سوچتا ہوں اس میں کیا رکھا ہے
غرور و تکبر اور پتھر کا دل رکھا ہے
وہ کیا جانے کسی کے جذبات کو
جس نے دنیا کو پاگل بنا رکھا ہے
ٹھکرائے جانے کا ڈر تھا مجھ کو
محبت کو یکطرفہ بنا رکھا ہے
ہر روز ایک نئی محبت کر لیتے ہو
دل کو مسافر خانہ بنا رکھا ہے
جہاں دیکھوں نظر آتا ہے چہرہ تیرا
دیکھ میں نے نظروں میں تجھے سما رکھا ہے
ایک محبت کی جو نہ ملی مجھے
ناجانے بدلے میں خدا نے کیا رکھا ہے
مجھ کو شوق نہیں لفظوں سے کھیلنے کا
میں نے تجھے اپنی غزل بنا رکھا ہے
میں تیرے خیال سے نکل بھی کیسے سکتا تھا
دل کے کونے میں تیرا نام سجا رکھا ہے
منیب تیرے چکر سے نکل ہی نہ پایا کبھی
کسی بھنور میں جیسے کوئی گھونسلا بنا رکھا ہے
عبدالمنیب
Visited 7 times, 1 visit(s) today
Last modified: June 6, 2024