حامدہ رانی

دفع ہو جاؤ تم یہاں سے مجھے اکیلا رہنے دو یہ سارے مرد ایک ہی جیسے ہوتے ہیں دھوکے بعض نکمے نکارا۔۔۔”،کشش ہتھیلی کی پشت سے آنسوؤں کو چہرے سے رگڑتی ہے۔۔۔”

میں کبھی معاف نہیں کرونگی اسے مجھے پیار کا جھانسا دے کر خود غائب ہوگیا شادی والے دن مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔۔ “

زور سے گالا پھاڑ کے چلائی تھی۔۔۔”

اگر یہی سب کرنا تھا تو مجھے یو رسوا تو نہ کرتے دھوکے دیتے کچھ دن سوگ منا لیتی مگر شادی کے دن دولہا ہی نہیں ۔۔۔”

کچھ سال بعد۔۔۔۔۔(حالات نارمل ہوتے ہیں… )

وجے پور کا پرانا گاؤں جو کچھ خاص مشہور نہیں ہے بس وہاں کی ایک بات ہی خاص ہے جسکی وجہ سے وہ وہاں کا جانا مانا گاؤں بن گیا ہے اسکی خاص بات پتا ہے کیا ہے۔۔۔

کشش نے ہاتھوں کی کلائی کو گھماتے ہوئے کالی بڑی بھنوں والی آنکھوں کو تجسس سے سکیڑتے کہا۔۔۔”

” سیاہ محل۔۔۔”

سیاہ محل۔۔۔

ردا نے بات کو دوہرایا۔۔۔”،

کیوں اس محل میں ایسا کیا خاص ہے۔۔۔”

بھئ وہ تو اب اس کتاب میں نہیں لکھا

(لاپروائی سے شانے اچکاتے ہوئے کتاب کو ہوا میں اچھالتے کہتی ہے)

بس جو وہاں جاتا ہے اسی کا ہو کے رہ جاتا ہے۔۔۔”

{“خانہ خرابہ پتہ نشتہ چہ التہ کم سوغات دی سوک چہ التہ لاڑشی ہغہ ہم دہ ہغہ زی شی۔۔۔”}

خانہ خراباں پتا نہیں وہاں کونسی سوغات ہے جو لوگ ادھر ہیچ کے ہوکے راہ جاتے ہیں…

کشش بڑبڑائ تھی

اے کشش یہ تو کیا کہہ رہی ہے ہمیں نہیں سمجھ آئی

ردا دور کھڑی ہاتھ کے اشارے سے بول کر کہتی ہے۔۔

ہونٹوں میں انگلی دبائے … اوہ تم چھوڑو تم کو کیا لینا ۔۔۔

چلو جو کام کرنے آئے ہے ہم وہی کرتا ہے یہ کتابیں رکھو ۔۔۔

کشش کے ہاتھ سے ردا کتاب لے لیتی ہے دوبارہ کتاب چھپٹتے ہوئے لائبریری میں بنی بک رینک میں رکھتی ہے۔۔”

ردا سر پکڑے کشش کو بولتی ہے۔۔۔ “

اففف اپنا پڑھا نہیں جاتا یہ کہانیاں کون پڑھے۔۔۔”

دونوں باتیں سیاہ محل کے متعلق باتیں کرتے باہر نکل جاتی ہیں کشش مڑ کے پیچھے دیکھتی ہے کتاب اپنی جگہ پے نہیں ہوتی نیچے گری ہوتی ہے۔۔۔

کچھ دیر یونہی ساکت کھڑی گری ہوئی کتاب کو دیکھتی رہتی ہے۔۔”

ہاں بھئی تم کہاں کھو گی چلو اب۔۔۔، ردا کندھے سے ہلاتی ہے چلو ناں۔۔۔

بس سوچ رہی تھی اس جگہ پے جا کر دیکھوں آخر ایسا کیا راز ہے۔۔۔”

فی الحال کلاس میں چلو پیپر شروع ہونے والا ہے۔۔ ‘

ہاں چلو۔۔۔’

ہاں ماں بولوں حیران ہوگی نا اتنی صبح جو اٹھ گیا

(میر بائیک پے بیٹھے اپنی ماں سے فون پے بات کررہا ہوتا ہے۔۔۔)

ہاں بیٹا میں بھی یہی سوچ رہی ہوں سورج کہاں سے نکلا ہے بائیک کی سپیڈ کو تیز کرتے اچھا ماں میں فون رکھتا ہوں یونیورسٹی جا رہا ہوں اور اب جو میں کروں گا اس سےتو ہل جائے گی۔۔۔

میر یونیورسٹی کے سامنے جا کر بریک لگاتا ہے۔۔۔

صبح کے نو بجے”

اوئے تم اتنی جلدی آگے ابھی تو پیپر شروع ہونے میں کافی وقت ہے’ پاس سے گزرتے ایک لڑکے نے ٹوکا۔۔۔

گھر میں بلڈ پریشر بڑھ رہا تھا اس لیے آگیا تجھے کیا مسلہ ۔۔۔”

مارو گا ایک منہ پے چھاپڑ”

مارنے کے لئے آتا ہے اس سے پہلے وہ لڑکا بھاگ جاتا ہے۔۔۔

نوٹس بورڈ پے جا کر رولنمبر چیک کرتا ہے

ارے یاررر!

ہاتھ پے باندھی گھڑی کو دیکھتا ہے ابھی تو بہت ٹائم پڑا ہے۔۔۔”

چلو ایک چکر لائبریری کا لگا آتا ہوں ۔۔۔

بھاگتے ہوئے جا رہا ہوتا ہے راستے میں سر گزرتے کہتے ہے۔۔

کیوں جاگنگ ہورہی ہے ۔۔۔

نہیں سر وہ کیا ہے پیر ہے ناں تو وارم اپ ہورہا ہوں ۔۔

ہوں سر سے شغل بنتیاں ۔۔”

مارکس بتائے گے کیا ہو رہا ہے۔۔

سر سر بات تو سنے۔۔۔

میر سر کے گرد بازو حائل کرے کھڑا ہوتا ہے۔۔۔

ہاں بولوں ۔۔۔” سر بات یہ ہے کہ کھانا زیادہ کھا آیا تھا ہضم کر رہا تھا پھر بعد میں برابلم ہوتی ہے۔۔ سمجھے کرے ناں۔۔

ہونہہ

میر کا کندھے سے ہاتھ جھٹکتے بڑبڑاتے وہاں سے گزر جاتا ہے۔۔۔” اوہ شکر

بلا ٹلی۔۔۔

( سر کے جانے پے شکر ادا کرتا ہے)

کاریڈور سے وشمہ اور ردا نکل رہی ہوتی ہیں ۔۔۔

میر کے قریب سے گزرتے کشش بڑبڑاتی ہے۔۔

{“دا بیکار سڑے ہمیشہ زما لار دہ تور پیشو پہ شان ساتی یو روز بہ زہ دے نہ پریدم۔۔۔۔”}

یہ نکما ہمیشہ کالی بلی کی طرح میرا راستہ کاٹ دیتا ہے ایک دن میں نے اسی کا پتہ کاٹ دینا ہے…

(کشش ہمیشہ میر کو دیکھ صلواتیں سناتی تھی )

اوہ مس پٹھانی یہ مجھے دیکھ کر تمہیں کرنٹ کیوں لگ جاتا ہے۔۔۔

میر ایک پیر پے گھومتے ہوئے کشش کو انگلی سے اشارہ کرتے کہتا ہے۔۔”

پیروں تک آئ میرون فراک کھلے بال گلے میں ڈوپٹہ بڑی بڑی آنکھیں ۔۔ “

مورنی کی سی چال چلتے میر کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہے۔۔

آنکھوں کو چھپکتے ہوئے معصومانہ انداز میں کہتی ہے۔۔۔

میری کیا مجال میں آپ جیسے مہان انسان کو کچھ کہو۔۔۔ “

ہائے لا ایسی نظر سے مت دیکھ

تمہارے ایسے دیکھنے سے مجھے کچھ کچھ ہونے لگا ہے۔۔

(میر اپنی شرٹ کا کالر ہونٹوں میں دبائے شرارتی انداز سے کہتا ہے)….

کشش بھی چہرے پے مسکراہٹ لئے لفظوں کو چبا کے کہتی ہے۔۔۔

{“چہ پہ دی کی ہارٹ اٹیک اوشی نو مزہ بہ اوکی۔۔۔۔”}

اس کچھ کچھ میں ہارٹ اٹیک ہوجائے تو مزہ ہی آ جائے۔۔۔۔۔”

اردو بولا کرو یہ کیا

شاہ منگ چوئی لگائے رکھتی ہو۔۔۔ میرے تو پلے نہیں پڑتی۔۔

اس سے اچھی تو چائنز ہے ۔۔۔

ناں انکو ہماری سمجھ آتی ہے ناں ہمیں انکی۔۔۔(ہاہاہا)

وہ میر بھائی میں تو بس ویسے ہی کہہ رہی تھی ردا کو کہ آج آپ بہت اچھے لگ رہے ہے۔۔

کیا کہا بھائی۔۔۔!

دیکھو تم سے پانچ چھ سال چھوٹا ہوں اب تم یہ بات مانو گی نہیں وہ الگ بات بن جائے گی۔۔۔

کشش ناک بھنوں چڑھائے

شکل دیکھی ہے اپنی پانچ چھ سال چھوٹے ہو۔۔۔

کشش میر کی بات کی نقل اتارتی ہے ۔۔۔

ارے چھوڑ کشش جانے دے ناں کیوں صبح صبح اس لنگور کے منہ لگ رہی ہو ردا بات کو بڑھانے سے روکتی ہے۔۔۔”

ہاں بے شک

میری بلا سے تو بھاڑ میں جائے۔۔۔۔”

اففف چلو بھئی

اس سے پہلے میر کچھ کہتا

ردا زبردستی کشش کا بازو کھینچ کر لے جاتی ہے۔۔۔”

توبہ توبہ کیا تھی اور کیا بن گی اففف میر کانوں کو ہاتھ لگائے بول رہا ہوتا ہے۔۔۔

لڑکیوں کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ابھی اتنی بھولی بن رہی تھی اور منٹ میں جنگلی بلی بن گی توبہ میر دوبارہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔۔۔”

یا اللہ جو پڑھا ہے بس وہی آجائے اگزیمز میں

ارے کہاں وہی آتا ہے کیوں ہلکان ہو رہا ہے آسان سا پیپر ہے فزکس کا۔۔۔

موحد گردن کوجھٹکا دیتے گھورتا ہے آج میتھ کا پیپر ہے۔۔۔

ابرار لیز منہ میں ٹھونستے حیران ہوتا ہے۔۔۔

ہاں تو اب مجھے کیا گھور رہا ہے موٹے گینڈے یہ لے اور کھا یہ ٹھونس اپنے کنوئے میں

موحد لیز کا سارا پیکٹ ابرار کے منہ میں بھرتے بول رہا ہوتا ہے۔۔۔

ارے کوئی نہیں یار چل کر تو نو پیپر میں فیل ہو چکا ہے دس کا سین بنا لے پھر پارٹی کرے گے۔۔۔۔”

ابرار لیز کھاتے کھاتے موحد کے کندھے پے ہاتھ مارتے کہتا ہے۔۔۔۔”

موحد کندھے سے ابرار کا ہاتھ جھٹکتا ,اوہ چل یار تو چل مل کر میرا پاب مجھے گھر سے نکال دے گا۔۔۔

دیکھ گھنٹی بج گی۔۔۔

تیری بجی کیا؟ (ابرار ہنستے ہوئے موحد کو چڑاتا ہے)

ابرار کے کان کے نیچے لگاتا ہے۔۔ ارے بےوقوف اگزیمز ٹائم شروع پہلے بھی ایسے ہی ہوا تھا میں کتاب چاٹ رہا تھا اور تو یہ ٹھونس رہا تھا پھر بعد میں لیٹ ہوگے چل جلدی کر۔۔۔

سارا سال پڑھتے نہیں جب اگزیمز کا وقت آتا ہے تو دعائیں پے دعائیں ۔۔۔

کلاس روم میں آتے ٹیچر پیپر ڈائس پے رکھے اپنی روداد گھڑتی ہے۔۔۔

چلو سب اندر آتے جاؤ آئ چیک کرواؤ۔۔

گڈ مارننگ میم۔۔۔

میر ہاتھ ہلاتے چہرے پے مسکراہٹ سجائے کہتا ہے۔۔

ہاں ۔۔۔

اوہ

تم پہلے سے موجود ہو

ٹیچر ہودا چونک جاتی ہے۔۔۔

ٹیچر سوچتی ہے آج یہ اتنی جلدی۔۔ کلاس میں تو کبھی وقت پے نہیں آیا۔۔۔

ارے میم کیا سوچ رہی ہیں پیپر دیں ۔۔۔

ہوں دیتی ہوں صبر سے کام لو۔۔۔

جی جی ۔۔۔

تمام طلبہ بھی پیپر دیتے ہیں کشش بھی بیگ اٹھائے منہ میں بلبل چبائے ٹھاٹھ سے آتی ہے۔۔۔

چلتی تو ایسی ہے جیسے اسکے پاب کا کالج ہے۔۔۔

میر اسے دیکھ کے سوچتا ہے

سر جھٹکتے پییر سالو کرنے لگتا ہے۔۔۔”

ابھی پیپر دیکھے کچھ وقت ہی گزرتا ہے کہ میر شیٹ مانگنتا ہے۔۔’

اکسٹرا شیٹ میم۔۔۔

کچھ توقف کے بعد

اکسٹرا شیٹ۔۔۔

ہاں پوری کلاس میر کو گھور رہی ہوتی ہے۔۔۔

دھڑا دھڑ اسکا ہاتھ لکھنے میں چل رہا ہوتا ہے۔۔۔

کچھ آتا بھی ہے یا بس شیٹ کالی کرنی ہے۔۔۔

ٹیچر ہودا میر کو پیپر حل کرتے دیکھ کے پوچھتی ہے۔۔۔”

ہاتھ میں پہنے ریسٹ واچ کو دیکھتا ہے۔۔۔”

(اففف ٹائم کم ہے)

بعد میں جواب دو نگا وقت نہیں ۔۔

شیٹ کو اکٹھا کرکے سٹپلرل لگاتا ہے۔۔”اسکو کر دو ٹائٹ اوہ جی تو یہ ہوگیا ہمارا فیوچر برائٹ۔۔

میم بس ہوگیا اب۔۔۔

کیا اتنی جلدی۔۔۔؟

ہاں میم جب سب اتنا آسان تھا تو کر ہی لیا اب جاؤ ۔۔۔

گڈ اب بیٹھ جاؤ

ابھی ٹائم باقی ہے ارے میم مجھے ارجنٹ کام ہے کہی جانا ہے۔۔۔

ابھی بھی ٹائم باقی ہے تم جا کر بیٹھ جاؤ۔۔۔

میر معصوم چہرہ بنائے

وہ میم ماں کی دوائیاں لے کر آنی ہے یہی وقت ہے میرے پاس بھی اور انکے پاس بھی۔۔۔

ٹیچر ہودا شک کی نگاہ سے گھورتی ہے۔۔ “

پکی بات ہے۔۔

ج جی میم آپ یہاں کسی سے بھی پوچھ سکتی ہیں ۔۔۔”

میر اپنی بات کی جھوٹی تصدیق کے لئے ایسے ہی کہہ دیتا ہے۔۔۔”

(کشش جو کب سےاپنا پیپر چھوڑ کے میر اور ہودا میم کی بات سن رہی ہوتی ہے)

کشش اپنی چیئر پے بیٹھے ہاتھ اٹھا کے کہتی ہے۔۔۔

یس میم یہ سہی کہہ رہا ہے۔۔۔”

میر کی آنکھیں باہر کو آجاتی ہے منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے کہ کشش اسکا ساتھ دے رہی ہے۔۔ “

میر کو آنکھ مارتی ہے اور پھر سے تیزی سے ہاتھ چلاتے لکھنا شروع کر دیتی ہے۔۔۔ “

میر کھانستے ہوئے اپنا رخ دوسری طرف کر لیتا ہے۔۔

جاو میم اب میں ۔۔۔’

اچھا ٹھیک ہے جاؤ

اس سے اتنا ارجنٹ کونسا کام ہے پتا لگانا پڑے گا کشش جلدی سے پیپر جمع کروانے کے بعد میر کے پیچھے نکل جاتی ہے۔۔۔۔

میر اپنی بائیک پے جاتا ہے۔۔۔۔ راستے میں کچھ کیک اور پیسڑیز وغیرہ لیتا ہے ساتھ میں کچھ غبارے بھی بائیک کے ہینڈل ساتھ باندھ لیتا ہے۔۔۔

کشش اس کے پیچھے ہوتی ہے میر کچے راستے پے بائیک کو لے جاتا ہے۔۔۔”

یہ کیا کشش اپنی کار کی سپیڈ آہستہ کر لیتی ہے۔۔۔” یہ یہاں اس ویران جگہ پے لے کر آیا ہے یہ سب،آخر کیوں ۔۔۔؟

میر کی بائیک کشش کو نظر نہیں آتی۔۔۔

چیک کرنے کے لئے کار سے باہر آتی ہے۔۔۔آس پاس کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔

اوہ شٹ لگتا ہے اسے معلوم ہوگیا تھا میں اسکا پیچھا کر رہی ہوں ۔۔ “

بہت زور سے اپنا ہاتھ گاڑی کے بونٹ پے مارتی ہے۔۔۔”

اچانک میر پیچھے سے نازل ہوجاتا ہے اسکی آنکھیں شدید لال ہوتی ہیں ۔۔۔

کشش اچانک میر کے آجانے پے ڈر جاتی ہے۔۔۔”

چینخ کو روکنے کے لئے منہ پے ہاتھ رکھ لیتی ہے۔۔۔

اسکی سانسیں زور سے چل رہی تھی

کشش میر کی آنکھوں میں دیکھتی ہے تو اسکی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی لہر دوڑتی پورے جسم کو ہلا دیتی ہے۔۔۔

وہ بھی نہیں جانتی تھی کہ اسے کیا ہو گیا ہے۔۔ “

میر آہستہ آہستہ کشش کے قریب بڑھاتا ہے۔۔۔” کشش پیچھے کو جاتی ہے۔۔۔”

جیسے میر ایک قدم آگے بڑھتا ہے کشش دو قدم پیچھے رکھتی ہے۔۔۔

بہت ڈری سہمی ہوئی پیچھے دیکھتی ہے جہاں کانٹے دار جھاڑیاں ہوتی ہیں

آہ اب کیا کروں گی میں ۔۔۔

ایک نظر میر کو دیکھتی ہے جو میر نہیں کچھ اور ہی لگ رہا ہوتا ہے۔۔۔

شیطانی مسکراہٹ سے میر کشش کو دیکھتے ہنوز آگے بڑھ رہا ہوتا ہے۔۔۔۔

کشش آنکھیں بند کرتی ہوئی پیچھے کو ہوتی ہے ۔۔۔

جیسے جان بوجھ کر گرنے لگی ہو۔۔۔”

کشش جھاڑیوں میں گرنے ہی لگتی ہے کہ ۔۔۔۔میر لمبے قدم اٹھاتے ہوئے کشش کو کمر سے تھام لیتا ہے۔۔۔

“زما شہرذای۔۔ “

{…میری شہزادی۔۔۔ }

آہستگی سے کشش کو پکڑتے کہتا ہے۔۔ “

کشش کو تھامتے ہی میر جھٹکے سے اسے اپنے سینے سے لگاتا ہے۔۔

اپنے بدن پے میر کا لمس

محسوس کرتے کشش آنکھیں کھولتی ہے۔۔۔”

میر کی آنکھیں ہنوز لال ہوتی ہیں ۔۔ “

خوف کے مارے کشش پھر سے آنکھیں موند لیتی ہے۔۔۔”

جب دوبارہ آنکھیں کھولتی ہےتو خود کو کار کے قریب پاتی ہے میر وہاں پے کہی موجود نہیں ہوتا ۔۔۔

کشش گھبرا جاتی ہے۔۔۔

اسکی سانسیں بھولی ہوئی ہوتی ہے۔۔۔ ماتھا پسینے سے شرابور ہوتا ہے

حواس قابو سے باہر تھے کچھ دیر میں جب سنبھلتے ہے تو بجلی کی تیزی سے کار میں بیٹھتی ہے” اچانک رونما ہونی کاروائی سے گھبرائی کشش تیزی سے کار ڈرائیور کرتی سڑک پے فراٹے سے جا رہی ہوتی ہے۔۔۔”

ارے کہا رہ گیا یہ نکما

موحد گھڑی کو آٹھویں بار چیک کرتے بے قراری سے کہتا ہے۔۔۔

ابرار پوپ کارن پے ہاتھ صاف کرتے ۔۔۔ بس کر کیا بار بار ایک ہی بات کہا رہ گیا۔۔۔کان پک گے ہے میرے۔۔ آجائے گا۔۔۔

موٹے گینڈے تیرا کھانا کبھی ختم نہیں ہوگا۔۔۔”

موحد ابرار کے بیٹ پے تھپڑ مارتا ہے۔۔

اوہ تمیز سے اسے کچھ نہ کہا کرو بہت کچھ ہوتا ہے اس میں ۔۔۔

ہاں گینڈے تیرے اس ڈرم میں وہی سارا دن کا کھانا بھرا ہوتا ہے ۔۔۔”

لو! وہ دیکھو آگیا ناں۔۔۔

ابرار موحد کی بات کو نظر انداز کرتے سامنے آتے میر کی طرف دیکھتے کہتا ہے۔۔۔ “

کہا رہ گیا تھا ۔۔۔؟

کب سے تیرا ویٹ کر رہے ہیں ۔۔۔

موحد میر کے آتے ہی اس پے چڑھائی شروع کر دیتا ہے ۔۔۔

(ہاہاہا) ارے وہ مس پٹھانی ہے ناں میرا پیچھا کر رہی تھی ایسا چکما دے کر آیا ہوں راستہ بھول گی ہوگی۔۔

بس اسی چکر میں تھوڑی دیر ہوگی۔۔۔۔”

وہ تیرا پیچھا کیوں کر رہی تھی۔۔ ہاں دال میں کچھ کالا تو نہیں ۔۔۔

ابرار میر کے کندھے پے ہاتھ رکھ کے اپنی تھوڑی نیچے ہاتھ رکھتے شرارتانا کہتا ہے۔۔۔”

ارے ہٹ یار۔۔

وہ پٹھانی میرے ٹائپ کی نہیں ہے میں تو اسے منہ بھی نہیں لگاتا ۔۔۔

تم دونوں کیا بکواس باتیں لے کر بیٹھ گے ہو۔۔۔

ہمیں پہلے دیر ہورہی ہے۔۔

ہاں یار میر چلو اب موحد ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔ ” شکر ہے اس ابرار کو میری کوئی بات تو سمجھ آتی ہے۔ “

دونوں دوست میر کے سقتھ بائیک پے بیٹھے آنات آشرم جاتے ہیں ۔۔۔

میر ہر ہفتے آنات آشرم جاتا تھا وہاں کے بچوں کا برتھڈے سیلیپریٹ کرنے۔۔۔۔

معمول کی طرح آج بھی تینوں دوست وہی جا رہے تھے۔۔۔”

کشش گھر پہنچتی ہے سیدھا اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔۔۔”

جاتے ہی کمرہ اندر سے لاک کر لیتی ہے۔۔۔”

نوکرانی آوازیں دیتی آتی ہے۔۔

میم صاحب ۔۔۔ میم صاحب کیا ہوا آپکو۔۔۔

آپ ٹھیک تو ہیں ۔۔۔

ادھیڑ عمر کی رقیہ بیگم جس نے بچپن سے کشش کی دیکھ بھال کی ماؤں کی طرح چاہنے والی ہر وقت کشش کا خیال رکھتی تھی ۔۔۔ گھر سے بہت دور فارم ہاؤس میں بھی کشش کے ساتھ رہنے کے لئے اسکے ساتھ موجود ہوتی ہے۔۔۔”

میم صاحب بتاؤ کیا ہوا۔۔ دروازہ کھٹکھاٹے پوچھتی ہے ۔۔۔

کشش بامشکل خود کو قابو کرتے جواب دیتی ہے۔۔ ۔رقیہ آنا آپ جائے میں ٹھیک ہوں ۔۔۔

کشش کی آواز کانپ رہی تھی وہ اس لمحے کے بارے میں سوچتی تو جسم میں جھرجھری سی دوڑ جاتی۔۔۔

کچھ دیر یونہی ساکت بیٹھی رہتی ہے۔۔

رقیہ بھی کشش کا جواب سن کر چپ چاپ چلی جاتی ہے ۔۔۔

کچھ دیر بعد طبعیت سنبھلتی ہے تو خود کو مصروف رکھنے کے لئے کتاب اٹھا کے پڑھنا شروع کر دیتی ہے۔۔۔”

اگر ایک کپ چائے مل جائے اففف یہ سر درد بھی ختم ہوجائے ۔۔

سر پکڑتے ہوئے کچن میں جاتی ہے۔۔۔

{خانہ خرابہ سہ ضرورت او چہ تہ ہغہ پسی تلی۔۔۔۔۔}

” خانہ خرابہ کیا ضرورت تھی اس چھچھورے میر کے پیچھے جانے کی واہ کشش تو بھی کمال ہےکرتی ہے۔۔۔”

چائے بناتے خود کو ہی کوس رہی ہوتی ہے۔۔۔۔”

چائے کی چسکی لیتے

کھڑکی کے پاس بیٹھے کتاب پڑھنے میں مگن ہوتی ہے۔۔۔

کھڑکی سے اندر آتی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کشش کے چہرے کو چھو رہی ہوتی ہے بالوں کے لٹیں ہوا سے اٹکلیاں کرتے چہرے سے مس ہوتی ہیں جیسے وہ بار بار کانوں کے پیچھے کرتی ہے۔۔ کشش کو بھی ہوا بہت اچھی لگ رہی ہوتی ہے۔۔۔

میز کے پاس رکھا گلدان نیچے گر جاتا ہے۔۔

کشش پہلے تو دیکھتی رہتی ہے کہ کیسے گرا۔۔ ہوا کے جھونکے سے کتاب کے صحفے پلٹتے ہیں۔۔۔

اوہ اچھا ہوا سے گرا ہو گا۔۔

گلدان کو دوبارہ میز پے رکھ دیتی ہے۔۔۔

جب دوبارہ کتاب پڑھنے کے لئے کھڑکی کے پاس جاتی ہے وہاں کالی بلی بیٹھے اپنا پنچہ چاٹ رہی ہوتی ہے اسکی آنکھیں لال ہوتی ہے لیکن بنا کوئی شور کئے کتاب کے پاس بیٹھے مزے سے پنچہ چاٹتی ہے جیسے کچھ کھا کر آئ ہو اور اب صاف کر رہی ہو۔۔۔

کشش تجسس سے بلی کی حرکات کو دیکھتی ہے پھر سوچتی ہے یہ یہاں آئی کیسے ۔۔۔

کیونکہ کشش کا کمرہ اوپر والے پورشن پے تھا وہاں تو چڑیا وغیرہ بھی نظر نہیں آتی تھی کیونکہ وہاں آس پاس کوئی درخت نہیں تھا آج یہ بلی۔۔۔ وہ بھی اچانک۔۔۔

کشش بلی کی طرف آہستہ آہستہ کانپتے ہوئے ہاتھ لے جاتی ہے۔۔۔”

میاؤں۔۔۔۔

بلی چنگھاڑتے ہوئے باہر چھلانگ لگا لیتی ہے۔۔۔

کشش فورا کھڑکھی سے باہر جھانک کے دیکھتی ہے ۔۔۔ تب تک وہ جا چکی ہوتی ہے۔۔۔

کتاب کی طرف نظر پڑتی ہے تو وہاں کتاب کوئی اور موجود ہوتی ہے۔۔ “

اپنی آنکھوں کو شدت سے مسلتی ہے اسکے کان سائیں سائیں کر رہے ہوتے ہیں ۔۔۔

یہ کیا ۔۔ ؟

یہ کتاب یہاں کیسے آئی ۔۔۔

کتاب کو اٹھاتے پڑھتی ہے۔۔۔

وہاں پے عیجب سا کچھ لکھا ہوتا ہے جیسے پڑھنا بھی کشش کو مشکل لگ رہا ہوتا ہے۔۔۔

เจ้าหญิงฉันรอคุณอยู่۔۔۔۔۔”

{ princess Im waiting for you…..}

ارے یار یہ کیا لکھا ہے۔۔۔؟

کتاب کو کبھی الٹا تو کبھی سیدھا کرتی لیکن بے سودھ کچھ سمجھ نہیں آرہی ہوتی۔۔۔

بہم بڑی بات ہے بلی اپنا آٹو گراف دے کر گی ہے۔۔۔”

کچھ سوچتے ہوئے ردا کو کال کرتی ہے۔۔۔

رنگ جانے ہے ردا کال ریسیور کر لیتی ہے۔۔۔”

یار تمہیں تمام ساؤتھ لینگوئجز آتی ہے۔۔۔

کیا بات کر رہی ہو مجھے تو اردو بھی بہت مشکل سے آتی ہے۔۔۔

یاررر۔۔۔۔

موبائل کھول گوگل انکل سے پوچھ لے ناں میرا کیوں دماغ کھا رہی ہو۔۔۔

حال احوال پوچھا نہیں لینگوئج کی پڑھ گی کل مجھے چھوڑ کے کہاں بھاگی تھی ۔۔۔؟

افف کل کی وجہ سے یہ سارا کام بگڑا ہے

اور تمہیں کیا لگتا میں تمہیں کال کر کے عجیب سی لینگوئج کا کیوں پوچھوں گی۔۔۔ کل کا معاملا یونی آکر بتاؤ گی۔۔۔

یہاں نیٹ کی سروس کا مسلہ ہے۔۔۔ ورنہ میں گوگل کر چکی ہوتی۔۔۔

ہممم اچھا ایک کام کرو ۔۔ صبح لائبریری جا کر معلوم کر لینا ۔۔۔”

ہاں یہی ٹھیک رہے گا۔۔۔”

ردا بھی یہی کہتی ہے۔۔

موبائل رکھ کے

کشش کتاب کو اٹھا کے بیگ میں ڈال لیتی ہے۔۔۔”

باہر اندھیرا چھا رہا تھا سورج مغرب کے کسی گوشے میں روپوش ہورہا تھا۔۔۔ آسمان پے سرخی نمودار تھی۔۔۔

مطلب رات ہونے کو تھی چاند کی چاندنی آسمان پے بکھرنے لگی تھی۔۔۔

معمول کے مطابق کشش تمام کام نمٹائے اپنے کمرے میں سونے کی غرض سے جاتی ہے۔۔۔”

سارے دن کے معملے کو دوہراتے بیڈ سے اٹھتی ہے بیگ سے وہی کتاب نکالے پھر سے پڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔

یہ آخر لکھا کیا ہے۔۔۔

کافی دیر تک اپنا دماغ کھاپاتی رہتی ہے۔۔۔

اونگوھتے ہوئے۔۔ آبس بہت ہوگیا پتا نہیں کیا چبل لکھا ہے۔۔۔

بیڈ کے سائڈ پے بنی میز پر کتاب رکھے لحاف اوڑھے لمبی تان کے سو جاتی ہے۔۔۔”

کشش کو سکون نہیں ملتا دائیں بائیں کروٹتے بدلتی رہتی ہے۔۔۔”

اسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اسکے علاوہ کوئی اور بھی کمرے میں موجود ہے۔۔۔

کشش کے کان کی لو کسی کی سانسوں کی تپش سے گرما جاتی ہے۔۔۔

پھر سے آواز آتی ہے

زما شہزادی ۔۔۔۔۔”

آواز سے زیادہ سانسوں کی سائیں سائیں تیز ہوتی ہے وہ سمجھ ہی نہیں پاتی کوئی کیا بول رہا ہے۔۔۔۔

{آآآں زممممما…}

“صرف میری۔۔۔۔”

کشش کو اپنے گالوں پے کچھ چلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔۔۔

جیسے کوئی اسے چھو رہا ہو۔۔۔

کشش کے لمبے سلکی بالوں میں ہاتھ پیھرتا ہے اور سونگھتا ہے۔۔۔

جن زاد کی اس حرکت سے واضح تھا کہ وہ کشش کے خوبصورت لمبے سلکی بالوں کا دیوانہ ہوگیا ہے۔۔۔”

{ہوں عطر شہزادی۔۔۔”}

خوف سے ٹانگیں کانپنے لگتی ہے۔۔۔”

سانسوں کی گرماہٹ تیز ہوتی جاتی ہے۔۔۔'”

وہ زور سے چلانا چاہتی تھی بھاگنا چاہتی تھی لیکن اسکی آواز گلے میں ہی بندھ جاتی ہے۔۔۔۔”

اپنا ہاتھ تک نہیں ہلا پاتی۔۔۔۔

کوئی غیر مرئی مخلوق اس پے قابض تھی۔۔۔۔

زبان جیسے تالو سے چپک گی ہو۔۔۔” کچھ بھی بولنا محال تھا۔۔۔

بہت زور لگا کے کہتی ہے۔۔۔

ککککک۔۔۔۔۔۔۔ کو ۔۔۔۔۔۔کون۔۔۔؟

کافی دیر تک کشش اسی حالت میں ساکت لیٹی رہتی ہے۔۔۔

لیکن کوئی جواب نہیں دیتا۔۔۔۔

یہ اسکے ساتھ پہلی بار ہوا تھا انجان سا خوف کشش کے دماغ پے چھا گیا تھا۔۔۔۔”

وہ رات کشش نے کانٹوں پے لوٹتے گزاری تھی ۔۔۔

اور وہ نہیں جانتی تھی آئندہ بہت سی راتیں ایسے ہی گزارنی پڑے گی۔۔۔۔”

رات گزری سورج چمکارے مارتا ہوا ابھرا سب کی صبح معمول کے مطابق ہوئی۔۔۔ ہنستی کھکھلاتی ہوئی لیکن کشش کی صبح میں پہلے جیسی رمق نہیں تھی۔۔۔

آنکھیں بجھی بجھی سی چہرہ اداس سا۔۔۔

ایسے لگتا تھا جیسے کتنی ہی راتوں کی جاگی ہوئی ہو۔۔

کشش بجھے سے چہرے کے ساتھ کندھے پے بیگ ڈالے گھر سے باہر نکلتی ہے۔۔۔” میم صاحب ناشتہ تو کر لے ۔۔۔ رقیہ مین گیٹ کو پکڑے اونچی آواز سے کہتی ہے۔۔

رقیہ آنا میں یونیورسٹی سے کچھ کھا لوں گی مجھے جلدی جانا ہے کچھ کام ہے۔۔۔

کشش وہی رکے بنا مڑے جواب دیتی ہے۔۔۔

ارے بچہ کچھ تو کھا لو۔۔۔

کشش لان عبور کرتے پارکنگ میں چلی جاتی ہے۔۔۔

رقیہ بس پکارتی رہ جاتی ہے۔۔۔”

اگر رقیہ کشش کا اترا چہرہ دیکھ لیتی تو سو سوال جواب کرتی کشش نہیں چاہتی تھی کہ انہیں کچھ معلوم ہو۔۔۔”

یونی پہنچتے کشش کی نگاہیں میر کو تلاشتی ہے کوریڈور میں کھڑا میر کسی سے باتیں کر رہا ہوتا ہے کشش کی طرف سے اسکی بیٹھ ہوتی ہے لیکن وہ پہچان لیتی ہے یہ میر ہی ہے۔۔۔”

میر کی حرکت کو سوچتے ہوئے

غصے سے اسکے کندھے پے ہاتھ رکھتی ہے۔۔ میر اپنے کندھے کی جانب دیکھتا یے پھر پیچھے کشش کی طرف مڑتا ہے۔۔۔

کچھ نہیں کہتا بس

سوالیہ نگاہوں سے دیکھتا ہے۔۔۔

انگلی کے اشارے سے لفظوں کو چباتے کہتی ہے۔۔۔

تمہاری وجہ سے ہوا یہ سب۔۔

اوہ میری وجہ سے کیا ہوا۔۔۔؟ ذرا بتانے کا کشت اٹھائے گی۔۔۔

میر ہاتھوں کو بغل میں دبائے اطمینان سے پوچھتا ہے۔۔۔

میر کی طمناعیت پے کشش دنگ رہ جاتی ہے۔۔

یعنی، تمہیں نہیں معلوم۔۔۔

میر نفی میں گردن ہلاتا ہے۔۔۔

اوکے ٹھیک ہے۔۔۔

ہاں ناں تمہیں کیوں بتاؤ گا۔۔

اور ویسے بھی سچ میں بتاو گا اور جھوٹ میں بولنا نہیں چاہتا۔۔۔”

اگر میں کہو کہ دونوں میں سے کوئی ایک بتا دو تو کیا بتانا پسند کرو گے۔۔۔

میر سوچتے ہوئے جواب دیتا ہے۔۔۔ ” جھوٹ۔۔۔”

ہاں کیو کس، خوشی میں سچ بتاتے ہوئے کیا ہوتا ہے۔۔

دیکھو اگر میں نے سچ بتا دیا تو میرا کچھ نہیں جائے گا تمہارا نقصان ہوگا,اور اگر جھوٹ بتا دیا تو دونوں ہی بچ جائے گے۔۔۔”

کشش کچھ بولنے لگتی ہے میر ٹوک دیتا ہے۔۔۔اور ایک بات میں تمہیں کچھ نہیں بتانے والا۔۔۔

کشش بنا کوئی جواب دیئے میر کو چھوڑے آگے بڑھ جاتی ہے۔۔

ویسے میری جاسوسی کس خوشی میں ہورہی تھی وجہ جان سکتا ہوں ۔۔۔”

کشش کے چلتے قدم وہی رک جاتے ہیں جب میر پیچھے سے آواز لگائے اس سے پوچھتا ہے۔۔۔”

سیاہ سلکی بالوں کو سائیڈ پے کئے مڑتی ہے۔۔۔

ایک قدم آگے بڑھتے کہتی ہے بس یہی جاننا تھا اتنی ایمرجنسی کیوں تھی پیپر کو چھوڑ کے۔۔۔

بس کسی اپنے کے لئے گیا تھا

میر کندھے اچکائے جواب دیتا ہے۔۔۔ یہی جاننا کافی ہے تمہارے لئے ۔۔۔۔۔کشش زچ ہوتی ہے میر کبھی کچھ تو کبھی کچھ کہتا ہے۔۔۔۔

اے کشش تم آگی میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں ۔۔۔

ردا کشش کو میر کے ساتھ باتیں کرتے دیکھ کر آواز لگاتی ہے۔۔۔

ہمم بس طرف ہی آرہی تھی۔۔۔

{۔۔۔۔۔۔۔ملاؤ شو راتا…}

۔۔۔۔”چھچھونددر مل گیا تھا ایک”

منہ بسورتے میر کو دیکھے کہتی ہے۔۔۔

چلو ناں ۔۔

میر کشش کو ایسے بولتا دیکھ کر تلملا اٹھتا ہے ۔۔۔ کیونکہ اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آتی کہا کیا ہے۔۔۔

ردا کشش ہاتھ تھامے لابئرری لے جاتی ہے۔۔۔

کشش رات کی گزری ساری روداد ردا کو سناتی ہے۔۔۔

ردا کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔۔۔

ویسے یار مجھے لگتا تمہارا وہم ہوگا ۔۔۔

ایسے تو نہیں ہوتا اور اتنے بڑے فام ہاؤس میں تم اکیلی ۔۔۔

اکیلی کہاں ہوتی ہوں ماما نے رقیہ آنا کو ساتھ بھیجا ہوا ہے اور پھر ملازم گارڈ بھی تو موجود ہوتے ہیں ۔۔۔

اففف کشش یہ سب چھوڑ یہ بتا کہ اگزیئمز ختم ہیں آج کہیں چلے۔۔

ردا کشش کی باتوں کو پٹارے میں بند کرے اپنا گھومنے کا پٹارہ کھولتی ہے۔۔

ہاں جاؤ گی میں ۔۔۔

واؤ کہاں جائے گے۔۔”

کشش ہاتھ میں پکڑی کتاب کو دیکھتی ہے۔۔۔

بغور دیکھتی رہتی ہے۔۔۔

کشش۔۔۔

ردا کشش کو بازو سے پکڑ کے پکارتی ہے۔۔۔

بتاو تو سہی۔۔۔

بس جگہ مجھے معلوم ہے تم جانے کی تیاری کرو۔۔۔

یہ کیا بات ہوئی کچھ تو بتاو کونسا علاقہ ہے گرم ہے سرد ہے تاکہ اسکے مطابق بیکنگ کروں ۔۔۔

یہ تو مجھے بھی نہیں پتا بس جو دل میں آئے وہی کرو۔۔

اچھا ٹھیک ہے۔۔۔

ردا منہ بھلا لیتی ہے۔۔

اب ایسے نہ بیٹھو دیکھنا ایک نیا ایڈونچر ہوگا مزہ آئے گا۔۔۔

اچھا پھر کب ہے جانے کاپلین ہے۔۔۔

بس کل صبح پکا جانا ہے۔۔

کشش نے وجے پور جانے کا ارادہ باندھ لیا تھا۔۔

تو نے اپنی ماما کو بتا دیا۔۔۔

یار انہی کب میری پرواہ ہے ویسے بھی میں نے کہا ہوا تھا کہ سٹڈی سے فری ہونے کے بعد دوستوں کے ساتھ آونٹنگ پے جاؤ گی۔۔۔

ردا کل جانے کا سن کر اکسائٹڈ ہو جاتی ہے جبکہ کشش دل ہی دل میں سوچتی یے کہ وہ ابھی وہاں پہنچ جائے اور اس راز کا پتا لگائے۔۔۔

تینوں دوست پیپر دینے کے بعد کیفے ٹیریا میں موجود ہوتے ہیں ۔۔

اوئے سن گینڈے تو اپنے وہی دادا والے بنگلے میں کب لے کر جارہا ہے۔۔۔ جس کے روز قصے سنا کر دماغ کی دہی کرتا ہے۔۔۔

نولکھا حویلی میں ۔۔۔؟

ابرار چپس کھانے میں مصروف ہوتا ہے۔۔ میں تجھ سے کچھ پوچھ رہا ہوں ۔۔ موحد دوبارہ کہتا ہے۔۔

ابرار کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملتا اسے بس کھانے کی پڑی رہتی ہے۔۔۔

دیکھ یار کھانے دے تنگ نہ کر دادا جی کہتے تھے کھاتے ہوئے کسی سے بات نہیں کرتے۔۔۔

دیکھ رہا ہے تو اسکے کام۔۔۔

موحد میر سے کہتا ہے۔۔۔ بس یار پیپر ختم اب یہی ہوگا گھومنا پھرنا ابرار جان چھڑاتے کہتا ہے۔۔۔

سوچتے ہے کچھ۔۔۔

میر دونوں بازوؤں کو ہوا میں بلند کرتے انگڑائی لیتا ہے۔۔۔

آوے میر تو اس پٹھانی سے کیا کہہ رہا تھا ۔۔۔ موحد کشش اور میر میں ہونے والی جھڑپ کی بات کرتا ہے۔۔۔

کچھ نہیں یار بس دماغ خراب ہے اسکا۔۔ ویسے یہ پٹھانی زبان میں لیکچر وغیرہ کہا ملتے ہیں پتا کر جب جی میں آیا اپنی زبان اگل دیتی ہے۔۔۔ میں بھی سیکھو گا۔۔۔

ہاہاہا میری مان تو اس پے فدا ہو گیا ہے۔۔۔

موحد میر کی بے قراری کو بھانپتے کہتا ہے۔۔۔

میر کچھ کہنے ہی لگتا ہے کہ ابرار کہتا ہے۔۔۔

چلو میں نے کھا لیا اب بتاؤ بات کیا ہے۔۔ ابرار ہاتھ چھاڑتے ہوئے شرٹ کو سہی کرتے اکھڑا ہوتا ہے۔۔۔”

موحد غصے سے ابرار کو ایک چھاپڑ لگاتا ہے۔۔ تیری یہ کھانے کی عادت کسی دن تجھ پے ہی بھاری پڑی گی۔۔۔

میر بھی ہنستے ہوئے کرسی سے اٹھتا ہے۔۔۔”

شام کے اور ہاتھ میں وہی کتاب تھامے گہری سوچ میں ڈوبے لان کے چکر لگا رہی ہوتی ہے۔۔۔ کچھ دیر بعد لان میں رکھے میز پے پڑا موبائل وائبریٹ ہوتا ہے۔۔۔

چونکتے ہوئے موبائل کو دیکھتی ہے پھر قدم بڑھاتے ہوئے موبائل اٹھاتی ہے۔۔۔

اوہ آج ماما کو میری یاد کیسے آئ۔۔۔

چہرے پے طنزیہ مسکراہٹ لئے موبائل کان سے لگا لیتی ہے۔۔۔

سلام دعا کے بعد خیریت دریافت کرتی ہے۔۔۔”

ماما آپ کو بتایا تھا کل میں اپنی دوستوں کے ساتھ گھومنے جارہی ہوں ۔۔۔

لیکن کشش بیٹا پہلے ایک چکر گھر لگا لیتی ۔۔۔۔ نہیں ماما بس کچھ ہی دنوں کی بات ہے پھر گھر ہی آؤ گی۔۔۔

رقیہ مسکراہٹ چہرے پے سجائے جوس کا گلاس لے کر آتی ہے۔۔۔

اچھا ماما آپ سے بعد میں بات ہوگی۔۔۔ کشش رقیہ کو آتے دیکھ کر موبائل بند کر دیتی ہے۔۔۔

اوہ شکریہ رقیہ آنا میرا بہت دل کررہا تھا فریش اورنج جوس کا۔۔۔ آپ میرا کتنا خیال رکھتی ہیں اور ایک ماما ہے۔۔۔

کشش افسردگی سے کہتی ہے۔۔۔

بیٹا وہ تمہاری ماں ہے اور پھر باہر کے کام آفس اور میٹنگز وغیرہ یہ سب بھی تو وہی دیکھتی ہے ہاں۔۔۔

ایسا نہیں کہتے۔۔۔

رقیہ کشش کو سمجھاتی ہے۔۔۔

مجھے جب بھی بخار ہوا مجھے جب بھی انکی کمی محسوس ہوئی وہ وہاں موجود نہیں تھی۔۔۔ نوکروں کے رحم وکرم پے چھوڑ جاتی تھی۔۔۔

کشش روہانسی انداز میں کہہ رہی تھی۔۔۔”

رقیہ کشش کو گلے لگا لیتی ہے۔۔ میرا بچہ بس تم نے انکی مجبوری کو نہیں سمجھتی وہ بہت پیار کرتی ہے تم سے۔۔۔

رقیہ کشش کے دل میں ماں کے لئے پھوٹنے والی بدگمانی کو مٹانا چاہتی تھی۔۔۔

چلو شاباش جلدی سے یہ جوس ختم کرو میں تمہاری پسند کا کھانا بناؤ گی ۔۔۔۔۔”

کشش ایک سانس میں سارا جوس پی جاتی ہے۔۔۔”

اب ٹھیک رقیہ آنا۔۔۔

میری بچی۔۔ رقیہ سر پے ہاتھ پھیرتی ہے۔۔۔’

کچھ توقف کے بعد۔۔۔

رقیہ خالی گلاس اٹھائے چلی جاتی ہے۔۔۔

پہلے کی طرح کشش لان میں کتاب کو پڑھتے ادھر سے ادھر چکر لگا رہی ہوتی ہے۔۔۔۔”

اچانک ایک بہت ہی خوبصورت پھول کشش کے پیروں میں آ کر گرتا ہے۔۔۔

پہلے تو دیکھتی ہے پھر جھک کے اٹھا لیتی ہے۔۔۔

اتنا خوبصورت پھول ہر بتی قوس وقزع کی طرح سات رنگ کی ہوتی ہے۔۔۔

کشش اس پھول کی خوبصورتی میں کھو جاتی ہے۔۔

اتنا پیارا پھول اور انوکھا کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔”

پھول کے سحر سے نکلتے نگاہ کمرے کی کھڑکی پے ڈالتی ہے جہاں وہی کالی بلی بیٹھی اپنا پنچہ چاٹ رہی ہوتی ہے۔۔۔

لان میں کھڑے ہوکر بہت غور سے اس بلی کو دیکھ رہی ہوتی ہے۔۔۔ آج پھر یہ یہاں ۔۔ ؟

رات کے کھانے کے بعد اپنے کمرے میں جاتی ہے۔۔۔

پھول کو میز پے رکھ دیتی ہے۔۔۔

اففف آج بہت تھکاوٹ ہوگی ہے۔۔۔

ایسے ہی کھڑکی کو دیکھتی ہے وہاں اب بلی موجود نہیں ہوتی لیکن یہ محسوس ہوتا ہے کمرے میں اسکے علاوہ کو دوسرا بھی موجود ہے۔۔۔

کمبل کو دونوں ہاتھوں سے تھامے اپنے چہرے کے آگے کرتی ہے۔۔۔

ڈری ڈری سی بڑی بڑی آنکھوں سے کمرے کے اطراف کا جائزہ لیتی ہے۔۔۔ کوئی عجیب حرکت رونما نہیں ہوتی لیکن کسی کے ہونے کا احساس اعصاب پے حاوی ہوتا ہے۔۔۔”

سیاہ رات میں چاند کی چاندنی کھڑکی سے جھلک کر کمرے میں آ رہی ہوتی ہے۔۔۔ میز پے رکھا پھول چمکنے لگتا ہے۔۔۔ کشش کے لیے وہ منظر خوبصورت کے ساتھ حیرت انگیز بھی ہوتا ہے۔۔۔”

کشش کو اپنے بالوں پے کسی کی انگلیوں کی حرارت محسوس ہوتی ہے۔۔۔”

کشش کی سانس اٹک جاتی ہے گال دہک رہے ہوتے ہیں مزاحمت کرتے ہوئے سائڈ پے ہوتی ہے۔۔۔

وہ اپنے بالوں کو چھڑانا چاہتی تھی۔۔۔

ہمت کرتے ہوئے بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔

جن زاد زور سے اسکے بالوں کو کھینچتا ہے۔۔۔

کشش درد سے کراہتی ہے۔۔۔”

سانسوں کی سائیں سائیں کی آوازیں آتی ہے جیسے ایک ہی بار میں پتا نہیں کتنے لوگ سانس لے رہے ہو۔۔۔

مجھے غصہ نہ دلاؤ شہزادی ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔”

گونجدار کرخت آواز ہوتی ہے۔۔۔ کشش کو کچھ خاص سمجھ نہیں آتی بس گونجتی آواز کانون میں ڈرم کی طرح لگتی ہے۔۔

جن زاد کی اس حرکت سے صاف تھا کہ وہ اسکے بالوں پے فدا ہے۔۔۔

کشش کی آنکھوں سے آنسوؤں کا لاوا امڈ آتا ہے۔۔۔۔”

کشش بے جان مورت بنے وہی آنکھیں موندے لیٹی رہتی ہے۔۔۔

کیونکہ جن زاد اب بھی وہی موجود تھا آواز میں ہلکی ہلکی غراہٹ تھی جیسے بہت مشکل سے سانس لے رہا ہو ۔۔۔ سانسوں کی گرماہٹ کشش کے چہرے کو جھلسا رہی ہوتی ہے۔۔۔”

نا جانے کتنی ہی دیر کشش اسی پوزیشن میں لیٹی رہی خوف کے مارے کوئی حرکت نہیں کی۔۔۔

دل ہی دل میں دعا کرتی ہے کہ رقیہ آنا آ جائے کوئی تو آجائے جو اسے خوفناک رات سے بچا لے۔۔۔

کچھ توقف کے بعد کشش کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی آنکھوں پے بھاری بوجھ ہے۔۔۔ جس سے وہ اپنی آنکھیں نہیں کھول سکتی۔۔۔

پھر اس پے غنودگی چھا جاتی ہے اسے نہیں معلوم پڑتا کہ کب آنکھ لگی اور وہ سو جاتی ہے۔۔۔

جن زاد اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو کھولتا ہے اس کے ہاتھ پے لال رنگ کا سونے سے سجا ہوا باکس حاضر ہو جاتا ہے

کشش کی آنکھوں سے چھلکتے آنسوؤں کو جن زاد اپنی انگلی سے موتی کی طرح اٹھاتا ہے اور لال رنگ کے ڈبے میں رکھ دیتا ہے اس میں پہلے سے ہی کچھ سفید موتی موجود ہوتے ہیں۔۔۔”

جن زاد کشش کو دیکھتے دیکھتے غائب ہو جاتا ہے۔۔۔”

اگلی صبح جب کشش کی آنکھ کھلتی ہے اسے نہیں معلوم پڑتا کب آنکھ لگی۔۔۔ اسکی جگہ بھی بدلی ہوئی ہوتی ہے بیڈ کی دوسری سائیڈ پے لیٹی ہوتی ہے۔۔۔”

کمرے میں کھڑکی سے سورج کی روشنی جھلکتی ہے۔۔ وہ بیڈ پے لیٹی رات والے واقعے کا سوچ رہی ہوتی ہے۔۔۔

پہلے دن ہوئے واقعے کی کڑی سب کو جوڑ کر گھتی سلجھانے کی کوشش کرتی ہےسب میں ایک بات مشترکہ تھی جن زاد نے کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا ۔۔۔

آخر یہ چاہتا کیا ہے۔۔ ؟

کشش کے سوچوں کے حصار کو ردا کی کال نے توڑا۔۔۔ یار کہاں ہو کب سے ویٹ کر رہی ہوں تمہارا سات بجے کا ٹائم دیا تھا ناں اب خود ہی لیٹ ہو۔۔۔

ردا فر فر بولتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔۔”

کشش بیڈ سے اٹھتی ہے۔۔ ہاں بس ردا آدھے گھنٹے میں ملتے ہیں ۔۔۔

اوکے زرا جلدی کرنا۔۔۔

موبائل بیڈ پے رکھتے بالوں کا جوڑا بناتی ہے جو بکھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔۔۔

ایک لمحے کو جن زاد کے بارے میں سوچتی ہے۔۔۔

خیال کو جھٹکتے ہوئے جوتا پہنے نیچے جاتی ہے۔۔۔

رقیہ آنا جلدی سے میرے ناشتہ لگائے میں بس فریش ہوکے آئی۔۔۔

ناشتہ کرنے کے بعد کشش ڈرائیور کرتے ہوئے ردا کے پاس پہنچتی ہے وہ بس سٹینڈ پے اسکا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔۔۔

چلو آئے چلتے ہیں اب۔۔۔

ردا کسی کو آواز دے کر کہتی ہے۔۔۔

کشش حیرانگی سے۔۔۔ کیا مطلب کوئی اور بھی ہمارے ساتھ آئے گا کیا۔۔۔

سائیڈ سے میر ہاتھ ہلاتے ہوئے آتا ہے۔۔۔

کشش ردا کو غصے سے گھورتی ہے۔۔۔

ردا مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کشش کو دیکھتی ہے۔۔۔

بس کوئی ہونا چاہیے تھا سیفٹی کے لئے اس لیے سوچا کیونکہ یہ لوگ بھی آجائیں۔۔۔

دیکھو کشش اب تم موڈ خراب مت کرنا پلیز مان جاؤ ناں۔۔۔

ردا کشش کی تھوڑی کو ہاتھ لگاتی ہے۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ میر کو دیکھتے کہتی ہے۔۔۔”

{…زه نه پوهیږم چې څنګه زغم …}

پتا نہیں کیسے برداشت کروں گی اسے۔۔۔”

ہاں کیا مجھے کچھ کہا ۔۔۔ میر پوچھتا ہے۔۔۔

کشش منہ بسورے جواب دیتی ہے۔۔۔

جی نہیں آپ سے میں کچھ کہہ بھی نہیں سکتی۔۔۔”

موحد اور ابرار بھی اپنے بیگ کندھے پے لادے کار میں بیٹھ جاتے ہیں ۔۔۔

کشش ڈرائیونگ سیٹ پے بیٹھنے لگتی ہے کہ میر پکارتا ہے۔۔۔ اگر برا نہ لگے تو میں ڈرائیور کر لوں ۔۔۔

اممم۔۔۔ کیوں لڑکی کار چلائے تمہیں برا لگے گا کیا۔۔۔؟

نہیں میں تو اس لئے کہا کہی تم تھک نہ جاؤ۔۔۔ بعد میں تم ڈرائیور کر لینا۔۔۔ میر اپنا سجھاؤ ساتھ ہی پیش کرتا ہے۔۔۔

کشش فورا مان جاتی ہے کیونکہ اسے بہت تھکاوٹ ہوتی ہے اور کمر میں شدید درد ہوتا ہے جیسے ساری رات ہوا میں لٹکی رہی ہو۔۔۔

میر کے ساتھ بیٹھتے ہے اور راستے کا بتاتی ہے۔۔۔

تم مت بتاو مجھے معلوم ہے کہاں جانا ہے۔۔۔ میر کی آواز بدل جاتی ہے۔۔ کشش میر کی آنکھوں میں دیکھتی ہے جو دہکتی ہوئی آگ کی مانند لال ہوتی ہیں ۔۔۔

کشش کے سانس سوکھ جاتے ہیں اب ان لوگوں کی کار سڑک پے چل رہی ہوتی ہے۔۔۔

کچھ ہی منٹوں کی مسافت پے گاڑی محل نما کوٹھی کے وسط میں جا کے رکتی ہے۔۔

سفر کے دوران کشش نے میر سے کوئی بات نہیں کی تھی۔۔۔” وقتعا وقتعا میر کا چہرہ دیکھتی رہتی تھی۔۔۔

وجے پور سے 5 کلو میڑ دور جنگلات نما علاقے میں چھوٹا سے محل تھا۔۔۔

آبادی سے کافی دور تھا جسکے آس پاس ہری ہری گھاس اگی ہوئی تھی۔۔۔

محل کی دیواریں سیاہ تھی اسکے گیٹ پے بہت بڑی عجیب ہی مخلوق کا عکس بنا ہوا تھا۔۔۔

ہممم پراسرار جگہ ہے۔۔۔ موحد اپنے کمیرے سے تصویر بناتے کہتا ہے۔۔۔

چلو اندر چلتے ہیں ردا گیٹ کو ہاتھ لگاتے کہتی ہے۔۔۔”

ویسے یہ جگہ تھی تمہاری گھومنے کی اس سے اچھا ہارر ہاؤس چلے جاتے ویسا ہی لگ رہا ہے۔۔۔

کشش کچھ نہیں بولتی بس محل کو گھورتی رہتی ہے۔۔۔

میر کشش کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔۔۔

اندر چلیں اب۔۔

چہرے پے مسکراہٹ سجائے کہتا ہے۔۔۔

میر دروازہ کھولتا ہے۔۔۔ زور سے چیر کی آواز سے کھولتا ہے ردا کانوں پے ہاتھ رکھ لیتی ہے۔۔

محل کا دروازہ کھلتے ہی آس پاس درختوں پے موجود پرندے اڑنے لگ جاتے ہیں ۔۔۔

آسمان بھی پرندوں سے سیاہ ہو جاتا ہے۔۔

کشش اوپر چہرہ کیے انہیں دیکھ رہی ہوتی ہے۔۔۔۔

ابرار کار سے لیز اور چپس کے پیکٹ نکالتا ہے جبکہ باقی سب اپنا سامان اندر لے جانے کی غرض سے نکالتے ہیں ۔۔۔

اوہ بھوکڑ اپنا سامان بھی اٹھا جب دیکھو کھاتا رہتا ہے گینڈا کہی کا۔۔۔ موحد ہمیشہ کی طرح ابرار کو ڈانٹتا ہے۔۔۔”

محل کے اندر قدم رکھتے ہی چمگادڑ اڑ کے باہر نکلتی ہیں ۔۔۔ سارے نیچے جھک جاتے ہیں ۔۔۔

انکو بھی آج ہی آزادی ملی تھی ابرار چڑتے ہوئے کہتا ہے۔۔۔

محل خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ خوفناک بھی ہوتا ہے۔۔۔”

دیواروں پے پیٹنگ لگی ہوتی ہے جس پے دھول گرد جمی ہوتی ہے۔۔ ردا ہاتھ سے دھول کو صاف کرتے ایک پیٹنگ دیکھتی ہے انتہائی خوبصورت دوشیزہ کی تصویر بنی ہوتی ہے ۔۔۔

واہ یار کشش یہ دیکھ پیٹنگ ایسے لگ رہا اصلی ہو تصویر میں بیٹھی گھور رہی ہے۔۔۔

ردا حیران ہوتے ہوئے کشش کو پکارتی ہے ۔۔۔ وہ محل میں جلنے والی مشالوں کو غور سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔۔۔

امم۔۔۔ کیا ہے ردا۔۔۔

یار یہ دیکھ نہ تصویر۔۔۔

موحد دونوں کو پیٹنگ پے تبصرے کرتے دیکھتے ہوئے ان کے پاس آجاتا ہے۔۔۔

Wow its Amazing…

موحد کے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے۔۔۔

کشش ہاتھ سے سارا گرد اچھی طرح صاف کرتی ہے۔۔۔ موحد اپنے کیمرے سے تصویر بناتا ہے۔۔۔

ابرار اپنی کاروائی کرتا ہوا محل کے درودیوار کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔۔۔”

یار یہ بنا کب ہوگا۔۔۔؟ اتنا پرانا بھی نہیں لگتا ۔۔۔ کوئی تو اسکی دیکھ بھال کو آتا ہوگا۔۔۔

میر پیچھے سے ابرار کی بات کا جواب دیتا ہے۔۔۔”

اصغر کاکا۔۔۔

ابرار پلٹتے ہوئے ۔۔۔۔

ہاں یہ کون ہے اور تمہیں کیسے پتا۔۔۔”

مجھے ابھی ملے ہیں انہی سے بات کر رہا تھا میں ۔۔۔

اصغر کاکا پانچ سال سے یہی کام کرتے ہیں ۔۔۔

ہاں تو کہاں گے اب تیرے اصغر کاکا۔۔۔؟

موحد بات میں حصہ ڈالتا ہے۔۔۔

اجائے گے شایدکچھ سامان لینے گے ہو۔۔۔

ابرار ایک کمرے کو کھولتے جائزہ لے رہا ہوتا ہے۔۔۔

گائز یہ میرا روم ہوگیا۔۔۔

یہاں اکیلا ہی رہونگا پہلے بتا رہا ہو۔۔۔

اتنے کمرے ہیں یہاں موقع مل رہا ہے فل چل کرنے کا۔۔۔۔

میں کسی سے شئر نہیں کرنے والا بس بتا دیا۔۔

تو واقعی ہی پاگل ہے تیری مرضی موحد کندھے اچکائے باقی کمروں کو دیکھتا ہے۔۔۔”

کمرے انتہائی نفیس طرز کے ہوتے ہیں بالکل صاف البتہ کہی کہی دھول جمی ہوتی ہے۔۔۔

کشش ردا کے ساتھ مل کے کمرے کا معائنہ کرتی ہیں ۔۔۔

ردا بیڈ پے اچھل کے بیٹھتی ہے۔۔۔

واہ یار کتنا نرم ہے بہت مزے کی نیند آئے گی ۔۔۔”

کشش کھڑکیوں سے باہر جھانکتی ہے جہاں دور دور تک کوئی نہیں ہوتا چاروں طرف درختوں کی لائن لگی ہوتی ہے۔۔۔”

ردا کچھ کھاؤ گی۔۔۔”

اپنا رخ مورٹے کشش پوچھتی ہے۔۔۔

نہیں یار میں تو تھکی ہوئی ہوں کچھ دیر آرام کرونگی۔۔۔”

اچھا تم کچن سے آتے ہوئے پانی لیتی آنا ۔۔۔

کشش کو ایک دم ایسے محسوس ہوتا ہے کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔۔۔

جاتے وقت رک جاتی ہے۔۔۔ اطراف میں دیکھنے لگتی ہے۔۔۔

کشش کیا ہوا۔۔۔” ردا اسے کھڑا دیکھتے ہوئے پوچھتی ہے۔۔

اممم۔۔ کچھ نہیں بس جارہی ہوں ۔۔۔”

کچن میں فرج کے علاوہ سب موجود ہوتا ہے ایک ٹوکری میں تازہ فروٹس ہوتے ہیں ۔۔۔ کشش نل سے گلاس میں پانی بھرتی ہے۔۔۔ میر کچن میں آتے سیب اٹھا لیتا ہے ۔۔۔

یہ دھو کے دو مجھے۔۔ سیب کشش کی طرف پڑھائے حکم چلاتا ہے۔۔۔”

کشش پانی لئے سائڈ پے ہو جاتی ہے۔۔۔

تم خود دھو لو تمہارے ہاتھ نہیں ہے کیا۔۔۔

اچھا چھوڑو ۔۔۔”

میر اپنی شرٹ سے رگڑ کے صاف کرتا ہے۔۔۔ بائٹ لیتے بس ہوگیا صاف کھا بھی رہا ہوں۔۔۔”

اچھا اب میرا دماغ کیوں کھا رہے ہو۔۔۔”

ارے یارررر۔۔

سگنل کیوں نہیں آتے ایسی ویران جہگوں میں حکومت کو چاہے یہاں بھی ایک ٹاؤر لگا دیں۔۔۔ ابرار اپنے فون کو ہوا میں کبھی کہی گھوماتا ہے تو کبھی کہی۔۔۔”

موحد اور میر ایک ہی کمرے میں شفٹ ہوتے ہیں موحد کھینچی گی تصاویر کو چیک کر رہا ہوتا ہے۔۔۔”

کشش جانے لگتی ہے۔۔۔ میر اسکا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔۔۔

کشش ٹھٹک سی جاتی ہے ۔۔بنا پیچھے مڑے میر کو کہتی ہے۔۔۔

یہ اچھی بات نہیں ہے ہاتھ چھوڑو میرا۔۔۔”

یہ حرکت اچھی نہیں ۔۔۔”

میر جھٹکے سے کشش کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔۔۔”

سٹیل کا پانی سے بھرا گلاس نیچے گر جاتا ہے۔۔۔”

کشش میر کے سینے سے جا کر لگتی ہے۔۔۔”

کشش کے بال ہوا میں اڑنے لگتے ہیں وہ آہستہ سے اپنا چہرہ اوپر اٹھائے میر کو دیکھنا چاہتی تھی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ دیکھ سکے۔۔۔ سانسوں کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔۔۔”

میر بازوؤں کا حصار بنائے کشش کو اور قریب کر لیتا ہے۔۔۔” کشش اپنا ہاتھ میر کے سینے پے رکھتے ہوئے زور لگاتی ہے تاکہ الگ ہوسکے۔۔۔”

میر کے چہرے پے ظالمانہ مسکراہٹ ہوتی ہے۔۔۔”

چھوڑو مجھے یہ کیا بدتمیزی ہے میر۔۔۔”

میر کشش کے کان کی لو کو ہونٹوں سے چھوتا ہے ابھی کہاں شہزادی کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا۔۔۔

اس محل کو صدیوں سے شہزادی کی تلاش تھی ۔۔

کشش کی حالت ناگوار ہوجاتی ہے۔۔۔”

کشش کے ہونٹ کانپنے لگتے ہیں ۔۔۔ زور سے چینخ مارتی ہے۔۔۔ کچھ ہی دیر میں تمام لوگ وہاں آجاتے ہیں ۔۔۔

کشش کانوں پے ہاتھ رکھے آنکھیں موندے کھڑی ہوتی ہے۔۔۔

کشش کیا ہوا ایسے کیوں کھڑی ہو کیوں چلائی۔۔۔ ردا بے فکری سے پوچھتی ہے۔۔۔”

ردا کی آواز سنتے کشش آنکھیں کھولتی ہے۔۔۔” حیرانگی سے سینک کو دیکھتی ہے جہاں کچھ دیر پہلے میر اسے تھامے کھڑا تھا۔۔۔

میر دوڑتا ہوا کشش کے پاس آتا ہے۔۔۔

سارے کشش کو دیکھ کے پریشان ہوتے ہیں ۔۔۔”

کیا ہوا ہے سب ٹھیک تو ہے۔۔۔

کشش میر کی آواز پے چونکتی ہے۔۔۔

تتت۔۔۔۔ تتم۔۔۔ میر کی طرف لڑکھڑاتی آواز میں اشارہ کرتی ہے۔۔۔

تت۔۔۔ تم یہاں کیسے؟

ارے کیا ہوا میں اپنے روم میں تھا۔۔۔”

میر کشش کی طرف بڑھتا ہے۔۔۔

نہ وہی کھڑے رہو قریب مت آنا۔۔۔

تم ابھی یہی تھے۔۔۔

یہاں۔۔۔ کشش متعلقہ جگہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔۔۔”

کیا بات کر رہی ہو میں تو کچن میں آیا بھی نہیں موحد سے پوچھ لو بے شک ۔۔

کشش ڈری سہمی کونے میں دبک کے کھڑی ہوتی ہے۔۔۔

ارے بتاو تو سہی ہوا کیا ہے۔۔۔

میر پھر سے کشش کے پاس جاتا ہے۔۔۔

روک جاؤ وہی کہاں ناں میرے قریب مت آنا۔۔۔”

(جن زاد میر کی شکل میں آکر کشش کو ڈراتا ہے وہ میر کو بھی وہی سمجھ رہی ہوتی ہے )

ردا کشش کو پکڑ کے کمرے میں لے جاتی ہے۔۔۔”

میر حیرانگی سے دیکھتا ہے اسے کیا ہو گیا۔۔۔”

سب باری باری اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں ۔۔۔” ردا پانی پلاتے ہوئے اطمینان سے پوچھتی ہے۔۔۔ مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے کیوں ڈر رہی ہو۔۔۔”

نہیں کچھ نہیں ۔۔۔”

مجھے سونا ہے کشش اپنے اوپر لحاف اوڑھتے لیٹ جاتی ہے۔۔۔

ہممم چلو آرام کرو۔۔۔”

ردا بھی اسی کمرے میں موجود ہوتی ہے۔۔۔”

رات کے سناٹے میں خوفناک آوازیں آتی ہیں ۔۔۔

کشش کو اپنے بیڈ کے سامنے کسی کا سایہ نظر آتا ہے۔۔۔

وہ کبھی ایک جگہ نہیں ہوتا ادھر اُدھر ہل رہا ہوتا ہے۔۔۔”

بے سکونی میں نیند بھی نہیں آرہی ہوتی اس لیے لحاف سائیڈ پے کرتی اٹھ جاتی ہے۔۔۔

ڈوپٹے کو گلے میں ڈالے باہر کی جانب بڑھتی ہے۔۔۔”

کمرے کے باہر کوئی بھی موجود نہیں ہوتا ۔۔۔ کوریڈور میں میر ہاتھ میں کلہاڑا تھامے کھڑا ہوتا ہے۔۔

کشش ڈر جاتی ہے۔۔۔

سہمے سہمے قدم اٹھائے باہر کو جاتی ہے۔۔۔

کچھ فاصلے پے کھڑے ہوکر آواز لگاتی ہے۔۔۔ میر کے پہلے والے حلیے کو سوچتے بدن تھر تھر کانپ رہا ہوتا ہے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہوتا ہے۔۔۔

میر۔۔۔”

کشش کی آواز پے پیچھے مڑتا ہے۔۔۔

اوہ شکر ہے۔۔۔ تم ہی ہو۔۔۔

یہاں پے کلہاڑے کے ساتھ کیا کر رہے ہو۔۔۔

مجھے کچھ آوازیں آرہی تھی مجھے لگا شاید کوئی جنگلی جانور نہ آگیا ہو بس یہی ملا اور اٹھا لیا۔۔۔”

ہممم۔۔۔

ٹھیک ہے۔۔۔”

تم کیوں جاگ رہی ہو ابھی تک۔۔۔ مجھے بھی آوازیں آرہی تھی۔۔۔

دونوں مسکرانے لگتے ہیں ۔۔ “

کشش اپنے کندھوں پے سردی کے وجہ سے ہاتھ پھیرتی ہے۔۔۔

چاند کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔۔۔

مجھے لگتا ہے تمہیں ٹھنڈ لگ رہی ہے۔۔۔

ہاں بس جلدی میں شال نہیں لی اب مجھے کیا معلوم یہاں رات کو ٹھنڈ بڑھ جاتی ہے۔۔۔”

میر مسکرائے کہتا ہے۔۔۔ مجھے بھی نہیں معلوم تھا۔۔۔

ویسے مجھے تم سے سوری کہنا تھا۔۔۔

کس لئے ۔۔۔؟

کالج میں تمہیں تنگ کیا اور پھر بن بلائے مہمان کی طرح یہاں بھی آگیا۔۔ “

بس ردا نے آفر کی تو میرے دوست مان گے میں نے تو انکار کیا تھا بس اب زبردستی لے آئے۔۔۔

کوئی نہیں بات نہیں بلکہ اچھا ہوا جو تم لوگ بھی آگے۔۔۔”

کشش شنرمندہ ہوتے ہوئے کہتی ہے۔۔۔”

اچھا اب میں چلتی ہوں ردا کہے مجھے کمرے میں نہ پاکر ڈھونڈنے ناں نکل جائے۔۔۔”

کشش۔۔۔

میر آواز لگاتا ہے۔۔۔

ہوں۔۔۔ کشش مڑتی ہے۔۔۔

وہ مجھے کچھ پوچھنا تھا۔۔۔

ہاں بولوں سن رہی ہوں ۔۔۔

تمہیں کیا ہوا تھا اس وقت مطلب وہ کالج میں مجھے ٹانٹ کرنا اور اب بھی۔۔۔

میں کچھ سمجھ نہیں رہا۔۔۔

کچھ دیر کشش خاموش رہتی ہے۔۔

سامنے اسے میر کے پیچھے وہی کالی بلی نظر آتی ہے۔۔۔”

وہ۔۔۔ کچھ نہیں میر بس ایسے ہی تمہیں تنگ کرنا تھا۔۔۔

کشش بات کو ہوا میں اڑا دیتی ہے۔۔۔اور اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔۔۔”

میر بھی اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے۔۔۔ دروازہ بند کرتے کلہاڑا دروازے کی اوٹھ میں رکھ دیتا ہے۔۔۔” موحد جمائی لیتے ہوئے کہتا ہے۔۔ ہاں مل آئے پٹھانی سے۔۔

ارے تو جاگ رہا ہے۔۔ ہاں تیرا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ افف چل سو جا اب صبح بہت کام ہیں ۔۔۔ ہیں، تجھے کونسے کام ہے۔۔ موحد تعجب سے پوچھتا ہے۔۔

ارے یہاں تھوڑی بیٹھے رہے گے گھومے پھرے گے ۔۔۔

اپنی بات مکمل کرنے کے بعد موحد کو دیکھتا ہے وہ تقریبا سو چکا ہوتا ہے۔۔ “

میر ہنستے ہوئے کروٹ بدل لیتا ہے۔۔۔”

ابرار بڑے ہی مزے سے بیڈ پےبے ہنگم طریقے سے سویا ہوتا ہے۔۔’ اسکے سر میں آکر کوئی چیز زور سے لگتی ہے وہ ہڑبڑا کے اٹھتا ہے۔۔۔”

ادھر اُدھر نگاہیں روڑائے کہتا ہے۔۔ کون ہے بھئی سامنے آئے۔۔۔

کچھ دیر دیکھتا ہے کوئی حرکت رونما نہیں ہوتی ۔۔ پھر لیٹ جاتا ہے۔۔۔”

کچھ توقف کے بعد پھر سے کوئی چیز آکر لگتی ہے۔۔۔

اب کی بار زور کا تھپڑ گال پے لگتا ہے۔۔

ابرار گال پے ہاتھ رکھے ہکلاتا ہے۔۔۔

ککککک۔۔۔ کون ہے۔۔۔”

سس۔۔۔ سامنے آئے ۔۔۔”

لحاف کو ہاتھوں میں دبوچے چہرے کے سامنے کر لیتا ہے۔۔۔”

دروازے کے سایڈ پے رکھے سٹول پے کالی بلی بیٹھی ہوتی ہے۔۔۔

میاؤں۔۔۔

ابرار کی توجہ بلی کی طرف جاتی ہے۔۔۔

اوہ اچھا تم ہو یہاں۔۔۔

اوہ پیاری بلی۔۔۔ کوچو کوچو۔۔۔

دور سے ہی بچوں کی طرح بہلانے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔”

سرکتے ہوئے بیڈ سے اترتا ہے۔۔۔

کوچو کوچو۔۔

“مانو بلی کا کھائے گی۔۔۔”

میرے پاس بہت سی چیزیں ہیں ۔۔۔”

بلی پنجہ چاٹتی ہے۔۔۔”

میاؤں۔۔۔”

ابرار اسے ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔وہ چھلانگ لگا کے بیڈ پے چلی جاتی ہے۔۔۔

الےےےے۔۔۔ “

مانو ناراض ہو گی ۔۔۔ بولو بولو کا کھانا ہے۔۔۔

(ابرار بلی کو بچوں کی طرح ٹریٹ کرتا ہے)

مجھے کالی کالی آنکھیں کھانی ہیں ۔۔۔

بلی ابرار کے سامنے انسانوں کی طرح بول کے کہتی ہے۔۔ “

ککک۔۔۔ ابرار اتنا ہی بول پاتا ہے۔۔

ہاں مجھے کالی کالی موٹی لذیز آنکھیں کھانی ہے۔۔۔

بلی کے دوبارہ بولنے پے ابرار کی سٹی گم ہوجاتی ہے۔۔۔

وہ بے ہوش ہوجاتا ہے۔۔ “

بلی کھڑکی پے چھلانگ لگاتی ہے۔۔

پوچھا کیوں تھا کیا کھانا ہے جب بتایا تو بہوش ہوگیا۔۔۔

بلی ابرار کو کہتی ہوئی باہر چھلانگ لگا لیتی ہے۔۔۔

کشش کروٹیں بدل بدل کے سونے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔” لیکن مجال ہے جو نیند آنکھوں میں ابھر آئے۔۔۔

اس وقت سب گہری نیند میں سو گے تھے لیکن وہی جاگ رہی تھی فضا میں حبس کی کیفیت بھی تھی اور عجین سی گھٹن بھی۔۔۔

کشش کے دل میں عجیب سا خوف امڈ رہا تھا۔۔۔”

کشش اٹھ کے بیٹھ جاتی ہے۔۔۔”

اپنے گلے پے ہاتھ پھیرتی ہے جیسے سانسیں گھٹ رہی ہو۔۔۔”

میاؤں۔۔۔

بلی کی آواز کشش کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔۔۔

ایک دم سہم جاتی ہے۔۔۔

ردا کو دیکھتی ہے وہ ہنوز اسی حالت میں سوئی ہوتی ہے۔۔۔”

کشش سکتے کے عالم میں بلی کو دیکھتی رہتی ہے جو فارم ہاؤس پے بھی تھی اب یہاں بھی اسے کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔۔

” کشش حیرانگی سے بلی کو کہتی ہے۔۔۔”

تم یہاں بھی۔۔۔”

بلی کھڑکی سے نیچے چھلانگ لگاتی کشش کے قدموں میں بیٹھ جاتی ہے۔۔۔”

مالک نے حکم دیا ہے آپکے ساتھ رہو۔۔۔”

کشش کا دل کنپٹیوں میں دھڑک رہا ہوتا ہے وہ بلی کے انسانی آواز میں بولنے پے نہایت خوفزدہ ہوجاتی ہے۔۔۔

اسکی آنکھوں سے دہشت جھانکنے لگتی ہے۔۔۔”

کشش میں دہشت کے مارے اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ ردا کو آواز دے سکے۔۔۔

خوف سے اسکے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔۔۔

بلی ہنوز گردن جھکائے کشش کے سامنے بیٹھی ہوتی ہے۔۔۔

گھبرائے نہیں مالکن۔۔۔”

کشش آنکھوں کو ملتی ہے۔۔۔”

کیککک۔۔۔ کیا یہ خواب ہے۔۔۔”

تتت ۔۔۔ تم کب سے مجھے نظر آتی ہو۔۔۔ تتت۔۔۔۔۔ تب کیوں نہیں بولا۔۔۔۔

کشش کی آواز میں واضح لڑکھڑاہٹ ہوتی ہے۔۔۔

بلی ادب سے جواب ہے مالکن آپ نے کبھی ہمیں پکارا ہی نہیں ۔۔۔”

کشش کے اندر تھوڑا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔۔۔

تمہارا مالک کون ہے۔۔۔”

بلی معزرت کرتے کہتی ہے۔۔۔

معاف کیجئے گا مالکہ آپکو میں نہیں بتا سکتی۔۔۔”

کشش کے لئے ایک بات صاف تھی بلی نہایت مودئب طریقے سے بات کرتی ہے۔۔۔”

مالکن ایک گزارش ہے۔۔۔”

ارے وہ کیا۔۔۔” کشش کے چہرے پے مسکراہٹ ہوتی ہے۔۔۔ ڈر جیسے غائب ہوجاتا ہے۔۔۔

وہ سامنے رکھے گلاس سے شربت پی لیں۔۔”

شربت۔۔۔۔؟” سوالیہ نگاہوں سے دیکھتی ہے۔۔

کشش سنگھار شیشے کی طرف دیکھتی ہے۔۔۔”

وہاں پے کالا رنگ کا گلاس رکھا ہوتا ہے ۔۔۔ اسکے اندر لال رنگ کا محلول نما کچھ موجود ہوتا ہے۔۔۔”

کشش بلی کی طرف ایک نظر دیکھتی ہے۔۔۔

مالکن یہ آپ پی لیجئے ۔۔۔

آپ گھبرائے مت۔۔۔

کشش گلاس ہاتھ میں اٹھا لیتی ہے۔۔۔”

بے خودی سے منہ کو لگائے گٹا گٹ پی جاتی ہے۔۔۔”

پینے کے بعد مڑتی ہے تو بلی موجود نہیں ہوتی ۔۔۔ جوس پینے کے بعد کشش کو انتہائی نیند آ رہی ہوتی ہے۔۔۔”

پوری کوشش کرتی ہے کہ آنکھیں کھلی رہے ۔۔۔۔ کشش کو اپنے سرہانے ہنسی کی کلکاری سنائی دیتی ہے۔۔

اور پھر نیند کی وادیوں میں کھو جاتی ہے۔۔۔۔”

کشش کی آنکھ جب کھلتی ہے اردگرد نگاہیں دوڑاتی ہے ۔۔۔ وہ ایک الگ ہی نوعیت کے کمرے میں موجود ہوتی ہے۔۔۔ کمرے کی سجاوٹ بہت خوبصورت ہوتی ہے۔۔۔

شہزادی کے تخت کی طرح بیڈ کی سجاوٹ ہوتی ہے۔۔۔بیڈ پھولوں سے بھرا ہوتا ہے گویا کشش پھولوں میں سما گی ہو اور پھول بھی سترنگے ہوتے ہیں بالکل اسی پھول کی طرح جو بلی نے پھینکا تھا۔۔۔ بیڈ کے اطراف میں منفرد جالی نما دیوار بنی ہوتی ہے۔۔۔

پھولوں کی مہک ہوا کو معطر کر رہی ہوتی ہے۔۔۔

زمین پے لال رنگ کا ریشم سے بنا ملائم قالین بچھا ہوتا ہے اس پے خونخوار درندے کی کالے رنگ کی تصویر چسپاں ہوتی ہے ۔۔۔”

اسطرح معلوم ہوتا جیسے اصل کا بیٹھا ہوا ہو۔۔۔ سرخ رنگ کے پردے۔۔۔ اسی طرح کالے رنگ کی خونخوار تصویر موجود ہوتی ہے۔۔۔ فرنیچر قدیم اور جدید کے ملاپ سے بنا ہوا بہت اعلی نوعیت کا منفرد ہوتا ہے۔۔۔

کشش بغور معائنہ کرتی ہے آنکھوں میں ستائش ہوتی ہے۔۔۔ جس نے بھی یہ سجاوٹ کی ہے بہت عمدہ ہے پراسرار بھی اور خوبصورت بھی۔۔۔”

لیکن ۔۔۔۔!!

لیکن میں یہاں آئی کیسے کہی خواب تو نہیں دیکھ رہی۔۔۔

نہیں شہزادی ۔۔۔”

عقب سے مردانہ آواز کشش کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔

پیچھے مڑ کے دیکھتی ہے کوئی نہیں ہوتا۔۔

شہزادی آپ نے ہماری خواب گاہ میں پہلی بار قدم رکھا یہ توکچھ بھی نہیں ۔۔۔

پیچھے دیکھنے کے بعد سیدھا رخ کرتی ہے تواسکے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔۔۔

کشش سبک جاتی ہے۔۔۔”

آآااپ کون۔۔۔!

کانپتے ہونٹوں سے پوچھتی ہے۔۔۔۔

لمبا قد۔۔۔ دودھ جیسا رنگ۔۔۔” سنہرے بال۔۔۔” گہری نیلی آنکھیں ۔۔۔

کندھوں تک بال پرکشش جاذب چہرہ ہونٹوں پے مسکراہٹ لئے کشش کے سامنے کرسی پے ٹانگ پے ٹانگ رکھے مسکرا رہا ہوتا ہے۔۔۔

یک دم کشش بھی اسکی خوبصورتی میں مدہوش ہوجاتی ہے ۔۔۔”

آپ نے ہمیں پہچانا نہیں شہزادی ۔۔۔؟

کشش نفی میں سر ہلا دیتی ہے۔۔۔

واہ شہزادی ہم آپکے لئے پل پل تڑپے ہیں ہمارے قلبی احساس کو ہمارے وجود کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔۔۔

جن زاد کی آنکھیں لال انگارے کی طرح سرخ ہوجاتی ہے۔۔

کشش تھر تھر کانپنے لگتی ہے۔۔ “

جن زاد فاصلہ ایک منٹ میں تہہ کرتا اسکے روبرو کھڑا ہوتا ہے۔۔۔

کشش کو اتنی تیزی سے آنے کی امید نہیں تھی وہ ہڑ بڑا کے پیچھے کو گرنے لگتی جن زاد اسے تھامتا نہیں بلکہ گرنے دیتا ہے۔۔۔”

کشش ٹھٹک سے قالین پے گرتی ہے لیکن چوٹ نہیں لگتی بس دہل جاتی ہے۔۔۔

شہزادی یہ تو کچھ بھی نہیں آپکو گستاخی کی اس سے بھی بڑی سزا مل سکتی تھی ۔۔۔ بس یہ وارننگ دی ہے ہماری بات کا انکار ہمیں قطعی منظور نہیں ۔۔۔۔”

کشش ہنوز قالین پے بیٹھی ہوتی ہے جن زاد بھی اسکے ساتھ گھٹنے ٹکائے بیٹھ جاتا ہے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہے۔۔۔

کشش کو یاد آتا ایسے پہلے بھی کسی نے کیا تھا لیکن اسکا چہرہ نہیں دیکھا۔۔۔

کشش گردن کو پیچھے کرتی ہے تاکہ وہ دوبارہ ایسا نہ کر سکے۔۔۔”

دروازہ چڑ کی آواز سے کھلتا ہے۔۔۔ دونوں دروازے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔۔۔ کالے رنگ کی بلی ۔۔۔

کشش حیرانگی سے کبھی جن زاد تو کبھی بلی کو دیکھتی ہے۔۔۔” بلی چلتے چلتے خونخوار جانور میں تبدیل ہورجاتی ہے اسکے پنچے بڑے ہورہے تھے ۔۔۔

دانت چبڑوں سے زیادہ بڑے اور باہر کو نکل آئے ۔۔۔”

آنکھیں دہکتے انگاروں کی طرح سرخ ہوجاتی ہیں ۔۔

بلی کاحجم کسے درندے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔۔

مکمّل تبدیل ہونے کے بعد جن زاد کے پیروں میں بیٹھ جاتا ہے۔۔۔”

اتنے قریب سے دیکھنے پے

کششِ کا جسم بے جان ہونے لگتا ہے خوف کے مارے گلا خشک ہوجاتا ہے۔۔۔۔

آنسو آنکھوں سے روا ہوتے ہیں ۔۔۔

ڈرو نہیں شہزادی یہ کچھ نہیں کہے گا۔۔۔۔”

جن زاد کششِ کی حرکات سے لطف اندوز ہوتا ہے۔۔۔

شہزادی۔۔۔”

جن زاد لمبا سانس لیتا ہے۔۔ “

وہ نم آنکھوں سے دیکھتی ہے۔۔۔ کیا ہوا رونا بند کرو تمہارے آنسو مجھے تکلیف دیتے ہیں ۔۔۔

جن زاد اپنا ہاتھ اسکے رخساروں پے رکھتا ہے۔۔۔ جن زاد کے ہاتھ میں کشش کے آنسوں سفید موتی بن جاتے ہیں ۔۔۔

کشش مزید رونا شروع کر دیتی ہے۔۔۔ شہزادی بس کرو تمہارے یہ بہتے اشک میرے درد کو بڑھاتے ہیں ۔۔۔

جن زاد بے قراری سے کشش کے گالوں کو چھوتے کہتاہے۔۔۔جن زاد کی اسطرح کہنے پے کشش زور سے رونے لگتی ہے پورا کمرہ کشش کی سسکیوں سے گونج رہاہوتا ہے۔۔۔

جن زاد اسے اپنی باہوں میں لے لیتا ہے وہ جن زاد کے دل پے ہاتھ رکھے اسکی گردن میں منہ چھپائے رو رہی تھی کشش روتے روتے خاموش ہوجاتی ہے۔۔۔

اسے اب ڈر نہیں لگ رہا ہوتا جن زاد کے قریب جا کر سکون ملتا ہے۔۔۔ بہت اپنائیت محسوس ہوتی ہے جیسے بچھڑا ساتھی مل گیا ہو۔۔۔”

وہ نہیں جانتی ایسا کیوں محسوس ہو رہا ہے۔۔۔

جن زاد سے الگ ہوتی کہتی ہے۔۔۔

ایک بات پوچھو۔۔۔

جن زاد کشش کے بالوں میں انگلیاں پھیرتا ہے۔۔

پوچھو شہزای۔۔۔”

کشش کی آنکھوں میں کوئی خوف نہیں ہوتا۔۔۔”

وہی خوف آنسوؤں میں بہہ جاتا ہے۔۔۔”

آپ۔۔۔”

(کشش ہچکچا رہی ہوتی ہے)

آپ کون ہے ۔۔۔ میرا مطلب کیا نام ہے آپکا۔۔۔”

اور۔۔۔ “

کشش مزید بولنے لگتی ہے جن زاد اسکے لبوں پے انگلی رکھ لیتا ہے اسے انگلی پے بوسہ دیتا ہے۔۔۔

جن زاد کی اس حرکت کا علم نہیں ہوتا چونک کے پیچھے ہٹتی ہے۔۔۔”

کیا ہوا شہزادی جاننا نہیں چاہتی کہ میں کون ہوں ۔۔۔؟

کشش اثبات میں سر ہلا دیتی ہے۔۔۔”

جن زاد آگے ہاتھ بڑھاتا ہے۔۔۔

چلو آو پھر دیکھاتا ہوں میں کون ہوں ۔۔۔

کشش جن زاد کے ہاتھوں کو دیکھتی رہتی ہے۔۔۔

گھبراؤ نہیں ۔۔۔

کانپتے ہوئے ہاتھ آہستہ سے ہاتھ آگے بڑھاتی ہے۔۔۔”

جن زاد کشش کو کھینج کر اپنا سر اسکے سر سے ملا دیتا ہے۔۔۔”

آنکھوں کے سامنے بہت سی چیزیں گھومتی ہیں ۔۔۔ کشش کا سر چکراتا ہے۔۔۔

اچانک تیز روشنی ہوتی ہے پھر سب نارمل ہوجاتا ہے۔۔۔”

کچھ توقف کے بعد کششِ زمین پے بے سدھ پڑی ہوتی ہے۔۔۔” جن زاد ہنسنے لگ جاتا ہے۔۔۔ شہزادی مجھے یقین ہے اگلی بار آپ ہم سے ملے گی تو خوش ہونگی۔۔۔”

ابرار کے شور سے سب اسکے کمرے کے باہر جمع تھے کشش ہی تھی جو اب تک خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی ۔۔۔

ابرار باضد تھا کہ اب وہ ایک رات بھی یہاں نہیں رکے گا کیونکہ یہاں کے جانور بھی بات کرتے ہیں ۔۔۔”

گینڈے تجھے کہاں بھی تھا کم کھایا کر دیکھ زیادہ کھانے سے تیرے دماغ پے چربی جم گی ہے۔۔۔موحد اس پے طنز کرتے کہتا ہے۔۔۔ دیکھ ہم بھی تو اس محل میں تھے ہمیں تو کسی بلی نے ہیلو نہیں کہا ہاہاہا تو نے بس کوئی خواب دیکھا ہے۔۔۔” موحد ابرار کو چڑاتا ہے۔۔۔”

ابرار غصے سے تیوری چڑھائے۔۔۔” کہتا اوہ بھائی تو اپنے یہ باسی جوک اپنی جیب میں رکھ تیرے ساتھ یہ ہوا تو لگ پتا جائے گا ۔۔۔ مجھے یاد ہے میں فرش پے بے ہوش ہوا تھا۔۔۔

اوہ اچھا پھر بیڈ پے تجھے اس بلی نے لٹا دیا تھا کیا۔۔۔؟

موحد پھر سے تنگ کرتا ہے۔۔۔”

اوہ گائز کیا ہوگیا ہے۔۔ ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہے ہو۔۔ پرانا محل ہے آس پاس جنگل ہے کسی جانور کی آواز کو سن لیا ہوگا۔۔۔ردا بھی دونوں کی باتوں میں حصہ ڈالتی ہے۔۔۔”

کشش بیدار ہوتی ہے۔۔ اپنے آپ کو کمرے میں پاکر حیران ہو جاتی ہے۔۔ ۔۔۔

میں یہاں کیسے پہنچی۔۔۔رات والا واقعہ کسی فلم کی طرح دماغ میں گھوم رہا ہوتا ہے۔۔۔”

اففف میرا سر ۔۔۔

کشش سر پکڑے اٹھتی ہے۔۔۔

افف کتنا گھوم رہا ہے اور یہ شور۔۔۔

یہ شور کیسا ہے۔۔۔”

ردا کے بیڈ کی طرف دیکھتی ہے وہاں پے موجود نہیں ہوتی۔۔۔

سر پکڑے ڈوپٹہ گلے میں ڈالے باہر جاتی ہے۔۔ دروازے کے باہر جھانکتی ہے تو موحد ابرار اور ردا بحث میں الجھے ہوتے ہیں ۔۔۔”

بس۔۔۔ میں نے کہا ناں کوئی خواب نہیں تھا حقیقت تھی۔۔۔ سہی کہتی ہے دنیا گوشت سے ناخن الگ نہیں ہوتا اب خواب سمجھ کے یہ غلطی مجھ پے ہی ڈالو گے۔۔

یہ کیا ہو رہا ہے کیوں صبح صبح بکرا منڈی لگائی ہوئی ہے۔۔۔

کشش دروازے پے کھڑے ہی کہتی ہے۔۔۔

ارے یار کشش یہ ابرار پاگل ہو گیا ہے کہتا ہے کسی بولنے والی بلی سے بات کی ہے۔۔ لو بھلا اب جانور کب سے بولنے لگے میں نے یہاں کوئی بلی نہیں دیکھی ۔۔۔۔

۔۔

تم نے دیکھی کیا۔۔۔؟

کشش کچھ دیر ردا کو دیکھتی رہتی ہے۔۔۔ اسے کچھ سنائی نہیں دیتا بس ردا کے لبس موومنٹ کو دیکھتی ہے۔۔۔”

کیا ہوا۔۔۔ درا کشش کے سامنے ہاتھ لہراتی ہے۔۔ کہاں کھو گی ۔۔۔

ہاں کیا کہہ رہی تھی ۔۔۔

لوں جی ساری بات بتا دی اب پوچھ رہی ہو کہانی کا ہیرو کون تھا ۔۔۔

مجھے لگتا ہے ابھی بھی تمہارا دماغ سو رہا ہے۔۔۔

ایک منٹ میں منہ پے پانی کے چھپکے مار آو پھر ناشتے پے سنتی ہوں سبکی روداد۔۔۔

کشش منہ کو ڈوپٹے سے صاف کئے آرہی ہوتی ہے۔۔۔

راستے میں میر سے ٹکراؤ ہوجاتا ہے۔۔۔”

اوہہ تم۔۔۔ دیکھ کر نہیں چل سکتے کیا۔۔۔؟ کشش اپنے سر کو سہلاتے کہتی ہے۔۔۔

ارےےےے۔۔۔۔

میں تو دیکھ کے چل رہا تھا تم ٹکرائی مجھ سے۔۔۔

اممم مجھ پے ہی الزام ڈالوں گے ہٹو سامنے سے ۔۔۔

میر دونوں ہاتھوں کو پھیلائے کہتا ہے۔۔

جایئے شہزادی۔۔۔۔”

کشش جاتے ہوئے حیرانگی سے دیکھتی ہے۔۔۔”

میر مسکراتے ہوئے چلا جاتا ہے۔۔۔”

کشش ایک پیر پے گھومتی ہوئی میر کو آواز لگاتی ہے۔۔۔”

میر۔۔۔!

میر وہی رک جاتا ہے۔۔۔ چل کے اسکے پاس جاتی ہے۔۔ “

تم نے مجھے ابھی شہزادی کہا۔۔۔؟

ہونہہ تم۔ اور شہزادی ۔۔۔۔

وہ بھی میں کہوں گا۔۔۔”

میر کا انداز تمسخرانہ ہوتا ہے۔۔۔”

ہاں ابھی تم نے کہا

” جائیے شہزادی۔۔۔۔”

ارے میں کیوں کہو گا۔۔۔

تو۔۔۔ پھر۔۔۔

کشش میر کی آنکھوں میں دیکھتی ہے۔۔۔ جیسے معلوم کر رہی ہو یہ شخص کوئی بہروپیا تو نہیں ۔۔۔

کشش اپنا سر جھٹکے کہتی ہے اچھا چھوڑو یہ بتاؤ رات تم کدھر تھے۔۔۔

میر کشش کو بغور دیکھتا ہے۔۔۔ میری اتنی فکر۔۔۔؟ کبھی کچھ پوچھتی ہو تو کبھی کچھ۔۔۔۔”

کشش زچ ہوتے ہوئے ۔۔۔۔

بس جو پوچھا ہے تم سے وہ بتاؤ۔۔

رات کو کیا کرتے ہیں سوتے ہے ناں تو میں بھی سو ہی رہا تھا۔۔۔ میر چڑتے ہوئے کہتا ہے۔۔۔

ہمم۔۔ ۔۔۔ اچھااااں۔۔۔

تم کیوں اتنی تفشیش کر رہی ہو۔۔۔

میر، کشش کے ماتھے پے الٹا ہاتھ رکھ کے چیک کرتا ہے۔۔۔ کہیں بخار تو نہیں ہوگیا جو میری فکر۔۔۔ اوہ کہیں مجھ سے پیار تو نہیں ہوگیا۔۔۔

میر منہ پے ہاتھ رکھتے کہتا ہے۔۔۔

ایں۔۔۔۔

بہت بکواس کر رہے ہو تم۔۔۔ کشش میر کے کندھے پے تھپڑ مارتی ہے۔۔۔

ویسے ایک بات کہوں کشش۔۔۔”

میر سنجیدہ ہو کے کشش کو مخاطب کرتا ہے۔۔

مجھے تم بہت اچھی لگتی ہو۔۔۔

ایک پل کو لگا کہ وہ دونوں الجھ کے رہ گے ہیں دونوں آپس میں گفتگو محو ہوتے ہیں ۔۔۔

کشش میر کی کیفیت پے توجہ نہیں دیتی۔۔۔”

کیا۔۔۔۔۔!!!

کشش تقریباً چلائی تھی۔۔۔”

ماتھے پے بل پڑتے ہیں ۔۔۔۔

میر کشش کا ہاتھ تھامے کہتا ہے۔۔۔

ہااااں کشش۔۔۔ مجھے نہیں معلوم یہ سب کب کیسے ہوا ۔۔۔ لیکن میرے دل نے اسکا انکشاف اس رات کیا جب ہم ایک دوسرے سے اپنے کئے کی معافی مانگ رہے تھے۔۔۔

کشش کا دماغ الجھا ہوا تھا وہ میر اور جن زاد میں فرق نہیں کر پارہی تھی ۔۔۔

(میر کا اچانک قریب آجانا جن زاد کا عیجب سے وہم اسطرح سے مخاطب کرنا یہی سب سوچ رہی ہوتی ہے)

میر کشش کے سامنے ہاتھ لہراتا ہے کہاں کھو گی تم۔۔۔

کشش چونک کے میر کو دیکھتی ہے

ہوں۔۔ ککک کیا ہوا۔۔۔”

میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے کشش۔۔۔۔

اتنے میں ردا کی زور دار آواز آتی ہے۔۔۔

کشش ۔۔۔۔

وہ ردا بلا رہی ہے۔۔۔ میں بعد میں سن لو گی تمہاری بات۔۔۔

کشش جان چھڑانے کے لئے کہتی ہے۔۔۔۔

کشش کے چہرے پے خوف اور حیرانگی واضح تھی۔۔۔”

میر عقب سے خود سے مخاطب ہوتا ہے۔ اسے کیا ہوگیا ہے۔۔۔”

میر کندھے اچکائے کشش کے پیچھے چل پڑتا ہے۔۔۔

سارے دوست ناشتے کی میز پے موجود ہوتے ہیں ۔۔۔

ابرار کا وہی بلی والا قصہ شروع ہوجاتا ہے۔۔۔”

اففف یار تو بس کھانا کھا تیرا اور کام نہیں ہم نہیں سن سکتے تیرا یہ گھسا پٹا راگ۔۔۔ موحد کھانے سے انصاف کرتا ابرار کو سناتا ہے۔۔

میر تو میری بات سن ایسا ہوتا ہے ناں۔۔۔۔ ہے ناں۔۔۔ بتا سبکو۔۔۔

کشش خاموشی سے سن رہی ہوتی ہے۔۔۔

ہممم یمی۔۔۔!!

یار یہ کیا ڈش ہے کتنی لزیز ہے۔۔۔ اصغر کاکا۔۔۔ کا کُب نکلا ہوتا ہے جھکتے ہوئے کندھے پے رومال ڈالے ردا کے سامنے کھڑے ہوکر کہتا ہے۔۔۔ یہ بہت خاص پکوانوں میں سے ایک ہے۔۔۔ ردا دوسرا چمچ منہ میں ڈالتے کہتی ہے۔۔ اسکی رسیپی کیا ہے کاکا۔۔۔

میری بات کا کیا ۔۔۔ تمہیں ڈش کی پڑی ہے ابرار اپنی بات پے ڈٹٹا رہتا ہے۔۔۔

کاکا سب کی باتوں پے کان لگائے ہوتا ہے۔۔۔”

دنیا میں ایسی بہت سی انہونی چیزیں ہوتی ہیں جنکا وجود عام آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا ایسے واقعات ان ویران جہگوں پے دفن بھی ہوسکتے ہیں ۔۔۔

اصغر کاکا کے لہجے میں کوئی خوف نہیں تھا بلکہ روانی سے اپنی بات جاری کیے ہوئے تھے۔۔۔

اور اسطرح کی جادوئی چیزوں کو آج کا دور نہ ہی مانتا ہے نہ ہی یقین رکھتا ہے۔۔۔۔

اس نے کچھ دیر کا توقف کیا پھر بولا۔۔۔

اور ہاں یہ جو ڈش بنائی گی ہے یہ بٹیر کی کالی کالی گول آنکھوں کو نکال کر شیر کے خون میں دھوکر فرائی کر کے آپکی خدمت میں پیش کی ہیں ۔۔

ردا یہ سن کے الٹی آنے کی وجہ سے منہ پے ہاتھ رکھ لیتی ہے۔۔۔

موحد کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔۔۔ حیرانگی سے کاکا کی طرف دیکھتا ہے۔۔۔

ابرار بیچارہ کالی آنکھوں کا سن کے کانپنے لگتا ہے۔۔۔

اااصغر کاکا۔۔۔ آاپ مذاق بہت اچھا کر لیتے ہیں ۔۔۔ ردا خوفزدہ انداز میں بولی۔۔۔

لیکن اصغر کاکا بنا کوئی جواب دئے چہرے پے سنجیدگی لائے وہاں سے چلے جاتے ہیں ۔۔۔

میر سب کے اترے چہرے دیکھ کر قہقہہ لگاتا ہے۔۔۔

کشش ہنوز خاموش تماشائی ہوتی ہے۔۔۔

کم آن یار۔۔۔

تم لوگ کاکا کی باتوں میں آگے وہ بس مذاق کر رہے ہونگے۔۔۔

میر سبکو ٹرانس سے نکالتا ہے۔۔۔

موحد سنجیدگی سے روہانسی ہوکر بولتا ہے۔۔۔ اتنا سنجیدہ مذاق کون کرتا ہے۔۔۔

ہاں یار۔۔۔ ابرار بھی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔۔۔

کچھ توقف کے بعد اصغر کاکا دوبارہ لوٹتے ہے۔۔۔” سب ناشتہ کر چکے ہوتے ہیں ۔۔۔”

موحد کاکا کو دیکھتے ابرار کے کان میں سرگوشی کرتا ہے۔۔۔ یار یہ کاکا آخری بار کب ہنسا ہوگا۔۔۔

شششی چپ کرو تم لوگ ردا موحد کی بات سنتے خاموش رہنے کا کہتی ہے۔۔۔

موحد ردا کی طرف دیکھتے ہوئے گردن ہلاتے ہوئے کندھے اچکاتا ہے۔۔۔”

(جیسے کہہ رہا ہو مجھے مجبور کیا گیا انکو دیکھ کے یہ پوچھو )

کچھ توقف کے بعد

موحد باہر کی اجلی نیچرلی چیزوں کو کیمرے کی آنکھ میں مقید کر رہا ہوتا ہے۔۔۔ “

ابرار بھی اسکے پیچھے لگا ہوتا ہے۔۔ پلیز یار بسسس ایک فوٹو لے لے پیاری سی۔۔۔

ابرار موحد سے بار بار تصویر لینے کا اسرار کرتا ہے۔۔۔

اوہ گینڈے تیری کوئی چھتیس تصویریں لے چکا ہوں ہر تصویر میں تیرا ہاتھ منہ میں پھنسا ہوا ہے۔۔ تو پہلے آرام سے ٹھونس لے۔۔۔ پھر آنا چل نکلو یہاں سے مجھے تنگ نہ کرو اور تو اتنا موٹا ہے تصویر بھی چھتیس ٹکروں میں آئی ہے۔۔

موحد ایک سٹیچو کی تصویر لیتا ہے جو محل کے وسط میں باہر کی جانب نصب ہوتا ہے۔۔۔”

اور سناؤ کیسا چل رہا ہے فوٹو شوٹ۔۔ میر موحد کو کلک کرتے کہتا ہے۔۔

بس دیکھ لے۔۔۔ اچھا پکس دیکھا۔۔۔ موحد باری باری ساری پکس دیکھاتا ہے۔۔۔ ہوں کمال کی ہیں بیٹا تو بہت آگے تک جائے گا۔۔۔ میر موحد کی گرافکس کی تعریف کرتے ہوئے کندھے پے ہاتھ مارتا ہے۔۔۔” دونوں مسکرانے لگ جاتے ہیں ۔۔۔۔

کشش دروازے سے سبکو باتوں میں مگن دیکھتی ہے۔۔۔

اردگرد نگاہ دوڑاتی ہے۔۔۔”

ارے کشش وہاں دیکھو کتنے پیارے پھول ہیں چلو دیکھتے ہیں کشش کا ہاتھ تھامے سائیڈ پے بنی پھولوں کی کیاریوں کی طرف چلی جاتی ہیں۔۔۔”

واؤ ریڈ روز کتنے فریش لگ رہے ہیں نااااں۔۔۔

اس ویرانے میں کون دیکھ بھال کرتا ہوگا انکی۔۔۔۔

بہت نایاب نسل کے ہیں یہ پھول انہیں توڑنے کی غلطی مت کرنا۔۔۔

اصغر کاکا ردا کی لیفٹ سائیڈ پے کھڑے اسے تنبہہ کرتا ہے۔۔۔

دونوں چونک کے دیکھتی ہیں ۔۔۔

ردا دل پے ہاتھ رکھتی ہے افف کاکا ڈرا دیا کیا جن کی طرح یک دم نازل ہوجاتے ہیں ۔۔۔

آخر کیا برا ہوگا ایک توڑ لینے میں کیا حرج ہے۔۔ کشش کاکا سے مخاطب ہوتی ہے۔۔ ہاااں کاکا یہ سہی کہہ رہی ہے…

میرا کام صرف آگاہ کرنا تھا ۔۔۔

اصغر کاکا جنگل کی طرف نکل جاتے ہیں ۔۔۔

یار میں اس اصغر کاکا سے بہت تنگ ہوں ۔۔۔ اتنے سیریس ہوکے بات کرتے ہیں یہ۔۔۔

سارے موڈ کی بینڈ بجا دی چلو اندر چلتے ہیں ۔۔۔

ہہم تم جاؤ میں ابھی آتی ہوں ۔۔۔

کشش جو کب سے پھولوں کو دیکھ رہی ہوتی ہے۔۔۔ ادھر ہی تکتے ہوئے کہتی ہے۔۔۔

اچھا جلدی آنا پھر میں ان نمونوں کو دیکھ لوں ۔۔ ردا میر لوگوں کی طرف اشارہ کرتے کہتی ہے۔۔۔

موحد ردا کو دور سے آتے دیکھ کر ہاتھ ہلاتا ہے۔۔۔

موحد کے ہاتھ کے اشارہ، کے تعاقب میں سے میر اور ابرار ادھر ہی دیکھتے ہیں ۔۔

کشش پھولوں کے پاس جھک کے بیٹھ جاتی ہے۔۔ انکے اوپر ہاتھ پھیرتی ہے۔۔۔

پھول چمکنے لگ جاتے ہیں اسکے اندر سے سترنگی روشنی قوس و قزاع کی طرح نکلتی ہے۔۔۔

پھول خوبصورت سات رنگوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔۔۔

نا چاہتے ہوئے بھی کشش پھولوں کو توڑ لیتی ہے۔۔۔”

اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتاہے۔۔۔

اپنے سر پے کسی کا لمس محسوس کرتی ہے ۔۔۔

آہستہ آہستہ آنکھیں کھولتی ہے۔۔۔”

بیڈ کے اطراف میں دیکھتی ہے ۔۔۔

اسکے پاس جن زاد بیٹھے مسکرا رہا ہوتا ہے۔۔۔

“شہزادی آپکو ہماری یاد آئی تھی تو بس پکارا ہوتا ۔۔۔ ہم حاضر ہو جاتے لیکن آپ تو سیدھا ہمارے پاس چلی آئی۔۔۔

کشش اٹھنے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔”””

آاا نہ شہزادی ایسے ہی رہے آپ۔۔۔”

جن زاد اسے اٹھنے سے روکتا ہے۔۔۔

گردن کا رخ دوسری جانب کرتی ہے

ہاتھ میں وہی پھول ہوتا ہے۔۔۔

ہااں یہ۔۔۔۔ یہ پھول۔۔۔ بے اختیار کشش کے منہ سے نکلتا ہے۔۔۔”

جو چیز ہماری شہزای چاہے اور وہ نہ آئے ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔

آپ سے ہم نے جینا سیکھا ہے آپ جان ہو ہماری۔۔۔

یہاں ۔۔۔ یہاں دل نہیں بلکہ آپ بسی ہو ۔۔۔

جن زاد دل پے ہاتھ رکھے جنونی انداز میں کہتا ہے۔۔۔”

کشش بے خوف ہنسنے لگ جاتی ہے۔۔۔

مجھ سے جینا سیکھا ہے۔۔۔؟ کیسے۔۔۔

آپ نہیں جانتی یہ ہنسی کتنی قیمتی ہے آپ کا ہنسی ہمارے اندر ایک نئی روح بھونک دیتی ہے شہزادی ہم آپ کے لئے قربان ہوسکتے ہیں۔۔۔

سہی کہا ہم مر کے بھی آپ پے مر گے شہزادی ۔۔۔

جن زاد کی باتوں میں والہانہ تڑپ ہوتی ہے۔۔۔ ناچاہتے ہوئے بھی کشش کو اس پے ٹوٹ کے پیار آتا ہے۔۔۔

ہاتھوں کو سیدھا کرتے کہتی ہے۔۔۔ میں تو آپ کا نام بھی نہیں جانتی ۔۔۔

جن زاد کشش کے بالوں میں پھول لگائے کہتا ہے۔۔۔

“بالاج۔۔۔”

آپ ہم کو بالاج پکار سکتی ہے ۔۔۔

بالاج۔۔۔ کشش نے زیر لب دوہرایا۔۔۔۔

لیکن۔۔۔!!

ہمم شہزادی آج بےخوف وہ سب کہہ دیں جو آپکے دل میں ہے ہم قطعی غصہ نہیں کرے گے۔۔۔

بالاج کشش کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے ۔۔۔

کشش بیڈ پے بیٹھے خوبصورت نقوش والے شخص کو دیکھتی ہے۔۔۔

شہزادی ہاتھ تھامے۔۔۔

کشش کب سے تکے جارہی تھی بالاج کے کہنے پے ہوش میں آتی ہے۔۔۔

کشش بالاج (جن زاد) کے ہاتھ پے ہاتھ رکھتے پوچھتی ہے کہاں جارہے ہیں ہم۔۔۔

بالاج چہرے پے مسکراہٹ سجائے کہتا ہے۔۔۔ اس جہاں سے الگ دوسرے جہاں لے جانا چاہتا ہوں ۔۔۔

اپنے دامن ميں بسانا چاہتا ہوں دنیا سے دور الگ جہاں بسانا چاہتا ہو۔۔۔”

گردن ہلائے کہتی ہے۔۔۔ مطلب میں سمجھی نہیں آپکی بات۔۔۔

بالاج کشش کو بازوؤں سے تھام کے اپنے سامنے کر لیتا ہے۔۔۔”

اسکے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام کے اپنے سر کے ساتھ لگا لیتا ہے۔۔۔

کشش آنکھیں بند کر لیتی ہے۔۔۔”

ردا بے چینی سے کمرے میں ادھر ادھر چکر لگاتی ہے۔۔۔ کہاں رہ گی یہ کشش کی بچی ایک تو ویران جگہ لا بھٹایا۔۔۔ اوپر سے یہ سب پتا نہیں کدھر نکل گے۔۔۔

ردا ایک بار پھر کھڑکی سے نیچے جھانکتی ہے جہاں کچھ دیر پہلے موحد کے ساتھ سب تصویریں بنانے میں مگن تھے لیکن کشش پھولوں والی جگہ سے غائب تھی۔۔۔

بس اب بہت ہوگیا میں ہی دیکھ کے آتی ہوں ۔۔ کب تک یونہی بیٹھی رہو گی۔۔۔

ردا خود سے باتیں کرتے ہوئے باہر نکلتی ہے۔۔۔

محل کو دیکھتے ہوئے جاتی ہے کبھی چھت کو دیکھتی ہے وہاں خوبصورت ڈیزائن نقش ہوتا ہے۔۔۔

واؤ۔۔۔ بے اختیار اسکے منہ سے نکلتا ہے۔۔۔”

چلتے چلتے ردا اچانک رک جاتی ہے۔۔۔ عقب کی طرف مڑ کے دیکھتی ہے۔۔۔

یہ کمرہ۔۔

یہاں دیکھتی ہوں شاید کوئی یہاں پے ہو۔۔۔”

دروازہ جام ہوتا ہے کافی عرصہ بند رہنے کی وجہ سے۔۔۔

افف کھل جا۔۔۔ کھل جا سم سم۔۔۔

ردا بمشکل کافی جدوجہد کے بعد دروازہ کھولتی ہے۔۔۔”

دروازہ کھولتےہی وہاں عجیب سیا دھواں اڑتا ہے اور وہاں خون کے نشانات ہوتے ہیں خون کافی مقدار میں جمع ہوا ہوتا ہے۔۔ بہت بدبو بھی پھیلی ہوتی ہے۔۔۔ ردا اکلائی لیتی ہے۔۔۔ بدبو کی وجہ سے منہ پے ہاتھ رکھ لیتی ہے۔۔۔

یہ سب کیا ہے۔۔۔؟

آہستہ آہستہ ڈرتے ہوئے آگے قدم بڑھاتی ہے۔۔۔ اسکے پیر سے نیچے گری کوئی چیز ٹچ ہوتی ہے۔۔۔

خوف کے مارے کانوں پے ہاتھ رکھے چینخ مارتی ہے۔۔۔

ہانپتے ہوئے پیچھے کو ہوتی ہے۔۔۔

آپ کو یہاں نہیں آنا چاہئے تھا ۔۔ اصغر کاکا کی آواز عقب سے ابھرتی ہے ۔۔۔

ردا پیچھے مڑتی ہے۔۔۔

کاکا ہمیشہ کی طرح جھکے ہوئے کمر ہے رومال ڈالے آنکھوں کو اوپر کی جانب کرے شاطرانہ طرز سے دیکھتے ہے۔۔۔

وہ۔۔۔۔ یہ۔۔۔ خ خ۔۔۔ خون۔۔۔

ردا پوری طرح خوف سے چور ہوتی ہے۔۔۔ اٹک اٹک کے کہتی ہے۔۔۔

آپ گھبرائے نہیں یہ کسی جانور کا ہوگا۔۔۔ کوئی جانور مر گیا ہوگا۔۔۔ چلیں آپ۔۔۔

اصغر کاکا ردا کو باہر بھیجنا چاہتا تھا۔۔

ردا کا چہرہ پیسنے سے شرابور ہوتا یے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی ہے۔۔

چلے یہاں سے میں صاف کر دونگا۔۔۔۔

ردا کمرے سے نکل کے گہری سانس لیتی ہے ۔۔”

چہرے پے آئے پسینہ کو صاف کرتی ہے بہت گھبرائی ہوئی ہوتی ہے۔۔۔

توبہ یہ سب کیا تھا۔۔۔

کچھ ہی دیر میں تمام دوستوں کی آوازیں آتی ہیں ۔۔۔ ردا کھڑکی سے باہر جھانک کے دیکھتی ہے۔۔۔ پھر تیزی سے باہر کی طرف جاتی ہے۔۔۔

تم سب لوگ کہاں تھے۔۔۔

ردا ہانپ رہی ہوتی ہے۔۔۔

ارے سانس لو آرام سے ایسے کیوں ہانپ رہی ہو ڈری سہمی کیوں ہو۔۔

موحد ردا کو مطمئن کراتا ہے۔۔۔

موحد چلو یہاں سے۔۔ میں اب یہاں نہیں رکو گی۔۔۔ یہاں کچھ تو عجیب ہے۔۔۔

میر سینے ہے ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے۔۔۔

تم ہی لوگوں کو شوق تھا یہاں آنے کا اور یہ بھکڑ بھی یہاں سے فرار ہونا چاہتا ہے۔۔۔

میر ابرار کے بیٹ پے ہاتھ مارتا ہے۔۔

کشش کشش کہاں ہے۔۔۔

وہ تمہارے ساتھ تھی ناں۔۔۔

میر حیرانگی سے کہتا ہے۔۔۔

نہیں ۔۔

میرا مطلب ہااں۔۔

کچھ دیر پہلے میرے ساتھ تھی۔۔۔۔ ردا کنفیوژ تھی ۔۔۔۔”

ابھی ہم جنگل کی طرف سے آرہے ہیں وہاں عیجب طرح کا حادثہ ہوا ہمارے ساتھ۔۔۔

کچھ تو غلط ہے جو یہاں ہو رہا ہے۔۔۔ میر تھوڑی پے ہاتھ رکھے سوچتے ہوئے کہتا ہے۔۔۔

کشش ۔۔۔۔

کشش کو ڈھونڈ نا ہوگا۔۔۔

کشش آنکھیں کھولتی ہے اسکی آنکھوں کے سامنے پانچ سال والا منظر آجاتا ہے۔۔۔

ماضی۔۔۔”

پانچ سال پہلے کسی سے محبت کرتی تھی گھر والوں سے دور ایک انجان شہر کے انجان باسی پے اپنا دل ہار بیٹھی لیکن عین نکاح کے وقت وہ شخص نہیں آیا۔۔ سب نے اسکا مذاق اڑایا۔۔۔ کشش نے خود کو زندگی سے آزاد کر دینا چاہا۔۔۔ دنیا کا محبت کے بدلے محبت کی بجائے دھوکہ دینا پرانا رواج یے کشش اسے فراموش کر کے محبت کی رہ پے چلی گی تھی۔۔۔ کشش کی زندگی ردا نے بچائی ۔۔۔ااس آخری وقت میں ساتھی بنی اور آہستہ آہستہ زندگی کی طرف واپس لے کے آئی

کشش کے سامنے وہ تمام منظر کسی ریکارڈ فلم کی طرح چل رہا ہوتا ہے۔۔

کشش کے گرتے آنسو موتی میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔۔۔ وہ یہ دیکھ کے حیران ہوجاتی ہے۔۔۔

یہ تو ۔۔۔۔ یہ تو بہت عرصہ پہلے ہوا تھا مطلب تم یہ سب جانتے ہو ۔۔۔ اور تم سب یہ کیسے جانتے ہو ۔۔

مطلب آج کیوں بتایا۔۔۔

آخر یہ سب کیا ہے۔۔۔ بالاج۔۔۔۔

تم مجھے یہ سب کیوں دیکھا رہے ہو۔۔

میں جس بات کو اپنے دل میں دفن کر چکی ہوں مجھے وہ مت دکھاؤ۔۔۔

کشش روہانسی ہوئی چہرے پے ہاتھ رکھ لیتی ہے ۔۔

شہزادی۔۔۔

آپکا رونا مجھے چھلنی کر دیتا ہے۔۔۔ آپ ایسے مت روئے۔۔۔ بالاج کشش کو سینے سے لگا لیتا ہے۔۔۔ آپ نہیں جانتی یہ آنسو میرے دل پے گرتے ہیں اور میں تڑپ اٹھتا ہوں ۔۔۔ آپ مجھے درد دے رہی ہیں شہزادی رو کر۔۔۔

کشش سوں سوں کرتے ناک رگڑتی ہے۔۔۔

بالاج سے الگ ہوتے کہتی ہے۔۔۔ پھر مجھے یہ سب کیوں دیکھا رہے ہو ۔۔

جن زاد ہاتھ کے اشارے سے تمام پرچھائیوں کو پرے کرتا ہے۔۔۔

لو جی خوش، اب یہ سب ہم نہیں دیکھائے گے۔۔۔”

„لیکن ایک چیز دیکھانا چاہو گا۔۔۔„

اور وہ کیا ہے بالاج۔۔۔

کشش تجسس سے پوچھتی ہے۔۔۔!

جن زاد مڑتے ہوا ہاتھ ہوا میں لہراتا ہے۔۔۔ آنکھیں بند کر لیتا ہے۔۔۔ کچھ دیر اسی حالت میں رہتا ہے۔۔۔ آنکھیں کھولنے کے بعد کشش کی طرف رخ کرتا ہے اسکے ہاتھ میں لال رنگ کا خوبصورت ڈبہ ہوتا ہے۔۔۔

اسکے کھلتے ہی سفید موتی ہوا میں ہوتے ہیں ۔۔۔

آنکھوں کو چندھیا دینی والی تیز روشنی نکلتی ہے۔۔

کشش ہاتھ کو آنکھوں کے سامنے کر لیتی ہے

دیکھتے ہی دیکھتے سفید موتی خوبصورت ہار میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔۔۔

ہار ابھی بھی ہوا میں لہرا رہا ہوتا ہے۔۔۔

شہزادی۔۔۔

یہ آپکے لئے ۔۔۔

„کیا سچ میں „۔۔۔ بہت خوبصورت ہے یہ تو۔۔۔

جن زاد ہار کو کشش کے گلے میں پہنا دیتا ہے۔۔۔

کشش کے آنسو سے بنے موتیوں کا ہار اب اسی کے گلے میں ہوتا ہے۔۔۔

شہزادی مجھ سے شادی کرے گی آپ۔۔۔

کشش پہلے تو حیران ہوتی ہے۔۔۔

کچھ توقف کے بعد جن زاد اپنا سوال دوہراتا ہے۔۔۔

کشش بنا سوچے سمجھے اثبات میں سر ہلا دیتی ہے۔۔۔

جن زاد خوشی سے کشش کو گلے لگا لیتا ہے۔۔۔

میر تم اسے بھی اپنے ساتھ لے جاتے۔۔۔ اب اتنے بڑے محل میں کہاں ڈھونڈے گے۔۔۔ موحد پریشانی سے کہتا ہے۔۔۔

ابرار خوف سے کانپ رہا ہوتا ہے۔۔۔ مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔

جنگل میں ندی بھی تھی جب موحد تصویر بنا رہا تھا وہاں پے عجیب سی آوازیں آرہی تھی۔۔۔ ہم نے سمجھا شاید کسی جانور کی ہوگی کیونکہ دور دور تک کوئی آدم ذات موجود نہیں تھا۔۔۔”

ہذیانی قہقہوں کی آوازیں چاروں طرف سے آنے لگی ۔۔۔ ابرار نے بات کرتے ہوئے جھرجھری لی۔۔۔

مجھے بھی بہت ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔

ریلیکس ہم کشش کو تلاش کرتے ہیں پھر بس نکلتے ہیں ۔۔۔

میر تسلی دیتے ہوئے باہر نکل جاتا ہے۔۔۔

میر تم کہاں جا رہے ہو۔۔۔

موحد آواز لگاتا ہے۔۔۔

“بس ابھی آیا۔۔۔ شاید کشش، باہر ہی ہو دیکھتا ہوں۔۔ ٹھیک ہے ہم اندر تلاشتے ہیں ۔۔۔”

کچھ توقف کے بعد۔۔۔

تم کہاں تھی کشش سب کتنا پریشان ہوگے تھے۔۔ ارے کہا جانا تھا یہی تھی بس۔۔۔ اچھا پیکنگ کر لو ہم آج ہی واپس جائے گے۔۔

لیکن کیوں اتنی جلدی۔۔۔ کشش جانے کو تیار نہیں ہوتی۔۔۔

ہاں بسس کہہ دیا۔۔

واہ بھئی مہارانی سیر سپاٹوں سے آگی واپس۔۔۔ میر طنزیہ کہتا ہے۔۔۔ ہممم تم سب لوگ جا رہے ہو۔۔۔ جی محترمہ آپ بھی تیاری کرے بس۔۔۔

تم اس سے شادی نہیں کرسکتے۔۔۔ وہ ایک انسان ہے تم جانتے ہو وہ مر جائے گی۔۔۔ نہیں بی جان میں اسے مرنے نہیں دونگا ۔۔۔

میں نے فیصلہ کر لیا ہے میں کشش سے شادی کرونگا وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے۔۔ مجھے بہت عرصے بعد کسی سے شدید محبت ہوئی ہے۔۔۔ میں اب کسی قانون کسی بات کو نہیں مانو گا۔۔۔”

بالاج اٹل لہجے میں کہتا ہے۔۔۔”

وہ بھی میرے بغیر جی نہیں پائے گی میں جانتا ہوں ۔۔۔ ویسے بھی مجھے اس انسانی روپ میں رہنا اچھا لگتا ہے۔۔۔

بالاج اٹوٹ انداز میں بی جان کو بتا رہا ہوتا ہے۔۔۔ لیکن بیٹا تم جن زاد ہو ہمارے نئے شہزادے اس جن نگری کے وارث۔۔۔ یہاں ہزاروں جن زادیاں مل جائے گی اس لڑکی کو چھوڑ دو۔۔۔

مجھ سے مت الجھے بی جان بس ایک بار شادی ہو جائے وہ صرف میری ہوجائے گی، بالاج کی۔۔۔

جن زاد ہاتھ پھیلائے بلند آواز سے کہتا ہے۔۔

اور جو کوئی ہمارے درمیان آئے گا۔۔ ۔۔۔ تو۔۔۔ ہاہا ہا۔۔

سپاٹ لہجے میں کہتا ہنستا ہے۔۔۔”

لیکن بیٹا جب اسے سچائی پتا چلے گی تب خود انکار کر دی گی۔۔۔

بی جان میری بھولی بی جان۔۔۔ بالاج بی جان سے لپٹ کے کہتا ہے۔۔

میں بالاج ہوں اور کبھی کوئی کام ادھورا نہیں چھوڑتا پانچ سال۔۔۔ “

پانچ سال انتظار کیا اس دن کے لئے ۔۔۔ یہ میرے لئے آسان نہیں تھا۔۔۔

بالاج اپنی بات کہتے اندھیرے میں غائب ہوجاتا ہے۔۔۔

اوئے گینڈے تجھے کشش ملی کیا۔۔۔ موحد ابرار کا منہ چلتے دیکھ کے بے اختیار کہتا ہے۔۔۔ نہیں ملی فضول میں یہاں آئے ہم میرے دادا کی حویلی سہی ہے جو اسطرح خوفناک تو نہیں ہے۔۔۔

ابرار منہ بسورے کہتا ہے۔۔۔”

ہمم چلو کافی دیر ہوگی یے میر بھی اب گم ہوگیا دیکھتے ہیں ردا کے پاس چلتے ہیں ۔۔۔

ہاں چلو۔۔۔”

دونوں دوست ردا اور کشش کے مشترکہ کمرے کی طرف بڑھتے ہیں ۔۔ اچھا ابرار تم چلو میں زرا پانی پی کر آیا۔۔ راستے میں کچن کو دیکھتے موحد کو خیال آتا ہے۔۔۔

اور ہاں اگر کچھ کھانے کو ملے تو لیتے آنا۔۔۔ ابرار چنے چباتا آگے نکل جاتا ہے۔۔۔۔”

موحد دونوں ہاتھوں کو چہرے پے پھیرتا نل سے پانی لیتے ہوئے پینے ہی لگتا ہے کہ دیکھتا ہے کہ پانی کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے۔۔۔

گلاس کو پھینک کے مارتا یے۔۔۔ اور دوڑتا ہوا کمرے میں جاتا ہے۔۔

بھاگتے ہوئے ردا کے کمرے میں جا کر بھولی سانس بحال کرتا ہے۔۔۔

{تہ چرتہ مقابلہ کے حصہ اخلی سو چی داسی منڈے وخی…”}

اررے تم کیا ریس میں حصہ لے رہے ہو جو اسطرح بھاگتے پھر رہے ہو۔۔۔

“کشش بے ساختہ کہتی ہے۔۔۔”

ردا گھوررتے ہوئے کشش کو دیکھتی ہے۔۔۔

کشش نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ردا کو سمجھ تو کچھ نہ آئی لیکن گھورا ضرور۔۔۔

تمہیں یہ سب مذاق لگ رہا ہے اس سے یہ پوچھنے کی بجائے کہ کیا ہوا ہے۔۔۔ الٹا باتیں بنا رہی ہو۔۔۔ پتابھی ہے ہم سب کتنے پریشان تھے۔۔۔

کشش نے تذبذب کی سی کیفیت میں سر جھٹکا۔۔۔”

ریکیلکس ردا ۔۔۔ کیا ہوا گیا تم ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہی ہو۔۔۔

کشش تمہیں معلوم بھی ہے یہاں کیا ہوا رہا ہے۔۔۔ میر ردا کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتےہوئے کشش سے مخاطب ہوتا ہے۔۔۔

تم دونوں آپس میں مت الجھوں۔۔۔ میں سب بتاتا ہوں ۔۔۔

موحد ہنوز اسی حالت میں ہوتا ہے۔۔۔ ابرار اسے پانی پلاتے ہوئے کندھے سہلاتا ہے۔۔۔”

دیکھو کشش مجھے نہیں معلوم تم کچھ جانتی ہو یا نہیں لیکن مجھے اتنا پتا ہے تم ہم سے کچھ چھپا رہی ہو ہر کام میں تمہاری خاموشی کھٹک رہی ہے۔۔۔

کشش ابرو اچکائے کہتی ہے۔۔۔

“تو اب مجھے تمہیں بتانا ہو گا کہ کیا سہی ہے اور کیا غلط۔۔۔”

کبھی کبھی پر اسرار چیزیں انسان کو اندھیرے میں دھکیل دیتی ہیں جہاں وہ اکیلا رہ جاتا ہے۔۔۔

میر اپنی بات اطمینان سے کرتا ہے۔۔۔

میں کچھ نہیں چھپا رہی اور ہااں جیسے جانا ہے وہ شوق سے جا سکتا ہے میں کسی کو زبردستی ساتھ نہیں لائی تھی۔۔۔

ابرار تم موحد کو کمرے میں لے کر جاؤ اور دیکھو کہی چوٹ تو نہیں لگی۔۔۔

ہم صبح اس ٹاپک پے بات کرے گے۔۔۔ موحد ابرار کے ساتھ چلا جاتا ہے۔۔۔ رکو میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں ردا پیچھے سے آواز دے کے کہتی ہے۔۔۔

(کشش کو غصے سے گھورتے اسکے سامنے سے نکل جاتی ہے)

میر بھی جانے لگتا ہے۔۔

کشش میر کے چہرے کے سامنے ہاتھ گھماتے چٹکی بجاتی ہے۔۔۔

بس اتنا ہی کہنا تھا میر صاحب ۔۔۔

“میر غصے بھری نگاہوں سے کشش کو دیکھتا ہے۔۔ “

اگر تمہاری وجہ سے میرے دوستوں کو نقصان پہنچا تو اسکا ہرجانہ تم بھرو گی۔۔۔

میر انگلی اٹھا کر وارن کرتا ہے۔۔۔

کشش بس دیکھتی رہتی یے۔۔

میں آخری بار پوچھ رہا ہوں مجھ سے کچھ مت چھپاؤ۔۔۔ “میر لفظوں کو چبا چبا کے ادا کرتا ہے۔۔۔”

کیا جاننا چاہتے ہو۔۔۔ ہااں۔۔۔

کیا، بتاوں۔۔۔

کشش کے بازوں کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔۔۔ تم ہی یہاں آئی تھی اس جگہ کا صرف تمہیں علم تھا ۔۔۔

میر کشش کو بازو سے پکڑ کے جھٹکے دیتا ہے۔۔

چھوڑو میر مجھے درر ہورہا ہے۔۔۔

میں یہ درد تمہیں دینا نہیں چاہتا کشش، لیکن اپنے دوستوں کے لئے کچھ بھی کرونگا سمجھی۔۔۔

میر جھٹکے سے کشش کو چھوڑتے ہوئے تن فن کرتا باہر نکل جاتا ہے۔۔۔

کشش اپنا بازو سہلاتی ہے جو میر کی مضبوط گرفت میں سُن ہوچکا تھا۔۔۔

پاگل کہی کا کیا سمجھتا ہے خود کو اور ردا کو بھی میرے خلاف کر دیا ہے۔۔۔

کشش غصے میں میر کو برا بھلا کہتے باہر نکل آتی ہے۔۔۔

لوفر بدتمیز کہی کا ایسے کسی لڑکی کو زور سے پکڑتے ہیں ۔۔۔

ابھی تک درد ہو رہا ہے۔۔۔

میر کیا ہوا تو اتنے غصے میں کیوں ہے۔۔۔ ؟

“موحد میر کو غصہ کی حالت میں دروازہ بند کرتے کہتا ہے۔۔۔”

بس کچھ نہیں یار تو سنا اب کیسا محسوس کر رہا ہے۔۔۔”

ہممم میں بہتر ہوں ۔۔۔

میر ہمیں کچھ کرنا ہوگا صبح ہوتے ہی جائے گے یہاں سے بس کشش کو منانا ہے۔۔۔ میں اسے بھی ساتھ لے کر جاؤ گی ناجانے کن خیالوں میں مگن ہوتی ہے۔۔

ہاں بالکل۔۔۔ ابرار بھی حامی بھرتا ہے۔۔۔

ہممم مشکلات کا مطلب یہ تھوڑی ہوتا ہے کہ ہم سب چھوڑ کے بھاگ جائے بلکہ اسے حل کرنا ہوتا ہے ہم نے ہار نہیں ماننی نہ کسی کو اپنے اوپر غالب آنے دے گے

میر سبکو سمجھاتا ہے

اگر ہمیں کچھ ہوگیا مطلب ہم مر گے یہاں سے نہ نکل سکے پھر۔۔۔ “ابرار نے ڈرتے ہوئے کہا۔”

تم اب نحوست نہ پھیلاؤ۔۔

“موحد نے غصے میں کہا”

کشش لان میں ٹہل رہی ہوتی ہے آسمان پے لال رنگ کی سرخی بکھری ہوتی ہے ۔۔۔

لان میں چکر لگاتے ہوئے اسکا پیر کسی چیز سے ٹکراتا ہے۔۔۔

آؤئچ۔۔۔۔””

کشش درد سے کراہاتی ہے۔۔۔

اب کیا مصیبت ہے نیچے بیٹھ کر پاؤں پے لگی چیز دیکھتی ہے۔۔۔”

کسی نوکیلی چیز کے لگنے سے انگوٹھے سے خون ریس رہا ہوتا ہے۔۔۔”

کشش ہاتھ سے صاف کرتی ہے۔۔۔

آنکھوں سے درد کی وجہ سے آنسو امڈ آتے ہیں ۔۔۔

یہ بھی ہونا باقی تھا دوست الگ مجھ سے ناراض ہیں اب یہ ۔۔۔

اففف سہی کہتے ہیں مجھے آنا ہی نہیں ۔۔۔۔

شہزادی ۔۔۔۔

کشش اپنی بات مکمّل نہیں کر پاتی کہ بالاج کی آواز کان کی لو سے ہوا کی طرح ٹکراتی ہے۔۔۔”

کشش کے چہرے پے مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے گال دہکنے لگتے ہیں ۔۔۔

کشش اٹھتے ہوئے اردگرد دیکھتی ہے وہاں کوئی موجود نہیں ہوتا۔۔۔

کندھے پے ہاتھ مارتے بالاج سامنے آتا ہے۔۔

شہزادی میں یہاں ہوں ۔۔۔

کشش پیچھے مڑتی ہے۔۔۔

آپ کب آئے۔۔۔؟

میں گیا ہی نہیں تھا آپکے پاس ہی تھا۔۔۔”

سیر پے چلیں گی ہمارے ساتھ تاکہ ہماری اداس شہزادی کا موڈ اچھا ہوجائے۔۔۔

جن زاد کشش کی لال ہوتی ناک کو چھو کے کہتا ہے۔۔۔

یہ بھی آپکو معلوم تھا کہ میرا موڈ خراب ہے۔۔۔

کہا ناں ہمیشہ سب معلوم ہوتا ہے۔۔۔”

بالاج گھٹنوں پے جھکتے ہوئے اسکے سامنے ہاتھ بڑھاتا ہے۔۔۔

کشش ہنستے ہوئے بالاج کا ہاتھ تھام لیتی ہے۔۔۔”

کچھ ہی لمحے میں وہ ایک خوبصورت باغ میں ہوتے ہیں ۔۔۔”

باغ تھا کہ گویا جنت کا نظارہ ہر طرح کے ہر نسل کے رنگ برنگے پھول اطراف میں پھیلے ہوتے ہیں آسمان پے قوس وقزع کے تمام رنگ بکھرے ہوتے ہیں نرم نرم گھاس مخملی سا احساس دیتی ہے۔۔۔

آس پاس تتلیاں بہت ہی انمول چڑیا اور فاختہ اڑ رہی ہوتی ہیں ۔۔۔

بالکل کشش کے ڈریم لینڈ والی جگہ ہوتی ہے۔۔۔ انوکھی اور پراسرار۔۔۔

پرندوں کے چہچہاہٹ مدھر سا سنگیت کانوں میں رس گھول رہا ہوتا ہے۔۔۔

سامنے خوبصورت آبشار اسکا چلتا شور ب

کانوں کو سکون پہنچاتا ہے۔۔۔”

کشش کا دل بے دھڑک دھڑکنے لگتا ہے۔۔۔

ایک دم اتنی حسین وادی میں پہنچ گی۔۔۔”

آنکھوں میں اتری چمک مانند پڑ جاتی ہے۔۔۔”

بالاج کا ہاتھ چھوڑ دیتی ہے۔۔۔”

شہزادی کیا ہوا۔۔۔؟ ایسے پریشان کیوں ہوگی۔۔۔

کشش کچھ نہیں کہتی خاموش رہتی ہے۔۔۔”

بالاج دوبارہ سے ہاتھ پکڑے کہتا ہے۔۔

محبت بہت میٹھا اور سادہ لفظ ہے لیکن تمہارے سامنے کچھ نہیں، تمہیں دیکھ کے مجھے لگا میری تلاش مکمل ہوگی ہے تم ہی وہ لڑکی ہو میری سانسوں کی تپش صبح کی پہلی سوچ ہو رات کا آخری خیال، تم میری خوشی میری زندگی میری دھڑکن میری جنت سب کچھ ہو میں اپنے اندر تمہیں سما لینا چاہتا ہوں ۔۔۔

یہ کہتے ہوئےاسکی کی آنکھوں میں دیکھتا ہے وہ اس سے نظریں چرا لیتی ہے۔۔۔”

بالوں کو کانوں کے پیھچے کرتی وہ سیدھا بالاج کے دل میں اتری تھی۔۔۔”

جن زاد اس مسحور کن ادا پے لٹ ہی تو گیا تھا۔۔۔”

اچھا شہزادی ایک بات بتاو۔۔۔

جن زاد( بالاج) نے کشش کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے کہا۔۔

جو اسکی گود میں سر رکھے لیٹی تھی۔۔۔

جی پوچھے۔۔۔

“مجھے اپنے دوستوں سے کب ملاؤ گی۔۔۔؟

آپکو میرے دوستوں سے ملنا ہے ۔۔۔؟ ٹھیک ہے صبح مل لے گے۔۔۔ بلکہ ایسا کرتے ہیں ابھی جاتے ہی ملوا دونگی۔۔۔”

کچھ توقف کے بعد۔۔۔

آپ چپ کیوں ہوگے۔۔۔

کشش اچانک بالاج کی خاموشی پے جھنجھلا کے بولتی ہے۔۔۔!

میں بول رہا تھا تھوڑی دیر پہلے۔۔۔

ہاں جی میں سن رہی تھی۔۔۔”

تم صرف میری ہو اور میری ہی رہنا۔۔۔ بالاج ایک ایک لفظ اطمینان سے اور پر سکون انداز سے کہتا ہے۔۔۔

تم دھڑکن ہو اور دھڑکن بنا دل بھی رک جاتا ہے۔۔۔

کشش سیدھا ہوتے ہوئے کہتی ہے۔۔۔

آپکی یہ دیوانہ وار باتیں اففف کبھی کبھی مجھے شدید ڈر لگتا ہے آپ سے۔۔۔

جن زاد مسکرانے لگتا ہے۔۔۔”

میں نے کہا بھی تھا اس لڑکی سے یہ اب نہ ملے تو کیسے ہوا یہ سب۔۔۔

ملکہ اصغر کاکا پے دھاڑتے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھتی ہے۔۔۔

“وہ دونوں لال باغ میں کیا کر رہے ہیں …”

سہنرے رنگ کے بیضوی شکل والے گولے میں کشش اور بالاج کو دیکھ کے پیشانی شکن آلودہ ہوئی تھی۔۔۔

و۔۔۔ و۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔ ملکہ۔۔۔ میں ۔۔۔ وہ۔۔۔۔ سردار۔۔۔ پتا نہیں ک۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔ مم۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔

آآااااااں بند کرو میمنانا ۔۔۔۔”

بی جان ہاتھ میں پکڑی چھڑی غصے سے زمین پے مارتی ہے۔۔۔

اس پے سانپ کی شکل کا مجسمہ بنا ہوتا ہے۔۔۔”

تم سے ایک کام نہیں ہو پایا اس لڑکی کے دوستوں کو نہیں بھگا سکے مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا۔۔۔

دفع ہو جاؤ گم کرو اپنی یہ شکل ایسا نہ ہو کہ سارا غصہ تم پے نکال دو۔۔۔

ج۔۔۔ج۔۔۔جی۔۔۔ ججج۔۔۔۔جی ملکہ ۔۔۔۔”

اصغر کاکا ہاتھ باندھے چہرے کو جھکائے کمرے سے باہر نکل جاتے ہے۔۔۔”

کشش سیر وتفریح کے بعد تھک جاتی ہے۔۔۔ اپنے کمرے میں جاتی ہے ردا وہاں موجود نہیں ہوتی۔۔۔

اوہ لگتا ہے میڈم ابھی تک ناراض ہے۔۔۔”

اففف اب کیا، بھی کیا جا سکتا ہے ۔۔۔

اونگھتے ہوئے منہ پے ہاتھ رکھتی ہے۔۔۔

بس اب صبح دیکھو گی مجھے تو بہت نیند آرہی ہے۔۔ “

کشش اپنی خواب گاہ کی طرف بڑھتی ہے اور خوابوں میں کھو جاتی ہے۔۔ “

کچھ توقف کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی اسکا لحاف اتار رہا ہو۔۔۔

کشش کھسماتے ہوئے پھر سے اپنے اوپر اوڑھ لیتی ہے۔۔۔

کچھ دیر بعد کوئی نوکیلی چیز اسکے پیروں کے تلووں پے چھبتی ہے۔۔۔

وہ پیر پے پیر رکھتے محسوس کرنے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔۔ مسلسل جھبنے کی وجہ سے

کشش ہاتھ سے اپنا پیر پکڑ لیتی ہے۔۔۔

تنگ آکر اٹھ کے دیکھتی ہے۔۔۔”

کمرے کے لیٹ جلاتی ہے تو آس پاس بے شمار کالے رنگ کے سانپ رینگ رہے ہوتے ہیں ایک دو اسکے بستر پے بھی ہوتے ہیں ۔۔۔

کشش آنکھ بند کرتے زور سے چینخ مارتی ہے۔۔۔

میر ردا سمیت باقی سب اسکے کمرے میں آجاتے ہیں ۔۔۔

اچانک اندھیرا ہوجاتا ہے کشش کو کچھ دیکھائی نہیں دیتا۔۔۔

ردا ٹارچ مارتی کشش کو تلاش کرتی ہے۔۔۔

میر سوئچ بورڈ کو دیکھتا ہے۔۔۔

کچھ ہی دیر میں کمرہ روشن ہوجاتا ہے۔۔۔ کشش قد آور مضبوط شخص کے سینے سے لگی ہوتی ہے۔۔۔ میر اسے دیکھتے ہوئے کشش کا بازو پکڑ کے الگ کرتا یے۔۔۔

لیکن بالاج کشش کا دوسرا بازو تھامے ہوتا ہے۔۔ “

کشش کچھ سمجھتے ہوئے میر سے اپنا بازو چھڑاتی ہے۔۔۔

چھوڑو مجھے ۔۔۔

بالاج کے ساتھ جا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔۔۔

سب خیریت ہے کشش تم چلائی کیو اور یہ کون ہے۔۔۔ ردا بالاج کی طرف اشارہ کرتے پوچھتی ہے۔۔۔

یہ بالاج ہے۔۔۔

معذرت میں اپنا تعارف کرواتا ہوں ۔۔۔

ہاں جی کروائے کیو نکہ آج سے پہلے آپ کبھی نظر نہیں آئے یہاں ۔۔۔۔ میر ماتھے پے بل ڈالے شکن آلود نگاہوں سے دیکھتا ہے۔۔۔

جی میں بالاج اس گھر کا مالک۔۔۔ کچھ اہم کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا تھا آج ہی لوٹا ہوں اصغر کاکا نے آپ لوگوں کے بارے میں بتایا تھا ۔۔۔

سوچا آپ لوگوں سے صبح ملاقات کرونگا لیکن انکی چینخنے کی آواز سنی تو دوڑا چلا آیا۔۔۔

بالاج بہت ہی صضائی سے چھوٹ بولتا ہے۔۔۔

اچھا چھوڑو کشش تمہیں کیا ہوا تھا کوئی برا خواب دیکھا کیا۔۔۔ ؟

کشش سہمی سی بالاج کے پیچھے کھڑی تھی۔۔۔

دروازے کے باہر کشش کو کالے رنگ کا سانپ پھنکارتے ہوئے نظر آتا ہے۔۔۔

وہ۔۔۔۔ و۔۔۔وہ سانپ۔۔۔

ردا ہٹو تمہیں کاٹ لے گا۔۔۔

ردا دروازے کے پاس کھڑی ہوتی ہے۔۔۔

کہاں ہے سانپ ۔۔؟؟ اردگرد نگاہیں دوڑاتے کشش سے کہتی ہے۔۔۔

تتت۔۔۔تمہارے پیچھے ۔۔۔۔

کشش کانپتی انگلی سے اشارہ کرتے کہتی ہے۔۔۔”

خوف کے مارے کشش کا برا حال تھا۔۔۔

اچانک سے سب غائب ہوجانا وہ بری طرح چونک اٹھی تھی۔۔۔

لیکن بالاج کی پیشانی پے بل نمودار ہوئے تھے ۔۔۔

اصغر کاکا۔۔۔۔

اصغر کاکا۔۔۔۔

ااا۔۔ تیسری آواز دینے سے پہلے وہ اسکے سامنے ہاتھ سر جھکائے موجود تھا ۔۔۔

جاؤ کشش کے لئے فریش شربت لاؤ۔۔۔

آنکھوں ہی آنکھوں میں اصغر کو سمجھاتا ہے۔۔۔

آپ بے فکر رہے شہزادی، میرا مطلب کشش سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔

میر کو اسکے اتنا قریب جانا کھٹکا تھا۔۔۔ پہلی ہی نظر میں بالاج زہر لگا ۔۔۔

کچھ ہی دیر بعد کاکا ہاتھ میں گلاس لئے حاضر ہوتا ہے۔۔۔

لال رنگ کا گاڑھا محلول گلاس میں ہوتا ہے۔۔۔۔

بالاج کاکا سے گلاس تھامتے ہوئے کشش کو دیتا ہے۔۔۔

یہ پی لیں آپ بہتر محسوس کرے گی۔۔۔۔

کشش بالاج کو دیکھتی ہے۔۔۔

وہ آنکھوں سے پینے کا اشارہ کرتا ہے ۔۔۔ کشش گلاس لیتے ہی منہ کو لگائے سب پی جاتی ہے۔۔۔”

بالاج مسکرائے کہتا ہے امید ہے آپ اچھا محسوس کرے گی۔۔۔

اور پھر کمرے سے باہر نکل جاتا ہے اسکے ساتھ ہی میر اور باقی دوست بھی چلے جاتے ہیں ۔۔۔ ردا وہی کشش کے پاس ٹھہر جاتی ہے۔۔۔

بالاج دھاڑتے ہوئے کمرے میں داخل ہوتا ہے۔۔۔”

بی جان۔۔۔ !!!

یہ سب کیا تھا؟

“ہم نے آپکو بولا تھا اس لڑکی کو کچھ نہیں کہے گا کوئی بھی۔۔۔ بالاج کا چہرہ غصے سے لال ہوتا ہے اور گلے کی رگ غصے سے بھول رہی ہوتی ہے۔۔۔”

میں اس جہاں کو آگ لگا دونگا اگر کشش کو ایک خراش تک بھی آئی۔۔۔ ہم جانتے ہیں آپ ہم پے نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن بی جان اگر اب اسے ڈاریا تو ۔۔۔۔

تو آپ میرا چہرہ کبھی نہیں دیکھ سکے گی۔۔۔”

جسطرح پھنکارتے ہوئے داخل ہوا تھا ویسے ہی پلٹ جاتا ہے۔۔۔

لمبے قدم اٹھاتا اندھیرے والی جگہ پے غائب ہوجاتا ہے۔۔۔”

ملکہ کرسی پے سرد جمی بیٹھی کی بیٹھی رہ جاتی ہے۔۔ “

کیونکہ وہ جانتی تھی بالاج اپنی بات کا پکا ہے۔۔ اور جو کہتا ہے وہ کر کے ہی دم لیتا ہے۔۔۔”

معمول کے مطابق سب لوگ کھانے کی میز پے موجود ہوتے ہیں ۔۔۔ میر کشش کے بولنے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ رات والے واقعے کی وضاحت دے گی ۔۔۔

ابرار خاموشی سے تنگ آئے کہتا ہے۔۔ مجھے گھر جانا ہے۔۔۔”

تم چپ نہیں کر سکتے کیا ہر منٹ بعد یہی راگ لگا لیتے ہو۔۔۔ “موحد چڑ کے کہتا ہے۔۔۔”

تو اور کیا کروں یہاں تم لوگوں کی وجہ سے پھنس کے رہ گیا ہوں ۔۔۔ اوہ بات سن۔۔۔ تو یہاں اپنی مرضی سے آیا ہے۔۔۔

تو مجھے کیا معلوم کہ یہاں ۔۔ میر نے ابرار کی بات کاٹی۔۔۔”

اچھا تم دونوں خاموش ہو جاؤ ہم یہاں سے جلد جائے گے۔۔۔

کشش کی طرف دیکھتے ہوئے آخری جملہ بولتا ہے۔۔۔

اتنے میں بالاج گلہ صاف کرتے کھانستے ہوئے کشش کے برابر والی کرسی کھنیچ کے بیٹھ جاتا ہے۔۔۔

میر کے ماتھے پے بالاج کو دیکھے بل پڑ جاتے ہیں ۔۔۔

تو کیا ہو رہا ہے۔۔۔؟

بالاج سب سے مخاطب ہوتا ہے۔۔۔!!

ویسے عجیب نہیں ہے کہ اس گھر کا مالک اچانک نازل ہوگیا۔۔۔

میر ایک ایک لفظ چبا کے ادا کرتا ہے۔۔ “

اوہ سوری دوستوں میں انہیں جانتی تھی بس تعارف نہیں کروا سکی۔۔۔

بالاج یہ میرے تمام یونی ورسٹی کے دوست ہیں ۔۔

یہ میر۔۔۔ (منہ بسورتے ہوئے چہرہ پھیر لیتا ہے)

یہ موحد ہے۔۔۔ ہائے۔۔۔

یہ ابرار ہے۔۔۔ ابرار بھی ہاتھ سے ہیلو بولتا ہے۔۔

اور یہ میری بیسٹ فرینڈ ردا ہے۔۔

ردا ہلکی سی مسکراہٹ سے سلام کرتی ہے۔۔۔

اور دوستوں یہ بالاج ہیں ۔۔۔

بتایا تو تھا انہوں نے کہ اس گھر کے مالک ہیں ۔۔۔

کشش کے چہرے کی مسکراہٹ الگ ہی نوعیت کی ہوتی ہے۔۔۔

ہاں میں سنا تھا یہاں کوئی کہہ رہا تھا کہ واپس جانا ہے۔۔

بالاج وہی بات دہراتا ہے جو آتے وقت ابرار کے منہ سے سنی تھی۔۔۔

ہاں بس اب گھر بھی واپس جانا ہے ہوسٹل سے سیدھا یہ لوگ یہی آگے تھے۔۔

کشش جوس کا گلاس اٹھاتے مزید وضاحت دیتی ہے۔۔۔۔”

تو کوئی مسئلہ نہیں کاکا ڈرائیور سے کہہ کے آج ہی سبکو گھر بھیجوا دے گا۔۔۔

کیا سچ میں اوہ شکر ہے خدا کا۔۔۔ ابرار خوش ہوتا ہے۔۔۔۔

ابرار کی خوشی کی انتہا نہیں ہوتی جب بالاج اُسے جانے کے علاوہ خود چھوڑ کر آنے کی آفر کرتا ہے۔۔۔” کشش کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن بالاج ہاتھ کے اشارے سے خاموش رہنے کا کہتا ہے۔۔۔۔

(جیسے چاہ رہی ہو کہ وہ یہاں سے نہیں جانا چاہتی)

میر غصے سے بالاج کو گھور رہا ہوتا ہے۔۔۔’

کچھ ہی پل بعد سب اپنے اپنے گھروں میں موجود ہوتے ہیں البتہ کشش اُداس ہوتی ہے ۔۔۔

میرا بچہ آگیا ۔۔۔ بتا دیا ہوتا میں کسی کو لینے بھیج دیتی ۔۔۔

رقیہ کشش کو دیکھتے باہیں بھلا کراس کو گلے سے لگاتی ہے۔۔۔

کشش بوجھل قدموں سے اپنے کمرے کی طرف رخ کرتی ہے۔۔۔ رقیہ آنا۔۔۔”

میں کچھ دیر آرام کرنا چاہو گی۔۔۔”

ماربل سے بنی سڑھیاں اُس پے کشش کے جوتوں کی ٹک ٹک پورے گھر میں گونج رہی تھی۔۔۔”

کمرے کا دروازہ کھولتی ہے ۔۔ ایک لمبا سانس لیتی ہے پھولوں کی مہک پورے کمرے میں پھیلی ہوتی ہے آنکھیں بند کئے اُسے محسوس کرتی ہے۔۔۔

میں جانتی ہوں آپ یہاں پے ہیں ۔۔۔”

ہنوز آنکھیں بند کئے کہتی ہے۔۔۔

اوہ شہزای آپ ہمیں کتنا جان چکی ہیں ۔۔۔”

کان کی لو کو چھوتے کشش کو کندھوں سے تھامے جن زاد کہتا ہے۔۔۔”

جسطرح آپ مجھ میں بس چکے ہیں آپکی ہر حرکت سے واقف ہو ۔۔۔

کشش چھپے الفاظ میں محبت کا اظہار کر دیتی ہے۔۔ “

اوئے تو کہا چلا اب۔۔۔؟

موحد ،میر کو بائک پے بیٹھے دیکھ کر سوال داغ دیتا ہے۔۔۔

اتنی مشکل سے اس بھوت بنگلے سے نکلے ہیں کہی تو وہی تو نہیں جا رہا۔۔۔

موحد شکی انداز میں پوچھتا ہے۔۔۔

مجھے کسی پاگل کتے نے نہیں کاٹا جو ادھر جاؤ بس۔۔!!!

وہ تو۔۔۔

ہاں بتا۔۔۔” (موحد نے بے قراری سے پوچھا)

ارے وہ تو بس کشش ۔۔۔

اوہ بھائی چھوڑ دے اسکا پیچھا۔۔۔ وہ تتلی تیرے ہاتھ نہیں آنے والی دیکھا نئ کیسے جنگلی بلی کی طرح لڑتی ہے۔۔

موحد کشش کا ذکر سنتے اسے نہ جانے کی تلقین کرتا ہے۔۔۔”

میر گردن جھٹکے ہوئے اپنی ہیوی بائک کو کک مارتے فراٹے سے نکل جاتا ہے۔۔۔”

یہ لڑکا نہیں سدھرے گا، مجھے بھی مروائے گا دیکھا نہیں تھا اس ڈائن کی آنکھیں کیسے لال تھی۔

موحد خود کلامی کرتے ہوئے ابرار کو فون ملاتا ہے۔۔

بھووووو۔۔۔۔۔۔!!!

ہاہاہاہا کتنی ڈرپوک ہوتم دیکھو اپنی شکل۔۔۔۔

ردا اچانک سے آکر کشش کو ڈرا دیتی ہے۔۔۔”

اجھلنے پے ردا اسکا مزید مذاق اڑاتی ہے۔۔۔”

اوہ بہت بری ہو تم۔۔۔ بتا تو دیتی ۔۔۔”

کشش نے سنبھلتے ہوئے کہا۔۔۔۔”

ارے میں کب سے آئی ہوئی تھی تم پتا نہیں کن خیالات میں مگن تھی۔۔۔

کشش دل پے ہاتھ رکھے ٹھٹکتی ہے۔۔۔

ردا کو گھورتے ہوئے صلواتیں سناتی ہے۔۔۔ بہت بری ہو تم۔۔ “

ردا کندھے اچکائے کہتی ہے۔۔۔ سو تو ہوں ۔۔۔۔”

اچھا یار یہ چھوڑو اور بتاو کیا کرتی ہو سارا دن۔۔

مجھے کال بھی نہیں کی اسکا مطلب مِس بھی نہیں کیا مجھے۔۔۔”

ردا نے نروٹھے پن سے کہا۔۔۔”

ارے نہیں ۔۔۔!!

اب ایسی بھی کوئی بات نہیں بس میں بالاج کے ساتھ گھومنے جاتی ہوں ۔۔۔

بالاج۔۔۔۔!!!

یہ بالاج کون ہے۔۔۔؟

ردا نام زیرِلب دوہراتے ہوئے سوال کرتی ہے۔۔

وہ۔۔۔ وہ۔۔۔!!!

ہونٹ میں انگلی دبائے تعارف کے لئے الفاظ تلاشتی ہے۔۔۔( کیونکہ بے دھیانی میں ہی سہی اسکا ذکر ردا سے کر دیتی ہے)

ہاں بتاؤ وہ کیا۔۔۔

اور کب ملا ،کہاں ملا، کیسے ملا۔۔۔؟؟؟

ردا ایک ہی سانس میں سب سنا دیتی ہے۔۔۔۔””

ارے صبر سے کام لو سب بتاتی ہوں ۔۔۔

بیڈ پے ردا اور قریب رکھے صحفے پے کشش برجمان ہوتے بالاج کا تعارف کرواتی ہے۔۔۔”

تمہیں یاد ہے ردا بہت دن پہلے میں نے ذکر کیا تھا کہ کوئی مجھے تنگ کرتا ہے۔۔۔

میرے۔۔۔””” (تامُل کے بعد) میرے قریب آتا ہے۔۔ !!

ہمم پھر۔۔۔”

کیا وہی بالاج ہے۔۔ ؟

ردا بات کو ناسمجھی میں پوچھتی ہے۔

ہاں یہ وہی ہے۔۔ “”

اسکا مطلب یہ بھوت ہے۔۔۔

کشش اثبات میں سر ہلاتی ہے۔۔۔۔”اور وہ تم پے عاشق ہے۔۔۔

ہاہاہا۔۔۔ !!!

ردا کا انداز تمسخرانہ ہوتا ہے۔۔۔۔”

اور تو اُس بھوت سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔

لگتا ہے تو پاگل ہوگی۔۔۔۔”

(ہاہاہا)

بس یار اب مزید نہیں ہنس سکتی۔۔۔۔

ردا پیٹ کو پکڑے کہتی ہے۔۔ ۔دیکھ ہنس ہنس کے پیٹ دُکھنے لگ گیا۔۔

(ہاہاہا ایک جن سے محبت کرتی ہے ۔۔۔ ہاہاہا اور تم شادی کر لو گی تمہارے بچے کیا نظر آئے گے کیا وہ ہوا میں اڑے گے یا پھر اندھیرے میں رہے گے۔۔۔”ہاہا)

ردا مسلسل ہنسے جاتی ہے۔۔۔”

کشش ردا کو ایک نظر دیکھتی ہے اسکے پیچھے کسی کا سایہ نظر آتا ہے۔۔۔

پہلے تو اسکے چہرے پے بھی مسکراہٹ ہوتی ہے لیکن نظر آنے والے شخص کو دیکھتے ہی غائب ہوجاتی ہے۔۔

صحفے سے آہستہ سے اٹھتی ہے۔۔۔”

بالاج غصہ سے بھری لال آنکھوں سے ردا کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے۔۔۔

ردا اس بات سے انجان کشش کا مذاق بنانے میں مصروف ہوتی ہے۔۔۔

اسی طرح تالی بجائے ایک ہاتھ پیٹ پے رکھے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہی ہوتی ہے۔۔۔۔”

کشش نفی میں گردن ہلائے بالاج کو کچھ نہ کرنے کا اشارہ کرتی ہے۔۔ “

بالاج کی سانیس تیز ہوتی ہے ۔۔۔ زور زور سے سانس لے رہا ہوتا ہے۔۔۔

ب۔۔۔ب۔۔۔بالاج۔۔۔

درا کشش کو اس طرح پریشان دیکھتے چُپ ہوجاتی ہے۔۔۔۔

تجھے کیا ہوا۔۔۔؟

میں تو بس مذاق کر رہی تھی۔۔۔”

کشش ردا کی بات پے کوئی توجہ نہیں دیتی اُسے تو بس بالاج کے غصے کا ڈر تھا جو ردا پے آرہا تھا۔۔۔

کشش ۔۔۔

کشش میں تجھ سے بات کر رہی ہوں تو کسے دیکھ رہی ہے۔۔۔

ردا کشش کا نظروں کے تعاقب میں پیچھے دیکھتی ہے۔۔۔

وہاں کون ہے کشش۔۔۔۔؟

کشش۔۔۔

بالاج۔۔۔۔!!!

کیا۔۔۔۔!!!

ردا حیران ہوئے کہتی ہے۔۔۔۔

وہ بالاج۔۔۔۔

کشش کچھ کہنا ہی چاہ رہی تھی کہ ردا کو اپنا آپ ہوا میں کھڑا محسوس ہوا۔۔۔

گونج دار چینخ ردا کے حلق سے برآمد ہوئی ۔۔۔۔

کشش یہ کیاہو رہا ہے۔۔۔ پلیز مجھے بچاؤ۔۔۔

یہ سب کیا ہے۔۔۔۔

ردا آہستہ آہستہ اپنی جگہ سے اوپر کی جانب ہوا میں گھوم رہی ہوتی ہے۔۔۔”

کشش تیزی سے بالاج کہ طرف بڑھتے ہوئے قدموں میں گر جاتی ہے۔۔۔

خدا کے لئے بالاج میری دوست کو چھوڑ دے وہ بس مذاق کر رہی تھی۔۔۔۔

بالاج میری خاطر چھوڑ دے اسے۔۔۔

کشش روتے ہوئے التجا کر رہی تھی۔۔۔”

بالاج سرد نگاہوں سے کشش کو دیکھتا ہے۔۔۔

رو رو کر اسکا چہرہ سرخ ہوجاتا ہے۔۔۔

وہ وہی پگھل جاتا ہے۔۔۔ ردا کو نیچے اتار دیتا ہے۔۔۔

نیچے آتے ہی اسکا سر گھوم رہا ہوتا ہے۔۔۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے اور وہ بہوش ہوجاتی ہے۔۔۔۔”

کشش کو کندھوں سے تھامے اپنے روبرو کھڑا کرتا ہے۔۔۔۔

مجھ سے برداشت نہيں ہوئی یہ بات کہ کوئی آپکو تنگ کرے۔۔۔۔

اس نے ہماری۔۔۔ یعنی بالاج کی محبت کا مذاق بنایا۔۔۔

جو ایسا کرے گا اسکا یہی انجام ہوگا۔۔۔۔

شہزادی ۔۔۔”

کشش کی تھوڑی کو ہاتھ لگائے چہرے کو اوپر کرتا ہے۔۔۔۔

کشش آنکھیں بند کئے رخ اوپر کرتی ہے۔۔۔۔

آنسوؤں کے نشان ابھی بھی چہرے پے ہوتے ہیں کچھ پلکوں میں موتیوں کی مانند اٹکے ہوتے ہیں ۔۔۔

شہزادی آنکھیں کھولے۔۔

ہماری طرف دیکھے۔۔۔””

کشش آنکھیں نہیں کھولتی۔۔۔”

شہزادی ایک بار ہمیں دیکھے تو سہی۔۔۔ آنکھیں تو کھولے۔۔۔

آپ نے ہمیں دُکھ دیا ہے۔۔۔ ہمارا دل دکھایا ہے۔۔۔

ہنوز کشش کی آنکھیں بند ہوتی ہیں وہ ایسے ہی کہتی ہے۔۔۔

شہزادی صرف ایک بار ہمیں دیکھ تو لے۔۔۔۔

بالاج کشش ہا ہاتھ لئے اپنے سینے پے رکھ دیتا ہے۔۔۔

یہ سُنے میرا دل آپکا ہی نام پکار رہا ہے۔۔۔

محسوس کیجئے شہزادی ۔۔۔

بالاج کے دل کی دھڑکنوں کی رفتار اس قدر تیز ہوتی ہے کہ گویا محسوس ہوتا کہ پسلیوں کو چیرتا ہوا ماس کو پھاڑ کے باہر آگرے۔۔۔

کشش یک دم سے ہاتھ پیچھے کر لیتی ہے۔۔۔

شہزادی اب بھی آنکھیں نہیں کھولے گی۔۔۔”

بالاج کے لہجے میں اٹوٹ پیار ہوتا ہے۔۔۔

اسکے اسطرح پوچھنے پے کشش موندی آنکھیں کھول لیتی ہے۔۔۔۔”

بالاج بلا جھجھک سینے سے لگا لیتا ہے۔۔۔”

ہمیں معاف کردے ہم آئندہ ایسا نہیں کرے گے۔۔۔”

بس ہم اب آپ کو اپنے ساتھ لے کر جائے گے۔۔۔ جہاں بس آپ اور میں رہے گے۔۔۔۔”

اور کوئی بھی ہمارے بیچ نہیں آئے گا۔۔۔۔

بالاج جذبات میں گندھے لہجے سے بولتا ہے۔۔۔”

کچھ ہی دیر میں بہوش پڑی ردا ہوش میں آتے سر تھامتی ہے۔۔۔ آہاااااں۔۔

درد سے کراہتے ہوئے

میرا سر کیوں درد کررہا ہے۔۔۔

اور میں یہاں کیوں سو رہی ہوں ۔۔ کشش ردا کے سامنے بیٹھی ہوتی ہے بالاج جا چکا تھا۔۔۔

کچھ نہیں ردا تم پانی پیئو۔۔۔

کشش گلاس میں پانی انڈیل کر ردا کو دیتی ہے۔۔۔””

مجھے ہوا کیا تھا اففف کچھ یاد نہیں آرہا۔۔۔

ردا سر تھامے دماغ پے زور دیتے کہتی ہے۔۔۔”

کچھ نہیں ہوا تھا بس تم تھکاوٹ کی وجہ سے سو گی تھی۔۔۔

کشش سجمھ گی تھی کہ بالاج نے غلطی کے تلافی کے لئے ردا کے وہی یاداشت مٹا دی تھی

اب بھول کے بھی کشش اسے بالاج کے متعلق نہ بتانے کا عہد دل ہی دل میں لے چکی تھی

موحد پریشانی کے عالم میں ابراد کو فون کرتا ہے۔۔”

پہلی بل پے ابرار کال ریسو کر لیتا ہے۔۔۔۔

موحد گھبرائی آواز میں کہتا ہے ۔۔۔

یار میر تمہاری طرف آیا ہے کیا۔۔۔۔؟ کب سے نکلا ہوا تھا شام ہونے کو آئی لیکن ابھی تک نہیں لوٹا۔۔۔۔

نہیں ۔۔۔” خیریت کہا گیا ہے۔۔۔ میں تو یہاں دادا کی حویلی پے آیا ہوں ۔۔۔ مجھ سے تو کوئی رابطہ نہیں کیا میر نے۔۔۔

موحد مزید پریشان ہو جاتا ہے ۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔

اوئے کیا ٹھیک ہے تق مجھے سیدھی طرح سے بات بتا۔۔۔

اگر موحد سامنے ہوتا تو یقیناً ابرار اسے ایک لگا بھی دیتا۔۔۔

وہ اس ڈائن میرا مطلب کشش کے عشق میں گرفتار ہوئے ہتھ کڑیاں لگوانے گیا تھا۔۔

وہی اظہارِ عشق کرنے نکلا تھا۔۔۔

مگر ابھی تک نہیں آیا۔۔۔۔”

اچھا تو ایک کام کر ردا سے کال کر کے پوچھ میر کا، اسے کیا پتا معلوم ہو لے وہ کشش سے ملا ہو، اور کشش کے انکار کے بعد کہی دل کا غم ہکلا کر رہا ہو۔۔۔

ہممم ابرار کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہتا ہے ابھی کرتا ہوں کال۔۔۔۔

ردا کو کال ملاتا ہے۔۔۔

لیکن وہ کال ریسو نہیں کرتی۔۔۔ ارے یاررر اسے کیا ہوگیا اب۔۔۔۔ پک اپ دی کال

خود کلامی کرتے کہتا ہے۔۔۔”

دوبارہ ملاتا ہے۔۔۔۔

اوہ پلیز اٹھا لینا کال اب۔۔۔۔

دل ہی دل میں دعا کرتا ہے۔۔۔۔

دل بے تربیتی سے دھڑک رہا ہوتا ہے۔۔۔

کچھ انہونی ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔۔۔۔

موحد ردا کو کال ملاتے ہوئے فون کان سے لگاتا ہے۔۔۔۔۔” بس اب آخری بار کر رہا ہوں پھر خودی ہی جاتا ہوں کدھر چلا گیا۔۔۔۔”

موحد عجلت میں خود کلامی کرتے بائیک نکلاتا ہے۔۔۔

موبائل پینٹ کی جیب میں رکھتا ہے۔۔۔”

اتنے میں موبائل بجتا ہے۔۔۔”

بائیک کو سٹینڈ پے کئے کال اٹینڈ کرتا ہے۔۔۔”

آپ میر کو جانتے ہیں ۔۔۔ ؟

نسوانی آواز دوسری طرف سے سوالیہ بن کے برآمد ہوتی ہے۔۔

ہا۔۔۔ہا۔۔۔ ہاں جی۔۔

موحد نا جانے کیوں ہکلاہٹ سے جواب دیتا ہے۔۔۔۔”

جی ۔۔۔ معلوم ہو گیا پیشنٹ کے گھر والوں کا۔۔۔۔

اب کی بار وہ موحد کو نہیں پیچھے کسی کو بتا رہی ہوتی ہے۔۔۔

مطلب کیا ہے آپکا کون پیشنٹ۔۔۔ ؟؟

موحد دھڑکتے دل سے پوچھتا ہے۔۔۔۔

میں ہوسپیٹل سے نرس بات کر رہی ہوں میر نامی شخص یہاں پے بہت بری حالت میں لایا گیا تھا۔۔۔۔”

کیا۔۔۔۔!!!

میر۔۔۔ ” ہوسپیٹل ۔۔۔!!

دوسری طرف کی لائن ڈسکنٹکٹ ہوچکی تھی لیکن ہنوز موحد سکتے کی حالت میں موبائل کان کو لگائے کھڑا تھا۔۔۔۔”

کچھ توقف کے بعد سنبھلتے ہوئے ہسپتال کی طرف رخ کرتا ہے۔۔۔۔”

ہسپتال پہنچتا ہے تب تک ابرار بھی وہاں پہنچ چکا ہوتا ہے۔۔۔ موحد ابرار کو بھی میر کے بارے میں بتادیتا ہے۔۔۔۔۔

دونوں دوست بہوش میر کو آپریشن تھیٹر میں شیشے سے پار دیکھ کے دکھی ہوتے ہیں ۔۔۔۔

موحد آنسوؤں کو روکتے آنکھوں پے ہاتھ رکھتا ہے۔۔۔

میں نے کہا بھی تھا اسے مجھے ساتھ لے جاؤ۔۔۔” لیکن نہیں مانا۔۔۔۔ کر لیا نہ اپنا یہ حال۔۔۔۔”

موحد سرگوشی کرتا ہے۔۔۔”

موحد سے میر کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔۔۔۔

ابرار موحد کا کندھا تھپتھپائے حوصلہ دیتا ہے جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کو حوصلہ دیتے ہیں ۔۔۔۔”

نرس سفید لباس میں ملبوس انکے پاس آتی ہے ہاتھ میں لفافہ تھاما ہوتا ہے۔۔۔”

آپ لوگ پیشنٹ کے ریلٹیو ہیں ۔۔۔” نرس نے سامنے کھڑے دو ہینڈسم لمبے نوجوانوں کو مخاطب کرکے کہا

نرس بات کی تصدیق کرنا چاہتی تھی۔۔۔

دونوں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔”

پیشنٹ کا بلڈ بہت ضائع ہو گیا ہے۔۔۔ صرف یہی ایک خون کی تھیلی باقی ہے۔۔۔ ہمارے پاس بھی سٹاک ختم ہوگیا ہے۔۔۔ جلد از جلد خون کا انتظام کرے۔۔۔۔” ورنہ۔۔۔۔!! جان بھی جا سکتی ہے۔۔۔”

لیکن نرس انکو یہاں کون لایا۔۔۔۔؟ اور یہ سب کس طرح ہوا آپ کچھ جانتی ہے۔۔۔۔”

موحد بلڈ کا انتظام کرنے چلا جاتا ہے۔۔۔ ابرار نرس سے تفشیش کرتا ہے۔۔۔”

یہ تو ہمیں بھی نہیں معلوم کیونکہ مریض سٹیچر پے ہسپتال کے باہر بےہوش پڑا تھا وہ تو عملے میں سے کسی نے دیکھا تو ہم نے بھی موبائل وغیرہ چیک کیا تو انکے دوست کا نمبر ملا اور آپ لوگ آگے۔۔۔ “

جی شکریہ۔۔۔ ابرار رسماً کہتاہے۔۔۔۔

شکریہ کی کوئی بات نہیں یہی تو ہمارا کام ہے۔۔۔

نرس جواب دیتے سامنے بنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔۔۔۔”

موحد پاگلوں کی طرح سر کو تھامے ہسپتال کے باہر رکھے بینچ پے بیٹھا ہوتا ہے۔۔۔”

بلڈ کا انتظام اتنا ارجنٹ کرنا مشکل تھا وہ کسی کسی بھی قیمت پے میر کو نہیں کھونا چاہتے تھے ۔۔۔”

ابرار موحد کے کندھے پے ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔۔۔”

پریشان نہ ہو۔۔۔

میر اب خطرے سے باہر ہے۔۔۔

یہ سنتے ہی موحد چونک کے ابرار کو دیکھتا ہے۔۔۔

اللہ تیرا شکر ہے۔۔۔ آسمان کی طرف چہرہ کئے کہا۔۔

کیسے ہوا یہ سب۔۔۔؟

وہی جسکو کو تم برا بھلا کہہ رہے تھے اسی نے کیا۔۔۔؟

مطلب۔۔۔؟؟

موحد ناسمجھی میں کہتا ہے۔۔۔۔

ابرار پیچھے مڑ کے دیکھتا ہے اسی کی نظروں کے تعاقب میں موحد دیکھتا ہے، وہاں کشش کھڑی ہوتی ہے۔۔۔ موحد سختی سے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے رہ گیا۔۔۔”

(موحد سمجھ جاتا ہے کشش نے بلڈ کا انتظام کیا ہے)کشش کے چہرے پے ندامت صاف ظاہر ہوتی ہے۔۔۔

لیکن کیوں یہ بات سمجھ سے باہر ہوتی ہے۔۔۔۔”

تمہیں کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی، میرا جو دوست اس وقت زندگی اور موت کی جنگ لڑھ رہا ہے اس میں تمہارا ہاتھ ہے۔۔۔

تم سے ملنے جا رہا تھا وہ۔۔۔”

موحد چلایا تھا۔۔۔۔”

ارےے تم سمجھتی کیا ہو خود کو۔۔ اب یہ احسان جتانے آئی ہو۔۔۔”

موحد غصے اور جذبات کی ملی جلی کیفیت میں کشش کو باتیں سناتا ہے۔۔۔”

کشش خاموش تماشائی بنے سب سنتی رہتی ہے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فلیش بیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میر کے جانے سے پہلے ہی بجن زاد ساری حقیقت جان لیتا ہے وہ کسی بھی قیمت پے کشش کو میر سے ملنے نہیں دیتا ۔۔۔۔ اور اسے بے دردی سے مارنے کی کوشش کرتا ہے عین وقت پے کشش وہاں پہنچ جاتی ہے میر کو بالاج (جن زاد)کی ہی مدد سے بروقت ہسپتال پہنچاتی ہے۔۔۔”

بالاج (جن زاد) میر کو زندہ چھوڑنے کے لئے ایک شرط رکھتا ہے کہ اسکے بچ جانے کے بعد وہ کشش کو اپنے ساتھ لے کر جائے گا۔۔۔۔

کشش سمجھ جاتی ہے اگر اس نے انکار کیا تو میر کے ساتھ ساتھ وہ اپنوں کو بھی کھو سکتی ہے۔۔۔۔

اس لئے فورا یہ شرط مان جاتی ہے۔۔۔ اور میر کے لئے بلڈ کا انتظام بالاج کرتا ہے کشش کے ساتھ مل کے۔۔۔۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب آگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابرار موحد کو خاموش کروتا ہے۔۔۔ کیا ہوا گیا یار وہ ماضی تھا بس جو ہوا سو ہوا اب ہمارا میر خطرے سے باہر ہے۔۔۔

ڈاکٹر نے کہا ہے آپریشن کامیاب رہا چلو جا کر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔

موحد جاتے ہوئے بھی کشش کو گھور رہا ہوتا ہے۔۔۔۔”

لمبے لمبے ڈاگ بھرتا ابرار کے پیچھے جاتا ہے جو کہ اب میر کے آپریشن والے کمرے کی طرف بڑھتے ہیں ۔۔۔”

کچھ گھنٹے بعد میر کو روم میں شفٹ کر دیتے ہیں ۔۔۔۔”

کشش کو بالاج کی وجہ سے بہت شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔۔۔”

وہ اب اس سے نہ ملنے کا عزم کرتی ہے۔۔۔”

کشش دونوں ہاتھوں سے سر کو تھامے بیٹھی ہوتی ہے۔۔۔” ابرار اور موحد جاچکے ہوتے ہوئے ۔۔ “

کچھ گھنٹے بہوش رہنے کے بعد ہوش آنے پے میر اپنے ارد گرد دیکھتا ہے۔۔۔ موحد اور ابرار میر کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔”

میر دونوں کو دیکھ کے مخاطب ہوتا ہے ۔۔۔ تم کیا کراماً کاتبین میرے سر پے کھڑے ہو۔۔۔ میر کی شوخی سی بات پے سب ہنس دیتے ہیں ۔۔ “

یار تو موت کے منہ سے واپس آیا ہے تجھے شررات سوجھ رہی ہے۔۔۔ ” موحد نے ماتھے پے بل ڈالے کہا۔۔۔”

ہاں اور کیا۔۔۔ ابرار ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔۔۔”

اچّھا ٹھیک ہے بابا کچھ نہیں کہتا تم دونوں تو مجھے کھانے کو آرہے ہو۔۔۔”

اب گھر کب جانا ہے میں مریض بن کے یونہی پڑا رہو گا۔۔۔؟

دیکھ اسکو کتنی جلدی ہے گھر جانے کی۔۔۔ اگر اتنا ہی شوق تھا گھر رہنے کا تو کیوں نکلے باہر۔۔۔ موحد طنزیہ کہتا ہے۔۔۔”

اتنے میں نرس ہاتھ میں چارٹ پیر تھامے اندر داخل ہوتی ہے نرس کو دیکھتے ہی دونوں کے منہ پے فقل پڑھ جاتے ہیں ۔۔۔”

آئے اندر لے کر آئے۔۔۔ نرس پیچھے سے کسی کو اندد آنے کا کہتی ہے۔۔

کوئی وہیل چیئر کو لئے اندر داخل ہوتا ہے۔۔۔

نرس یہ کس لئے ۔۔۔؟ ابرار چہرے کے اڑتے رنگ کے ساتھ پوچھتا ہے۔۔۔”

یہ پیشنٹ کے لئے ہے۔۔۔ انکی ٹانگیں حادثے میں ضائع ہوچکی ہیں اب یہ کبھی چل نہیں پائے گے شاید کوئی معجزہ ہی انہیں چلا سکے۔۔۔”

دونوں دوستوں کے رنگ فق ہوجاتے ہیں ۔۔۔ موحد تو لڑکھڑایا تھا۔۔۔”

خود کو سنبھالتے ہوئے قریب رکھی کر سی پے بیٹھ گیا۔۔۔ “

میر خاموشی سے دونوں کو دیکھتا ہے۔۔ “

ابرار کی پلکو میں آنسو اٹک کے رہ گے۔۔۔

میر جانتا تھا یہ سب ہوش میں آنے کے باوجود اس طرح خوش تھا جیسے نئی زندگی ملی ہو ٹانگیں چلی جانے سے مغموم نہیں دکھائی دیا۔۔۔

کتنا ہمت والا ہے۔۔۔ ارے یارو ریلکس ! یہ سب تو ہوتا رہتا ہے اور پھر تم لوگ ہو نہ میرے ساتھ مجھے ان سہاروں کی بھی ضرورت نہیں ۔۔۔۔”

ابرار موحد میر کے کندھے لگ کے دل کا غم ہلکا کرتے تھے۔۔۔

کشش بکھرے وجود کے ساتھ گھر پہنچتی ہے۔۔۔۔” سارا واقعہ فلش بیک فلم کی طرح بلیک اینڈ وائٹ موڈ میں دماغ کی سلیٹ پے گردش کر رہا ہوتا ہے۔۔ “

اسکا دل یہ ماننے کو کبھی تیار نہیں ہوتا کہ اسکا بالاج یہ سب کر سکتا ہے۔۔ “

ہواؤں کے جھونکوں کے ساتھ بالاج حاضر ہوتا ہے۔۔۔”

کشش کے گالوں پے آنسوؤں کے نشان ابھی بھی باقی ہوتے ہیں ۔۔۔۔” کیا ہوا شہزادی آپکی آنکھوں میں آنسو کیوں؟

کشش بے یقینی سے بالاج کو دیکھتی ہے۔۔۔

جسے پوچھ رہی ہو خود ہی دئے ہیں اور مجھ سے معلوم کر رہے ہو۔ “

اوہ تو آپکو نہیں معلوم ایک جن ہوتے ہوئے نہیں معلوم۔۔۔ کتنے معصوم ہیں ناں آپ۔۔۔”

کشش اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے چلائی تھی۔۔۔”

آپکا کوئی حق نہیں بنتا جسکو آپ نا پسند کرے اسے ختم کردے۔۔۔ کیا قصور تھا اسکا۔۔۔ کہ وہ مجھے پسند کرتا تھا۔۔۔ ارے میں نے تو آپکو پسند کیا تھا ناں۔۔۔ کیا فرق پڑتا کہ وہ مجھے پسند کرتا ہے۔۔۔ پھر کیوں۔۔۔۔”

پھر کیوں بالاج۔۔۔ آخر کیوں آپ نے اسکو مارنا چاہا۔۔۔”

بالاج کے ہوش اڑ جاتے ہیں اس نے آج سے پہلے کشش کو کبھی اس حال میں اس طرح کی حرکتیں کرتا نہیں دیکھا۔۔۔

شہزادی مجھے نہیں سمجھ آرہی آپ کس کی بات کر رہی ہے ۔۔۔”

اتنے معصوم مت بنے بالاج ۔۔۔ آپ سب کچھ کر کے کیسے انکار کر سکتے ہیں میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ میر کی کار کو کسطرح روکا اور کھائی میں پھیکنا چاہا۔۔۔”

کیا۔۔۔؟؟

میں ایسا نہیں کرسکتا شہزادی میں جن ہو اور آدم ذات کا خون نہیں کرسکتا۔۔۔

کیا آپ مجھے جانتی نہیں ۔۔۔؟

میں ۔۔۔

وہ میں نہیں تھا شہزادی ۔۔۔

بالاج کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں ۔۔۔”

کشش کوئی بھی بات سننے سے انکار کر دیتی ہے۔۔۔”

شہزادی میری بات سنے، کوئی ہمیں الگ کرنا چاہتا ہے کوئی ایسا ہے جو نہیں چاہتا ہم ایک ہو۔۔۔

لیکن میں اپنی بے گناہی ثابت کر کے رہو گا۔۔۔”

وہ میں نہیں تھا شہزادی ۔۔۔۔

کشش اپنی کلائی پے چاقو رکھے کہتی ہے۔۔ چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔ ورنہ میں اپنی نس کاٹ لو گی ختم کر دو گی خود کو۔۔ ۔چلے جاؤ۔۔۔

بالاج آگے بڑھنے لگتا ہے۔۔۔

رکو ۔۔۔ ایک قدم بھی آگے مت بڑھانا ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔ کوئی غائبانہ حرکت مت کرنا میں نے خود کو ختم کر لینا ہے۔۔۔”

اچھا اچھا آپ یہ نیچے رکھے میں نہیں آتا آپکے قریب۔۔۔

لیکن میں اپنی بے گناہی ثابت کرکے رہو گا۔۔

بالاج ہوا کے جھونکے کے ساتھ غائب ہوجاتا ہے۔۔۔

کشش گھنٹنے ٹیکے زمین پے بیٹھ کے رونے لگ جاتی ہے۔۔۔”

*****

ہاں کاکا کیا خبر لائے ہو۔۔۔ کام ہوگیا۔۔۔ بی جان نے گھومتے ساتھ ہی کہا۔۔۔ جبکہ اندھیرا ہونے کی وجہ سے بی جان ٹھیک سے دیکھ نہ سکی اور بنا جواب سنے اپنی جیت کے جشن مانے کی تیاریاں کرنے لگی۔۔۔

اب بالاج کو عقل آئے گی فضول میں اس لڑکی کے عشق میں پڑ گیا اب اسکا اعتبار ٹوٹے گا اور جدائی اعتبار پے بہت بڑی چوٹ ہوتی ہے۔۔۔

واہ بی جان! آپ نے بہت اچھا کھیل کھیلا۔۔۔”

بی جان کی بات مکمّل ہونے کے بات بالاج تالیاں بجاتا ہے۔۔۔ آپ کامیاب ہوگی بی جان ،ہوگی کامیاب آپ۔۔۔

آپکو آخر کیا ملا اپنے بیٹے کا دل دکھا کر۔۔۔”

وہ لڑکی تمہیں ہم سے دور کر رہی تھی ہم کبھی نہیں چاہے گے تم یہ سب چھوڑ دو۔۔۔

بسس! بہت ہوگیا۔۔۔۔”بالاج ہاتھ اٹھا کے بی جان کو خاموش کرواتا ہے، میں نے کہا بھی تھا اب آپ نے ایسا کچھ کیا میں سب چھوڑ دونگا۔۔۔،آپ نے مجھے مجبور کر دیا ہے۔۔۔

اصغر کاکا کو گلے سے پکڑ کے گھسیٹے ہوئے اندر لاتا ہے۔۔۔”

یہی وہ مہرا میرے پیچھے لگایا ہوا تھا ناں ۔۔۔۔اب آپ اسے بھی ساری عمر نہیں دیکھ پائے گی۔۔۔

بالاج کاکا کو کوہ قاف کے اندھے کنوئے میں قید کر دیتا ہے جو شائد ساری عمر وہی رہے گا۔۔۔”

بالاج اپنی بات مکمّل کرتے تن فن وہاں سے نکل جاتا ہے۔۔۔ بی جان بوجھل قدموں سے آگے بڑھتی ہے اور زمین پے گر جاتی ہے۔۔۔ روتے ہوئے کہتی ہے آج میں نے اپنا ثبوت کھو دیا صرف ایک انسان کی وجہ سے میں اپنی انا کو قربان نہ کر سکی۔۔۔”

*****

کچھ دنوں بعد میر کو ہسپتال والے ڈسچارج کر دیتے ہیں ۔۔۔”،میر اپنے آبائی گاؤں واپس چلا جاتا ہے ۔۔۔

کشش اس سے ملنے کی کوشش کرتی ہے لیکن سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔۔۔”

کافی دن یوں ہی بیت جاتے ہیں بالاج کا کوئی پتا نہیں ہوتا کشش سمجھتی ہے میں نے اسے ناراض کر دیا جسکی وجہ سے وہ روٹھ کر چلا گیا ہے۔۔۔”

لیکن روز کشش کو اپنے کمرے میں کالی بلی کے ساتھ سترنگی گلاب ملتا تھا جسے چھوتے ہی وہ غائب ہو جاتا تھا۔۔۔”

آج بھی معمول کے مطابق اسے گلاب نظر آیا جب اٹھانے لگی تو وہ گلاب کے اندد ہی چلی گی۔۔۔

وہاں اسے عجیب نظارے دکھائی دیئے ۔۔۔”

ایک جن بالاج کی صورت میں تھا اور وہ مسلسل میر پے نظر رکھے ہوئے تھا۔۔۔ میر جب بائک پے کشش سے ملنے جارہا ہوتا ہے اسکا اکسڈینٹ نظر آتا ہے ۔۔۔

اسکے بعد بالاج کا چہرہ بدل جاتا ہے کیونکہ وہ بالاج کی شکل میں بہروپیا ہوتا ہے۔۔۔

یہ سب دیکھنے کے بعد کشش ہوش میں آتی ہے وہ بیڈ پے بیہوش لیٹی ہوتی ہے۔۔۔ پھول چھونے کے بعد کیا ہوا صحیح سے اسے بھی معلوم نہیں ہوتا۔۔۔

بس ایک خواب کے روپ میں تمام حقیقت اسکے سامنے آجاتی ہے۔۔۔۔”

کشش جان چکی ہوتی ہے سب کچھ بالاج نے نہیں کیا ہوتا اب وہ بے چین ہوتی ہے کہ کب بالاج سامنے آئے اور وہ معافی مانگ سکے۔۔۔”

_______کچھ دنوں بعد________

بڑے سے شیشے کے سامنے کھڑی وہ گہرا سرخ رنگ کا لمبا گھیراو والا فراک پہنے اونچا جوڑا بنائے خود کو گھور رہی تھی۔۔۔”

اتنی خوبصورت وہ آج سے ہیلے کبھی نہیں لگی خود کو ستائشی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔” فراک کے گھیراؤ کو سیدھا کرتے ردا نے سرگوشی کی۔۔۔ بس اب دلہے راجہ کے لئے باقی شرما بچا کے رکھو۔۔ “

اسکی بالاج سے شادی تھی تمام لوگ موجود تھے۔۔۔ میر اور اسکے دوست بھی وہاں موجود تھے۔۔۔

کشش منہ بسورے کہتی ہے۔۔۔

تم خود تو چھپی رستم نکلی پیار بھی کر لیا اور شادی بھی، ہتا تک چلنے نہیں دیا موحد اور تم نے۔۔۔”

ردا مسکرائی تھی۔۔۔”

ارے مجھے خود نہیں معلوم ہوا کہ وہ بدھو رشتہ بھی لے کر آجائے گا اور میرے گھر والوں نے بھی چٹ منگنی پٹ بیاہ کر دیا۔۔۔”

دونوں ہنسنے لگی۔۔۔”

نیچے سے کوئی لڑکی پیغام لے کے آئی ۔۔۔ دلہن تیار ہے تو نکاح کے لئے مولوی صاحب بلا رہے ہیں ۔۔۔ باقی تمام لوگ وہی موجود ہیں ۔۔۔

ردا جواب دیتی ہے۔۔۔ تم جاؤ ہم بس ابھی آتے ہیں ۔۔۔”

سیڑھیوں سے اترتے ہوئے ایک ہاتھ سے فراک کو تھامے کشش کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی۔۔۔”

سٹیج پے سامنے بالاج برجمان تھا جسکا مکمّل دھیان کشش کی جانب تھا آج تو وہ اپنے ہوش گنوا بیٹھا تھا۔۔۔”

کشش کا سنگھار توبہ شکن ہوتا ہے۔۔۔ “

آگے بڑھتے ہوئے کشش کا ہاتھ تھامے سٹیج پے چڑھنے میں مدد کرتا ہے۔۔۔”

مولوی صاحب نکاح کے تمام لوازمات پورے کرتے ہوئے نکاح پڑھاتا ہے۔۔۔”

قبول ہے کی صدا سے حال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے اور چاروں جانب سے مبارکباد پیش کی جاتی ہے ۔۔۔”

رخصتی کے وقت دونوں کا خوبصورت پھولوں سے استقبال کیا جاتا ہے۔۔۔”

وہاں موجود چند مہانوں سے ملتی ہے ۔۔۔

بالاج رداصل کشش کو اپنے خاص بالاج ولا لے کر جاتا ہے جہاں پے وہ انسانی روپ میں رہتا ہے۔۔۔”

پریااں اور نوکر انسانی روپ میں کشش کا استقبال کرتے ہیں ۔۔۔

تھکن سے کشش کا جسم چور چور ہوتا ہے اب وہ بس آرام کرنا چاہتی ہے ۔۔”

بالاج سمجھ جاتا ہے کشش تھک چکی ہے۔۔۔ وہ اسے کمرے میں لے جاتا ہے اور کپڑے تبدیل کر کے آرام کرنے کو کہتا ہے۔۔ ۔تقریبا دو گھنٹے بعد بالاج کمرے میں داخل ہوتا ہے۔۔۔واہ کتنا حسین ہے سب کچھ۔۔۔

بالاج کشش کے کان میں سرگوشی کرتا۔۔۔

آہ! ڈرا دیا آپ نے۔۔۔ کشش جو آنکھوں پے ہاتھ رکھے بیڈ سے پشت لگائے بیٹھی تھی اچانک بالاج کے آنے سے ڈر جاتی ہے۔۔۔

بالاج مسکرائے کہتا ہے۔۔۔

عادت ڈال لیجئے میری اس عادت کی اب اکثر آپکو چونکہ دیا کرو گا۔۔۔

بالاج بات کرتے ہوئے جھک کے اسکے ماتھا کو چوما۔۔۔ جس سے کشش شرماتے ہوئے نچلا لب کاٹا ۔۔۔

بالاج کو اپنی بی جان کی بات یاد آتی ہے اگر، اسے زندہ رکھنا چاہتے ہو تو اسکی تمام یادیں مٹانی ہوگی ورنہ وہ مر بھی سکتی ہے وہ ایک جن زادے کا پیار نہیں سہہ سکتی۔۔۔

بالاج یہی کرتا ہے اپنے پیار کے سائے میں کرتے ہوئے اسکی تمام یادوں کو رات کے کالے سائے میں کہیں گم کر دیتا ہے۔۔۔”

ایک حسین صبح کشش کا انتظار کرتی ہے۔۔۔” وہ بیڈ کے رائٹ سائڈ پے دیکھتی ہے بالاج وہاں نہیں ہوتا ۔۔۔۔” کچھ دیر بعد پیچھے دیکھتی ہے وہ روازرے میں کھڑا مسکرا رہا ہوتا ہے ۔۔۔

کشش شرماتے ہوئے چہرہ نیچے کر لیتی ہے۔۔۔”

کچھ توقف کے بعد واش روم سے نکلتی ہے۔۔۔ ایک طرف سر کو گرائے تولیے سے بالوں کو سکھا رہی ہوتی ہے۔۔ جب بالاج پیچھے سے کندھے پے ہاتھ رکھتا ہے۔۔۔ کشش چونکتے ہوئے سائیڈ پے ہوتی ہے۔۔۔

اوہ بالاج آپ نے تو مجھے ڈرا دیا۔۔”

بالاج آگے قدم بڑھاتے ہوئے کہتا ہے۔۔۔ عادت ڈال لو اس کی اکثر ایسا ہی ہوا کرے گا۔۔۔

کشش کی پشت دیوار سے لگ جاتی ہے۔۔ بالاج ایک ہاتھ دیوار پے رکھے دوسرے ہاتھ سے کشش کے چہرے پے آئے گیلے بالوں کا ہٹاتا ہے۔۔۔”

کشش سانس کھینچتے ہوئے آنکھوں کو بند کر لیتی ہے۔۔۔”

بالاج نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ “

آپ کی انہی حرکتوں پے تو ہم فدا ہیں ۔۔۔

اور پھر اپنے لب اسکی آنکھوں پے رکھ دیتا ہے۔۔۔۔

ختم شد

Visited 161 times, 1 visit(s) today
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!