ایک بہت ہی پورانے وقت کی بات ہے کہ ایک بہت ہی دور سلطنت میں ایک بادشاہ اور ملکہ رہتے تھے۔ جن کے پاس دنیا جہان کی سب نعمتیں تھیں سواۓ اولاد کے، اور ملکہ ہر دن صرف اولاد کے لیے دعا کرتی۔ ایک روز شاہی باورچی خانہ میں مختلف طرح کی مچھلیاں لائیں گئیں۔ ان میں سے ایک مچھلی انتہائی خوبصورت اور چمکیلی نظر آرہی تھی۔ باورچی اس مچھلی کو دیکھ کر بہت خوش ہوا کیونکہ اس نے آج سے پہلے ایسی مچھلی کہیں نہیں دیکھی تھی۔
پھر اچانک سے وہ مچھلی بولنے لگی، اے رحم دل جناب میری جان پر رحم کھائیں۔ باورچی بولتی مچھلی کو دیکھ کر بہت حیران ہوا، اور بولا یہ کیا تم تو بول بھی سکتے ہو؟ مچھلی کی یہ بات سن کر باورچی سوچنے لگا کہ کیوں نہ میں یہ مچھلی پکانے کی بجاۓ ملکہ کو تحفہ میں دے دوں۔ اور ہوسکتا ہے ملکہ اس کے بدلے مجھے انعام بھی دے۔
باورچی نے فوری ایک فش پورٹ لیا اس میں بولنے والی مچھلی کو ڈالا اور اسے ملکہ کے پاس لے گیا۔ جب ملکہ نے بولتی ہوئی مچھلی کو دیکھا تو بہت حیران اور خوش بھی ہوئی۔ اور خوشی میں باورچی کو اس خوبصورت تحفہ کے بدلے میں ڈھیر سارا انعام دیا۔ پھر ملکہ اپنا زیادہ وقت اسی بولنے والی مچھلی کے ساتھ گزارنے لگی۔ ایک روز ملکہ مچھلی سے گفتگو کرتے ہوۓ بولی کے مجھے شروع سے ہی ایک اولاد کی خواہش تھی لیکن اب میں خوش ہوں اور تم ہی آج سے میری اولاد ہو اور میں تمہارا نام رکھتی ہوں، مچھلی شہزادہ!۔
سلطنت میں جب یہ بات پھیلی تو سب لوگ ملکہ کے گود لیے بیٹے کو دیکھ کر بہت حیران تھے۔ لیکن کوئی بھی کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔ پھر ایک روز ملکہ جب اپنے بستر سے سو کر اٹھی تو اس نے دیکھا کہ مچھلی شہزادہ اپنے پورٹ سے کافی بڑا ہوگیا ہے۔اس نے فوری اپنی کنیزوں کو کہہ کر ایک بڑا پورٹ تعمیر کروایا۔ لیکن کچھ دن گزرنے کے بعد مچھلی شہزادہ اس پورٹ سے بھی کافی بڑا ہوگیا تھا۔ پھر مچھلی شہزادہ کے لیے شاہی باغ میں ایک بڑا سا ٹینک بنوایا گیا۔ مچھلی شہزادہ اپنے نۓ گھر کو دیکھ کر بہت خوش تھا۔
مگر ایک دن ملکہ نے محسوس کیا کے پانی میں کسی طرح کی کوئی ہل چل نہیں ہے تو ملکہ نے محسوس کیا کے مچھلی شہزاد بہت مایوس ہے۔ تو ملکہ نے پوچھا اے میرے شہزادے بیٹے کیا بات ہے کیوں اتنے اداس ہو کیا تمہیں اپنا یہ ٹینک پسند نہیں آرہا؟ تو مچھلی شہزادہ نے کہا! امی جان ایسی بات نہیں ہے۔ دراصل میں چاہتا ہوں میری بھی کوئی بیوی ہو کیونکہ میں اکیلا رہ رہ کر تنگ آگیا ہوں۔
اس پر ملکہ حیران تو ہوئی لیکن وہ اپنے بیٹے مچھلی شہزادے سے بہت پیار کرتی تھی، اس لیے ملکہ نے اپنی سلطنت میں کہا جو شخص اپنی بیٹی مچھلی شہزادے کی بیوی کے طور پر لاکر دے گا میں اسے بہت بڑا انعام دوں گی۔ پر مچھلی شہزادے کے لیے بیوی تلاشنہ اتنا آسان نہ تھا۔ ملکہ کے سپاہی جس کسی کے پاس ملکہ کا یہ نظرانہ لے کر جاتے وہ ملکہ کے اس نظرانے سے انکار کر دیتے۔ کیونکہ سب لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مچھلی شہزادے کو بیوی خانے کے لیے چاہیے۔
تیسرے روز وزیر کا گزر ایک ایسے گھر سے ہوا جہاں ایک لالچی خاتوں اپنی سوتیلی بیٹی کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ جب وزیر نے ملکہ کے نظرانے کا ذکر اس لالچی خاتون سے کیا تو فوری رضامند ہوگئی اور کہا تم کل میرے لیے شاہی نظرانہ لے کر آنا میں تمہیں اپنی سوتیلی بیٹی کا ہاتھ دے دوں گی۔ وزیر بلآخر بہت خوش ہوا اور اس خاتون کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے چلاگیا۔
جب لالچی خاتون نے اس سودے کے بارے میں اپنی سوتیلی بیٹی عالیہ کو بتایا تو وہ رونے لگی۔ اور کہنے لگی امی ایسا مت کرو وہ مچھلی شہزادہ مجھے کھا جائیں گا۔ اس پر لالچی عورت نے کہا مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہے مجھے پیسوں کی ضرورت ہے تمہاری نہیں۔ اب تم جاؤ ندی پر اور اپنے کپڑے دھو کر لاؤ۔ کیونکہ میں چاہتی ہوں کل جب وہ تمہیں لینے آئیں تو تم خوبصورت لگو۔
عالیہ نے کپڑے لیے اور روتے ہوۓ ندی کی طرف چل پڑی، اور ندی پر جاکر بھی وہ کافی دیر تک روتی رہی۔ اس کی روتے ہوۓ آواز سن کر اس کا دوست ناگ باہر آگیا۔ ناگ نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو عالیہ نے سارا معاملہ ناگ کو بتایا۔ ناگ نے کہا مجھے اس سارے معاملہ کا علم ہے تم مت رو۔ اور ایسا کرو میرے گھر کے باہر جو تمہیں تین سنگریزے نظر آرہے ہیں انھیں اپنے ساتھ لے جانا۔ جب مچھلی شہزادہ تمھارے قریب آنے لگے تو پہلا سنگریزہ اسے مارنا تو وہ ٹینک میں نیچے چلا جاۓ گا۔ پھر جب وہ دوبارہ تمھارے پاس آنے لگے تو تم اسے دوسرا سنگریزہ مارنا۔ وہ پھر ٹینک میں نیچے چلا جائیں گا۔ اور جب وہ تیسری بار تمھارے قریب آنے لگے تو تم اسے تیسرا سنگریزہ مارنا۔ جیسے ہی تم تیسرا سنگریزہ مارو گی وہ مچھلی شہزادہ ایک خوبصورت شہزادہ میں تبدیل ہو جاۓ گا۔
تو عالیہ نے خوشی سے کہا! تو ایک اس کا مطلب وہ مچھلی نہیں ہے۔ پھر ناگ نے اسے بتایا کہ وہ ایک بادشاہ کا بیٹا ہے اور اس کے بھائی اور بھابیوں نے اس پر جادو کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک مچھلی میں بدل گیا ہے۔ اگر تم میرے کہنے پر عمل کرو گی تو وہ مچھلی سے ایک خوبصورت نوجوان میں تبدیل ہو جائیں گا۔ عالیہ نے ناگ کا شکریہ ادا کیا اور خوشی سے وہاں سے چلے گئی۔
اگلے روز عالیہ وزیر کے ساتھ شاہی محل میں چلے گئی۔ ملکہ عالیہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور کہا مجھے یقین ہے کہ تم میرے بیٹے مچھلی شہزادہ کے لیے عمدہ بیوی ثابت ہوگی۔ اس کے بعد عالیہ کو مچھلی ٹینک میں بنے کمرے میں بھیج دیا گیا اور سب لوگ یہ دیکھنے کے لیے کھڑے تھے کے مچھلی شہزادہ ابھی سطح پر آے گا اور اس لڑکی کو کھا جائیں گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا مچھلی شہزادہ ٹینک میں اپنے کمرہ میں بند رہا سب لوگ انتظار کر کر کے واپس چلے گے اور رات ہوگئی۔
رات کے آدھے پہر جب ٹڈیاں ٹھر ٹھرا رہیں تھیں تب اچانک ایک تیز ہوا چلنے لگی اور پانی میں لہریں پیدا ہونے لگیں۔ عالیہ یہ سب دیکھ کر بہت خوفزدہ ہو رہی تھی۔ پھر اس نے دیکھا ایک بڑی سی مچھلی منہ کھلے ہوۓ اس کی طرف چلتی آرہی تھی۔ عالیہ نے کپ کپاتے ہوۓ پہلا سنگریزہ مچھلی کی طرف پھینکا جو سیدہ مچھلی کے منہ میں چلاگیا۔ جس سے مچھلی فوری ہی نیچے ڈوب گئی۔ پر پھر وہ دو تین منٹ کے بعد وہ پھر سے سطح پر آگیا۔ پھر عالیہ نے دوسرا سنگریزہ پھینکا جو سیدہ مچھلی شہزادہ کی پیشانی پر جا لگا۔ جس سے مچھلی شہزادہ پھر ٹینک کی نیچلی تہہ میں چلا گیا۔ اور کچھ دیر سطح پر نہ آیا لیکن جب سطح پر آیا تو غصے میں تیزی کے ساتھ عالیہ کی طرف بڑھنے لگا۔ عالیہ نے گھبراہٹ میں تیسرا سنگریزہ پھینکا جو مچھلی شہزادے کو صرف ہلکا سا چھو کر گزر گیا۔
اس بار مچھلی شہزادہ پانی میں نہیں ڈوبا بلکہ وہ ایک خوبصورت نوجوان میں تبدیل ہوگیا۔ نوجوان اپنی اصل حالت میں آنے کے بعد عالیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوے بولا کہ اب ہمیں اس ٹینک میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے آؤ اب ہم دھوپ اور ہواؤں کا مزہ لیں۔ دن ہوتے ہی اس نے عالیہ کا ہاتھ تھامہ اور تو ملکہ کے پاس چلاگیا۔ پھر نوجوان شہزادہ نے ساری کہانی ملکہ کو بتائی۔ ملکہ ساری کہانی سن کر بہت خوش ہوئی اور خوشی سے اسے گلے لگا لیا۔ پھر ملکہ نے کہا مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا جب تم مچھلی تھے تب بھی میرے بیٹے تھے اور اب بھی میرے بیٹے ہو۔
اس پر شہزادہ نے ملکہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا شکریہ امی جان! ہر چیز کا شکریہ جو آپ نے میرے لیے کیا۔ پھر بادشاہ اور ملکہ نے دونوں کو گلے لگایا اور ایک بڑی سی شادی کا انتظام کیا جس میں بہت سے شہزادوں اور شہزادیوں نے شرکت کی۔ پھر عالیہ اور شہزادہ دونوں اپنی سلطنت میں راضی خوشی رہنے لگے۔
ختم شد