Written by 6:01 am عمومی کہانیاں, ناولز

ظالم سسرال

ازقلم انابیہ خان
” نورین کہاں مر گئی ہو تم ، سات بج چکے ہیں ، ابھی تک تم نے ناشتہ بھی نہیں بنایا ، تم جانتی بھی ہو ، میں جب صبح کچھ نہ کھاوّں تو میرا شوگر لو ہونے لگتا ہے ، سب کچھ جاننے کے بعد بھی تم ضد کرتی ہو ، کچھ تو خدا کا خوف کرو لڑکی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور جہاں بیڈ پر بیٹھی چلا رہی تھی ، اسے جانے کیوں صبح ہی صبح غصہ چڑھ جایا کرتا تھا ، وہ جب تک چیختی چلاتی نہیں تھی ، اسکا تو ناشتہ ہضم ہی نہیں ہوتا تھا ۔
” آئی مما “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کچن سے ہی جواب دیا تھا ، جلدی سے پراٹھا توے پر ڈال کر اس نے دوسرے چولہے پر چائے کی دیگچی چڑھائی تھی ، پھر وہ اپنی ساس کو جواب دینے کے لیے اسکے کمرے کی طرف بھاگی تھی ، جب سے اٹھی تھی ، پھرکی کی طرح کبھی یہاں تو کبھی وہاں گھوم رہی تھی ، یہ اسکا روز کا معمول تھا ۔۔
” مما آپ منہ ہاتھ دھو لیں ، بابا کو بھی کو جگا لیں ، میں ناشتہ بنا رہی ہوں ، پانچ منٹ کے اندر ہی اندر آپ کو ناشتہ مل جائے گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہانپتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔
” کیا تم نے ابھی تک ناشتہ بنایا ہی نہیں ؟
کیا کر رہی تھی تم اب تک ، تمھارے بچے تو ہیں نہیں جو تم ان کو سلانے کی وجہ سے مصروف تھی ، بانجھ تم نے بھی ہمارے ہی پلے پڑنا تھا ، تم جانتی بھی ہو ، میں جب تک کچھ کھا نہ لوں ، میں میڈیسنز نہیں کھاتی ، اور میں اپنی گولیاں جب تک ٹائم پر نہ کھاوّں ، تو میرا بی پی اور شوگر آسمان کو چھونے لگتا ہے ، تم مجھے مارنے کے چکر میں تو نہیں ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور جہاں نے چیختے ہوئے کہا تھا ۔
” اللہ نہ کرے مما آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں ، میں ایسا کیوں چاہوں گی ، بس پانچ منٹ میں ہی ناشتہ بن جاتا ہے ، آپ منہ ہاتھ دھو کر ناشتے کی میز پر آئیں گی ، تو آپکو آپکا ناشتہ تیار ملے گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” اب تمھارے بھی پر نکل آئے ہیں ، کیسے کٹر پٹر میرے سامنے بولے چلی جا رہی ہو ، نہ شرم نہ حیا ، یہی تمیز سکھائی ہے تیرے ماں باپ نے تجھے ، کہ بڑوں کے سامنے اس طرح زبان چلاوّ ، چھوکری اب تجھے تمیز بھی مجھے ہی سیکھانی پڑے گی “۔۔۔۔۔۔۔۔ “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نور جہاں فورا بیڈ سے نیچے اتری تھی ، اور اس کے قریب آ کر اس نے بڑی ہی بے دردی کے ساتھ نورین کے بالوں کو مٹھی میں لیتے ہوئے سخت لہجے میں کہا تھا ۔۔
وہ درد سے بلبلا اٹھی تھی ، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے
” مما پلیز میرے بال تو چھوڑیں ، بہت تکلیف ہو رہی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ درد سے بلبلاتے ہوئے بولی تھی ، آنکھ سے آنسو ٹپک کر اسکے ہاتھوں کی پشت پر گر رہے تھے ۔
” کیسے اپنی تکلیف پر بلبلا اٹھی ہو ، اور میری اس معصوم بیٹی کے ساتھ تم لوگ جو بھی جاہلانہ رویہ اختیار کرو ، تم لوگوں سے پوچھنے والا کوئی بھی نہیں ، میری بچی کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا تم لوگوں کو ، وہاں تکلیف نہیں ہوتی ، کیونکہ وہ سہنے والی کوئی اور ہے ، تم اپنے نا مراد بھائی کو سمجھاتی کیوں نہیں ہو آخر ، وہ بھی تو انسان ہے ، کتنی
بے رحمی سے تیرا بھائی مارتا ہے اسے ، جیسے وہ انسان نہیں کوئی جانور ہو ، اسکی آنکھوں کے نیچے حلقے دیکھے ہیں تم لوگوں نے ، سب بہن بھائیوں کی وہ لاڈلی تھی ، اور آج تیرے بھائی کے ہاتھوں ذلیل ہو رہی ہے ، سوکھ کر کانٹا ہو گئی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور جہاں جھوٹ پر جھوٹ بولے چلی جا رہی تھی ۔
جو نورین کی جان پر ظلم و تشدد کچھ دیر پہلے ہو رہا تھا ، اسکی جلن تو جیسے ختم ہوتی محسوس ہوئی تھی ، جو اس کی ساس اب بول رہی تھی اسکی جلن تو اسکے پورے وجود کو تہس نہس کر رہی تھی ، اسے تو ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی نے نیزہ اسکے دل کے آر پار گھونپ دیا ہو ، وہ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھی حیرت اور دکھ سے آنکھیں پھاڑے اس ظالم عورت کو دیکھ رہی تھی ، جس کی زبان انگارے برسا رہی تھی ۔
اسکی بھابھی ہادیہ ، نور جہاں کی معصوم لاڈلی بیٹی نے تو پورے گھر پر کنٹرول کیا ہوا تھا ، جس لڑکی کا شوہر اس کا ہمنوا ہو تو وہ لڑکی اپنے سسرال میں سب کچھ کہہ اور کر سکتی ہے ، جس کی ماں اتنی ظالم ہو ، تو کیا اسکی بیٹی کبھی معصوم ہو سکتی ہے بھلا ، سچ کہتے ہیں سیانے لوگ ، ہر بیٹی اپنی ماں کی پرچھائی ہوتی ہے ، اور ہر بیٹا اپنے باپ کا سایہ ہوتا ہے ۔۔۔
ہادیہ کی ساس سب کچھ پکا کر اسکے سامنے رکھتی تھی ، وہ اپنی پسند کا سالن کٹوری میں بھر لیتی تھی ، چاہے کسی کا بچے یا نہیں ، اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی تھی ، باقی جو سالن بچتا تھا ، ان لوگوں کو واپس کر دیتی تھی ، جتنی مرضی روٹیاں چاہتی لے لیتی تھی ، گھر کے کاموں کو ہاتھ لگانا گناہ کیبرا سمجھتی تھی ، پکی پکائی پر ہی وہ اپنے ہاتھ صاف کرتی تھی ، سارا دن اپنے کمرے میں بیڈ توڑتی رہتی تھی ، اس کا پسندیدہ مشغلہ اپنی ماں کو فون کر کے لگائی بجھائی کا تھا ، سارا دن اپنے کمرے میں رہتے ہوئے وہ اپنی ماں کو فون کرتی رہتی تھی ، گھر میں کس وقت کیا ہوتا ہے ، اتنی خبر نورین کو نہیں ہوتی تھی ، جتنی خبر نور جہاں کو ہو جاتی تھی ، ایک ایک لمحے کی خبر ہادیہ اپنی ماں کو دیتی تھی ، اس نے اپنے شوہر کو اپنی مٹھی میں کیا ہوا تھا ، وہ سانس بھی اسکی مرضی سے لیتا تھا ، اور اسکی ساس کیا بولے جا رہی تھی ۔
” مما یہ آپ کیا بول رہی ہیں ، کب میرے بھائی نے ہادیہ پر ہاتھ اٹھایا تھا ، اس کا تو پورے گھر پر راج ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” تجھے بڑی بکواس کرنی آتی ہے ، کیا میری ماں جھوٹ بول رہی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بشر نے آتے ہی اسکے بالوں سے پکڑ کر اسے کھڑا کرتے ہوئے سخت لہجے میں کہا
اسکی درد سے چیخ نکلی تھی ۔۔۔۔
پھر اس نے ایک جھٹکے سے اسے خود سے دور کیا تھا ، وہ لڑکھڑاتے ہوئے سامنے میز پر جا گری تھی ، انسانی وزن جیسے ہی شیشے کی میز پر پڑا ، تو ایک چھانکے کی آواز سے وہ شیشہ چکنا چور ہو گیا تھا ، وہ شیشہ نورین کا ماتھا کاٹتا ہوا زمین پر گرا تھا ، ایک خون کی لہر تھی ، جو نورین کے ماتھے سے ابل پڑی تھی ، پھر نورین کا ذہن غنودگی میں ڈوبتا چلا گیا تھا ۔۔ وہ ہوش کی دنیا سے بیگانہ ہوتی چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔
🌸🌸🌸🌸
” کیا ہوا ہے میری بچی کو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمنہ نورین کی ماں کو جب نورین کے بارے میں پتہ چلا ، تو اسکو دیکھنے کے لیے ہسپتال میں دوڑی چلی آئی ۔۔۔۔
” ہم سے کیا پوچھتی ہو بہن ، یہ بات آپ اپنی بانجھ اور بے غیرت بیٹی سے پوچھو ، جو اتنا بڑا کارنامہ انجام دینے جا رہی تھی ، یہ تو ہم پر خدا کا کرم ہو گیا ، جو ہم لوگ اس مصیبت سے بچ گئے تھے ، ورنہ اس نے تو ہمیں برباد کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ، اس نے تو پورے خاندان والوں کے سامنے ہماری ناک کٹوانی تھی ، اس نے تو پورے معاشرے میں ہماری جگ ہنسائی کروانی تھی ، اسے بیٹی کا درجہ دیتے تھے ، پر اس نے کبھی ہمیں ماں باپ کا درجہ دیا ہی نہیں ، بدکردار ہونے کے ساتھ ساتھ بانجھ بیٹی ہے آپکی ، کچھ شرم حیا نام کی چیز نہیں اس کرم جلی میں ، آج میرے بیٹے نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے
یہ بانجھ عورت ہمارا گھر چھوڑ کر اپنے یار کے ساتھ بھاگ رہی تھی ، ہم نے اسے ہر آسائش دی تھی ، اس سب کے باوجود بھی اس نے ہمیں برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، سچ کہتے ہیں ، کہنے والے ، اگر سانپ کو ہتھیلی پر دودھ رکھ کر بھی پلاو ، پھر بھی وہ ڈسنے سے باز نہیں آتا ، ڈسنا اسکی فطرت جو ٹھہرا “۔۔۔۔۔۔۔۔
نور جہاں نے سفاکیت کی انتہا کر دی تھی ۔۔۔۔۔
اس نے اس بے ہوش لڑکی پر ذرا بھی رحم نہ کھایا تھا ، جو دن رات اس کی خدمت کرتے نہیں تھکتی تھی ، جو اسے امی امی پکارتے نہیں تھکتی تھی ، جو اسکی تیماداری ایک سگی بیٹی کی طرح کرتی تھی ۔۔۔۔
نورجہاں کے منہ میں جو بھی آیا ، وہ بولتی ہی چلی گئی تھی ، اپنی ماں کی باتوں میں بشر بھی تاکیدی سر ہلاتے ہوئے اس بات کا ثبوت دے رہا تھا ، کہ جو اسکی ماں کہہ رہی ہے وہ بالکل سچ تھا ۔۔۔۔۔۔
” کیا مطلب بہن ، میں آپکی بات سمجھی نہیں ، آپ کہنا کیا چاہتی ہیں ، ذرا کھل کر کہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمنہ نے حیران اور پریشان نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے استفسار کیا ۔۔۔۔
” بہن مجھ میں ابھی شرم و حیا باقی ہے ، میں کیسے بتاوّں ، آج تیری بیٹی نے جو تماشا کیا ہے ، کیسے بتاوّّں کہ وہ گھر سے بھاگ رہی تھی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مکار عورت مصنوعی آنسو آنکھوں میں بھرتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔
” آپ میری شرم و حیا اور لاج رکھنے والی بیٹی پر الزام لگا رہی ہیں ، تہمت لگا رہی ہیں ، آپ بھی ایک بیٹی کی ماں ہیں ، آپکو یہ بات زیب نہیں دیتی ، کہ آپ کسی شریف لڑکی پر اتنا بڑا بھتان اور تہمت لگائیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمنہ نے دھیرے سے مگر غصیلے لہجے میں کہا ۔۔۔۔
کیونکہ وہ جانتی تھی ، اگر اس نے
زیادہ غصہ کیا تو یہ بات ہادیہ نے عامر سے کہہ دینی تھی ، اور یقینا عامر نے ہادیہ کی بات پر ہی ایمان لے آنا تھا ، وہ بہن کو ہی غلط سمجھتا ، لیکن اپنی بیوی کو کبھی وہ غلط نہیں کہہ سکتا تھا ۔۔
” میں الزام نہیں حیقیت بتا رہی ہوں ، صاف سننا چاہتی ہیں ، تو سن لو بہن
تیری بیٹی اپنے کسی یار کے ساتھ گھر سے بھاگ رہی تھی ، جب یہی بات میرے غیرت مند بیٹے کو پتہ چلی تو اس نے تیری بیٹی کو بہت روکنے کی کوشش کی تھی ، لیکن وہ نہ مانی ، تب میرے بیٹے نے تیری بیٹی کو ہلکا سا مارا پیٹا تھا ، پھر میں بیچ میں آ گئی تھی اور یوں تیری بیٹی کو لے کر ہسپتال لے آئی ہوں ۔
میرے بیٹے نے تو اس بے غیرت کا بھی پیچھا کیا تھا ، جس کے ساتھ تیری بیٹی منہ کالا کرنے کے لیے پر تول رہی تھی ، لیکن وہ بے غیرت موقع پر ہی بھاگ گیا تھا “۔۔۔۔۔۔
نور جہاں کو ذرا بھی خدا کا خوف نہیں ہو رہا تھا ، وہ بھتان پر بھتان لگائے جا رہی تھی ، کچھ توقف کے بعد اس نے ایک بار پھر سے بولنا شروع کیا تھا ۔۔۔
” ابھی بھی میری شرافت سمجھو ، اسے میں ہسپتال لے آئی ہوں ، ورنہ یہاں کوئی اور ساس ہوتی ، تو اسے مرنے کے لیے یوں اکیلا ہی چھوڑ دیتی ، میں نے اسے بیٹی کا درجہ دیا تھا ، اس لیے اسے ہسپتال لیے چلی آئی ہوں “۔۔۔۔۔۔۔ نورجہاں نے غصیلے لہجے میں کہہ کر اپنے چہرے کا رخ دوسری جانب پھیر لیا تھا ۔۔۔۔
” ابے رن مرید اٹھ اب گھر چل ، اسکی ماں آ گئی ہے ، خود ہی اپنی بیٹی کا خیال رکھ لے گی ، ہم کوئی نوکر نہیں ہیں جو مہارانی کا خیال رکھنے کے لیے یہاں بیٹھے رہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور جہاں یہ کہہ کر فورا بیڈ سے نیچے اتری تھی ۔
اسکی دیکھا دیکھی میں بشر بھی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔
وہ دونوں بکتے جھکتے وہاں سے چلے گۓ تھے ، آمنہ دھڑکتے دل کے ساتھ اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی ، لبوں پر صبر کا قفل تھا ، آنکھوں میں آنسو تھے ، وہ اسے کچھ بھی نہ کہہ سکی ، اس کا گریبان پکڑ کر اتنا نہ کہہ سکی ، کہ کچھ تو خدا کا خوف کر لو ، کسی شریف لڑکیوں پر اتنی بڑی تہمت تو نہ لگاوّ ، آخر تم بھی ایک بیٹی کی ماں ہو ، اور تمھاری بیٹی میری بھی بہو ہے ، اگر میں چاہوں تو یہی تہمت تیری بیٹی پر بھی لگا سکتی ہوں ، پر میں ایسا کروں گی نہیں کیونکہ میں بھی ایک بیٹی کی ماں تھی ۔۔۔۔

🌸🌸🌸🌸

” مما ایسا کچھ بھی نہیں تھا ، میں بلکل سچ کہہ رہی ہوں ، مما میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتی ، مما نے ایسا کیوں جھوٹ بولا ہے ، بیٹی والی ہو کر کیوں انہوں نے مجھ پر اتنی بڑی تہمت لگائی ہے ، کیا انہوں نے رب کو جواب نہیں دینا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نورین کو جب ہوش آیا تو آمنہ نے کرب سے اپنی لاڈلی بیٹی سے پوچھا ؟؟ نورین نے روتے ہوئے کہا
” مما کیا آپکو ایسا لگتا ہے کہ میں یہ سب کروں گی ، آپ نے میری پرورش کی ہے ، آپ مجھے مجھ سے بھی زیادہ جانتی ہیں ، کیا آپکا دل یہ سب ماننے کو تیار ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے روتے ہوئے سوال کے بدلے سوال پوچھا ؟
” میری جان مجھے انکی باتوں پر یقین نہیں تھا ، اس لیے تو تم سے تصدیق کر رہی ہوں ، اگر انکی باتوں پر یقین ہوتا تو تم سے پوچھتی ہی کیوں ، بس ایک پریشانی ہے اگر ہادیہ نے تیرے بھائی سے کہہ دیا تو پتہ نہیں تیرا بھائی کیا کرتا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمنہ پریشانی سے بولی تھی ۔۔۔۔۔
🌸🌸🌸🌸

” بہن میں اپنی بیٹی کو لینے آئی ہوں اب اسے جانے کی اجازت دے دیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نور جہاں نے لگاوٹ سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔
نورین اور آمنہ نے حیرت سے نور جہاں کو دیکھا ۔
” بہن میں نے کب انکار کیا ہے ، آپکی ہی تو بیٹی ہے ، جب چاہیں لے جائیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمنہ نے پریشانی سے سر جھکائے اپنے پاس بیٹھی بیٹی کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوِئے جواب دیا تھا ۔۔۔۔
” چل اٹھ پتر اپنے گھر چل ، تیرا گھر اور تیرا ور تیرے بنا بہت اداس ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نور جہاں نے ہمت کر کے اسے مخاطب کیا
نورین خاموشی سے اٹھ کر کمرے کی طرف چل پڑی اپنے چند کپڑے اٹھا کر اپنی ساس کے ہمراہ اپنے گھر روانہ ہو گئی تھی ۔
🌸🌸🌸🌸
” رک ذرا ، گھر کے اندر آنے سے پہلے تجھے میرے چند سوالوں کا جواب دینا ہوگا ، پھر اندر آنے کی اجازت تجھے دوں گی ، ہسپتال سے سیدھی اپنے میکے کیوں چلی گئی تھی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نورجہاں نے اسے دروازے کے باہر ہی روکتے ہوئے غصیلے لہجے میں پوچھا ؟ نورجہاں کا شور سن کر چند ہمسایوں نے دروازے سے باہر جھونکا ، اور چند نے اپنے پردے کھسکا کر باہر کی طرف کھلتی ہوئی کھڑکیوں سے دیکھا تھا ۔۔۔
” مما پلیز اندر تو آنے دیں ، دیکھیں سب لوگ دیکھ رہے ہیں ، کیا سوچیں گے سب لوگ “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نورین نے سامنے کھڑکی پر نظر ڈالی ، جہاں ایک عورت اپنے بچے کو بغل میں اٹھائے آدھا چہرہ کھڑکی پر لگے پردے کے پیچھے چھپائے ان لوگوں کو ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔
” دیکھنے دو ، سب کو پتہ چلے کہ تو کیسی ہے ، تجھے بڑا شوق ہے آرام کرنے کا ، تو اپنے میکے مہارانیوں کی طرح آرام سے بیٹھی رہے ، اور میری بیٹی تم لوگوں کی نوکرانی بنے ، ایسا سوچنا بھی مت ، وہ اپنے سسرال ہے ، تو تجھے کیا موت آ پڑی تھی کہ تو اپنے سسرال آنے کی بجائے اپنے میکے چلی گئی ، سارا کام میری بچی کے کے نازک کندھوں پر آ پڑا تھا ، تم لوگوں کے چونچلے نبھاتے نبھاتے اس بے چاری نے اپنا خیال رکھنا تک چھوڑ دیا ہے ، کتنی کمزور ہو گئی ہے ، چہرہ اتنا زرد کہ جیسے کسی نے ہلدی مل دی ہو ، تم لوگوں کو خدا کا ذرا بھی خوف نہیں ہوتا ، کہ وہ بھی تو کسی کی بیٹی ہے ، ذرا تو اس کا خیال رکھ لیں ‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” مما پلیز مجھے اندر آنے دیں ، اندر چل کر بات کرتے ہیں ، بہت ، دیکھیں سارے کیسے دیکھ رہے ہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نورین زبردستی گھر کے اندر داخل ہو گئی تھی ۔۔۔
” اب بات کریں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔
“تو تو وہاں بیٹھ گئی ، یہاں کام تیرا باپ آ کر تو نہیں کرے گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نور جہاں پیچھے بولتے ہوئے کمرے کے اندر آ گئی تھی ، غصے کی شدت کچھ اور ہوا ہوئی تھی کیونکہ نورین نے ہاتھ کی مدد سے نورجہاں کو دروازے کے پیچھے دھکیلا اور خود کمرے میں چلی گئی تھی ، نورجہاں کا غصہ ساتوایں آسمان کو چھونے لگا تھا ، اس نے شدید غصے کی حالت میں نورین کے بالوں کی چٹیا پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا تھا ، وہ کٹ پتلی کی طرح لڑکھڑاتے ہوئے اسکے پیروں پر آ گری تھی
” تجھے میں زندہ نہیں چھوڑوں گی ، تو نے مجھے دھکا کیسے دیا ، یہ میرا گھر ہے تیرے باپ کا نہیں جو تو اپنی من مانی کرتی پھرے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسکی کمر پر دھپ رسید کرتے ہوئے غصے سے بولیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
” اماں کب دیا ہے میں نے آپکو دھکا ، بس آپ کو راستے سے ہٹایا تھا ، سارے لوگ دیکھ رہے تھے ، مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا ، اندر آنے کا راستہ آپ نہیں دے رہی تھی ، تو میں کیا کرتی ، کیوں ہر وقت مجھ پر غصہ کرتیں ہیں ، ہر وقت مارتیں ہیں ، میرا قصور تو بتائیں ، آخر مجھ سے ایسا کیا گناہ ہو گیا ہے ، جس کی سزا کم ہونے کی بجائے دن با دن بڑھتی ہی جا رہی ہے ، آپ کیوں مجھ سے اتنا نفرت کرتیں ہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ زمین پر اوندھے منہ گری روتے ہوئے بولے جا رہی,تھی ۔
” سب سے بڑا قصور تیری زبان کا ہے ، کیسے بڑوں کے سامنے کٹر کٹر چلتی ہے ، اور پھر تم اپنے میکے جا کر ہماری برائیاں کرتی ہو ، اتنے اچھے سسرالیوں کی بھی کوئی برائی کرتا ہے بھلا ، اور ایک میری بیٹی ہے جو برے سسرالیوں کی بھی تعریفوں کے پل باندھتی رہتی ہے ، پر میں بھی جانتی ہوں تم لوگ اتنے اچھے نہیں ہو ، جتنا میری معصوم بچی بیان کرتی ہے ، اسکے بعد تیرے بھائی کا قصور ہے ، کیوں وہ میری بچی کو ہمارے گھر نہیں آنے دیتا ، ہفتے میں بس ایک بار وہ میری بچی کو مجھ سے ملوانے لے آتا ہے ، اور اسکے ساتھ خود بھی آ جاتا ہے کبھی اکیلے نہیں آنے دیا ، تم ہو کہ ہر روز چلی جاتی ہو اپنی ماں سے ملنے ، کبھی روکا ہم نے تجھے ، کبھی گیا ہے میرا بیٹا تیرے ساتھ ، ہماری ایسی تربیت ہی نہیں ہے ، آج میں تیری وہ زبان ہی کاٹ دیتی ہوں ، نہ ہو گی نہ تو اپنوں کے سامنے میرے گلے کرو گی ، “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہاتھوں میں چھری لیے آگے بڑھی تھی ۔
” اماں یہ آپ کیا کر رہی ہیں ، کیوں میری بہن کو مار رہی ہیں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عامر اور ہادیہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے تو نورجہاں ہاتھ میں چھری لیے نورین کے بہت ہی قریب پہنچ چکی تھی ، نورین زمین پر پڑی اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھی
وہ ڈر اور خوف کی وجہ سے پیسنے سے شرابور لرز رہی تھی ،
” ت ، تت ، تم یہاں کیا کر رہے ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔ نور جہاں نے فورا ہاتھ سے چھری دور پھینکی تھی ۔
” اماں کتنی سچی تھی ، کہتی تھی عامر اپنی بہن کا خیال رکھا کر ، اسکا سسرال بہت ظالم ہے ، اس پر بہت تشدد ہوتا ہے ، اس کا سارا جسم نیلو نیل ہے ، پر میں اماں کی بات سراسر غلط سمجھتا تھا ، سمجھتا تھا اماں میرے سسرال سے جلتی ہے ، لیکن آج پتہ چلا وہ واقعی سچی تھی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عامر حیرت اور دکھی کیفیت میں اپنی بہن کے پاس آ بیٹھا تھا ، جو ابھی تک پیسنے سے شرابور چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپے لرز رہی تھی ۔
” مجھے معاف کر دو بہنا ، میں تمھارا مجرم ہوں ، میں تو تمھیں ہی غلط سمجھتا تھا ، مجھے ہرگز یہ اندازہ نہیں تھا ، تمھارے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے ، ہو سکے تو اپنے اس گنہگار بھائی کو اللہ کی رضا کے لیے معاف کر دینا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دکھ سے نڈھال ہوئی بہن کو سیدھا کرتے ہوئے اسکے سامنے اپنے دونوں ہاتھ باندھ لیے تھے
” بھائی مجھے شرمندہ نہ کریں “۔۔۔۔۔۔۔ نورین نے اپنے بھائی کے دونوں ہاتھ کھولتے ہوئے اپنے آنسو صاف کیے تھے ۔
” ارے داماد جی آپ کو یوں ہی غصہ آ گیا ہے ، آپ نے پوچھا ہی نہیں میں نے اسے کس وجہ سے مارا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نورجہاں نے ایک دم اپنا پنترا بدلہ تھا
” وجہ جو بھی ہو ، مارنا آپکا حق نہیں بنتا ، آپکی بیٹی پر کون سا کوئی تشدد ہوتا ہے ، آپکی بیٹی کے ساتھ تو اونچی آواز میں بھی بات نہیں کی جاتی تشدد تو دور کی بات ہے ، تو آپ کو بھی کوئی حق حاصل نہیں جو آپ کسی کی بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک کریں ، ہمارے گھر کا یہ رواج نہیں ہے کہ ہم عورتوں مظلوموں پر ہاتھ اٹھائیں یا ان پر تشدد کریں ، اگر اتنا ہی شوق ہے ، تو اپنے مردوں سے کہو ہم مردوں کی طرف ایک میلی نظر ہی ڈال دیں ، تو خدا کی قسم چیر کے پھاڑ ڈالوں گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شدید غصے میں لال پیلا ہوا تھا ، اسکا لہجہ آگ کی تپش لیے ہوئے تھا ، اسکا بس نہیں چل رہا تھا سامنے کھڑی اس عورت کو وہ زندہ زمین میں گاڑ ڈالے ۔۔
” تیری بہن خراب تھی ، اس وجہ سے مار پڑی ہے ، ہم لوگ تمھاری طرح
بے غیرت نہیں کہ ایسی عورتوں سے بھی نرمی سے بات کریں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نورجہاں غصیلے لہجے میں بولی تھی ، اسکا پارہ بھی ساتوایں آسمان کو چھونے لگا تھا ۔۔۔۔
” بھائی م میرا اللہ جانتا ہے ، میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ، یہ جو بھی کہہ رہی ہیں سراسر جھوٹ ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” تمھیں صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے ، تم بہن ہو میری ، ماں نے تیری اور میری ایک ساتھ پرورش کی ہے ، جب میں برا نہیں ہوں تو تو کیسے بری ہو سکتی ہے ، چل اٹھ اپنے گھر چلتے ہیں ، اور سن لو تم ، جب سے پیدا ہوا ہوں آج میں پہلی بار کسی عورت پر ظلم کرنے جا رہا ہوں ، پر میری بہن کے ساتھ اب تو جو بھی ظلم ہوتا رہا ہے ، یہ ظلم اسکے آگے کچھ بھی نہیں ہے ، جو اب میں کرنے جا رہا ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ایک نظر اپنے پاس کھڑی ہادیہ پر ڈالی تھی ، ہادیہ بھی فورا سمجھ گئی تھی کہ عامر کچھ کرنے والا ہے ، ہادیہ نے سر کے اشارے سے اسے منع کرنے کی بھرپور مذمت کی تھی ، لیکن پھر بھی اس نے وہ لفظ ادا کر ہی دیے تھے ، جو ایک عورت کے لیے مر جانے کے برابر ہوتے ہیں ، اس وقت اسکی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا ، نفرت ہی نفرت تھی اسکے دل میں ہادیہ کے خلاف ۔۔
میں اپنے ہوش و حواس میں تجھے
“طلاق دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔
طلاق دیتا ہوں ۔۔۔۔
طلاق دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” یہ یہ تم نے کیا کیا ، ہادیہ فورا چیختے ہوۓ عامر کی طرف بھاگی ، عامر نے پلٹ کر اسے خود سے پرے دھکا دیا تھا ، وہ لڑکھڑاتے ہوئے نیچے گری تھی ۔۔۔۔
” میں تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گی ، تم نے میری بیٹی پر ہاتھ کیسے اٹھایا “۔۔۔۔۔ نورجہاں غصے میں آپے سے بایر ہو گئی تھی ۔
” جس طرح تم لوگوں نے میری بہن پر ظلم کیے تھے ، یہ تو کچھ بھی نہیں ہے ، پتہ نہیں کون کون سے ظلم و ستم آپ نے اس معصوم پر ڈھے ہوں گے ، باقی کا حساب تم لوگوں سے وہ رب نیلے آسمان والا لے گا ، تم لوگ تو اس رب کے بھی مجرم ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عامر نے اپنی بہن کے منہ سے بہتا ہوا خون صاف کیا تھا ۔ وہ اسے لے کر گھر سے چل گیا تھا ۔
پیچھے نورجہاں اور ہادیہ سر پکڑ کر رو رہی تھی ، بیٹی کو طلاق ہو گئی تھی لوگوں سے کیا کہیں گے کہ کس لیے یہ طلاق ہوئی تھی ، یہی سوچ اسے بہت پریشان کر رہی تھی ۔
❤❤❤❤❤❤
” بس یہی کھانا کھانا ہے تو کھائیں نہیں تو آپکی مرضی ، اتنی مہنگائی میں یہ روز نت نئی فرمائشیں مجھ سے پوری نہیں ہوتیں ، جاب پر بھی جاوّں اور واپس آ کر آپ سب کو کھانا بھی بنا دوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہادیہ نے انتہائی غصیلے لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔
” تو بیٹی ہے میری ، تیرا کوئی احسان نہیں ہم پر ، تیرے بھائی کی اگر ٹانگیں نہ ٹوٹی ہوتیں تو آج تیری جگہ وہی جاب کر رہا ہوتا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نورجہاں نے اپنے پاس وہیل چیر پر بیٹھے اپنے بیٹے کی طرف ایک افسردہ نگاہ ڈالتے ہوئے دکھی لہجے میں کہا ۔۔۔
” تو مما اس میں میرا کیا قصور ہے ، مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے ، سارا دن اپنے باس سے مغض ماری کرتے گزر جاتی ہے ، واپس آ کر کھانہ بنانے کی ٹنشن ، مجھ سے یہ جھمیلے نہیں جھیلے جاتے ، کھانہ آپ خود بنا لیا کریں ، آپ بھی تو ماں ہیں ، کچھ تو آپ بھی کر لیا کریں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہادیہ نے ایک غصیلی نگاہ نورجہاں پر ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
” کچھ تو شرم کرو لڑکی ماں ہوں میں تیری ، اور یہ تیرا بھائی ہے ، تیری خاطر ہم نے نورین سے کتنی بد سلوکی کی تھی بھول گٙئی وہ ہیچھلے چند سال “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نورجہاں نے انتہائی دکھی لہجے سے کہا ۔۔۔۔
” میری وجہ سے نہیں اپنی وجہ سے کہیں ، نفرت تھی آپکو اس نورین سے ، غلطی کر لی میں نے آپ کا کہنا مان کر ، نہ تو میرا گھر بسنے دیا نہ ہی نورین کا ، اور تو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہادیہ نے اپنے چہرے کا رخ اپنے بھائی کی طرف موڑا ، جو حیرت سے ہادیہ کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
” اللہ سے توبہ کر لیں ، آپ نے اس عورت کے کہنے میں آ کر جو ظلم کیے ہیں ناں ، یہ اسی کی پکڑ ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہادیہ نے وہیل چیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس پر چوٹ کی تھی ، جس کا درد بشر کی آنکھوں سے آنسو کی صورت بہنے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔
ہادیہ بکتی جھکتی ان دونوں کی آنکھیں کھول گئیں تھیں ۔۔۔۔۔
اور دونوں سوچ میں پڑ گئے تھے ۔۔۔
” بات تو سچ ہے ،
مگر ہے رسوائی کی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Visited 22 times, 1 visit(s) today
Last modified: February 10, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!