Written by 8:40 am بچوں کی کہانیاں, ناولز

مچھوارا اور اس کی بیوی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک مچھوارا اپنی بیوی کے ساتھ سمندر کے کنارے پر مجود ایک پہاڑ کی چوٹی پر رہا کرتا تھا۔ ان کی جھونپڑی کافی پورانی اور بوسیدہ تھی کیونکہ مچھوارا کافی غریب تھا اس کے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنی بیوی کہ لیے نئی جھونپڑی بنا سکے۔ وہ روزانہ روزی روٹی کے لیے مچھلی پکڑتا اور وہ اپنی اس سادہ زندگی سے بہت مطمین تھا۔ لیکن اس کی بیوی بہت کھڑوس، لالچی تھی اور ہر وقت مچھوارے کو اس کی بوسیدہ جھونپڑی کے تانے دیتی رہتی تھی۔ مچھوارا خاموشی سے اس کی ساری باتیں سنتا رہتا اور اسے ہر روز خوش کرنے کی کوشش کرتا کیونکہ وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا۔

ایک دن وہ مچھلی پکڑنے کے لیے سمندر پر گیا پانی ٹھرا ہوا اور نیلا تھا۔ اس نے اپنا مچھلی کا کانٹا سمندر میں پھینکا اور انتظار میں بیٹھ گیا۔ لیکن کافی وقت گزر گیا لیکن اس کے ہاتھ کوئی مچھلی نہ لگی۔ دن ڈھلنے لگا، اور ڈھلتے دن کے ساتھ مچھوارا بھی مایوس ہونے لگا اور گمان کرنے لگا کہ آج بھی لگتا ہے پھل کھا کر گزارا کرنا پڑے گا۔

اتنے میں اس کے کانٹے میں کافی بھاری چیز پھنستی ہے۔ وہ ظور لگا کر اسے باہر نکالتا ہے تو دیکھتا ہے وہ ایک چھوٹی سی سنہری مچھلی تھی۔ پھر وہ اپنے آپ کو مخاطب ہوۓ کہتا ہے کہ یہ تو اتنی چھوٹی سی ہے لیکن اتنی بھاری کیوں لگ رہی تھی۔ اتنے میں مچھلی بولی میں کوئی معمولی مچھلی نہیں ہوں، مچھلی کو بولتا دیکھ مچھوارا بڑا حیران ہوا۔ پھر سنہری مچھلی نے بتایا میں ایک طلسمی شہزادہ ہوں، مہربانی کرکہ مجھے نقصان نہ پہنچانا۔ یہ سن کر مچھوارا بولا تم ایک بولنے والی مچھلی ہو میں تمہیں کھا کر یا نقصان پہنچا کر کیا کروں گا۔ جاؤ میں تمہیں آزاد کرتا ہوں۔

پھر وہ سنہری مچھلی کو پانی میں پھینک گھر کو چلے جاتا ہے، اس بات سے بے خبر کے آج اس نے گھر میں کھانے کا انتظام نہیں کیا۔ وہ بھاگتے ہوۓ گھر جاتا ہے اور اپنی بیوی کو سارا واقع بتاتا ہے۔ مچھوارے کی بیوی اس کی باتیں سن کر کافی حیرت زادہ ہوئی۔ پھر غصے سے بولتی ہے اگر وہ ایک طلسمی شہزادہ تھا تو تم نے اس سے ہمارا لیے ایک خوبصورت گھر کیوں نہیں مانگا؟ اس پر مچھوارا بولا، وہ ہمیں کیسے ایک گھر دے سکتا ہے؟ پھر اس کی بیوی کہتی ہے کہ خودی تو تم نے بتایا کہ وہ ایک طلسمی شہزادہ ہے تو بتاؤ وہ ہمیں کیوں نہیں دے سکتا۔

پھر مچھوارا اپنی بیوی کے کہنے کے مطابق اگلے روز سمندر کنارے اسی جگہ جاتا ہے۔ جہاں اس نے پچھلی دفعہ سنہری مچھلی کو پکڑا تھا۔ پھر اس نے اسی طلسمی شہزادے کو پکارا اور کہا کیا تم مجھے سن سکتے ہو۔ مچھوارے کی پکار سن کر سنہری مچھلی سطح پر آگئی۔ پھر مچھوارے نے بتایا کہ اس کی بیوی نہ خوش ہے۔ مچھلی نہ پوچھا کہ وہ کیوں نہ خوش ہے؟ تو اس نے بتایا کہ اسے ایک خوبصورت گھر چاہیے۔

یہ سن کر سنہری مچھلی کہتی ہے کہ جاؤ واپس جاؤ تمھارے واپس جانے سے پہلے اسے گھر مل جائیں گا۔ پھر وہ بھاگتا ہوا اپنے گھر کی طرف جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کی بوسیدہ جھونپڑی ایک عالی شان گھر میں تبدیل ہوچکا تھا۔ جسے دیکھ کر مچھوارا بہت خوش تھا۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا اب ہم دونوں اپنے اس گھر میں ہمیشہ خوش رہیں گے۔ اس کی بیوی نے اس کی اس بات کو سن کر طنزیہ انداز سے کہا ہمیشہ خوش اور تمھارے ساتھ، سوچوں گی۔

اور پھر وہ دونوں کھانا کھا کر سونے چلے گے۔ لیکن اس رات مچھوارے کی بیوی کو نیند نہ آئ اور سوچنے لگی کہ وہ اپنے شوہر سے کچھ بڑا کیا مانگے۔ صبح ہوتے ہی وہ اپنے شوہر کا کھانے کی میز پر انتظار کرنے لگی۔ اور اس کے آتے ہی کہنے لگی کہ میرے لیے یہ گھر بھی بہت چھوٹا ہے مجھے ایک عالی شان محل چاہیے، جس میں میں ایک شہزادی بن کر رہ سکوں۔ اگر تم مجھے وہ لا کر دو گے تو پھر میں تم سے خوش ہونگی۔

اس کی یہ بات سن کر وہ بولا، کیا تم ایک شہزادی بن کر رہنا چاہتی ہو؟ مجھے تو لگتا ہے ہمارے لیے یہ کافی ہے۔ اس پر مچھوارے کی بیوی نے غصے میں کہا اس بات کا فیصلہ میں کروں گی تم نہیں۔ اور کہا تم جاؤ اور جاکر اس سنہری مچھلی سے کہوکہ مجھے شہزادی بنائے۔ شوہر ہچکچاتے ہوۓ سمندر کی طرف چل پڑا۔ اور سمندر پر جاکر دوبارہ اس طلسمی مچھلی کو پکارا۔ طلسمی مچھلی سمندر کی سطح پر آگئی، اس نے پھر بتایا کہ اس کی بیوی نہ خوش ہے اور وہ ایک محل کی شہزادی بننا چاہتی ہے۔

اس پر مچھلی نے کہا تم واپس جاؤ، تمھارے واپس جاتے ہی اسے یہ سب مل چکا ہوگا۔ اس پر اس نے مچھلی کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے چل پڑا۔ جب وہ دوبارہ اپنے گھر کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس کے اسی گھر کی جگا ایک عالی شان محل کھڑا ہے۔ جس کے باہر دربان اور اندر نوکر چاکر گھوم رہے ہیں۔ اس نے اپنی بیوی کو ایک تخت پر بیٹھے دیکھا اور اس سے پوچھا کیا تم اب خوش ہو؟ اس پر مچھوارے کی بیوی نے سوچنے کے بعد کہا نہیں۔ میں صرف شہزادی بن کر خوش نہیں مجھے مالکہ عالیہ بننا ہے۔

بیوی کے بڑھتے لالچی کو دیکھ کر وہ بولا نہیں تمہیں وہ مچھلی مالکہ عالیہ نہیں بناسکتی، یہ ناممکن ہے۔ اس پر مچھوارے کی بیوی نے کہا تم کچھ نہیں جانتے اور یہ میرا حکم ہے تم اس کہ پاس جاؤ اور کہو کہ وہ مجھے ملکہ عالیہ بناۓ۔ پھر وہ اپنی بیوی کی بات مانتے ہوۓ سنہری مچھلی کہ پاس گیا اور اسے بتایا کہ اس میری بیوی ابھی بھی نہ خوش ہے اور وہ ملکہ عالیہ بننا چاہتی ہے۔

طلسمی مچھلی نے کہا تم گھر جاؤ تمھارے گھر جانے سے پہلے وہ ملکہ عالیہ بن چکی ہوگی۔ وہ بھاگتے ہوۓ گھر گیا کہ اس بار اس کی بیوی اس سے بہت خوش ہوگئی ہوگی۔ جب وہ محل کے باہر پہنچا تو وہ پہلے سے کافی بڑا اور خوبصورت ہوچکا تھا۔ جب وہ اندر گیا تو اس نے دیکھا اس کی بیوی سونے کے تخت پر بیٹھی ہے۔ اور سب راجہ اور منتری اس کے تخت کے ارد گرد سر جھکاۓ کھڑے تھے۔ اس کی بیوی کے ایک ہاتھ میں سونے کا گولہ تھا اور دوسرے میں شاہی ڈنڈا۔

اس نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ کیا اب تم خوش ہونا؟ اس نے سوچنے کہ بعد کہا اس کے بارے میں میں تمہیں سوچ کر بتاؤں گی، آج میں مصروفیت کی وجہ سے تھک چکی ہوں۔ اور تمھارے ساتھ آرام کرنا چاہتی ہوں۔ مچھوارا خوفزدہ تھا کہیں اس کی بیوی ایک نئی فرمائش نہ کردے۔ لیکن خیر وہ کمرے میں جاتے ہی سوگیا کیونکہ وہ سارے دن کی بھاگ دوڑ سے کافی تھک چکا تھا۔ لیکن اس کی بیوی سو نہ سکی، اور ساری رات ایک اگلی خواہش کے بارے میں سوچتی رہی۔

سوچتے سوچتے وہ تھک گئی اور سونا چاہتی تھی کہ اتنے میں دن چڑھ آیا۔ سورج کی روشنی دیکھ کر اس کے ذہین میں خیال آیا اور اس نے اپنے شوہر کو اٹھایا۔ اسے کہا کہ وہ سورج اور چاند پر حکومت کرنا چاہتی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ وہ میرے حکم کہ بغیر ہلیں بھی نہ کیونکہ میں قادر مطلق بننا چاہتی ہوں۔ اس کی یہ بات سن کر اس کا شوہر کافی حیران ہوا اور بولا میں ایسا نہیں کروں گا کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ تم کیا مانگ رہی ہو۔ اس پر اس کی بیوی نہ کہا اگر تم نہیں گئے تو میں تم سے بہت زیادہ ناراض ہو جاؤں گی۔

اس کی ناراضگی کی بات سن کر مچھوارا چونکا اور بولا کہ تم ناراض نہ ہو میں جاتا ہوں۔ وہ ایسا کرنے پر مجبور اس لیے ہوا کیونکہ وہ اپنی بیوی سے بہت زیادہ پیار کرتا تھا اور اس کی ناراضگی کو برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی یہ سب کرنے پر مجبور تھا یہ جانتے ہوۓ بھی کہ یہ سب غلط ہے۔ وہ سمندر کی طرف چل پڑا جیسے ہی وہ سمندر پر پہنچا تو ایک تیز طوفان آگیا جس سے وہ بہت زیادہ خوفزدہ ہوگیا۔

پھر اس نہ گھبراتے ہوۓ، مچھلی کو پکارا۔ مچھلی نمودار ہوئی اس نے بتایا کہ اس کی بیوی ابھی بھی اس سے نہ خوش ہے۔ پھر مچھلی نے پوچھا اب کیا خواہش ہے اس کی؟ تو اس نے بتایا کہ اس بار وہ قادر مطلق بننا چاہتی ہے۔ مچھلی نے سوچا اور کہا ٹھیک ہے واپس جاؤ تمھارے واپس جاتے ہی اسے مل چکا ہوگا جو وہ چاہتی ہے۔

مچھوارا تیزی سے واپسی کی طرف بھاگا یہ سوچتے ہوۓ کہ پتہ نہیں اس بار اس کی بیوی کیا بن گئی ہوگی۔ جب وہ محل میں واپس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی محل میں مجود نہیں تھی۔ اس نے بہت ڈھونڈا اسے لیکن وہ کہیں نہیں ملی۔ بلآخر وہ تھک ہار کر اس طلسمی مچھلی کے پاس واپس گیا اور اس سے پوچھا کہ مچھلی نے اس کی بیوی کے ساتھ کیا کیا۔ تو مچھلی نے کہا کہ تم نے خودی تو کہا تھا کہ وہ قادر مطلق اور مخفی بننا چاہتی تھی تو میں نے اسے بنا دیا، قادر مطلق۔

اب وہ قادر مطلق اور مخفی ہے اب اسے کوئی بھی دیکھ نہیں سکتا۔ اس پر مچھوارا رونے لگا اور کہنے لگا مجھے اپنی بیوی سے بہت محبت ہے اور میں اسے واپس پانا چاہتا ہوں۔ اس پر مچھلی نے کہا میں مانگی ہوئی مراد کو الٹا نہیں سکتا۔ اس پر مچھوارے نے کچھ دیر سوچا اور کہا تم نے ہر بار میری بیوی کی مراد پوری کی لیکن میری نہیں، میں نے تمہاری جان بچائی تھی میری بیوی نے نہیں۔ تو اس پر مچھلی نے سوچ کر کہا ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو بتاؤ تم کیا چاھتے ہو؟

مچھوارے نے گہری سانس لی اور کہا میں چاہتا ہوں کہ میری بیوی ہمیشہ میرے ساتھ خوش رہے۔ تو مچھلی نے کہا تم واپس جاؤ اس کے پاس اب وہ سب ہے جس سے وہ تمھارے ساتھ خوش رہے گی۔ پھر وہ بھاگتے ہوۓ محل کی طرف گیا اور دیکھ کر حیران رہ گیا اس کی بیوی اسی پورانی جھونپڑی کے پاس خوش کھڑی تھی۔ شوہر نے اپنی بیوی سے کہا میں تمہیں واپس دیکھ کر خوش ہوا۔ اس پر اس کی بیوی نے کہا میں جان گئی ہوں کے یہ محل اور تخت خوشی نہیں دے سکتے، چلو اپنے گھر چلیں۔ پھر وہ دونوں سادہ سی زندگی میں خوش رہنے لگے۔

ختم شد

Visited 15 times, 1 visit(s) today
Last modified: April 7, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!