہ بنگلے کی جانب دیکھے بغیر اپنے چھوٹے سے گھر کی جانب جانا چاہتا تھا کہ ایک خوش پوش انسان نے اس کا راستہ روکا اور پکڑ کر بنگلے کی جانب لیتا چلا گیا۔ دروازے پر اس کی بیوی بہترین لباس میں ملبوس نظر آئی۔ بیوی نے ہاتھ پکڑ کر اسے گھر کے اندر کیا اور خوش ہوکر کہنے لگی کہ دیکھو میں نہ کہتی تھی کہ پریوں کیلئے کچھ بھی کرنا ناممکن نہیں۔ دیکھو گھر بھی عالی شان بن گیا، ہر قسم کا فرنیچر، کپڑے، برتن اور نوکر چاکر بھی مل گئے۔ تالاب بھی ہے باغ بھی ہے، پھلوں کے درخت، پھولوں کے پودے، وہ کون سی اعلیٰ چیزیں ہیں جو اب یہاں میسر نہیں۔ بیوی کی بات سن کر ایک مرتبہ پھر مچھیرے کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور اس نے ایک مرتبہ پھر اپنی بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ پگلی، محنت کرکے جھونپڑی بنا کر رہنے میں جو شان ہے وہ مانگے تانگے کہ محلوں میں نہیں ہوا کرتی۔ اس کی بیوی کا یہ سن کر دماغ بالکل ہی آؤٹ ہو گیا۔ چیخ کر بولی، زندگی پھر اجڈ اور گنوار ہی رہنا یہ کہہ کر غلاموں کو حکم دیا کہ صاحب کو واشروم کا راستہ دکھاؤ اور ان کے لئے شاہانہ لباس کا انتظام کرو۔
مچھیرے نے اگلے دن جال سنبھال کر دریا کی طرف جانا چاہا تو بیوی کو مزید غصہ آگیا اور کہا کہ خدا کیلئے اس بات کو بھول جاؤ کہ تم کبھی مچھیرے بھی تھے۔ مچھیرے نے کہا کہ تم جو بھی حلیہ بدل کر رہنا چاہو رہو میں تم کو کچھ نہ کہونگا لیکن مجھے تو کم از کم میری مرضی کے مطابق جینے دو لیکن وہ تو جلادنی بن چکی تھی۔ مچھیرے کو حیرت تھی کہ گھر میں جو نوکر چاکر اور غلاموں اور کنیزوں کی صورت میں انسان نما مخلوق تھی وہ اس کی بیوی کو جیسے ملکہ سمجھے بیٹھی تھی اور اس کے ہر حکم پر یوں عمل کرتی تھی جیسے اگر وہ بات نہیں مانے گی تو ہلاک کردی جائے گی۔ مچھیرا اس ماحول سے بہت ہی پریشان تھا اور سوچ رہا تھا کہ وہ اس ماحول سے کیسے باہر نکلے۔ اس کی بیوی نے اس کا جال چھین کر نوکروں کے حوالے کیا اور کہا کہ وہ اس جال کواور مچھیرے کی ہر پرانی سڑی بھسی چیز کو اس کے پرانے مکان میں چھوڑ آئے اور اگر کبھی اس کا شوہر ان میں سے کسی چیز کو بھی یہاں لانا چاہے تو اسے عالی شان بنگلے میں نہ لانے دے۔ اس کی بات پر فوراً عمل ہوا اور مچھیرا حیران ہو کر رہ گیا۔
کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ مچھیرے کی بیوی بڑے پیار سے اس سے کہنے لگی کہ دیکھ میرے پیارے شوہر، انسان ایک جیسی زندگی گزارتے گزارتے بیزار ہوجایا کرتا ہے۔ یہ عالی شان بنگلہ، یہ نوکر چاکر، یہ غلام اور کنیزیں دیکھ دیکھ کر میرا جی اکتانے لگا ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ جب آنکھ کھلے یہ ساری نحوستیں دیکھنے کو ملیں۔ مجھے تو یہ سب ماحول بھی اب سڑا بھسا سا لگنے لگا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ بادشاہوں سے بھی بڑا محل ہو۔ غلاموں اور کنیزوں کی ریل پیل ہو، زینے کی ہر سیڑھی پر حسین کنیزیں میری قدم بوسی کیلئے موجود ہوں۔ غلام سر جھکائے کھڑے ہوں اور میں ایک چٹکی بجاؤں تو بیسیوں غلام اور کنیزیں میرے دربار میں حاضر ہو جائیں۔
مچھیرا بہت دکھ کے ساتھ اپنی بیوی کی باتیں سنتا رہا۔ اس نے کہا کہ زندگی کی وہ کونسی خواہش ہے جو اب پوری نہیں ہو رہی ہے۔ جو آسائشیں ہمیں میسر ہیں اس ملک کے بڑے بڑے رؤسا کو بھی حاصل نہیں۔ پورا گاؤں حیران ہے کہ ہمارے ہاتھ کونسا قاروں کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے۔ دوسرے شہروں کے رہنے والے ہمارے گاؤں کے اس بنگلے کو دیکھنے آتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے گاؤں کا ایک بچہ بھی ہمیں حسد کی نظروں سے نہیں دیکھتا۔ سب ہماری قسمت پر رشک کرتے ہیں۔ ان تمام باتوں کو جانتے ہوئے بھی تمہاری خواہشوں کو کہیں بریک نہیں لگ رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہمارا اللہ ہم سے اس ناشکری پر خفا نہ ہوجائے اور ہمیں ہماری پرانی زندگی کی جانب لوٹا دے۔ ویسے سچی بات یہ ہے کہ اگر اللہ نے ہمیں پرانی زندگی کی جانب لوٹا دیا تو مجھے یوں لگے گا کہ میں دوبارہ سے پیدا کردیا گیا کیونکہ مجھے محنت کرکے کھانا بہت اچھا لگتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ میں پرانی زندگی کی جانب لوٹا دیا جاؤں تو اپنی محنت سے اس سے بھی اچھی حیثیت میں آسکتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ محنت مزدوری کرنے والوں کو اپنا دوست رکھتا ہے۔
اتنا سننا تھا کہ مچھیرے کی بیوی آپے سے باہر ہو گئی اور قریب تھا کہ مچھیرا تماشہ بن جاتا وہ بنگلے سے باہر نکلا اور ساحل کی جانب روانہ ہو گیا۔ اسے معلوم تھا کہ سنہری مچھلی اس کے حال سے آگاہ ہوگی اس لئے وہ کچھ کہے بغیر سر جھاکر ساحل کے قریب بیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سنہری مچلی کی بس اتنی ہی آواز آئی کہ اے نیک دل مچھیرے جاؤ گھر کی جانب لوٹ جاؤ، ہم نے تمہاری بیوی کی خواہش پوری کردی ہے۔ مچھیرا جان چکا تھا کہ واقعی ایسا ہی ہو گیا ہوگا۔ بادشاہوں سے بھی عالی شان محل تعمیر ہو چکا ہوگا اور غلاموں اور کنزوں کی ریل پیل ہوگی اسی لئے اس نے ایک مرتبہ پھر اپنے پرانے اور چھوٹے سے مکان کی جانب جانا چاہا لیکن محل کے طاقتور غلاموں نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ مچھیرہ کسی حد تک ان غلاموں، کنیزوں اور نوکروں چاکروں کی حقیقت سے آگاہ ہوچکا تھا۔ وہ سب اسے پریوں اور جنوں کے غلام اور کنیزیں ہی لگتے تھے جو انسانی شکل میں صرف اس کی بیوی کو خوش رکھنے کی ڈیوٹیوں پر لگائے گئے تھے اس لئے اس نے ان سے الجھنا مناسب نہ سمجھا اور محل میں داخل ہوگیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی بالکل ملکاؤں کے انداز میں ایک بڑے سارے تخت پر بیٹھی تھی۔ اس کا شاہانہ لباس نہ جانے کتنی کنیزیں ہاتھ میں سنبھالے بیٹھی تھیں اور وہ پورے جاہ جلال کے ساتھ ان کے درمیان کسی کِھلتے گلاب کی طرح نظر آرہی تھی لیکن معلوم نہیں کیوں مچھیرے کو یہ سب نظارہ بہت اذیت دے رہا تھا ۔
مچھیرا بھی سبحان اللہ کہے بغیر نہ رہ سکا۔ سورج افق سے مزید ابھرا تو اس کی رنگت بدل گئی، اس کی روشنی میں چمک اور دھوپ میں حدت آگئی۔ مچھیرے کی بیوی کا سارا میک اپ پسینے کی وجہ سے دھلنے لگا اور مزاج نہایت تلخ ہوگیا۔ بجائے اس کے کہ وہ باغ کے وسط سے اٹھ کر محل کے کسی کمرے کی ٹھنڈی چھت کے نیچے آجاتی، ایک دم جلال میں آگئی اور نہایت رعونت کے ساتھ مچھیرے سے بولی کہ ابھی اور اسی وقت سنہری مچھلی کے پاس جاؤ اور اس ے کہو کہ وہ سورج سے کہے کہ میرے سامنے سے ہٹ جائے اس لئے کہ آج میں باغ میں بچھے تخت سے اٹھ کر کہیں بھی نہیں جانا چاہتی۔ مچھیرے نے ایک مرتبہ پھر اپنی بیوی کو سمجھایا کہ یہ خدائی معاملات ہیں اس میں کسی جن و بشر کا کیا دخل لیکن ہوس نے اس کی بیوی کے دماغ کو بالکل ہی فرعون بنا کر رکھ دیا تھا۔ چیخ کر بولی کہ تم جاتے ہو یا میں اپنے غلاموں کو حکم دوں کہ وہ تمہیں کھینچتے ہوئے دریا کے کنارے لیجائیں۔ نوبت غروریت کی اس انتہا تک آچکی تھی۔ پہلی مرتبہ مچھیرے کے دل میں یہ خیال آیا کہ وہ کیوں نہ اس پاگل اور مغرور عورت کو اپنی زندگی سے دور کردے لیکن اس نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے یہی سوچا کہ اللہ کوئی نہ کوئی اچھی راہ ضرور نکالے گا اور اس کی بیوی کو سبق سکھائے گا۔
مچھیرا دریا کے کنارے پہچا تو وہی خوبصورت آواز اس کے کانوں میں رس کھولنے لگی۔ سنہری مچھلی (پریوں کی ملکہ) نے اس سے کہہ رہی تھی کہ اے نیک دل مچھیرے، کاش تیری بیوی اس حد تک نہ جاتی کہ وہ خدائی کے کاموں تک میں دخل انداز ہونے کی فرمائش کرنے لگتی تو پرستان والوں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ تم دونوں اسی انداز میں زندگی گزارتے رہو گے۔ تمہاری بیوی کی باتیں ناقابل قبول تھیں لیکن تم نے ان کی ملکہ کے ساتھ یعنی میرے ساتھ جو احسان کیا تھا وہ ان سب باتوں سے کم تھا جو پرستان نے تمہاری بیوی کو دیا تھا لیکن آج کی پر غرور فرمائش کی وجہ سے پرستان نے اپنے سارے اقدامات کی تنسیخ کردی ہے اور اب وہ تمہیں اور تمہاری بیوی کو تمہاری پرانی زندگی کی جانب لوٹا رہے ہیں۔ تم ایک محنت پسند انسان ہو اس لئے پرستان والوں کو یقین ہے کہ تم ایک دن بہت اچھے دن بھی دیکھو گے۔ ہمیں اس بات کا یقین بھی ہے کہ تمہاری بیوی اس سے سبق حاصل کرے گی اور اپنی پرانی زندگی میں لوٹ جانے کے دکھ سے جلد نکل آئی گی اور تم سے اسی طرح پیار کرتی رہے گی جیسے وہ غربت میں کیا کرتی تھے۔ ہم پہلے کی طرح دریا میں پڑے جال میں مچھلیاں پھنسانے میں تمہارے مدد گار رہیں گے۔ اب یہ تمہاری محنت پر ہے کہ تم اس سے کتنا فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ یہ کہہ کر اللہ حافظ کہنے کی آواز آئی اور پھر گہری خاموشی چھا گئی۔
مچھیرا جب بستی کی جانب لوٹا تو راستے میں نہ وہ محل تھا، نہ غلام اور کنیزیں اور نہ ہی نوکر چاکر، وہی پہلے جیسا چٹیل میدان جس میں دھول مٹی اڑ رہی تھی۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا اپنے پرانے گھر کی جانب چل دیا۔ گھر کا دروازہ کھلا ہوا پایا، جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اس کی بیوی اپنے پرانے کپڑوں میں ملبوس بہت اداس بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی بیوی کے سر پربہت پیار سے ہاتھ رکھا اور کہا کہ یقین مانوں اس زندگی میں جو مزا ہے وہ اس زندگی میں بالکل بھی نہیں تھا۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا مچھیروں والا حلیہ بدلا، کمرے سے جال نکال کر اپنے کاندھے پر لادا اور دریا کی جانب روانہ ہوگیا۔ آج وہ بہت ہی خوش تھا کہ وہ اپنی زندگی کا آغاز پھر سے ایک مزدور کی حیثیت سے کر رہا ہے اور مزدوری کرنے والے کو اللہ پسند کرتا ہے۔
کچھ مہینوں کے بعد پورے گاؤں نے دیکھا کہ اس کا کاروبار بہت ترقی کرگیا۔ اس کی کئی بڑی بڑی لانچیں ہو گئیں جودریا سے ہی نہیں بلکہ سمندر سے بھی مچھلیاں پکڑا کرتی تھیں۔ گاؤں کے سیکڑوں جوان اس کے ملازم ہوگئے جن کا وہ اپنے بھائیوں سے بھی بڑھ کر خیال کیا کرتا تھا۔ اس نے گھر تو کافی اچھا بنایا لیکن شاہوں جیسی آن بان نہ رکھی اور یہی انداز اس کی بیوی نے اختیار کیا۔ وہ پوری بستی کا وڈیرہ بنادیا گیا اور بستی والے اس کے غلام، نوکر چاکر نہ ہونے کے باوجود بھی اس کی اور اس کی گھر والی کی ایک آواز پر دوڑے چلے آتے تھے۔ اس حقیقی بادشاہت کو دیکھ کر ایک دن مچھیرے کی بیوی اس سے کہنے لگی کہ اللہ مجھے معاف کرے، میں اس کی ناشکری اور تمہاری نافرمان بن کر رہ گئی تھی۔ یقین مانوں اس فرعونیت میں سارے ٹھاٹ باٹ ہونے کے باوجود میرا ایک دن بھی حقیقی سکون میں نہیں گزرا۔ میرے اندر نہ جانے کیسی آگ لگی ہوئی تھی کہ وہ ٹھنڈی ہوکر ہی نہیں دے رہی تھی۔ میری ہر خواہش پوری ہونے پر اور بھڑک اٹھتی تھی۔ میں نے تمہیں بہت دکھ پہنچائے۔ تم مجھے معاف کردو۔
مچھیرے نے کہا کہ میں تو تمہیں بہت پہلے معاف کرچکا ہوں۔ اللہ نے شاید اسی کا صلہ دیا ہے اور شاید تمہاری وجہ سے ہی میں خوش حال ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اللہ اب ہمارے گھر کسی شہزادے یا شہزادی کو بھی ضرور بھیجے گا۔ یہ سن کر مچھیرے کی بیوی کے چہرے پر شرم کی سرخی دوڑ گئی اور اس نے دوپٹے سے اپنے چہرے کو چھپاتے ہوئے کہا کہ میں یہی خوشخبری تو آپ کو سنانا چاہتی تھی۔ بس پھر کیا تھا مچھیرا اسی وقت اللہ کے حضور سجدے میں گر گیا اور اس کی آنکھوں سے شکرانے کے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔