بہت عرصے پہلے کی بات ہے کہ ایک چھوٹے سے گائوں میں ایک بہت ہی غرب بڑھیا رہتی تھی۔ اس کی ایک بھولی بھالی، معصوم سی پیاری، پیاری بیٹی آفرین تھی۔ آفرین بڑی خوش اخلاق، ملنسار اور سب سے مل جل کر رہنے والی لڑکی تھی۔ اس کی ان خوبیوں کی وجہ سے سب اسے پیار کرتے اور عزیز رکھتے تھے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ موسم برسات میں شدید بارشوں کی و جہ سے بڑھیا کے گھر میں رکھا ہوا ساراچاول بھیگ گیا۔ اس بھیگے ہوئے چاول کو دھوپ میں خشک ہونے کے لئے ایک صاف سی چادر پر پھیلا کر بڑھیا کسی کام سے اندر چلی گئ گھر کے اندر جاتے ہوئے اس نے آفرین کو ہدایت کی کہ وہ سوکھنے کے لئے پھیلائے ہوئے چاولوں کا خیال رکھے تاکہ چڑیاں انہیں چگنے کے لئے نہ آجائیں۔
آفرین چاولوں کے قریب بیٹھی رہی ۔ کوئی بھی چڑیا یا پرندہ وغیرہ چاول دیکھ کر چگنے کے لئے وہاں آتا تو دھیرے سے ہاتھ ہلا کر انہیں اڑا دیتی۔
اب چاول تقریباً خشک ہو چکے تھے۔ صرف تھوڑی نمی باقی رہ گئی تھی۔ آفرین اب بھی اپنی ماں کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے وہیں بیٹھی نگرانی کر رہی تھی کہ ایک بہت ہی خوبصورت س نہری پرندہ وہاں اتر کر چاول چگنے لگا۔ آفرین نے اسے اڑانے کی کوشش کی مگر وہ چاول چگتا ہی رہا۔ چاول چگتے چگتے وہ آفرین کو بھی دیکھتا جاتا۔
آفرین کو پرندے کی یہ ادا بالکل پسند نہیں آئی۔ وہ بڑی بے بسی کے انداز میں بولی۔
میری ماں بوڑھی ہے اور بہت غریب بھی۔ تم اگر اسی طرح دانے چگتے رہے تو سارے چاول ختم ہو جائیں گے۔ پھر ہم ماں بیٹی کیا کھائیں گے، پرندے نے اس کی بات سن کر جواب میں کہا۔
پیاری آفرین تمہیں اس کے لئے فکر مند ہونے کی قطعی ضرورت نہیں میں جتنے بھی چاول کھائوں گا اس کی پوری قیمت ادا کروں گا۔ گائوں میں ندی کے کنارے جو بڑا سا سائے دار نیم کا درخت لگا ہے تم شام کو وہاں چلی جانا۔ پھر تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ میں نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ قطعی جھوٹ ہیں ہے یہ کہہ کر وہ سنہری پرندہ وہاں سے اڑ کر آسمان کی وسیع فضائوں میں غائب ہوگیا۔
شام ہوئی تو آفرین اس سنہری پرندے کی کہی ہوئی بات کی صداقت جانچنے کے لئے ندی کی طرف چلی گئی تاکہ نیم کے درخت کے پاس دیکھے کہ اسے کیا ملتا ہے وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی کچھ دیر میں وہاں جا پہنچی اور نیم کے درخت کو غور سے دیکھنے لگی۔ کافی بلندی پر گھنی شاخوں کے درمیان اسے ایک خوبصورت گھونسلہ بنا ہوا نظر آیا۔ یہ گھونسلہ اسی خوبصورت سنہری پرندے کا تھا وہ اپنے گھونسلے کے دروازے پر ہی بیٹھا ہوا تھا۔ آفرین پر نظر پڑتے ہی سریلی آواز میں چہچہا کر بولا۔
تم آگئیں ۔ آفرین۔ ٹھیک ہے۔آئو اوپر آئجاو۔ اچھا پہلے یہ بتائو کہ اور آنے کے لیے تمہیں کون سی سیڑھی دوں۔ سونے کی، چاندی کی، یا پیتل کی۔
آفرین نے سوچ کر کہا میں تو ایک غریب لڑکی ہوں میں سونے چاندی کی سیڑھیوں سے اوپر چڑھ کر کیا کروں گی۔ میرے لئے تو پیتل کی ہی سیڑی کافی رہے گی۔
مگر اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتی سنہری پرندے نے اس کے لئے سونے کی چمچماتی ہوئی سیڑھی نیچے اتارکر لگا دی۔ آفرین اس سیڑھی کی مدد سے اوپر چڑھتی ہوئی اس ساخ تک پہنچ گئی جس پر سنہری پرندے کا آشیانہ تھا۔
بڑی زحمت ہوئی تمہیں یہاں تک پہنچنے میں۔ تم تھک بھی گئی ہو ں گی، چلو پہلے کچھ ناشتہ وغیرہ کرلو۔ پرندے بڑی اپنائیت اور محبت سے کہا۔ پھر پوچھنے لگا۔
اچھا آفرین یہ بتائو ناشتہ تمہارے لئے سونے چاندی یا پیتل کی پلیٹ میں لائوں۔
آفرین نے پھر پہلے کی طرح سوچ کر جواب دیا۔
اچھے سنہری پرندے، تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں ایک غریب بیوہ کی بیٹی ہوں۔ میرے گھر میں تو مٹی کے ہی برتن ہیں۔ میں سونے چاند کی پلیٹوں میں کھا کر کیا کروں گی۔ میرے لئے تو پیتل کی ہی پلیٹ میں کھانا لے آئو۔
مگر سنہری پرندہ اس بار بھی نہ مانا اور وہ آفرین کے لیے سونے کی خوبصورت نقش و نگار والی پلیٹ میں کھانا لے آیا۔ افٓرین نے اس قدر لذیذ اور خوش ذائقہ چالو اس سے پہلے کبھی نہیں کھائے تھے۔ اس نے خوش ہوو کر اور خوب سیر ہو کر وہ چاول کھائے اور ہر نوالے پرندے سے ان کی تعریف کرتی رہی۔
ناشتے سے فارغ ہو کر اس نے ہاتھ دھوئے اور کلی کر کے منہ صاف کیا اب پرندہ بولا۔
اچھی لڑکی، شام کا اندھیرا پھیلتا جارہا ہے۔ تمہیں یقینا گھر بھی پہنچنا ہوگا۔ دیر ہو گئ تو تمہاری بوڑھی ماں پریشان ہوگی۔ اگران کی فکر نہ ہوتی تو میں خود تمہیں یہاں کچھ اور وقت گزارنے کے لیے کہتا ، بلکہ درخواست کرتا۔ اب تم جارہی ہو تو میں جانے سے پہلے تمہاری خدمت میں ایک چھوٹا سا تحفہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے سنہری پرندے نے آفرین کے سامنے تین چھوٹے چھوٹے صندوق پیش کر کے کہا۔
ان تینوں میں س جو بھی بکس تمہیں پسند ہو لے لو۔
آفرین نے ان تینوں صندوقو ں کو ایک نظر دیکھا۔ پھر دھیرے ے بولی۔
اچھے پرندے تم نے تو بہت تھوڑے سے ہی چاول کھائے تھے۔ ا سی لئے میں یہ چھوٹا والا صندوق پسند کر رہی ہوں۔ میں تمہاری مہمان نوازی اور اس تحفے کے لئے بے حد ممنون ہوں۔ میری اور میری بوڑھی ماں کی طرف سے دلی اور پر خلوص شکریہ قبول ہو۔ یہک ہہ کر آفرین نے چھوٹا بکس اپنے ہاتھ میں لے لیا اور خدا حافظ کہتی ہوئی سیڑھی سے اتر کر اپنے گھر کی طرف روانہ وہ گئی۔
گھر پہنچ کر اس نے خوشی خوشی ساری باتیں اپنی بوڑھی ماں کو بتائیں اور وہ چھوٹا سا تحفے میں ملا ہوا صندوق دکھا کر کہنے لگی کہ یہ بکس اس نے تحفے میں دیا ہے ۔ بڑھیا نے جھونپڑی کے اندر لے جا کر وہ صندوق کھولا تو دونوں اسے دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ صندوق قیمتی ہیرے، جواہرات اور سچے موتیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اب کیا تھا ان دونوں کی غربت دور ہو گئی اور انہوں نے اپنے جھونپڑے کی جگہ چھوٹا مگر آرام دہ خوصورت سا مکان بنوا لیا اورسکھ چین سے رہنے لگیں۔
آفرین کے گھر کے قریب ہی ایک اور بڑھیا رہتی تھی مگر وہ غریب نہیں تھی اور آفرین کی بوڑھی ماں کے مقابلے میں بہت سخت مزاج اور مغرور ہونے کے ساتھ ساتھ لالچی بھی تھی وہ کسی سے مسکرا کر بات نہ کرتی اور نہ ہی کسی ترقی پر خوش ہوتی ۔ اس نے راتوں رات آفرین کی ماں کے حالات بدلتے دیکھے تو مارے حسد کے جل بھن کر کباب ہو گئی۔ مگر اس ٹوہ میں رہنے لگی کہ ان کے دن بدلنے کا راز معلوم کرے ۔ ایک دن وہ بڑی مکاری سے باتوں باتوں میں آفرین سے یہ راز اگلوا ہی بیٹھی۔ آفرین تو تھی ہی بھولی بھالی، معصوم سی، اس نے پڑوسن خالہ کو ساری بات بلا کم و کاست سنا دی۔ بڑھیا نے فوراً فیصلہ کر لیا کہ وہ بھی ایسا ہی کرے گی تاکہ اسے بھی سنہری پرندے سے تحفہ مل جائے اور وہ پہلے سے بھی زیادہ امیر ہو جائے۔
ایک دن اس نے جان بوجھ کر اپنے چاول بھگوئے اور پھر انہیں اپنے گھر کے صحن میں چادر بچھا کر خشک ہونے کے لیے پھیلا دئیے اور قریب ہی اپنی بیٹی گلنار کو جو آفرین ہی کی عمر کی تھی وہاں نگران کے لیے بٹھا دیا۔ گلنار طبیعت میں اپنی ماں پر ہی گئی تھی۔ منہ پھٹ، حاسد اور لالچی تھی اور کاہل و کام چوری بھی بہت تھی۔ چڑیاں صحن میں اتراتر کر چاول چگتی رہیں۔ مگر وہ کسی سے کچھ نہ بولی۔ جب چاول خشک ہونے پرآئے تو وہ بہت ہی تھوڑے رہ گئے تھے۔ اسی وقت وہ خوبصورت سنہری پرندہ بھی صحن میں آکراترا اور چاول چگ چگ کر کھانے لگا۔ گلنار اس پرندے کو دیکھ کر بڑے تکبر سے بولی۔
اے سنہری پرندے یہ چاول مفت کا نہیں ہے۔ تم کھاتو رہے ہو مگر اس کے بدلے میں تمہیں بہت سا سونا، چاندی دینا پڑے گا۔
گلنار کی بات سن کر پرندے کو غصہ آگیا۔ اس نے شعلہ بار نگاہوں سے گلنار کوگھو ر کر دیکھتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے اگر سونا چاندی چاہتی ہو تو شام کو ندی کنار نیم کے درخت پر چلی آنا۔ تمہاری خواہش پوری ہو جائے گی اور اس کے فوراً بعد وہاں سے اڑ گیا۔
شام ہوتے ہی گلنار بڑی تیاری کے ساتھ بن سنور کر ندی کی طرف روانہ ہوگئی۔ نیم کے درخت تلے پہنچ کراس نے گھونسلے میں بیٹھ ے ہوئے سنہری پرندے کو آواز دے کر کہا۔
اے پرندے ، دیکھو میں آگئی ہوں کیا تمہیں اپنا وعدہ یا د ہے۔؟
گلناز کی طنز بھری بات سن کر پرندہ دل ہی دل میں تلملا کر رہ گیا ۔ مگر اپنے جذبات کو چھپاتے ہوئے بولا۔
لڑکی۔۔۔ تمہارے لیے کونسی سیڑھی نیچے اتاروں، سونے چاندی یا پیتل کی۔
گلناز نے بڑے تکبر سے کہا
میں کوئی غریب لڑکی ہوں جو پیتل کی سیڑھی پسند کروں گی میرے لیے تو سونے کی سیڑھی اتارو۔ مگر پرندے نے اس کی خواہش کو نظر انداز کرتے ہوئے پیتل کی سیڑھی اتار کر لگا دی۔ گلناز برا سا منہ بناتے ہوئے اوپر چڑھ گئی۔ اب سنہری پرندے نے اس سے دوسرا سوال کیا۔
تم کون سی پلیٹ میں ناشتہ کرنا پسند کرو گی سونے چاندی یا پیتل کی پلیٹ میں۔
گلناز نے پھر پہلے کی طرح تنک کر جواب دیا ۔ سونے کی پلیٹ میں۔
مگر پرندے نے اسے پیتل کی پیٹ میں ہی کھانا پیش کیا۔ وہ کھانے سے فار غ ہوئی تو پرندے نے چھوٹے بڑے تین مختلف سائز کے بکس اس کے سامنے رکھ کر کہا۔
لو بھئی گلناز اب ان میں سے کوئی ایک صندوق پسند کر کے اپنے گھر لے جائو۔
لالچی گلناز نے سوچا، یقینا بڑے صندوق میں زیادہ ہیرے، جواہرات اور سونا چاندی ہو گا ۔ یہ خیال آتے ہی اس نے بڑا صندوق اٹھا لیا اور شکریہ ادا کئے بغیر صندوق لئے درخت سے نیچے اتار کر بھاگتی ہوئی اپنے گھر چلی گئی۔
گھر پہنچ کر اس نے اپنی ماں کے سامنے خوشی خوشی وہ بکس کھولا اور جیسے ہی اس نے ڈھکنا اوپر اٹھایا خوف سے چیخ مار کر پیچھے ہٹ گئی۔ صندوق کے اندر ایک بڑا سا سیاہ رنگ کا سانپ پھن پھیلائے بیٹھا تھا اورانہیں ڈسنے کے لئے بار باراپنی باریک لمبی زبان منہ سے باہر نکال رہا تھا۔
دونوں ماں بیٹی خوف کے مارے بری طرح کانپنے لگیں۔ ادھر ادھر بھاگ کر بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی۔ تب راستہ صاف پا کر وہ سانپ صندوق سے باہر نکل کر جنگل میں غائب ہو گیا۔
اس واقعہ کا ذکر ماں بیٹی نے کسی سے نہیں کیا۔ مگر اس کے بعد سے دونوں کے مزاج میں بڑا فرق آگیا تھا۔ انہوں نے لوگوں سے حسد کرنا چھوڑ دیا اور خوش اخلاقی و خوش مزاجی کا مظاہرہ بھی خوب کرنے لگی تھیں۔
ختم شد