Written by 3:28 pm شاعری

عشق کا بخار

بادشاہت کی طلب مر گئی
بادشاہت کی طلب مر گئی
اب بس فقیری میں ہی قرار ہے

تم کہتے تھے نا آؤں گا ملنے
دیکھ مجھے آج بھی تیرا انتظار ہے

شب و روز وصل میں کٹ گئے تیرے
یہ بس تیرا ہی تو شاہکار ہے

رنج وغم کا عالم ہے مجھ پر
دیکھ میری آنکھوں میں آبشار ہے

تیرے لہجے کو سہل ہیں نہ کر پائے گا کوئی
میرا تریاق تو تیرا پیار ہے

پسلی سے نکل کر دل میں جا لگی
بنت حوا ہوا تو بھی کمال ہے

کرتے ہو مگر کہتے نہیں ہو کبھی تم
ایک بار کہہ دو بس مجھے تم سے پیار ہے

میں زمانے کو جیت لاوں گا تمہارے واسطے
ہارنے کا تو کوئی بھی نہیں پیدا آثار ہے

میں گرفتاں ہوں تجھ میں اور تم آزاد ہو مجھ میں
یار یہ کیسا تیرے کلب کا سجا دربار ہے

اور سہمی سہمی رہتی ہیں حسرتیں دل کی
دل میرا کہاں اب جاندار ہے

میں کیسے لٹ سکتا ہوں اس راہ پر
میرے پاس کون سا کوئی بیوپار ہے

میرے پیچھے چل پڑا ایک قافلہ
اور پیچھے رہ گیا جو قافلے کا سالار ہے

طبیب کو بلاؤ کوئی تو تگودو کرو
منیب میرے اندر عشق کا بخار ہے
عبدالمنیب

Visited 16 times, 1 visit(s) today
Last modified: January 22, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!