Written by 6:05 am شاعری

مَصرُوف وَفا تھا

مَصرُوف وَفا تھا خود سے مِلتا نہیں تھا میں
وہ سَانحے ہُوئے پھر ہِلتا نہیں تھا میں

بس کُن کہا ِکسی نے اور میں عَیاں ہوا
اِک بھید کی طَرح تھا کُھلتا نہیں تھا میں

آتِش میں عشق کے لا ڈالا گیا مجھے
کے بس سُلگ رہا تھا جَلتا نہیں تھا میں

کَنگن ، کَلائی ، پَائل، اِیجَاد پھر ہوئے
اک حُسن کے خُدا سے بَہلتا نہیں تھا میں

ڈھل ہی گَیا میں آخِر ، رَعنائیوں سَمیت
اس خُوشنما بَدن سے ڈَھلتا نہیں تھا میں

میری رَفو گری کی اک درد سَاز نے
ورنہ کِسی سلائی سے سِلتا نہیں تھا میں

اِک سَرزمین دل کا باسِی تھا میں منیب
یاروں کی آستِیں میں پَلتا نہیں تھا میں

عبدالمنیب

Visited 6 times, 1 visit(s) today
Last modified: April 18, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!