ضمیر کی آواز کب تک چھپاؤ گے
خود اپنے آپ کو کب تک بھلاؤ گے
یہ آئینہ ہے، جھوٹ سہہ نہیں پائے گا
سچائی کو کب تک دغا دکھاؤ گے
ہر ایک لمحہ گواہ ہے تمہارے ساتھ
اپنے ہی سائے کو کب تک لڑاؤ گے
دنیا کے فیصلے بدل بھی جائیں مگر
ضمیر کا بوجھ کب تک اٹھاؤ گے
فریبِ ذات میں کچھ دیر کا مزہ ہے
سچ سے کب تک خود کو بہلاؤ گے
آئینہ دل کا صاف رکھو ہمیشہ منیب
ورنہ خودی کو خود کب تک چھپاؤ گے
عبدالمنیب
Visited 5 times, 1 visit(s) today
Last modified: October 21, 2024