Written by 4:42 am بچوں کی کہانیاں, ناولز

عقلمند دوست

برسوں پہلے کی بات ہے کہ ایک شہزادے کی لکڑہارے سے دوستی ہو گئی۔

ہوا یوں کہ شہزادہ شکار کیلئے جنگل میں گیا کہ اچانک سامنے سے شیر آگیا اس کی دھاڑ سے گھوڑا بدک گیا جس کی وجہ سے شہزادہ توازن برقرار نہ رکھ سکا اور گرگیا۔ شیر کو بالکل سامنے دیکھتے ہوئے شہزادے نے فوراََ تلوار نکالی اور مقابلے کیلئے تیار ہو گیا۔

شیر اس کی جانب لپکا شہزادے نے تلوار گھمائی جو شیر کی پسلیوں میں لگی اب زخمی شیر اور بھی خطرناک ہوگیا تھا۔

اس نے شہزادے پر چھلانگ لگائی تو شہزادے کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی۔

شیر نے شہزادے کو زخمی کر دیا۔ شہرادے نے خوب مقابلہ کیا مگر پھرے درندے سے مقابلہ آسان نہ تھا۔ آخر کار شیر نے اسے گرا دیا۔

قریب تھا کہ شہزادے کی گردن دبوچتا اچانک شیر دھاڑ کر پیچھے کو مڑا کسی نے اس کی کمر میں بڑی زور سے کلہاڑا مارا تھا۔

شیر دھاڑ اور جنگل کی طرف بھاگ نکلا۔ شہزادے نے دیکھا کہ ایک خوبصورت نوجوان نے فوراََ شہزادے کو اٹھایا ایک محفوظ جگہ پر لے جا کر اس کی مرہم پٹی کی۔ کچھ دیر بعد شہزادے کے محافظ اسے ڈھونڈتے ہوئے پہنچ گئے۔ انہوں نے شہزادے کو دوسرے گھوڑے پر بٹھایا اور محل کی طرف روانہ ہوگئے۔

یوں لکڑہارے کی شہزادے سے دوستی ہوگئی وہ اس کی تیمارداری کیلئے محل آنے لگا تھا۔ شہزادہ اسے پسند کرنے لگا تھا کیونکہ وہ ذہین ، عقلمند اور بہادر تھا۔ لیکن بادشاہ کو اس کی دوستی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ اس نے شہزادے نے احتجاج کیا کہ وہ میرا محسن ہے اور بہت اچھے اخلاق کا مالک اور ذہین انسان ہے۔ غریب ہونا کوئی جرم نہیں۔ ایسے سمجھدار سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اب مجھے زیب نہیں دیتا کہ اس سے تعلق توڑوں۔

بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ اسے اور اس کے خاندان کو ملک بدر کر دیا جائے۔ یوں ایک فوجی دستہ لکڑہارے کو بے یاد مددد گار سرحد سے باہر چھوڑ آیا۔

کئی دنوں کی مسافت کے بعد وہ بھوکا پیاسا ایک بڑے شہر پہنچا جہاں کھلے میدان میں بڑے چبوترے پر بڑی پگڑیوں والے بہت سے سردار، امراء اور تاجر بیٹھے تھے جن کے سامنے میز پر پنجرے میں ایک پرندہ قید تھا۔

لکڑہارے نے اس بڑے اور عالیشان مجمع کا سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ کل ان کا بادشاہ فوت ہو گیا۔ آج یہاں نئے بادشاہ کا انتخاب ہوگا۔

کچھ لمحوں میں چبوترے پر رکھا پنجرہ کھولا جائے گا اس میں بیٹھا پرندہ جس کے کندھے پر بیٹھے گا وہی ہمارا بادشاہ ہوگا۔ لکڑہارا ارسلان یہ دلچسپ منظر دیکھنے لگا۔ قسمت کی خوبی جب پنجرہ کھولا تو پرندہ اڑ کر ارسلان کے کندھے پر آن بیٹھا۔

لوگوں نے تالیاں بجائیں اور اپنے نئے بادشاہ کو محل لے آئے اور رسومات کی ادائیگی کے بعد بادشاہت کا تاج ارسلان کے سر پر سجا دیا گیا۔

یوں محنت ومشقت کرنے والا نیک دل اور بہادر لکڑہارا بادشاہ بن گیا۔ چند روز آرام وسکون سے حالات کا جائزہ لینے کے بعد اس نے مملکت کے معمالات دیکھنے شروع کیے تو معلوم ہوا کہ ملک میں لا قانونیت، لوٹ مار، غنڈہ گردی، چوری چکاری عام ہے۔

بے تحاشہ کرپشن اور رشوت ستانی کا بازار گرم ہے۔ با اثر ظالموں سے کسی کی جان ومال محفوظ نہیں۔

بادشاہ کے دربار میں روزانہ ہزاروں درخواستیں دیتے ہیں مگر راشی داروغہ بادشاہ نہیں پہنچے دیتا۔ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔

اس نے اعلان کروا دیا کہ آج کے بعد کوئی رشوت نہیں لے گا۔ اگر معلوم ہو گیا تو اس کی سزا پھانسی ہوگی۔ ہر طرف سناٹا چھا گیا مگر لوگ کب باز آنے والے تھے۔ انہوں نے رشوت لینی نہ چھوڑی جس جس کا پتہ چلتا اسے پھانسی چڑھا دیا جاتا۔

کچھ ہی دنوں میں رشوت لینے اور دینے والوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ رشوت کے خاتمے کے ساتھ ہی غنڈہ گردی اور لاقانونیت کابھی خاتمہ ہوگیا۔

ہر شخص اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق کا خیال کرنے لگا۔ یوں ملک میں اصلاح احوال کی صورت بنی اور تعمیر و ترقی کا نیا دور شروع ہو گیا۔

ریاست کی تعمیرکی شہرت چار سوپھیلی تو ارسلان کو ملک بدر کرنے والے بادشاہ اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ارسلان نے اپنا دلی عہد لانے کی شرط رکھی۔ بادشاہ اپنے والی عہد یعنی شہزادے کو لیکر بادشاہ کے دربار میں پہنچا تو اپنے دوست کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ادھر بادشاہ بھی اسے دیکھ کر پریشان ہو گیا۔

ارسلان کا حسن سلوک دیکھ کر اسے شرمندی ہو رہی تھی مگر ارسلان نے کہا کہ بے شک آدمی کی حیثیت واختیار کا مالک و خالق وہی ہے جو دن رات کو آپس میں تبدیل کرنے کی طاقت رکھتا ہے مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیں اگر مجھے ملک بدر نہ کرتے تو آج بھی لکڑیاں بچ کر گزارہ کر رہا ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ بہترین کار ساز ہے۔

Visited 6 times, 1 visit(s) today
Last modified: April 7, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!