لگتا ہوں ایسا مگر ہوں نہیں
تم جو سوچ رہے ہو میں وہ نہیں
تیری تلاش میں ایسے گم گیا
پھر خود میں بھی کبھی ملا نہیں
میں وہ پھول ٹھہرا محبت کا
جو بہار میں کبھی کھلا نہیں
میری دسترس میں تھا پورا آسماں
مگر چاند میرا کبھی ہوا نہیں
جو دیکھ رہا تھا اسے خواب کیا
جو سنائی دیا وہ بھی کہا نہیں
میں نامعلوم شخص ہوں زمانے کے لیے
ایک راز ہوں جو کبھی کھلا نہیں
بند دیواریں تھیں جو چلاتی تھی
دریچہ میرے کلب کا جو کبھی کھلا نہیں
ایک سریلی آہٹ نے آن گھیرا ہے مجھے
یہ وہ ساز ہے جو کبھی بجا نہیں
سنانا چاہتا ہو وہ بات زمانے کو
غزل کا وہ باب جو میں نے کبھی لکھا نہیں
سامعین اچھے ہو تو محفل بن ہی جاتی ہے
ورنہ مصنف نے تو کبھی کچھ کہا نہیں
میرے لفظ لفظ میں کہانی ہے منیب
میں وہ سانحہ ہوں جو کبھی ہوا نہیں
عبدالمنیب
Visited 5 times, 1 visit(s) today
Last modified: June 6, 2024