ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک ملک کا بادشاہ بہت ہی ایمان دار بہادر اور رحم دل انسان تھا وہ اپنی رعایا کا بیت خیال رکھتا تھا بادشاہ کی ملکہ بھی بہت اچھی خاتون تھی ملکہ ایک غریب لکڑہارے کی بیٹی تھی
ایک دن بادشاہ شکار کھیلتے ہوئے جنگل میں بہت دور تک نکل گیا اور اچانک موسم بھی خراب ہوگیا
آندھی طوفان کی وجہ سے کسی کو کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا سب سپاہی اور ساتھی بچھڑ گئے۔۔۔
جیسے جیسے شام کے سائے پھیلتے گئے بادشاہ کو واپسی کی فکر لاحق ہونے لگی۔۔۔
لیکن بادشاہ راستہ بھٹک گیا
بادشاہ اب واپس نہیں جا سکتا تھا لیکن جنگل جنگلی جانورں سے بھرا ہوا تھا جنگل میں بھی رات نہیں بتائی جا سکتی تھی اسلیئے بادشاہ کوئی محفوظ پناہ گاہ تلاش کرنے لگا چلتے چلتے اسکو ایک جگہ دھواں سا نظر آیا تو آگے جا کے کیا دیکھتا ہے کہ یہاں تو ایک چھوٹا سا جھونپڑا ہے نیک دل بادشاہ نے دروازہ کھٹکھٹایا اندر سے ایک بوڑھا کھاستا ہوا آیا
بادشاہ نے بتایا کہ مسافر ہوں راستہ بھٹک گیا ہوں تو اب باہر موسم کی خرابی کی وجہ سے پناگاہ کی ضرورت ہے بوڑھا آدمی بادشاہ کو اندر لے آیا اسکی ایک جوان خوبصورت بیٹی بھی تھی وہ دونوں باپ بیٹی یہاں جنگل میں رہتے تھے اور بوڑھا لکڑیاں کاٹ کر شہر بیچ کر گزارا کرتا تھا
بادشاہ کے لیے لڑکی نے بہت اچھا کھانا تیار کرکے دیا کھانا سادہ تھا پر بہت مزے کا بنا ہوا تھا پھر اسکے لیے ایک اچھا آرام دہ بستر بنا کے دیا
بوڑھے اور اسکی بیٹی نے اسکا بہت اچھا خیال رکھا صبح بادشاہ اپنے محل تو واپس آگیا مگر اسے بوڑھے لکڑہارے کی خوبصورت اور نیک بیٹی بہت یاد آئی جس نے اسے ایک پردیسی مسافر سمجھ کر اسکا اتنا اچھا خیال رکھا
بادشاہ کی شادی اسکے اپنے چچا کی بیٹی سے ہونی تھی پر وہ لڑکی بہت مغرور اور چالاک تھی۔۔۔۔۔
بادشاہ نے شادی سے انکار کر دیا اور فیصلہ سنایا کہ وہ جنگل میں موجود لکڑہارے کی بیٹی سے شادی کرے گا
اور یوں بادشاہ کی شادی لکڑیارے کی بیٹی سے ہو گئی بادشاہ کی چچا زاد کو اسکا بہت رنج ہوا وہ موقع کی تلاش میں رہنے لگی
بادشاہ کے ہاں پہلی بیٹی ہوئی اگلے سال پھربیٹی ہوئی تب دبے لفظوں میں بادشاہ کے چچا نے کہا کہ حکومت لڑکا ہی سنبھالتا ہے اسلیے بادشاہ کو دوسری شادی کرنی چاہیے پر بادشاہ نہ مانا جب چچا زاد کی شادی کے سارے راستے بند ہو گئے تو
اسنے آہستہ آہستہ وزیر کواپنے ساتھ ملا لیا اور وزیر کو شادی کا لالچ دے کر ملکہ کے کمرے میں سانپ چھڑوا دیا سانپ کے ڈسنے سے ملکہ مر گئی بچیاں چھوٹی تھیں پر باشاہ نے پھر بی شادی نہ کی
جب چچا زاد نے اپنے دال نہ گلتی دیکھی تو ایک دن چپکے سے وزیر کے ساتھ مل کر بادشاہ کو بھی زہر دے دیا اور یوں اقتدار خود سنبھال لیا
بادشاہ کی ایک پرانی نوکرانی یہ سب دیکھ رہی تھی اسے اندازہ ہوگیا کہ وہ جلدی ہی شہزادیوں کو بھی مروا دے گی اسلیے نوکرانی دونوں بچیوں کو لے کے رات کے سناٹے میں کہیں دور چلی گئی یوں ایک نیک دل حکمران کی رعایا کو ایک ظالم اور مغرور حکمران مل گئی
بوڑھی نوکرانی لڑکیوں کو لے کر جنگل میں آ گئی اور انکی پرورش کرنے لگی وقت گزرتا رہا اب دونوں لڑکیاں جوان ہو چکی تھیں اس دوران ایک دن بوڑھی نوکرانی بہت سخت بیمار ہو گئی اور مرے کے قریب ہو گئی تب اسنے دونوں کو پاس بلا کے بتایا کہ وہ در حقیقت شہزدیاں ہیں اور انکے ماں باپ کے ساتھ کیا ہوا نوکرانی کے مرنے کے بعد دونوں لڑکیاں اکیلی ہو گئیں
وہ ماں باپ کو یاد کر کے بہت روتی تھیں لیکن کچھ بھی نہیں کر سکتی تھیں یوں ہی دن گزرنے لگے ایک دن ایک شہزادہ جنگل میں شکار کھینلے آیا اسکا وزیر زادہ بھی اسکے ساتھ تھا ۔۔۔۔۔
شہزادے نے تیتر شکار کیے اور وزیر زادے کو دیے کہ انکو اچھے سے صاف کرکے بھون کے لاؤ
خود شہزادہ ایک گھنے پیڑ کے نیچے آرام کرنے لگا
وزیر زادے نے تیتر صاف کر کے ساتھ لائے مشکیزے سے دھوئے اور تھوڑا دور آگ جلا کر بھوننے لگا اسکی نظر سامنے جھونپڑی پہ پڑی جہاں ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی کھڑی وزیر زادے کو حیرت سے دیکھ رہی تھی
وزیر زادہ بھی حیران ہوا کہ جنگل میں اتنی خوبصورت لڑکی کیسے آگئی
وہ اٹھ کر اسکے پاس پوچھنے آیا اور لڑکی سے اپنا تعارف کروا کے پوچھنے لگا اتنے میں انھیں جلنے کی بو آئی وزیر زادہ بھاگ کر واپس آیا پر تب تک تیتر جل چکا تھا وزیر زادہ بہت پریشان ہوا تو لڑکی نے کہا ہٹو میں تمکو بھون دیتی ہوں پھر اس لڑکی نے اسے تیتر بھون کے دے دیے شہزادہ کافی دیر سے انتظا کر رہا تھا کہ وزیر زادے نے اتنی دیر کیوں کر دی پہلے تو بڑی جلدی بھون لیا کرتا تھا
وزیر زادہ جب بھونے ہوئے تیتر لے کے واپس آیا اور شہزادے نے کھائے تو شہزادہ حیران ہو کے وزیر زادے سے پوچھنےلگا کہ آج تمنے اتنے مزے دار تیتر کیسے بھون لیےآج سے پہلے تو تیرے ہاتھ میں یہ لذت نہیں تھی تب وزیر زادے نے اسے بتایا کی یہاں سے تھوڑا آگے ایک جھونپڑی ہے اس میں ایک حسین لڑکی رہتی ہے اسی نے بھون کے دیے کیونکہ میں تو اسے دیکھتا ہی رہ گیا اور میرے بھونے ہوئے تیتر تو جل گئے۔۔۔۔۔
ادھر چھوئی شہزادی واپس جھونپڑی میں آئی وہ جنگل کی دوسری طرف ندی پہ کپڑے دھونے گئی ہوئی تھی
تو بڑی بہن نے اسے وزیر زادے کے آنے کا سارا قصہ سنایا کہ کیسے وہ مجھے دیکھتا رہا اور اسکے لائے ہوئے تیتر جل گئے
تب چھوٹی نے بڑی بہن سے کہا کہ دیکھنا وہ اب شہزادے کو لے کر واپس آئے گا اور تم اتنی حسین ہو کہ شہزادہ تم کو پسند کر لے گا تم شہزادے کے ساتھ چلی جانا اور شادی کر لینا میرا نہ بتانا بڑی شہزادی نے ساری بات سن کر انکار کر دیا کہ نہیں میں تم کو چھوڑ کر نہیں جاؤ گی
لیکن چھوٹی نہ مانی اسنے کہا کہ میں بھی تمھارے پیچھے آؤں گی پر ہمارا رشتہ دنیا کے سامنے نہیں آئے گا یہ کہتے ہوئے وہ باہر گئی اور جب واپس آئی تو اسکے پاس بہت سے چھوٹے چھوٹے سفید پھول تھے وہ اسنے بہن کو دیتے ہوئے کہا کہ جب شہزادہ تم کو لے کے جائے تو تم تمام راستے یہ پھول ایک ایک کر کے گراتی جانا اسطرح میں تم تک پینچ جاؤں گی ساری بات سمجھا کر چھوٹی جھونپڑی سے نکل کر ایک درخت کی اوٹ میں ہو گئی
اتنے میں شہزادہ وزیر زادے کے ساتھ آگیا جیسے ہی اسکی نظر بڑی شہزادی پہ پڑی وہ اس پہ فدا ہو گیا شہزادے نے پوچھا کہ وہ اس جنگل میں تنہا کیا کر رہی ہے تو شہزادی نے چھوٹی شہزادی کی سمجھائی ہوئی باتیں بتانے لگی
کہ یہاں میں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی ماں مر گئی باپ لکڑہارا تھا جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شہر میں بیچ کر گزر بسر کرتے تھے کچھ دن پہلے ہی باپ بھی دنیا سے چل بسا اب دنیا میں میرا کوئی نہیں اسلیے اکیلی رہتی ہوں
شہزادے نے جب یہ سنا تو اسنے فورًا شادی کی پیشکش کی اور اسے ساتھ چلنے کو کہا تو شہزادی چلنے کو تیار ہوگئی
شہزادی نے ایک گھٹڑی لی جس میں سفید پھول تھے شہزادے نے شہزادی کو اپنے ساتھ گھوڑے پر سوار کیا اور چل دیا۔۔۔۔
بڑی شہزادی ایک ایک کر کے پھول گراتی رہی ادھر چھوٹی شہزادی درخت کی اوٹ سے نکلی اور سفید پھولوں کے پیچھے چلنے لگی
شہزادہ شہزادی سمیت محل میں پہنچا اور سیدھا بادشاہ اور ملکہ کے پاس آیا اور انکو شہزادی کی ساری کہانی سنائی اور بتایا کہ وہ شہزادی سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہے شہزادے کی پہلی بیوی اسکی خالہ کی بیٹی تھی اور اسکی خالہ بھی بیوہ ہونے کے بعد محل میں ہی رہتی تھی جب ان ماں بیٹی کو پتہ چلا تو انکو غصہ تو بہت آیا پر شہزادے کی بیوی جانتی تھی کہ شہزادہ جس کام کی ٹھان لے وہ کر کے ہی رہتا ہے اسلیے اسنے بظاہر بے حد خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ کتنا اچھا لگے گا شہزادے کی پھر سے شادی ہوگی اور ہم سوکنیں نہیں بلکہ بہنیں بن کر رہئیں گی جب یہ خوشی سے اجازت دے رہی تھی تو باقی کسی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا
یوں دھوم دھام سے شادی ہو گئی
چھوٹی شہزادی پھول چنتے چنتے دو دن بعد شہر میں داخل ہوئی تو شہر میں جشن کا سا سما تھا
اسنے ایک بوڑھی عورت سے پوچھا اماں کیا بات ہے ہر طرف رونق لگی ہئی ہے تو بوڑھی نے بتایا کہ ہمارے شہزادے کو جنگل سے ایک بہت پیاری لڑکی ملی ہے اور شہزادہ اس سے شادی کرنے لگا ہے اسلیے سارا شہر تیاری کر رہا ہے
لڑکی نے بوڑھی سے پوچھا کہ کیا مجھے یہاں کام مل سکتا ہے میں گاؤں سے آئی ہوں میرے ماں باپ نہیں ہیں اور رہنے کی جگہ نہیں ہے تو بوڑھی عورت کہنے لگی کہ ہاں اجکل محل میں بہت کام ہے میں بھی وہاں ہی جا رہی ہوں بوڑھی عورت کی ایک بیٹی تھی جو کچھ دن پہلے ہی بیمار ہوکر مر گئی تھی اسنے چھوٹی شہزادی سے کہا کہ تم میری بیٹی بن کے میرے پاس رہ لو
بوڑھی عورت جوانی میں محل میں نوکرانی تھی اب بڑھاپے کی وجہ سے کام چھوڑا ہوا تھا
شہزادی نے کہا کہ ٹھیک ہے پر اماں میں کام کرنا چاہتی ہوں کیا تم مجھے محل میں کام دلا سکتی ہو۔۔۔
بوڑھی عورت شہزادی کو لے کر محل کی طرف چل دی جہاں ہر طرف شادیانے بج رہے تھے
بوڑھی اماں اسکو لے کے جب محل میں پہنچی تو سامنے سے شہزادے کی پہلی بیوی آ رہی تھی بوڑھی اماں نے تسلیم بجاتے ہوئے بتایا یہ میری بھانجی ہے آج ہی گاؤں سے آئی ہے اسکے ماں باپ مر گئے اسکو محل میں کام پہ رکھ لیں
پہلی بیگم نے کچھ دیر چھوٹی شہزادی کو دیکھتے ہوئے کچھ سوچا پھر اسے لیے اپنے کمرے میں آگئی اور کہنے لگی
یہاں محل میں سب کنیزیں ملکہ کی تابعدار ہیں میں کسی کو بھی نہیں خرید سکتی تم اگر یہاں میرے لیے کام کرو جیسا میں کہوں ویسا کرو تو میں تم کو بہت سارا زیور پیسہ دوں گی
چھوٹی شہزادی جان چکی تھی کہ یہ شہزادے کی پہلی بیوی ہے دوسرا اسکی باتوںں سے بھی اسے سازش کی بو آنے لگی تھی
اسلیے جلدی سے بولی ہاں جی ملکہ صاحبہ میں آپ کی ہر بات مانو گی اسپر وہ مسگراتے ہوئے بولی میں ابھی ملکہ نہیں اسکی بہو ہوں ابھی شہزادہ بادشاہ نہیں بنا
اسپر عقلمند شہزادی نے کہا کہ آپکا اقبال بلند ہو اللہ نے چاہا تو بہت جلد آپ ملکہ بھی بن جاؤ گی
جس پر پہلی بیوی کہنے لگی کہ تم بہت کام کی چیز ہو بس تم آج سے اس محل میں میرے کہنے کے مطابق چلنا اسپر عقلمند شہزادی کہنے لگی جی جی بلکل آپ مجھے زبردست پائیں گی شہزادے کی پہلی بیوی اسے لیے بڑی شہزادی کے کمرے میں آئی اور اس سے کہنے لگی یہ آج سے تمھاری کنیز ہے تم کو جو بھی کام ہو اس سے کروا لیا کرنااس پر جب شہزادی نے چھوٹی شہزادی کو دیکھا تو بہت خوش ہوئی اور جلدی سے پہلی بیوی کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی آپ کتنی اچھی ہیں شہزادے کی پہلی بیوی کہنے لگی کہ محل میں بہت کام ہے میں زرا وہ دیکھ آؤں اسکے جاتے ہی دونوں بہنیں ایک دوسرے کے گلے لگ گئی چھوٹی نے بڑی کو نہیں بتایا کہ یہا محل میں اس سے اصل میں کیا کام لیا جائے گا۔۔۔۔
شہزادے کی شادی ہو گئی سب بہت خوش تھے سوائے شہزادے کی پہلی بیوی کے
چھوٹی شہزادی سارا دن اسکے پاس رہتی اور وہ دونوں مل کے سوچتی رہتی کہ کیسے دوسری بیوی سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
تھوڑے دن بعد بڑی شہزادی امید سے ہو گئی یہ خبر بڑی بیوی کے لیے قیامت سے کم نہیں تھی کیونکہ وہ اب تک شہزادے کو اولاد نہیں دے سکی تھی
ملکہ بادشاہ اور شہزادہ بہت خوش تھے۔۔۔
اسلیے شہزادی کا خاص خیال رکھا جانے لگا ادھر پہلی بیوی چھوٹی شہزادی کے ساتھ مل کر سوچنے لگی کہ کیا کیا جائے
چھوٹی شہزادی بہت پریشان رہنے لگی اسنے بڑی بہن سے کہا کہ یہاں سے کہیں دور چلو اب چھوٹی شہزادی اسکو یہ بھی نہیں بتا سکتی تھی کہ شہزادے کی بڑی بیوی اس سے کتنا جلتی ہے وہ اگر بتا بھی دیتی تو کسی نے یقین نہیں کرنا تھا کیونکہ بڑی بیوی سب کے سامنے بہت زیادہ خیال رکھتی تھی چھوٹی بیوی کا چھوٹی بہن کی بات سن کر بڑی بولی کہ سب مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں تمھیں میں نے اس وقت کہا تھا کہ ساتھ چلو پر تم نہیں مانی اور کہا کہ اپنا اور میرا رشتہ سب سے چھپا کے رکھنا تم اگرابھی کہو تو میں شہزادے کو بتا دیتی ہوں کہ تم میری بہن ہو پر عقلمند شہزادی جانتی تھی اب بتانے کا مطلب تھا کہ شہزادیاں جھوٹی ہیں اور انہوں نے جان بوجھ کر اپنا رشتہ چھپایا شاید یہ دونوں بہنیں کسی سازش کے لیے محل میں آئی ہیں اسلیے چھوٹی نے سختی سے بڑی بہن کو منع کر دیا کہ وہ کسی کو نہیں بتائے
ولادت کا وقت قریب آیا تو شہزادے کی پہلی بیوی نے دائی اور چھوٹی شہزادی کو بہت سے پیسے دیے کہ جیسے ہی بچہ پیدا ہو تم بچے کو اٹھا کے مار دینا اور اسکی جگہ بلی کا بچہ رکھ دینا چھوئی شہزادی نے کہا کہ یہ کام میں بہت آسانی سے کروں گی
چنانچہ جیسے ہی بچہ پیدا ہوا تو بڑی شہزادی کی بیہوشی میں دائی نے بچہ چھوٹی شہزادی کو دیا کہ جا کر اسکو مار دو اور اسکی جگہ بلی کا بچہ رکھ دیا چھوٹی شہزادی جلدی سے بچے کو کپڑے میں لپیٹ کر پچھلے دروازے سے گھر آئی اور بوڑھی اماں سے کہا اماں یہ بچہ میری بہن کا بچہ ہے اسکا کسی سے ذکر مت کرنا اسکو بکری کا دودھ پلاؤ میں شام کو آکر اسکو سنبھالتی ہوں بوڑھی اماں نے کوئی سوال نہیں کیا کیونکہ چھوٹی شہزادی جلدی میں تھی اور بچہ رکھ لیا
شہزادی جب واپس محل میں آئی تو وہاں عجیب صورتحال تھی دائی نے سب کو بتایا کہ شہزادی نے انسان کے بجائے بلی کے بچے کو جنم دیا ہے سب بہت افسردہ اورحیران تھے
شہزادی رو رہی تھی اور کہتی جا رہی تھی کہ یہ جھوٹ ہے پر کوئی بھی اس سے بات نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔
چھوٹی شہزادی نے ایک بار پھر بہن سے بولا کہ وہ میرے ساتھ چلے محل والوں کو چھوڑ کر اپنی دنیا بساتے ہیں پر وہ نہ مانی کہنے لگی کہ وہ شہزادے سے بے پناہ محبت کرتی ہے اسلیے وہ شہزادے کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گی چھوٹی شہزادی روتے ہوئے گھر آئی اور بوڑھی اماں کو سارا قصہ سنایا اس پر اماں بولی کہ اسکو اس کے حال پہ چھوڑ دو تم اور میں اس بچے کی اچھی سی پرورش کریں گے جب وقت آیا تو خود ہی سب اچھا ہو جائے گا
وقت گزرنے لگا اس دوران بادشاہ کی طبیعت خراب ہوئی اور وہ صحتمند نہ ہوسکا اور اسکی وفات ہوگئی اب شہزادے کو بادشاہ بنا دیا گیا شہزادے کی ماں شوہر کی وفات کے بعد گوشہ نشین ہو گئی
اسلیے ساری مملکت کی زمہ داری شہزادے جو کے اب بادشاہ تھا اور اسکی دونوں ملکاؤں نے سنبھال لی ایک بار پھر چھوٹی ملکہ امید سے ہوئی اب کی بار بڑی ملکہ نے چھوٹی شہزادی کو بہت سا انعام دیا اور کہا کہ اب کی بار بچے کی پیدائش پہ کتے کا بچہ رکھ دینا اسپر عقلمند شہزادی کہنے لگی کہ ایسے نہ کریں آپ کی بھی اولاد نہیں ہے بادشاہ کو ولی عہد کی بھی ضرورت ہے ملکہ بگڑ کر بولی کہ اگر کام نہیں کرنا تو چلی جاؤ میں یہ کام کسی اور سے کروا لوں گی اسپر چھوٹی شہزادی فورًا بولی ارے نہیں نہیں
ملکہ صاحبہ میں تو مذاق کر رہی تھی
چھوٹی شہزادی نے ایک بار پھر چھوٹی ملکہ جو اسکی بہن تھی سمجھایا کہ یہاں سے چلی چلو پر چھوٹی ملکہ نے کہا کہ اب تو میں ملکہ بن گئی ہوں اور مجھے لگتا ہے تم مجھ سے جلنے لگی ہو چھوٹی شہزادی اسکی عقل پہ ماتم کر کے رہ گئی
ولادت کا وقت ہوا تو ایک بار پھر چھوٹی شہزادی نے بچہ پیدا ہوتے ہی اٹھا لیا اور دائی نے اسکی جگہ کتے کا بچہ رکھ دیا چھوٹی شہزادی پہلے کی طرح پچھلے دروازے سے بچہ لے کر گھر آئی اور اماں کو دے دیا اور خود الٹے پاؤں واپس بھاگی
محل میں ایک کہرام مچا ہوا تھا بڑی ملکہ نے کہا کہ مجھے تو یہ عورت لگتی ہی نہیں پہلی بار اس نے بلی کا بچہ پیدا کیا دوسری بار کتے کا بس اب اسکو قید کیا جائے ورنہ اگلے سال نجانے یہ کیا پیدا کر دے بادشاہ بھی بہت مایوس ہو چکا تھا اسلیے اسنے وزیر زادے کو جو کے اب باپ کی جگہ وزیر بن چکا تھا حکم دیا کہ وہ ایک بڑا سا پنجرہ بنوائے اور چھوٹی ملکہ کو اس میں بند کر کے شہر کے چوک میں رکھ دیا جائے سارے لوگ آتے جاتے اس پر تھوکا کریں گے یہ سزا اس کو تین دن دی جائے گی اسکے بعد قید میں تاعمر ڈال دیا جائے وزیر نے بادشاہ کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ نجانے کیوں مجھے لگتا ہے چھوٹی ملکہ معصوم ہے پر باشاہ نہ مانا آخرکار ایک بڑے پنجرے میں شہزادی کو شہر کے چوک میں رکھ دیا گیا جہاں ہر آتے جاتے لوگ اس پر تھوکتے تھے تین دن بعد چھوٹی ملکہ کو قید میں ڈال دیا گیا۔۔۔۔
بڑی ملکہ نے جو چاہا تھا وہ اسے مل گیا تھا بادشاہ کے ساتھ وہ بہت خوش تھی کبھی کبھی بادشاہ کو چھوٹی ملکہ کی یاد آتی تھی پر ساتھ ہی بلی اور کتے کے بچے یاد آتے تو وہ ملکہ سے نفرت کرنے لگتا
ادھر چھوٹی شہزادی نے ملکہ سے کہا کہ اب اسکی شادی ہے اس لیے وہ محل کا کام چھوڑ کر جا رہی ہے ملکہ کو کنیزوں کی کوئی کمی نہیں تھی
چھوٹی شہزادی بوڑھی اماں اور دونوں شہزادوں کو لے کر جنگل میں واپس اپنی جھونپڑی میں آگئی اور دونوں بچوں کی پرورش کرنے لگی
پانچ سال بعد ایک دن بادشاہ اپنے وزیر کے ساتھ جنگل میں شکار کھیلنے کے لیے آیا بادشاہ اور وزیر اپنے گھوڑوں کو ندی کنارے پانی پلانے لے گئے
وہ ابھی پانی پلا ہی رہے تھے کہ
کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں دو نہایت خوبصورت بچے لکڑی کے گھوڑے لیے آئےاور آتے ہی ندی کے کنارے انکو پانی پلانے لگے اور ساتھ میں گا رہے ہیں ۔۔۔
سٹوری رائیٹر۔منزہ مقصود
کاٹھ کا گھوڑا لوہے کی لگام
چھو پانی پی لے اے میرے غلام۔۔۔
بادشاہ کو بڑی حیرانگی ہوئی
وہ ان کے پاس گیا اور پیار سے بولا کہ پیارے بچوں کیا کبھی لکڑی کے گھوڑے بھی پانی پیتے ہیں اور لوہے کی بھی بھی لگام ہوتی ہے
اس پر بڑے لڑکے نے بولا کہ کیا کبھی ایک انسان عورت بھی بلی یا کتے کے بچوں کو جنم دے سکتی ہے ۔۔۔
بچے کی اس بات پر بادشاہ اور وزیر دونوں چونک گئے
بادشاہ نے کہا کہ یہ سبق تم کو کس نے پڑھایا ہے اس پر بچے بولے کہ ہماری خالہ نے
بادشاہ نے بچوں سے کہا کہ تمھاری خالہ کہاں ہے مجھے ابھی اس کے پاس لے چلو بچے بادشاہ اور وزیر کو اسی جھونپڑی میں لے کر آئے جہاں کچھ عرصہ پہلے بادشاہ آیا تھا اور شہزادی کو اپنے ساتھ لے کر گیا تھا
بادشاہ یہاں اپنی پرانی کنیز کو دیکھ کر حیران ہوگیا اور پوچھا کہ اے لڑکی یہ بچے کون ہیں اور یہ سارا کیا ماجرا ہے
چھوٹی شہزادی نے بادشاہ سے کہا کہ آپ کچھ سال پہلے یہاں سے جس لڑکی کو لے کر گئے تھے میں اسی کی بہن ہوں مجھے پتہ تھا کہ محلوں میں سازشیں ہوتی ہیں اس پر بادشاہ نے کہا تمھیں پہلے ہی سب کیسے پتہ تھا
اس پر شہزادی بولی
کہ ہم بھی کوئی عام ذات کے لوگ نہیں بلکہ ہم دونوں بہنیں بھی شہزادیاں ہیں ہمارا باپ بھی آپ کی طرح بادشاہ تھا
وہ ایک بار جنگل میں شکار کھیلنے آئے تھے اور راستہ بھول کر میرے نانا جو ایک لکڑہارے تھے کے پاس پناہ لینے آئے تھے وہیں ان کو ہماری ماں پسند آگئی اور بعد میں انہوں نے شادی کر لی
مگر محل میں ناصرف ہماری ماں کے خلاف سازش ہوئی بلکہ ہمارا باپ بادشاہ بھی اسکا شکار ہو گیا تھا اور شازشیوں نے کیسے ہمارے ماں باپ کو مار ڈالا
ہم بہنوں کو ہمارے باپ کی ایک وفادار کنیز وہاں سے راتوں رات لے اس جنگل میں لے آئی ورنہ ہم بھی زندہ نہ بچتے
اسلیے میں نے بہن کو منع کیا کہ وہ ہمارا رشتہ کسی سے بیان نہ کرے اگر محل میں سب ٹھیک ہوتا تو کچھ عرصہ بعد میں سامنے آجاتی مگر محل میں پہچتے ہی مجھے علم ہو گیا کہ بہت جلدی بڑی شہزادی کے خلاف سازش ہوگی کیونکہ آپکی ملکہ نے اتفاق سے مجھ سے ہی سارا کام کروانا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ جس کے ساتھ مل کر جس کے خلاف سازش کرنے لگی ہے وہ دونوں اپس میں بہنیں ہیں
تب پھر چھوٹی شہزادی نے شروع سے لے کر محل چھوڑنے اور بڑی ملکہ کی سزا تک سارا قصہ رو رو کر سنایا او بتایا کہ یہ دونوں بچے کوئی اور نہیں آپکے ولی عہد ہیں بادشاہ نے دونوں بچوں کو گلے سے لگا لیا
بادشاہ اور وزیر بھی شہزادی کی کہانی سنتے ہوئے رونے لگ گئے
جب شہزادی سنا چکی تو بادشاہ غصے سے کھڑا ہو گیا کہ وہ ملکہ کو نہیں چھوڑے گا اسکا سر قلم کر دے گا
مگر شہزادی نے روک لیا اور کہا کہ وہ چھوٹی ملکہ کی مجرم ہے پہلے تو آپ اسے باعزت رہا کریں اور اسکے بعد چھوٹی ملکہ کو اختیار دیں کہ وہ اسکے لیے سزا تجویز کرے
بادشاہ کو عقلمند شہزادی کی تجویز بہت پسند آئی شہزادی جانتی تھی کہ بڑی شہزادی بہت رحمدل ہے اور وہ اسے معاف کر دے گی کیونکہ سزا دینے سے بھی وہ وقت واپس نہیں آ سکتا تھا جو چھوٹی ملکہ نے قید میں گزارا تھا ایک بہن نے دوسری بہن کی جدائی اور دو بچوں نے بن ماں کے گزارا تھا
بادشاہ نے دونوں شہزادوں کو اپنے گھوڑے پہ بٹھایا اور وزیر جو کافی دیر سے عقلمند شہزادی کو چپکے چپکے دیکھ رہا تھا اور اسکی یہ حرکت بادشاہ سے پوشیدہ نہیں رہی تھی کو مسکراتے ہوئے حکم دیا کہ وہ شہزادی کو اپنے گھوڑے پہ بٹھا لے وزیر بادشاہ کی بات سن کر شہزادی کو گھوڑے پہ سوار کراکے محل کی طرف چل پڑا واپس آکر بادشاہ نے بڑی ملکہ کو بیڑیاں پہنائی اور خود جا کر قید خانے میں چھوٹی ملکہ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر رونے لگا اور کہا کہ اے ملکہ مجھے سارے واقعے کا علم ہو چکا ہے میں تمھیں آذاد کرنے آیا ہوں ملکہ کو باعزت رہا کروا کر بڑی ملکہ کو اسکے سامنے پیش کیا گیا اور وزیر نے سارا قصہ سب کے سامنے چھوٹی ملکہ کو سنایا چھوٹی ملکہ بہن کو گلے لگائے قصہ سن رہی تھی جب اسے پتہ چلا کہ یہ دونوں بچے اسکے اپنے بچے ہیں تو رو رو کے اسکی ہچکیاں بند گئی وہ بچوں اور بہن کو گلے لگائے روتی رہی
آخر بادشاہ نے کہا کہ آج اس کو اختیار ہے وہ بڑی ملکہ کو سزا دے مگر چھوٹی ملکہ نے یہ کہہ کر اسے معاف کر دیا کہ گیا وقت واپس نہیں آسکتا دوسرا یہ سب میری قسمت میں لکھا تھا جو ضرور ہونا تھا اسلیے میں اسے کوئی سزا نہیں دونگی جب بڑی ملکہ جو ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہی تھی نے یہ سنا تو وہ بھی روتے ہوئے چھوٹی ملکہ کے گلے لگ گئی اور کہنے لگی کہ تم نے مجھے معاف کرکے مجھ پہ بہت بڑا احسان کیا
محل میں جشن کا اعلان کیا گیا اس موقع پر وزیر نے شرماتے ہوئے بادشاہ سلامت سے اپنی اور چھوٹی شہزادی کی شادی کی درخواست کی بادشاہ نے مسکراتے ہوئے چھوٹی شہزادی کی طرف دیکھا چھوٹي شہزادی نے شرماتے ہوئے گردن جھکا لی۔۔
کچھ دن بعد بہت بڑے جشن میں وزیر اور شہزادی کی شادی کر دی گئی اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے
ختم شد۔۔۔
از قلم۔منزہ مقصود