انابیہ خان
( حال ))
” بس یہی کھانا مل سکتا ہے ، کھانا ہے تو کھاو ، نہیں تو بھاڑ میں جاوّ ، ویسے آج کل تمھارے نخرے کچھ زیادہ نہیں ہو گے ، یہ نہیں کھانا ، وہ نہیں کھانا ، اب میں تمھاری خاطر دو ، دو سالن نہیں بنا سکتی ، ایک تو کچھ کما نہیں سکتے ، اوپر سے نخرے ساتوایں آسمان کو چھو رہے ہیں ، اپاہج انسان تجھے میرے ہی گلے پڑنا تھا ، پتہ نہیں مجھے سے ایسا کون سا گناہ ہو گیا تھا ، جو رب نے تجھے میرے پلے باندھ دیا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانیہ عامر کے سامنے باسی کھانا رکھتے ہوئے جلی کٹی باتوں سے اسکے دل کو چھلنی چھلنی کر رہی تھی ، عامر کی آنکھ سے آنسو نکل کر اسکے گالوں کو بھگوتا ہوا اسکی ہلکی سی بڑھی ہوئی داڑھی میں کہیں جذب ہوا تھا ، وہ سر جھکائے بڑی خاموشی کے ساتھ باسی کھانا کھانے لگا تھا ۔
“تم سے کچھ کہا تھا اس کا کیا بنا ، کبھی میرے مسئلے پر بھی غور کر لیا کرو ، اپاہج تو تمھیں خدا نے بنا ہی دیا ہے ، میرے مسئلوں پر تو تم گونگے اور بہرے بھی بن جاتے ہو
“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ نے تیکھے لہجے میں سفاکیت کی حد کی تھی ۔۔۔۔۔
” کس مسئلے کی بات کر رہی ہو تم ، میں کچھ سمجھا نہیں تمھاری اس بات کو ، جو بھی کہنا ہے ذرا کھل کے کہو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عامر نے روٹی کا نوالہ توڑ کر قدرے حیرت بھرے تاثرات لیے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ؟؟؟؟ الجھے بال جو آدھے سے زیادہ ماتھے پر
بے ترتیبی سے پھیلے ہوئے تھے ، بڑھی ہوئی داڑھی ، ہلدی کی طرح زرد پڑتا چہرہ ، آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقوں نے تو ڈیرہ ڈال رکھا تھا ، ملگجے سے کپڑے پہنے وہ زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھا ہوا وہی باسی کھانا کھا رہا تھا ، ایسا لگ رہا تھا جیسے کئی روز سے وہ نہایا نہ ہو ، شیو نہ بنائی ہو ، وہ حال سے بھی بے حال تھا ، اسے دیکھ کر تو سنگ دل سے بھی سنگ دل انسان کو اس پر ترس آ جاتا تھا ، اور اگر نہیں آتا تھا تو بس اس کی اپنی بیوی رانیہ کو ہی نہیں آتا تھا ، اسے تو وہ بے چارا ہمیشہ سے ہی مکار و عیار سا لگتا تھا ، وہ بہت بڑی لالچی عورت تھی ، اسے محبت تھی تو بس دولت سے ہی ، جس کے پاس دولت ہوتی وہ اسی کی بن جاتی ، اسی کی ہی زبان بولنا پسند کرتی تھی ، جب عامر بہت امیر تھا اسکے پاس دولت کے ڈھیر تھے ، تب وہ اسکی ہی محبت میں گوڈے گوڈے ڈوبی ہوئی تھی ، پھر ایک ایسا موڑ آیا تھا ، عامر کے بزنس میں بہت زیادہ لوس ہوا تھا ، وہ پہلے کی نسبت بہت غریب ہو گیا تھا ، تب سے اس مکار کی نظر عامر کے باس پر پڑی تھی ، وہ اب عامر کے باس کو اپنے استمعال میں لانا چاہتی تھی ، اسے تو اپنے بچے تک نظر نہیں آ رہے تھے ، اوپر سے عامر کے باس نے بھی اس سے شادی کی ہامی بھر لی تھی ، اب وہ عامر سے طلاق کی ڈیمانڈ کرنے لگی ۔ یہ ڈیمانڈ کب اسرار میں تبدیل ہوئی پتہ ہی نہیں چلا ۔۔۔۔۔
” مجھے طلاق چاہیے اس مسئلے کی بات کر رہی ہوں ، کیوں جان کر بھی انجان بنتے ہو ، مجھے اب تمھاری صورت سے بھی نفرت محسوس ہوتی ہے ، خدا کے لیے مجھے اس اذیت سے نکالو ، میرا دم گھٹتا ہے تمھارے ساتھ سے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ نے بھڑکیلے لہجے میں کہا ۔۔۔
اس بات کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا بس وہ خاموشی سے باسی کھانا کھاتے ہوئے اپنے ماضی میں کھو گیا تھا ۔
((( ماضی ))
” ارے سائیں آپ ،
جانی آپ کب آئے ، آنے سے پہلے بتایا بھی نہیں ، آپ بہت تھک گئے ہوں گے , میں آپکے لیے چائے لے کر آتی ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ نے عامر سے مسکرا کر لاڈ کرتے ہوئے کہا پھر اسکے کوٹ کے بٹنوں کے ساتھ کھیلنے لگی تھی ۔۔
” گھر میں کون آیا تھا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے سامنے میز پر رکھے ایش ٹرے میں سگریٹ کے جلے ہوئے آدھے ٹکڑوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا ؟؟
” ک ، ک ، کوئی بھی تو نہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ نے ڈرتے ہوئے جواب دیا تھا ۔۔
” یہ تم ڈر کیوں رہی ہو ، اور میرے سامنے جھوٹ کیوں بول رہی ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عامر نے پہلے اسکے ماتھے پر ہلکا سا پیسنہ دیکھا تھا ، پھر آگے بڑھ کر میز سے وہ ایش ٹرے اٹھا لایا تھا جس میں آدھے جلے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑے پڑے تھے ۔۔۔۔
” تم تو کہہ رہی تھی گھر میں کوئی بھی نہیں آیا تھا ، تو کیا یہ سگریٹ تم نے پی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے سگریٹ کے ٹکڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا ۔
” مم میں کیوں بھلا پینے لگی یہ سگریٹ “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ نے ہکلاتے ہوئے کہا پھر اپنے دوپٹے کے پلو سے چہرے پر آیا پسینہ صاف کرنے لگی تھی ۔۔۔۔ عامر اس کی طرف حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا تھا جو اپنے چہرے سے پسینہ صاف کر رہی تھی ۔۔۔۔
” تو تم سیدھے طریقے سے بتاتی کیوں نہیں ہو ، کہ گھر میں آخر کون آیا تھا ، دیکھو میرے ضبط کو مت آزماو ، بہت مہنگا پڑ سکتا ہے ، سچ سچ بتاو کہ آخر میرے جانے کے بعد گھر میں کون آیا تھا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عامر نے رانیہ کی گردن دبوچے غصیلے لہجے میں دریافت کیا تھا ۔
” مجھے چھوڑو بہت درد ہو رہا ہے ، مجھے لگتا ہے تم پاگل ہو چکے ہو ،
میرا بھائی آیا تھا ، اور کون آ سکتا ہے اس گھر میں ، اس گھر میں انسان تو دور کی بات پرندوں کا آنا تک ممنوں ہے ہر بات پر شک کی عدالت کھول لیتے ہو ، میں بھی تو انسان ہوں ، کب تک مجھے یونہی شک کی عدالت کے کھٹہرے میں کھڑا کرتے رہو گے ، اس شک کے وکیل تم خود ہو ، جج تم خود ہو ، ڈر اس لیے گئی تھی اپنا لہجہ دیکھو ، کبھی کوئی بات پیار سے بھی پوچھی ہے تو نے ، جب بھی گھر آتے ہو پورے گھر کو سر پر اٹھا لیتے ہو ، ڈرتی ہوں تیرے غصے سے ، اب اس گھر میں میرے بھائی کے ْآنے کی بھی پابندی ہے کیا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ نے ایک اور جھوٹ بولتے ہوئے غصیلے لہجے میں جواب دیا تھا ، اور ساتھ ہی ساتھ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ، تاکے غصے اور رونے کی وجہ سے وہ جھوٹ کو بھی سچ سمجھے ، اور اس طرح بات ختم ہو جائے ، لیکن کب تک جھوٹ کے پاوّں نہیں ہوتے ، وہ ایک نہ ایک دن ضرور پکڑا جاتا ہے ، شاید وہ یہ بات نہیں جانتی تھی ۔۔۔۔
اس وقت تو وہ خاموش ہو گیا تھا ، اسے خود سے دور کر کے وہ دوسرے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔
🌸🌸🌸🌸
( ماضی )
” امجد عامر کو شک ہو گیا ہے ، یہ سگریٹ کے ٹکڑے یہاں نہ پھنکا کرو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ نے ایش ٹرے میں آدھے جلے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑوں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
” شک کیسا شک “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ اس نے دو کش لگا کے وہی جلا ہوا سگریٹ ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے پوچھا ؟؟
رانیہ نے تین چار دن پہلے والا واقعہ اسے سنا دیا تھا ، وہ بھی یہ سب جان کر کافی پریشان ہوا تھا ۔
پھر وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا ، کچھ سوچتے ہوئے اسکے پتلے اور باریک ہونٹ ایک دم مسکرا اٹھے تھے ۔
” اب کچھ کرنا پڑے گا ، جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امجد نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا اور وہی سگریٹ کے جلے ہوئے ٹکڑے ہاتھ میں اٹھا کر گھر سے باہر چلا گیا تھا ۔۔ رانیہ اسے حیرت سے جاتے ہوئے دیکھنے لگی تھی ۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸
( ماضی )
” ارے سر امجد آپ ہمارے گھر ، وہ بھی اس وقت “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عامر نے ہاتھ پر باندھی اپنی گھڑی کی طرف دیکھا ۔ جہاں سوائیاں رات کے بارہ 12 کے ہندسوں کو چھو رہی تھی , وہ واش روم جانے کے ارادے سے اٹھا تو سامنے ہی امجد گیٹ پر اسکی بیوی کے ساتھ کھڑا ہوا پایا تھا ۔۔
” ج جی میں یہاں سے گزر رہا تھا ، تو سوچا آپکی خیریت معلوم کرتا چلوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنی پینٹ کی جیب سے رومال نکل کر اس سے اپنے ماتھے پر آیا ہلکا سا پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا ۔۔
” سر رات کے بارہ 12 بجے آپ میری خیریت معلوم کرنے آئے ہیں ، مجھے تو حیرت ہو رہی ہے , اسے میں اپنی خوش نصیبی سمجھوں یا کسی کی مرہون منت “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دروازے کے پاس کھڑی رانیہ پر شاکی نظر ڈالتے ہوئے پوچھا ؟؟
” میں سمجھا نہیں تمھاری بات “۔۔۔۔۔ امجد نے فوراً سے پہلے کہا ۔۔
” کچھ نہیں سر آپ باہر کیوں کھڑے ہیں ، اندر تو آ جائیں ناں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ارے نہیں نہیں اب مجھے اجازت دیں ، تمھیں دیکھنے آیا تھا ، تمھیں دیکھ لیا ، میں آتا جاتا رہوں گا ،
خدا حافظ
اس دن سے عامر کو یقین ہوا تھا کہ رانیہ سر امجد کے ساتھ انوالو ہے ، اس لیے مجھ سے طلاق مانگ رہی ہے ، رانیہ کی نظر اسکے سر کی دولت پر تھی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” یہ کب آیا تھا ، اور کیوں آیا تھا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عامر نے غصیلے لہجے میں پوچھا ۔
” اس نے بتایا تو ہے ، وہ آپکو دیکھنے آیا تھا مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو جا کر اپنے باس سے پوچھو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ یہ کہہ کر مین گیٹ بند کر کے کمرے کے اندر چلی گئی تھی ۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸
( ماضی ))
” امجد اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے ، اب تمھیں کچھ کرنا ہوگا ، میں تھک گئی ہوں ، وضاحتیں دے دے کر ، وہ طلاق دینا ہی نہیں چاہتا ، آپ اس سے کہو مجھے طلاق دے دے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ امجد کے سامنے کھڑی بہتے آنسو کے ساتھ کہہ رہی تھی ۔
” تو مت رو ، آج تیرا کام ہو جائے گا ۔ تو فکر نہ کر “۔۔۔۔۔۔ امجد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔
” کیا کرو گے “۔۔۔ رانیہ فکرمندی سے اسے دیکھتے ہوئے بولی ۔
” اسے اپاہج کرنا پڑے گا ، اور کیا کروں گا ، پھر یہ اپنی جگہ پڑا رہے گا ، اور ہم دونوں آرام سے ایک دوسرے سے مل لیا کریں گے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” مطلب تم مجھ سے شادی نہیں کرو گے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے حیرت بھرے تاثرات سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
” یار شادی بھی کر لیں گے ، اتنی جلدی بھی کیا ہے ، پہلے انجوائے کریں گے ، اسکے بعد شادی کا سوچیں گے ، پہلے مجھے اپنا کام تو کرنے دو ، تم عورتوں کی انہی دقیانوسی باتوں سے مجھے بڑی چڑ ہے ، بات کچھ ہوتی ہے ، اور ختم وہ شادی پر آ کر ہی ہوتی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امجد خاصا چڑا ہوا تھا ۔۔ پھر وہ رکا نہیں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا گھر سے باہر چلا گیا تھا ۔۔
اور رانیہ حیرت سے منہ کھولے اس جاتے ہوئے شخص کی پشت دیکھتی رہی تھی ۔۔۔۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸
( ماضی ))
” ڈاکٹر صاحب کیا ہوا ہے اسے ، آپ بتاتے کیوں نہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ اس وقت ڈاکٹر مبین کے کیبن میں بیٹھی پوچھ رہی تھی ۔
” دیکھیں ہم خود بھی نہیں جانتے ، انکو کیا ہوا ہے ، بٹ جو لوگ اسے یہاں تک لے آئے ہیں ، وہی بتا رہے تھے ، ایک ٹرک اسے کچلتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا ، وہ لوگ اس ٹرک کے پیچھے بھی گئے تھے ، بٹ وہ کافی تیز تھا اس لیے اسے پکڑ نہیں سکے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی ڈاکٹر اس سے بات کر رہا تھا کہ رانیہ کے پرس سے موبائیل کی رنگ ٹون ہوئی تھی ، اس نے پرس کھول کر موبائیل کی سکرین کو دیکھا تو امجد کالنگ کے نام سے جگمگا رہا تھا ۔
” ایکسیکوز می “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہوئے ڈاکٹر کے کیبن سے نکل کر ایک سائیڈ پر جا کھڑی ہوئی تھی ۔
” ہیلو “۔۔۔۔۔ اس نے موبائیل کا گرین بٹن پش کرتے ہی اسے کانوں سے لگا لیا تھا ۔
” جانو تم بہت پریشان تھی ناں ، اب تیری پریشانی ختم ، تیرا شوہر اپاہج ہو گیا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” سچی آپ سچ کہہ رہے ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ خوشی سے اچھل ہی تو پڑی تھی ۔
” ہاں یار سچ کہہ رہا ہوں ، تو اب اس سے طلاق لے لے ، میں تجھ سے شادی کرنے کو تیار ہوں “۔۔۔۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸
( حال ))
” ایک بار پھر سوچ لو ، اپنی خوشی کے لیے اپنے بچوں کی خوشیاں برباد نہ کرو ، میں تو اپاہج ہو گیا ہوں ، کسی کے کام کا نہیں رہا ، پر تم تو اپنے بچوں کا سوچو “۔۔۔۔۔۔۔۔ عامر رانیہ کی منت سماجت کرنے لگا ۔
” مجھے طلاق چاہیے “۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دو ٹوک لہجے میں کہا ۔
” ٹھیک ہے ، میں اپنے ہوش حواس میں تمھیں
طلاق دیتا ہوں ۔۔۔۔
طلاق دیتا ہوں ۔۔۔
طلاق دیتا ہوں ۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸
( ماضی ))
آج رانیہ کی شادی تھی ، اس نے صبح ہی صبح تیاری کرنی شروع کر دی تھی ، اس نے سرخ لہنگا عروسی جوڑا پریس کر کے ہینگر پر لٹکا دیا تھا ، کچھ دیر تک اسے یہ پہننا تھا ، شام میں اس نے عروسی جوڑا زیب تن کیا تھا ، بیوٹی پارلر سے وہ میک اپ کروا کے آئی تھی ، کچھ اللہ پاک نے اسے حسن سے نوازا تھا تو کچھ بیوٹی پارلر کی مرہون منت تھی ، آج وہ قیامت لگ رہی تھی ، سب کے دلوں پر وہ بجلیاں گرا رہی تھی ، جس جس نے بھی دیکھا وہ سراہے بنا نہ رہ سکے تھے ، سب لوگوں نے اسکی خوب تعریف کی تھی ، دلہے والے بھی بڑی سی گاڑی میں آ چکے تھے ، امجد نے آج سفید کرتا کے اوپر سفید رنک کی واسکٹ پہنی تھی ، کھوسہ بھی سفید رنگ کا پہنا تھا ۔۔
باآخر خیر و عافیت سے شادی انجام پا گئی تھی ۔
وہ ایک گھر سے رخصت ہو کر امجد کے عالی شان محل میں آ گئی تھی ، آج وہ بہت خوش تھی ، جو اس نے خواب دیکھا تھا اس پر کن بول دیا گیا تھا ، کن کہہ دیا گیا تھا ، تو کیسے اسے وہ عالی شان محل نما کوٹھی نہ ملتی ، اسے تو اپنے بچوں کی بھی فکر نہیں رہی تھی ، پتہ نہیں کیسی بیوی کیسی ماں تھی وہ ۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
( ماضی ))
” یار میں تھک چکا ہوں تم سے ، اس روز روز کی بحث سے ، کام پر جاتا ہوں کوئی عیاشی کرنے نہیں جاتا جو تم اس قدر شک کرتی ہو ، شکی عورت “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امجد نے تھکے تھکے سے لہجے میں کہا تھا ۔۔
” مجھے ڈر لگتا ہے ، کہیں کوئی اور عورت “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” بس کر دو ، خدا کے لیے بس کر دو ، ہر عورت کو اپنے لیول کا نہ سوچا کرو ، ہر عورت تیرے جیسی نہیں ہوتی ، جو کچھ تو نے کیا ہے ہر عورت وہ نہیں کرتی ، کس چیز کا تجھے ڈر لگتا ہے ، “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امجد غصیلے لہجے میں کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا تھا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸
” یار تجھے تیری منہ مانگی رقم دینے کو تیار ہوں ، تو بس میرا کام کر دے ،۔ آج اسے شاپنگ پر لے جاوّں گا ، تو کسی طرح اس پر اپنی گاڑی ٹھوک دے ۔ میں اسے بچانے کی کوشش کروں گا ، تو مجھ پر گاڑی نہ چڑھانا خیال رکھنا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے پرانے دوست سے کہہ رہا تھا ، جس نے عامر کو اپاہج کیا تھا ، آج تقدیر اسی کے ہاتھوں رانیہ کو بھی اپاہج بنانے والی تھی ۔۔
🌸🌸🌸🌸🌸
( ماضی ))
” یار سوری صبح پتہ نہیں غصے میں کیا کیا بول گیا تھا ، ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا ، تو کیوں اتنا غصہ دلاتی ہے ، تو مجھ پر شک نہہ کیا کر میں تجھ سے بے حد محبت کرتا ہوں ، تیرا ایک آنسو بھی مجھ سے برداشت نہیں ہوتا ، چل آج تجھے شاپنگ کروانے لے چلتا ہوں ، تو اپنا موڈ ٹھیک کر لے بس “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے گاڑی کی چابی اسکی آنکھوں کے سامنے لہرائی تھی ۔
” مجھے نہیں چلنا “۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کروٹ بدلی
” اٹھ ناں پلیز یار “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امجد نے اس کا چہرہ اپنی طرف پھیرا ۔۔
” اچھا آپ گاڑی میں چل کر بیٹھیں میں چینج کر کے آتی ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنی ضد کا ہتھیار ڈالے ہوئے کہا ۔۔
” چلیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کپڑے چینج کر کے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولی تھی ۔
کچھ لمحوں میں ہی وہ مال روڈ پر تھے ۔، وہ دونوں ابھی گاڑی میں ہی موجود تھے ، کہ سامنے سے ایک ٹرک رول انکی گاڑی کو کچلتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا ، انکی جان تو بچ گئی تھی لیکن دونوں ہی اپاہج ہو چکے تھے ۔ قسمت کا کھیل ہی نرالہ ہے ، جس کے ہاتھوں عامر کو اپاہج کیا گیا تھا ، آج تقدیر نے اسی کے ہاتھوں دونوں کو اپاہج کر دیا تھا ۔
پھر کچھ سالوں کے اندر ہی اندر امجد کا گھر اور بزنس ڈھپ ہو کے رہ گیا تھا ، بزنس اتنا لوس ہوا کہ بات فاقوں تک آ گئی تھی ، اسی کو کہتے ہیں خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ، امجد کا گھر سیل ہو گیا تھا ، بزنس پر اسکے دوست نے قبضہ کر لیا تھا ۔
🌸🌸🌸🌸🌸
اور دوسری طرف عامر نے رانیہ کی طلاق کے بعد اپنی مصنوعی ٹانگیں لگوا لی تھی ، دوسری شادی بھی کر لی تھی ، دوسری بیوی بہت ہی اچھی اور بے حد رحم دل ثابت ہوئی تھی ۔ بچوں کی دیکھ بھال کرنا عامر کی دیکھ بھال کرنا اس کا معمول بن گیا تھا ، عامر کی محنت اور قدرت کی طاقت سے عامر ایک دن بہت بڑا بزنس مین بن گیا تھا ۔
ایک دن اسکی گاڑی راستے میں ہی خراب ہو گئی تھی اس نے اسے منیکنک کو ٹھیک کرانے کے لیے دی تھی اور خود فٹ پاتھ پر وقت گزارنے کے لیے بیٹھا تھا ۔
” الله کے نام پر دس روپے کا سوال ہے بابو جی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک عورت میلے کچیلے سے کپڑوں میں ہاتھ پھیلائے اس کے سامنے کھڑی تھی ، اس کے بال دیکھ کر گن آ رہی تھی ایسا لگ رہا تھا وہ کئی دنوں سے نہائی نہ ہو ، عامر نے جب غور سے اسے دیکھا تو اس کے پیروں تلے زمین سرک گئی تھی آسمان اسکے سر پر آ گرا تھا ، اسے ایسا لگا جیسے کسی نے اسکے دل میں نیزہ گھونپ دیا ہو ، وہ کوئی اور نہیں وہ اسکی رانیہ تھی ، اسکے بچوں کی ماں تھی ، اسکی محبت تھی ، رانیہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے بھولنے کے لیے زمانے لگ گئے تھے وہ ملی تو کہاں ملی ،
یہ ہے مقافات عمل ، جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ۔
” تو بھی نہ رکھ سکا بھرم میرے خلوص کا ۔
خود سے بھی زیادہ مجھے تجھ پے غرور تھا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد ۔۔۔۔