پورے گاؤں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی- عمر پورے تین سال کے بعد جنگ کے میدان سے لوٹ کر صحیح سلامت واپس آ گیا تھا- اس کے ساتھ اس گاؤں کے اور بھی کئی نوجوان سپاہی بن کر گئے تھے- مگر ان میں سے کوئی بھی لوٹ کر نہیں آیا تھا- یہ تین سال پہلے کی بات ہے جب عمر اٹھارہ سال کا نوجوان لڑکا تھا- وہ اپنی ماں کا واحد کفیل تھا- دن بھر محنت مزدوری کے بعد جو کچھ ملتا وہ ماں کے ہاتھ پر لا کر رکھ دیتا تھا- اسے اپنی ماں سے بہت محبّت تھی اور وہ ہمیشہ یہ ہی کوشش کرتا تھا کہ اس کی ماں کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے- اس کی ماں اس سے بہت خوش تھی اور ہر وقت اسے دعائیں دیتی تھی-ماں بیٹے پر مشتمل یہ مختصر سے گھرانہ بڑی خوش وخرّم زندگی گزار رہا تھا کہ بادشاہ کی طرف سے یہ فرمان جاری ہوا کہ ملک کے تمام نوجوان فوج میں بھرتی ہو کرسرحدوں پر پہنچ جائیں کیونکہ ان کے پڑوسی ملک کے بادشاہ نے ان کے ملک پر قبضہ کرنے کے لیے اچانک حملہ کر دیا تھا- وہ ملک بہت بڑا تھا- اس کی فوج بھی بہت زیادہ تھی- اس لیے یہ بہت ضروری ہو گیا تھا کہ نوجوانوں کو سپاہی بنا کر ان کے مقابلے کے لیے بھیجاجائے- عمر کا گاؤں زیادہ بڑا نہیں تھا- پورے گاؤں کی آبادی چار پانچ سو نفوس پر مشتمل تھی- بچوں بوڑھوں اورعورتوں کو نکال کر کل چالیس نوجوان تھے- جنہوں نے فوج میں بھرتی ہو کر میدان جنگ میں جانا قبول کرلیا تھا-انہی نوجوانوں میں عمر بھی شامل تھا-عمر کی بیوہ ماں بہت اداس تھی مگر ملک کی سلامتی کاسوال تھا- اسی ملک کی سلامتی کے لیے اس نے اپنے شوہر کو بھی قربان کردیا تھا تو بیٹے کو کیسے روک سکتی تھی- عمر کا باپ بھی ایک سپاہی تھا اور میدان جنگ میں بڑی جوانمردی سے لڑتے ہوئے وطن کی سلامتی پر قربان ہوگیا تھا- ایک سپاہی کا بیٹا ہونے کے سبب عمر بھی بہت باہمت تھا-وہ اپنی ماں کو خدا حافظ کہہ کر چلا گیا تھا- جنگ ہوتی رہی وہ لوگ بہت بے جگری سے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے- اس لڑائی نے طول کھینچا اور پھر تین سال بعددونوں ملکوں میں ایک دوسرے پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ ہوگیا- یوں دوسرے سپاہیوں کی طرح عمر بھی واپس اپنے گاؤں آگیا- گاؤں میں اس کا بڑا شاندار استقبال ہوا- وہاں کے لوگوں کے پر خلوص رویے نے عمر کو میدان جنگ کی تمام تکلیفیں بھلا دی تھیں- وہ لوگوں سے ملتا ملاتا اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا- اس کی جنگی خدمات کے اعتراف کے طور پر بادشاہ نے اسے بے پناہ انعام و اکرام سے نوازا تھا- اس کی پشت پر جو تھیلا لٹک رہا تھا وہ اشرفیوں سے بھرا ہوا تھا- عمر سوچ رہا تھا کہ اب وہ اپنی ماں کے رہنے کے لیے ایک شاندار سا گھر تعمیر کروائے گا اور اس کی خدمت کے لیے ایک کنیز بھی رکھوا دے گا- مگر جب وہ اپنے گھر کے سامنے پہنچا تو اندر جانے سے پہلے اسے گاؤں کے ایک بوڑھے شخص نے روک کرکہا- “بیٹے عمر- ہم تمہارے آنے کی خوشی میں تمہیں ایک افسوسناک خبر سنانا بھول گئے تھے- تمھاری ماں اب اس دنیا میں نہیں ہیں- وہ ایک سال پہلے اس دنیا سے جا چکی ہیں- تم ایک سپاہی ہو، سپاہی کا دل مضبوط ہوتا ہے- امیدہے تم اس صدمے کو ہنس کر سہو گے”-بوڑھے کی بات سن کر عمر کی آنکھوں تلے اندھیرا چھاگیا- اس کے تو وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ جب وہ گھر پہنچے گا تو اس کی ماں منوں مٹی کے نیچے جا سوئی ہوگی- اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے- لوگ اسے دم دلاسہ دے کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے- عمر نے کچھ دیر بعد اپنی حالت پر قابو پا لیا- اس نے گھرکے اندر داخل ہونا چاہا مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دروازہ اندر سے بند ہے- وہ سوچنے لگا کہ اب اس گھر میں کون رہتا ہے- جہاں تک اسے یاد پڑتا تھا اس دنیا میں اب اس کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا- پھر اندر کون ہے- اس نے الجھن آمیز انداز میں دروازے پر دستک دی-دروازہ پہلی دستک پر ہی کھل گیا- دروازہ کھولنے والی ایک حسین لڑکی تھی- وہ سولہ سترہ سال کی ہی ہوگی-اس کا رنگ میدے کی طرح صاف تھا اور چہرے پر بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں تھیں- عمر لڑکی کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا- لڑکی ایک طرف کو ہٹ کر کھڑی ہوگئی جیسے اسے اندر آنے کا راستہ دے رہی ہو- عمر اندرداخل ہوگیا تو لڑکی نے دروازہ بند کردیا اور بولی- “اندرچلئے- آپ بڑی دور سے آ رہے ہیں- تھک گئے ہوں گے”- عمر نے حیرت زدہ ہو کر کہا- “مگر آپ کون ہیں؟”-“آپ کو سب پتہ چل جائے گا- میں آپ کی آمد کا چھ ماہ سے انتظار کر رہی تھی”- لڑکی نے جواب دیا-عمر کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا- وہ کمرے میں آگیا- کمر پر سے تھیلا اتار کر اس نے ایک طرف رکھا-لڑکی اس کے لیے شربت لے کر آء- عمر کو بہت پیاس لگ رہی تھی- اس نے شربت کو غنیمت جانا اور ایک ہی سانس میں سارا شربت چڑھا گیا- لڑکی اسے بڑے غورسے دیکھ رہی تھی- شربت پی کر اس نے پیالہ ایک طرف رکھ دیا- لڑکی نے کہا- “آپ اپنے گھر میں مجھے دیکھ کر حیران ہو رہے ہوں گے- میں یہاں دو سال سے رہ رہی ہوں- آپ کی کی امی ایک مہربان عورت تھیں- انہوں نے مجھے ہمیشہ اپنی بیٹیوں کی طرح چاہا تھا-اپنی ماں کے تذکرے پر عمر کی آنکھیں پھر بھیگ گئی تھیں- بھرائی ہوئی آواز میں بولا- “اچھی لڑکی یہ میری بدقسمتی ہے کہ میں اپنی ماں سے آخری مرتبہ مل بھی نہ سکا”- “آپ کو اب صبر کرنا چاہئیے- آپ کی امی ہر وقت آپ کاتذکرہ کرتی رہتی تھیں-“- یہ کہہ کر وہ چپ ہوگئی-کمرے میں کچھ دیر تک خاموشی طاری رہی- پھر عمرنے پوچھا- “مگر آپ نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ آپ کون ہیں؟”- لڑکی نے ایک گہری سانس لے کر کہا- “میرا نام زبیدہ ہے-میں پرستان کے بادشاہ کی بیٹی ہوں”-زبیدہ کی بات سن کر عمر اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا- “یعنی کہ تم پرستان کی شہزادی ہو؟”- اس نے پوچھا- “ہاں- ٹہریے- میں آپ کو شروع سے یہ کہانی سناتی ہوں-یہ اس وقت کی بات ہے”- زبیدہ نے کہنا شروع کیا- “جب میں پیدا بھی نہیں ہوئی تھی- پرستان میں ایک بادشاہ کی حکومت تھی- اس بادشاہ کا ایک لڑکا بھی تھا- اس کا نام شہزادہ پرویز تھا- پرستان کا شہزادہ پرویز انسانوں کی دنیا دیکھنے کا بہت شائق تھا- ایک روز وہ پرستان سے نکل کر انسانوں کی دنیا میں آگیا- یہاں پر اس کی ملاقات ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی سے ہوگئی- اس لڑکی کا نام عذرا تھا- شہزادہ پرویز نے اپنے باپ سے چھپ کر اس لڑکی سے شادی کرلی اور انسانوں کی دنیا ہی میں رہنے لگا- جب بادشاہ نے اس کی گمشدگی کا سراغ لگایا تو اس پر یہ حقیقت کھلی کہ اس کے بیٹے نے انسانوں کی دنیا میں ایک خوب صورت لڑکی سے شادی کرلی ہے تو وہ بہت ناراض ہوا- اس نے فوراً شہزادہ پرویز کو پرستان بلوالیا اور اس کے محل سے باہر جانے پر پاپندی عائد کر دی- شہزادہ پرویز اپنی پیاری بیوی کی جدائی برداشت نہ کرسکا اور بیمار پڑ گیا- دنیا بھر کی دوائیں بھی اس کوٹھیک نہ کرسکیں- مجبور ہو کر بادشاہ نے اسے صرف اتنی اجازت دے دی کہ وہ جب چاہے بیوی سے جا کر مل سکتا ہے مگر اسے پرستان نہیں لا سکتا- شہزادہ پرویزاس پر بھی راضی ہوگیا-پھر خدا نے انھیں ایک بیٹی دی- اس کا نام انہوں نے زبیدہ رکھا- میں وہ ہی زبیدہ ہوں- میرے ابا ہم ماں بیٹی سے آکر مل جایا کرتے تھے- انہوں نے ہمارے رہنے کے لیے ایک محل بنوادیا تھا- اور وہ جب بھی ہم سے ملنے آتے تھے تو میرے لیے پرستان سے ڈھیر سارے کھلونے اور مزیدار مٹھایاں لاتے تھے- دن یونہی ہنسی خوشی بسر ہورہے تھا- میں دیکھتے ہی دیکھتے چودہ برس کی ہوگئی-ایک روز جب میں سو رہی تھی تو میرے ابّا پرستان سے آئے- انہوں نے امی کو پورے محل میں ڈھونڈ لیا مگر وہ انھیں کہیں نہ ملیں- انہوں نے مجھے جگایا اور امی کی گمشدگی کی اطلاع دی- پھر ہم دونوں نے انھیں ہر جگہ ڈھونڈ لیا مگر امی نہ مل سکیں- میرے ابّا بہت پریشان تھے- پندرہ دن تک انہوں نے امی کو تلاش کیا مگرمایوسی کے سوا کچھ نہ ملا- ادھر پرستان میں میرے دادایعنی بادشاہ سلامت نے میرے ابّا کو بلوالیا- چونکہ وہ مجھے اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتے تھے- اس لیے انہوں نے مجھے آپ کی امی کے حوالے کر دیا اور کہا کہ وہ کسی مناسب وقت پر مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے- میںآ پ کی امی کے پاس رہنے لگی- آپ جنگ پر گئے ہوئے تھے- آپ کے متعلق آپ کی امی نے ہی بتایا تھا- میں ان کے ساتھ ہر طرح سے خوش تھی ایک روز وہ بھی دنیا سے رخصت ہوگئیں- ان کی موت میرے لیے ایک بہت بڑاسانحہ تھا-میرے ابّا جو کہ وہاں کبھی کبھی مجھ سے ملنے آجایا کرتے تھے انھیں بھی ان کی موت کا بہت دکھ ہوا-آپ کی امی کے انتقال کے بعد بھی میں نے آپ کے گھر میں رہنے کو ترجیح دی- پھر ایک روز میرے ابّا مجھے لینے کے لیے آ گئے- میرے دادا انتقال فرما گئے تھے اوراب تخت و تاج کے مالک میرے ابّا تھے- اب مجھ پر یامیری امی پر پابندی لگانے والا کوئی نہ تھا مگر میری امی تو کھو گئی تھیں، رہ گئی میں، تو میں نے اپنے ابّا سے کہہ دیا کہ جب تک اس گھر کا مالک واپس نہیں آ جاتا اس وقت تک میں کہیں نہیں جاؤں گی- خدا کا شکر ہے کہ آپ آج واپس لوٹ آ? ہیں- اب میں اپنے ابّا کے پاس پرستان جا سکتی ہوں”- عمر بڑی دلچسپی سے زبیدہ کی کہانی سن رہا تھا- وہ خاموش ہوئی تو اس نے کہا- “زبیدہ آپ نے تو بڑی عجیب کہانی سنائی ہے- میں آپ کا بڑا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میرا انتظار کیا- آپ اپنے ابّا کے پاس ضرور جائیے- خداکرے کہ آپ کی امی بھی مل جا ئیں”-“وہ نہ جانے کہاں ہوں گی”- زبیدہ اداس ہو کر بولی- خداہی بہتر جانتا ہے کہ میں اب ان سے ملوں گی بھی یا نہیں”-آپ نے میری امی کی بہت خدمت کی ہے- میں آپ کی امی کو ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا تاکہ بدلہ اتار سکوں”-عمر نے کہا-اس کی بات سن کر زبیدہ خوش ہوگئی- پھر اس نے کمرے کے کونے میں رکھا ہوا ایک خوبصورت قالین نکالا اوربولی-“یہ جادو کا قالین ہے- یہ ہمیں تھوڑے سے وقت میں پرستان پہنچا دے گا”- “ہمیں سے کیا مطلب ہے؟”- عمر نے تعجب سے پوچھا-“میری خواہش ہے کہ آپ بھی میرے ساتھ پرستان چلیں”-زبیدہ نے کہا- “چند دن میرے مہمان رہیے گا- پھر ہم دونوں مزے سے پورے پرستان سیر کریں گے”-اس کی بات سن کر عمر نے مسکرا کر کہا- “یہ تو بڑی اچھی بات ہے- بچپن میں پریوں کی کہانی سنتا تھا، اب پریوں کی سرزمین کو اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لوں گا”-ہم یہ سفر رات کو شروع کریں گے ورنہ اگر لوگوں نے ہمیں اڑتا دیکھ لیا تو حیرت کے مارے بے ہوش ہو جائیں گے- میرے ابّا بھی رات کو ہی مجھ سے ملنے کے لیے آتے تھے”- زبیدہ نے کہا-“ٹھیک ہے”- عمر سر ہلا کر بولا- “میں بھی تھوڑی دیرسونا چاہتا ہوں- بہت تھک گیا ہوں”-زبیدہ بولی- “ہاں آپ آرام کیجئے- میں شام کا کھانا پکانیجا رہی ہوں- کھانا کھا کر ہی ہم سفر پر نکلیں گے”-زبیدہ چلی گئی اور عمر کروٹ بدل کر سو گیا- ##### کھانا کھا کر وہ لوگ پرستان جانے کی تیاری کرنے لگے-زبیدہ نے قالین زمین پر بچھایا اور وہ دونوں اس پر بیٹھ گئے- اور قالین دھیرے دھیرے فضا میں بلند ہونے لگا-کافی بلندی پر پہنچ کر اس نے ایک سمت کی طرف تیزی سے اڑنا شروع کردیا- چونکہ رات ہوگئی تھی اس لیے نیچے تاریکی کے سوا کچھ بھی نہیں دکھائی دے رہا تھا-عمر اور زبیدہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے- یونہی کافی وقت گزر گیا- اچانک انہوں نے محسوس کیاکہ قالین کی رفتار کچھ سست پڑ رہی ہے- انہوں نے جھانک کر نیچے دیکھا اور انکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں- دور دور تک بے حد خوبصورت اور عالیشان مکانوں کی ایک قطار پھیلی ہی تھی- جو کہ دودھیا روشنی سے جگمگا رہی تھی- ان کا قالین شاہی باغ میں اس جگہ اترا جہاں زبیدہ کا باپ یعنی بادشاہ چہل قدمی کر رہا تھا-اپنی بیٹی کو دیکھ کر وہ بیتابی سے اس کی طرف بڑھا اوراسے گلے سے لگا لیا- زبیدہ نے عمر کا تعارف بادشاہ سے کرایا- وہ عمر سے بھی مل کر بہت خوش ہوا- پھر انھیں لیکر محل کے اندر آیا- محل کو دیکھ کر عمر حیرت زدہ رہ گیا- اتنا خوبصورت اور عالیشان محل اس نے خوابوں میں بھی نہیں دیکھا تھا- زبیدہ بھی یہاں آ کر بے حد خوش نظر آ رہی تھی- بادشاہ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر بولا-“زبیدہ بیٹی- کاش آج تمھاری ماں بھی اس جگہ ہوتی توکتنا خوش ہوتی- میں نے اسے دنیا کے کونے کونے میں تلاش کروایا ہے- مگر وہ نہیں ملی”- ماں کے ذکر نے زبیدہ کو رنجیدہ کر دیا تھا- وہ سسکیاں لے لے کر رونے لگی- بادشاہ نے بڑی مشکلوں سے اسے چپ کروایا- اس کا دل بہلانے کے لیے فوراً پریوں کے ناچ کا انتظام کے لیے کہا- زبیدہ اور عمر خوبصورت پریوں کے ناچ گانے سے لطف اندوز ہونے لگے- ناچ گاناختم ہوا تو وہ دونوں باغ میں آ نکلے- باغ میں ہر طرف بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی- ان دونوں کو باغ کی سیر کرنے میں بڑا لطف آ رہا تھا- اچانک زبیدہ کو کچھ یاد آگیا- وہ چلتے چلتے رک گئی اور عمر سے بولی-“عمر آپ کو اپنا وعدہ یاد ہے نا؟”-“ہاں مجھے اچھی طرح یاد ہے”- عمر سر ہلا کر بولا-“آپ کی امی کو ڈھونڈنے کی میں پوری کوشش کروں گا”- اس کی بات نے زبیدہ کو مطمئن کر دیا تھا- مگر عمرسوچ میں پڑ گیا کہ اس نے زبیدہ سے وعدہ تو کر لیا ہے مگر اس کی امی کو کہاں تلاش کرے گا- یہ کام بہت مشکل تھا مگر عمر ایسا نوجوان نہیں تھا کہ ہمت ہار بیٹھتا- اس نے عہد کر لیا کہ جب تک زبیدہ کی امی نہیں مل جاتیں،وہ چین سے نہیں بیٹھے گا- #### زبیدہ کی دوستی کئی پریوں سے ہو گئی تھی- کیونکہ وہ پرستان کی شہزادی ہو گئی تھی اس لیے اسے بڑی عزت دی جا رہی تھی- محل کی کنیز پریوں سے بھی اس کی گاڑھی چھننے لگی تھی- اس وقت وہ انہیں کے ساتھ باغ میں جھولا جھول رہی تھی- عمر بادشاہ سے باتوں میں مصروف تھا- ابھی کچھ دیر پہلے بادشاہ سے ایک بوڑھی پری مل کر گئی تھی- عمر بھی وہیں موجود تھا- بادشاہ نے اس سے کہا- “یہ بڑی بی میرے رشتے کی خالہ ہیں-جب میں نے تمھاری دنیا میں عذرا سے شادی کی تھی توسب سے زیادہ شور ان ہی بڑی بی نے مچایا تھا- میرے ابّاحضور کے کان یہ ہی آ آ کر بھرتی تھیں- دراصل یہ اپنی لڑکی کی شادی مجھ سے کرنا چاہتی تھیں- ان ہی کی وجہ سے میری بیوی اور بیٹی نے اتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں- ان کی بزرگی کا خیال کر کے میں انہیں کچھ نہیں کہتا ہوں-ورنہ میرا تو جی بھی نہیں چاہتا کے ان کی شکل دیکھوں-اب بھی ان کا اصرار ہے کہ میں انکی لڑکی سے شادی کرلوں- مگر میں کبھی بھی ایسا نہیں کروں گا- اگر یہ میرے ابّا حضور کے کان نہ بھرتیں تو میرے ابّا کبھی بھی عذرا پر پرستان میں داخلے پر پابندی نہ لگاتے – اس طرح وہ گم بھی نہ ہوتی- بے چاری اب نہ جانے کس حال میں ہوگی وہ”- بادشاہ بے حد اداس ہوگیا- تھوڑی دیر بعد عمر اس سے اجازت لے کر وہاں سے اٹھ گیا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا- اس کا کمرہ بھی بے حد خوبصورت قیمتی اشیا سے مزین تھا- وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ اسی بوڑھی پری کو دیکھ کرچونک گیا- وہ اس کے بستر کے پاس پڑی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھی تھی- عمر کو دیکھ کر اس کے چہرے پرمسکراہٹ پھیل گئی- اس نے کہا- “میں تمھارا ہی انتظارکر رہی تھی- مجھے تم سے چند ضروری باتیں کرنا ہیں-میں بادشاہ کی خالہ لگتی ہوں اور گلشن پری میرا نام ہے”-“فرمائیے آپ کو مجھ سے کیا کام پڑ گیا ہے”- عمر نے دوسری کرسی پر بیٹھے ہو? خوش اخلاقی سے کہا-بوڑھی گلشن پری بولی- “مجھے شہزادی زبیدہ کی زبانی پتا چلا ہے کہ تم ایک معمولی سپاہی ہو اور میں جانتی ہوں کہ سپاہی بہت غریب ہوتے ہیں- سنو اگر تم میرا ایک کام کردو تو میں تمہیں اتنی دولت دوں گی کہ تم شہزادوں کی طرح زندگی بسر کرو گے”-“مجھے دولت کا کوئی لالچ نہیں ہے تم اپنا کام بتاؤ اگرمیرے بس کا ہوا تو میں ضرور کرنے کی کوشش کروں گا”- “تمہیں معلوم ہے کہ بادشاہ کی بیوی کھو گئی ہے- بغیرملکہ کے بادشاہ کچھ اچھے نہیں لگتے- لہٰذا تم بادشاہ کومجبور کرو کہ وہ میری لڑکی سے شادی کرنے پر آمادہ ہوجائے”- گلشن پری نے خوشامدانہ انداز میں کہا- ” وہ تمھارے سمجھانے سے ضرور مان جائیگا”- عمر کو اس بات کی ذرا سی بھی توقع نہیں تھی کہ گلشن پری اس سے اس قسم کا کام کرنے کو کہے گی- وہ سوچ میں پڑ گیا- پھر اس نے کہا- “تم مطمئن رہو- میں بادشاہ سے اس مسلے پر گفتگو کروں گا”- گلشن پری خوش ہو کر چلی گئی- عمر کو وہ بوڑھی پری بڑی مکّار معلوم دی- ایک دم سے اس کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ کہیں وہ تو زبیدہ کی امی کی گمشدگی کی ذمہ دار نہیں ہے- ہوسکتا ہے اس نے یہ سوچ کر زبیدہ کی امی کو کہیں چھپا دیا ہو کہ بادشاہ اس کی طرف سے مایوس ہوکر دوسری شادی اس کی بیٹی سے کرلے- یہ خیال اس کے دل کو بھا گیا- مگر اس کی تصدیق ضروری تھی- اس نے اسی روز واپس اپنی دنیا میں جانے کا فیصلہ کرلیا-رات زیادہ ہوئی تو اس نے زبیدہ سے کہا- “زبیدہ میں انسانوں کی دنیا میں جانا چاہتا ہوں- کیا آپ مجھے وہ جادوکا قالین دے سکیں گی؟”- زبیدہ پریشان ہو کر بولی- “کیا آپ کا دل پرستان میں نہیں لگ رہا ہے یا پھر آپ کو کوئی بات تو بری نہیں لگ گئی؟”-“نہیں نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے”- عمر نے ہنس کرجواب دیا- “میں یہاں پر بہت خوش ہوں وہ بس ایک ضروری کام یاد آگیا تھا”-“اگر یہ بات ہے تو پھر ٹھیک ہے- یہاں کی کوئی چیز بھی استعمال کرنے کے لیے آپ کو اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں ہے”- زبیدہ نے کہا-“بہت بہت شکریہ- اچھا زبیدہ ایک بات تو بتایں- جب آپ اپنی امی کے ساتھ محل میں رہا کرتی تھیں تو وہاں پر آپ کے کتنے ملازم تھے؟”- عمر نے پوچھا-“صرف ایک- وہ بھی چودہ پندرہ سال کا ایک لڑکا تھا- اس کا کام صرف اتنا تھا کہ وہ بازار سے سودا سلف لا دیاکرتا تھا- باقی گھر کا ہر کام امی خود ہی اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں”- زبیدہ نے بتایا-“کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ وہ لڑکا اب کہاں ملے گا؟”- عمرنے دوبارہ سوال کیا-“جب میں امی کی گمشدگی کے بعد محل سے چلی تھی تواس لڑکے کو بھی نوکری سے جواب دیدیا گیا تھا- اس نے مجھے بتایا تھا کہ اب وہ ایک نانبائی کے پاس نوکری کرے گا- مگر یہ سب کچھ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟”- زبیدہ نے حیرت سے پوچھا-“یونہی- وقت آنے پر آپ کو سب کچھ پتہ چل جائے گا”-عمر نے جواب دیا- پھر اس نے جادو کا قالین نکالا اوراس پر بیٹھ کر اپنی دنیا کی طرف چل دیا- اس نے زبیدہ سے اس جگہ کے متعلق اچھی طرح دریافت کر لیا تھاجہاں پر ان کا محل تھا اور جس میں وہ اپنی امی کے ساتھ رہتی تھی- قالین نے اسے اس کے گھر میں اتارا تھا- رات زیادہ ہو گئی تھی اس لیے اس نے قالین کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا اور بستر پر گر گیا-
صبح ہوئی تو عمر ناشتے سے فارغ ہو کر گھر سے نکل کھڑا ہوا- وہ زبیدہ کے محل کی طرف جا رہا تھا- جب وہ ان کے محل کے قریب پہنچا تو اس نے محل کے بڑے دروازے پر ایک بڑا سا قفل پڑا دیکھا- مگر اسے محل میں تو جانا نہیں تھا- اسے تو اس نانبائی کی دوکان تلاش کرناتھی جس کے پاس وہ لڑکا کام کرتا تھا اور جس کے متعلق اسے زبیدہ کی زبانی پتہ چلا تھا کہ وہ ان کے محل میں ان کا ملازم تھا-بازار قریب ہی تھا- ایک نکڑ پر اسے نانبائی کی دوکان نظر آ گئی- وہ تندور پر بیٹھا روٹیاں پکا رہا تھا- وہ پینتالیس سال کا ایک دبلا پتلا شخص تھا- اس کے چہرے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں- اور دھوئیں کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں آنسو سے تیر رہے تھے-عمر نے اس کے قریب جا کر اس سے کہا- “مجھے ایک لڑکے کے متعلق معلوم کرنا ہے”-نانبائی نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا- “میاں جاؤ جاؤ-میں بہت مصروف ہوں- بیکار باتوں کے لیے میرے پاس ذرا سا بھی وقت نہیں ہے”-عمر نے اپنی جیب میں سے ایک اشرفی نکال کر اس کی طرف پھینکی- پہلے تو نانبائی مسکرایا، اشرفی اٹھا کرانٹی میں رکھی اور ہنس کر بولا- “بھیا- پوچھو نا کیاپوچھنا چاہتے ہو”- عمر نے پھر کہا- “ایک لڑکا جو پہلے اس محل میں ملازم تھا، کیا وہ یہاں کام نہیں کرتا؟”-“ہاں- اشرف چند دن میرے پاس رہا تھا- یہ تقریباً ڈیڑھ دو برس کی بات ہے- مگر ایک روز اس نے نہ جانے کہاں سے ایک بہت ہی خوبصورت بلی پکڑلی تھی- اس بلی کواس نے اس ملک کی شہزادی کی سالگرہ والے دن بطورتحفہ دے دیا- وہ شہزادی بلی کو پا کر بے حد خوش ہوئی اور اس نے بادشاہ سے کہہ کر اشرف کو ہزاروں اشرفیاں انعام میں دلوادیں- اس روز سے اشرف نے میری دوکان پر کام کرنا چھوڑ دیا اور شہر میں ایک خوبصورت مکان لے کر چاول کی تجارت شروع کر دی- اب وہ بہت امیر ہو گیاہ اور چند روز بعد اس کی شادی اسی شہر کے ایک بڑے رئیس کی بیٹی سے ہونے والی ہے- مگر آپ اشرف کے متعلق کیوں پوچھ رہے ہیں- کیا وہ آپ کا دوست ہے؟”-“میں نے تو اسے دیکھا بھی نہیں ہے- مگر اس سے ایک ضروری کام پڑ گیا ہے”- عمر نے کہا- پھر وہ نانبائی سے اشرف کے مکان کا پتہ معلوم کر کے اس سے ملنے کے لیے چل دیا-اشرف اپنے مکان پر ہی مل گیا تھا- اس کی موجودہ آن بان دیکھ کر کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ کچھ عرصہ پہلے بہت غریب تھا- جب عمر نے بتایا کہ وہ زبیدہ کے پاس سے آ رہا ہے تو اشرف بڑی گرمجوشی سے ملا- اس نے بتایا کہ جس زمانے میں وہ زبیدہ اور اس کی امی کے ساتھ رہتا تھا تو ان کا سلوک اس سے بہت اچھا ہوتاتھا- پھر اس نے عمر کی کافی خاطر مدارت کی- جب کافی دیر ہوگئی تو اشرف نے پوچھا- “آپ نے اپنی آمد کامقصد اب تک نہیں بتایا”-عمر نے جواب میں کہا- “میں زبیدہ کی گمشدہ امی کو تلاش کرنے کے لیے نکلا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ تم ان کی گمشدگی کے بارے میں سب کچھ جانتے ہو”- عمر کی بات سن کر اشرف کا چہرہ سفید پڑ گیا- وہ کمزور سے لہجے میں بولا- “میں کیا جانوں ان کی گمشدگی کے بارے میں”-اس کی بدلتی ہوئی حالت دیکھ کر عمر سمجھ گیا کہ وہ ضرور کچھ نہ کچھ جانتا ہے- اس نے دھمکی آمیز انداز میں کہا- “اشرف شاید تم مجھے نہیں جانتے- تمہارے لیے یہ ہی بہتر ہے کہ تم مجھے سب کچھ صیحح صیحح بتا دو- کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جس روز زبیدہ کی امی گم ہوئی تھیں، اس روز ایک بوڑھی پری ان کے محل میں آئی تھی”-حالانکہ یہ بات عمر نے محض اندازے کی بنا پر ہی کہہ دی تھی مگر اس کا اشرف پر بہت برا اثر ہوا- اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا- “میں تمہیں سب کچھ بتا دوں گا-مگر یقین کرو میرا اس میں کوئی قصور نہیں ہے- ہوا یوں تھا کہ ایک روز محل میں رات کے وقت ایک بوڑھی پری جس نے اپنا نام گلشن پری بتایا تھا میری مالکن یعنی زبیدہ کی امی سے ملنے کے لیے آء تھی- میرے پیٹ میں شام سے درد ہو رہا تھا- اس لیے میں باغ میں ٹہلنے لگا- زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ میری مالکن کے کمرے میں سے تیز تیز بولنے کی آوازیں آنے لگیں- میں دوڑ کر کھڑکی کی طرف گیا تاکہ دیکھوں کہ کیا معاملہ ہے- وہاں میں نے گلشن پری اور مالکن کو باتیں کرتے دیکھا- گلشن مالکن پر بہت گرم ہو رہی تھی- پھر اس نے نہایت غصّے میں میری مالکن پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور میری مالکن ایک خوبصورت بلی بن گئی-بد قسمتی سے جب گلشن پری پلٹی تو اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی- اس نے مجھے گردن سے پکڑ کر کھڑکی سے اندر گھسیٹ لیا اور آنکھیں نکال کر بولی- “لڑکے تم نے سب کچھ دیکھ لیا ہے- میں خواہ مخواہ لوگوں کو کتا بلی بنانا پسند نہیں کرتی- یاد رکھ اگر تو نے یہ بات کسی سے کہی تو پھر تجھے چھپکلی کابچہ بنا دوں گی- ساری عمر دیواروں اور چھتوں پر دوڑتاپھرے گا”- میں ڈر گیا اور اس سے وعدہ کر لیا کہ میں یہ بات کسی کو نہیں بتاؤں گا- گلشن پری چلی گئی- میں بہت خوفزدہ ہوگیا تھا اس لیے بھاگ کر اپنے کمرے میں چلا آیا اور دروازہ بند کر کے چادر لپیٹ کر چپ چاپ سو گیا- میری مالکن کے شوہر جو پرستان کا شہزادہ تھا، مالکن کی گمشدگی سے بہت پریشان تھا- میں کوشش کے باوجود بھی اسے کچھ نہ بتا سکا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ اگر گلشن پری کو پتا چل گیا کہ میں نے اس کا راز افشا کر دیا ہے تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی- پھر زبیدہ کا باپ اسے کہیں لے کر چلا گیا- میں نے نانبائی کیہاں نوکری کر لی- اپنی مالکن جو کہ اب بلی بن چکی تھی، میں اپنے ساتھ ہی لے آیا تھا- میں اس کے آرام کا ہر طرح سے خیال رکھتا تھا- پھر ایک روز شہزادی کی سالگرہ کا اعلان ہوا- اسے بلی پالنے کا بہت شوق تھا- میں نے سوچا کہ میں اپنی مالکن بلی کو شہزادی کے حوالے کردوں گا تاکہ وہ شہزادی کے پاس ہر طرح کے آرام و آسائش سے رہے-جب میں شہزادی کے پاس پہنچا تو وہ اتنی خوبصورت بلی کو دیکھ کر خوشی سے کھل گئی- اسے میرا تحفہ سب سے زیادہ پسند آیا- بادشاہ نے بھی خوش ہو کر مجھے پندرہ ہزار اشرفیاں انعام میں دیں- یہ تھی وہ کہانی- اب تم خودہی فیصلہ کرلو کہ میں قصوروار ہوں یا نہیں- یہ کہہ کراشرف خاموش ہوگیا- عمر نے کہا- “اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے- اگرتمہیں اپنی جان کا خوف نہ ہوتا تو یقیناً تم یہ بات اپنی مالکن کے شوہر سے نہ چھپاتے- بہرحال خوشی اس بات کی ہے کہ زبیدہ کی امی خیریت سے ہیں- اگر ان پر سے جادو کا اثر ختم ہوجائے تو وہ پھر سے اپنے اصلی روپ میں آجائیں گی- اب مجھے شہزادی سے وہ بلی حاصل کرناپڑے گی”-“مگر یہ کام بہت مشکل ہے”- اشرف نے کہا- “وہ اس بلی سے بہت محبت کرتی ہے- یہ بات تو ناممکن ہے کہ وہ بلی کو سیدھے سادھے طریقے سے تمہارے حوالے کر دے”-“یہ کام خواہ ممکن ہو یا ناممکن- بلی کو ہر حال میں حاصل کرنا پڑے گا”- عمر اٹھتے ہوئے بولا-اشرف کے پاس سے اٹھ کر وہ باہر نکل آیا- وہ سوچ رہا تھا کہ کس ترکیب سے شہزادی سے بلی حاصل کی جائے-پھر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آ ہی گئی- اب اسے رات ہونے کا انتظار تھا- رات ہوئی تو عمر نے جادو کا قالین نکالا اور اس پر بیٹھ کر بادشاہ کے محل کی طرف چل دیا- اس نے فیصلہ کر لیاتھا کہ وہ بلی کو چرا کر لے آئے گا- جادو کے قالین نے اسے محل کی چھت پر اتار دیا- گرمیوں کے دن تھے- اس لیے شہزادی اپنی کنیزوں کے ساتھ چھت پر ہی سو رہی تھی- شہزادی کے برابر ایک بڑے بڑے بالوں والی ایک خوبصورت بلی بیٹھی اونگھ رہی تھی- عمر بڑی خاموشی سے آگے بڑھا اور بلی کو پیچھے سے دبوچ لیا- بلی چونک گئی- اور زور زور سے میاؤں میاؤں کرنے لگی-اس کی آوازیں سن کر پہلے تو شہزادی کی تینوں کنیزیں بیدار ہوئیں اور پھر شہزادی بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی-انہوں نے جو عمر کو اپنے سامنے دیکھا تو ہکا بکا رہ گئیں- عمر اس صورت حال سے گھبرا گیا- وہ اپنے قالین کی طرف بھاگا- شہزادی نے جو اسے اپنی بلی لے جاتے دیکھا تو وہ اپنے پلنگ سے کود کر اس کی طرف لپکی- عمر جلدی سے قالین پر بیٹھ گیا اور قالین چھت سے بلندہونے لگا- شہزادی نے بھی ایک چھلانگ لگائی اور قالین پر آ گئی- اس نے عمر کا گریبان پکڑ لیا اور آنکھیں نکال کر دانت پیس کر بولی- “چور کے بچے- اب بتا میری بلی کو کہاں لے جا رہا تھا؟”-عمر نے جھلا کر کہا- “عجیب لڑکی ہو تم بھی- بلی کے پیچھے پڑی ہو یہ نہیں دیکھتی ہو کہ قالین فضا میں اڑ رہاہے”- اب تو شہزادی کو بھی اپنے اڑنے کا احساس ہوا-گردن جھکا کر نیچے دیکھا اور دانتوں میں انگلی دبا کربولی- “ہائے یہ کیا چکّر ہے- کیا تم کوئی جادوگر ہو؟”-“اگر میں کوئی جادوگر ہوتا تو شکل سے اتنا شریف نظرنہیں آتا”- عمر نے اکڑ کر کہا-شہزادی ناک چڑھا کر بولی- “میں تمھاری شرافت کا یقین کیسے کرلوں- تمھاری چوری تو میں نے پکڑ لی ہے”-پھر اس نے چونک کر کہا- “مگر یہ تم مجھے کہاں لے جارہے ہو- قالین کو روکو ورنہ میں نیچے کود جاؤں گی”-“کود جاؤ گی تو میرا کیا کر لو گی- خود ہی کی ہڈی پسلی ٹوٹے گی”- عمر نے لاپرواہی سے کہا- اس کی بات سن کر شہزادی رونے لگی- عمر نے بیزاری سے کہا- “یہ رونا دھونا بند کردو- میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں تمہارے محل حفاظت سے پہنچا دوں گا- مگر ابھی نہیں کیونکہ ابھی وہاں پر کنیزوں کی چیخ و پکار سن کرسب لوگ جمع ہوگئے ہونگے- خواہ مخواہ میری گردن پھنس جائے گی”-مگر یہ تو بتا دو کہ اب ہم کہاں جا رہے ہیں”- شہزادی نے عاجز ہو کر پوچھا- عمر نے جواب دیا-“ہم لوگ پرستان جا رہے ہیں”- پھر اس نے شہزادی کوتمام کہانی سنا دی کہ کس طرح گلشن پری نے پرستان کے شہزادے سے اپنی بیٹی کی شادی کرنے کے لیے شہزادے کی بیوی کو بلی بنا دیا تھا- یہ بلی اس لڑکے اشرف کے ذریعے شہزادی کے پاس پہنچی اور اب پرستان جا رہی ہے تاکہ اس پر سے جادو کے اثر کو ختم کیا جا سکے-شہزادی بہت حیران نظر آ رہی تھی- اب وہ قطعی ناراض نہیں تھی- اسے خوشی تھی کہ اب پرستان کے بادشاہ کی بیوی اپنی اصلی شکل میں آ جائے گی- تھوڑی دیر بعد وہ لوگ پرستان کی حدود میں داخل ہوگے-عمر نے قالین کو ایک ویران سی جگہ پر اتار لیا- وہ ایک پہاڑی علاقہ تھا- اس نے بلی اور قالین کو ایک غار میں بند کیا، غار کے منہ کو ایک پتھر سے بند کر کے اس نے شہزادی کو ساتھ لیا اور پھر گلشن پری کے گھر کی طرف چل دیا-جب دونوں گلشن پری کے مکان پر پہنچے تو وہ سو رہی تھی- بہت دیر تک دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد اس نے دروازہ کھولا تھا- اس کے چہرے پر ناگواری کے اثرات تھے- کیونکہ اسے نیند سے جگا دیا گیا تھا- مگر جب اس نے عمر کو دیکھا تو وہ خوش ہوگئی- “آؤ آؤ- کہو کیا بات ہے؟”-عمر اور شہزادی اندر داخل ہو گئے- گلشن پری بولی-“میری بیٹی اپنی ممانی کے گھر گئی ہوئی ہے- میں اس وقت گھر میں اکیلی ہی ہوں”-عمر نے کہا- “گلشن پری- میں نے ایک ایسا چکر چلایا ہے کہ بادشاہ تمھاری لڑکی سے شادی پر آمادہ ہوجاے گا- اگرتمھاری بیٹی اس کی بیوی بن گئی تو پھر اس کی قسمت ہی کھل جائے گی- تمہارا تعلق شاہی خاندان سے ہوجائے گا- پورا پرستان تم سے ڈرا کرے گا اور تمہاری عزت کرے گا”- گلشن پری عمر کی باتیں سن کر خوشی سے پھولا نہیں سما رہی تھی- عمر نے پھر کہا- “میں تمہارا اتنا بڑا کام کرا رہا ہوں تو کیا تم میری ایک ذرا سی مشکل بھی حل نہیں کر سکتی ہو؟”-“تم بتاؤ تو سہی- میں ہر طرح سے تمہاری مدد کروں گی”- گلشن پری نے بڑے یقین سے کہا-عمر نے شہزادی کی طرف اشارہ کرتے ہو? کہا- “اس لڑکی کی چھوٹی بہن کو ایک مکّار جادوگرنی نے ہرنی بنادیا ہے- وہ جادوگرنی سب لوگوں کو بہت تنگ کرتی ہے-تم کوئی ایسی ترکیب بتاؤ کہ وہ لڑکی ہرنی سے پھر اپنی شکل میں آجائے اور وہ جادوگرنی بھی لوگوں کو تنگ کرنا چھوڑ دے”- “تم میری مدد پر آمادہ ہو اس لیے میرا بھی فرض ہے کہ میں تمھاری مشکل دور کروں- میرے پاس ایک شیشی میں جادو کا پانی ہے- جب تم اس پانی کو ہرنی پر چھڑکو گے تو وہ اپنی اصلی شکل میں آجائے گی- اس جادوگرنی کوسزا دینے کے لیے میں تمہیں ایک اگر بتی دوں گی- وہ اگربتی میرے نانا نے بڑی دقتوں کے بعد بنائی تھی- اس میں یہ خاصیت ہے کہ اگر اس کا دھواں کوئی جادو جاننے والا سونگھ لے تو ہمیشہ کے لیے جادو بھول جاتا ہے- مگر مہربانی کرکے اس اگربتی کو یہاں جلانے کی کوشش مت کرنا- اگر اس کا دھواں میری ناک میں چلا گیا تو میں نے وہ جادو جو بڑی محنت کے بعد سیکھا ہے، بھول جاؤں گی”-عمر نے سر ہلا دیا اور گلشن پری وہ دونوں چیزیں لینے کے لیے چلی گئی- عمر نے شہزادی سے کہا- “اب کام بن جائے گا- پانی میں زبیدہ کی امی پر چھڑک دوں گا اورپھر اس جادو کی اگر بتی کو چپکے سے گلشن پری کے گھر میں جلا جاؤں گا- وہ تمام جادو بھول جائے گی- اورپھر دوبارہ کسی کو نہیں ستائے گی”- اس کی بات سن کرشہزادی مطمئن انداز میں مسکرانے لگی-زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ گلشن پری وہ دونوں چیزیں وہاں لے آئی- عمر نے شکریہ کے ساتھ دونوں چیزوں کو اپنے قبضے میں کیا اور پھر شہزادی کو ساتھ لے کر وہاں سے روانہ ہو گیا- وہ دونوں وہاں سے سیدھے انہی پہاڑیوں میں پہنچے تھے جہاں پر انہوں نے بلی کو غار میں بند کردیاتھا- وہ غار میں پہنچے تو بلی اپنے پنجوں میں منہ چھپائے سو رہی تھی- عمر نے اسے آہستہ سے اٹھا کرشہزادی کو دیا اور پھر جادو کے قالین کو بغل میں دبا کر غار سے باہر نکل آیا- اب وہ دونوں پرستان کے بادشاہ پرویز کے محل کی طرف جا رہے تھے-جب وہ محل پہنچے تو بادشاہ سو رہا تھا مگر شہزادی اپنی کمرے میں بڑی اداس بیٹھی تھی- اسے اپنی امی بری طرح یاد آ رہی تھیں- عمر کو دیکھ کر اسے بڑی حیرانی ہوئی- وہ جلدی سے بستر سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی-“عمر کیا ہوا؟- میری امی جان کا کچھ پتہ چلا؟- اس نے بڑی بے صبری سے پوچھا اور پھر شہزادی کو پلکیں جھپکا جھپکا کر دیکھنے لگی-عمر نے کہا- “زبیدہ آپ کی امی مل چکی ہیں- آپ جلدی سے جا کر اپنے ابّا کو بلا لائیں”-اس کی بات سنکر زبیدہ کی ہلکی سی چیخ نکل گئی- وہ اسی وقت جا کر بادشاہ کو بلا لائی- بادشاہ آنکھیں ملتا ہواوہاں آیا- اس نے عمر سے کہا- “کیا بات ہے عمر بیٹے؟”-عمر نے جواب دیا- “زبیدہ کی امی کو میں تلاش کر لایاہوں”- “مگر وہ ہے کہاں؟”- بادشاہ نے تعجب سے چاروں طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا-“وہ ابھی آپ کے سامنے آجائیں گی”- عمر نے اطمینان سے کہا- “ان کی گمشدگی میں گلشن پری کا ہاتھ تھا- وہ اپنی بیٹی کی شادی آپ سے کرنا چاہتی تھی- اس لیے آپ کی بیوی کو اس نے بلی بنا دیا تھا- یہ بلی جو آپ دیکھ رہے ہیں، آپ کی بیوی صاحبہ ہی ہیں”-زبیدہ نے لپک کر شہزادی کی گود سے بلی کو لے لیا اوراسے اپنے سے چمٹا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی-عمر نے آگے بڑھ کر اس سے بلی لے کر اسے زمین پررکھ دیا- بادشاہ بھی پھٹی پھٹی نظروں سے بلی کو دیکھ رہا تھا- عمر نے گلشن پری کی دی ہوئی شیشی میں سے پانی نکال کر اسے بلی پر چھڑکا اور بلی اسی وقت انسانی روپ میں آگئی- زبیدہ اپنی ماں سے لپٹ گئی- بادشاہ کی خوشیوں کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں رہا اور اس کا چہرہ مسرت سے چمکنے لگا- زبیدہ کی ماں عذرا نے کہا- “خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے میرے شوہر اور بیٹی سے دوبارہ ملوا دیا، ورنہ میں تو بالکل مایوس ہوگئی تھی”- پھر اس نے بادشاہ کے کہنے پر اپنی کہانی سنائی- اس نے کہا- “اس روز میں اپنے کمرے میں تھی کہ ایک بوڑھی پری اندر داخل ہوئی-اس کے چہرے پر غصّے کے آثار تھے- اس نے کہا کہ میری وجہ سے اس کی بیٹی کی شادی پرویز سے نہیں ہوسکی- اس لیے اگر میں اپنی خیریت چاہتی ہوں تو اسی وقت یہ محل چھوڑ کر کہیں دور نکل جاؤں- میں نے کہاکہ میں اپنے شوہر کا گھر چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی-میری اس بات سے وہ مشتعل ہوگئی اور اس نے مجھے جادو سے بلی بنا دیا-بادشاہ کی آنکھیں غصّے سے سرخ انگارہ ہوگئیں- اس نے نہایت قہر آلود لہجے میں کہا- “میں اس گلشن پری کو زندہ نہیں چھوڑوں گا- اسے ایسی عبرت ناک سزا دوں گا کہ وہ زندگی بھر یاد رکھے گی”-عمر نے جلدی سے آگے بڑھ کر کہا- “جہاں پناہ- آپ کوآپ کی کھوئی ہوئی بیوی مل گئی ہیں- گلشن پری کی اس حرکت کو درگزر فرما دیجئے- اس کے لیے کیا اتنی ہی سزا کافی نہیں کہ اس نے جو جادو بڑی محنت اور توجہ سے سیکھا تھا وہ اسے بھول جائے”-“وہ اسے کیسے بھول سکتی ہے؟”- بادشاہ نے حیرت سے کہا- “دراصل وہ بوڑھی پری میرے پاس آء تھی کہ میں آپ کواس کی بیٹی سکے شادی کرنے پر مجبور کروں- مجھے چونکہ اس پر شک ہوگیا تھا اس لیے میں نے واپس اپنی دنیا میں جا کر اس بات کا پتہ چلا لیا تھا کہ گلشن پری نے آپ کی بیوی کو بلی بنا دیا تھا- میں اور میرے ملک کی شہزادی اس بلی کو لے کر پرستان میں آ گئے- میں نے چالاکی سے کام لیتے ہو? بوڑھی پری کو ایک فرضی کہانی سنائی کہ شہزادی کی چھوٹی بہن کو ایک جادوگرنی نے ہرنی بنا دیا ہے- تم کچھ مدد کرو- گلشن پری مجھ سے بہت خوش ہوی تھی- اس نے مجھے جادو کا پانی دیاتھا اور ایک اگر بتی دی- جادو کے پانی کا کرشمہ آپ نے دیکھ ہی لیا ہے اور اگر بتی کے متعلق گلشن پری نے یہ بتایا تھا کہ اگر اس کا دھواں کوئی جادو جاننے والا سونگھ لے تو ہمیشہ کے لیے اپنا تمام جادو بھول جاتا ہے- میں اب گلشن پری کے گھر جا رہا ہوں- وہ اپنی خواب گاہ میں سورہی ہوگی- میں یہ جادو کی اگربتی وہاں جلا کرآجاؤں گااور وہ سوتے ہو? ہی اس کا دھواں سونگھتی رہے گی-جب صبح ہو گی تو وہ اپنا سارا جادو بھول جائے گی”-عمر کی بات سن کر سب لوگوں نے بڑی خوشی کا اظہارکیا- عمر چلا گیا- بادشاہ نے اپنی بیوی عذرا سے کہا- “یہ نوجوان بہت عقلمند ہے- اس نے بہت تھوڑے عرصے میں وہ کام کر دکھایا ہے جو ہم سب مل کر دو سال میں بھی نہ کرسکے”- ملکہ اس کی بات سن کر بولی- “میں نے اپنی پوری زندگی میں عمر جیسا خوبرو اور ذہین لڑکا نہیں دیکھا- میں نے تو فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اپنی بیٹی زبیدہ کی شادی عمرسے کروں گی”- زبیدہ اس کی بات سن کر شرما گئی اور شہزادی کو اپنے ساتھ لے کر وہاں سے چلی گئی- بادشاہ زیر لب مسکرانے لگا-اس رات شہزادی زبیدہ کے محل میں رہی- دوسرے دن اس نے پورے پرستان کی سیر کی اور پھر رات کو زبیدہ کی ماں عذرا نے اسے ڈھیر سارے تحفے دے کر اسے عمرکے ساتھ واپس اس کے محل بھیج دیا- شہزادی کی گمشدگی نے وہاں ایک ہنگامہ برپا کر رکھا تھا- مگر جب شہزادی وہاں پہنچی تو سب کے دم میں دم آیا- شہزادی نے اپنی کہانی اپنے ماں باپ کو سنائی اور پرستان سے لائے ہوئے تحفے انھیں دکھا?- اس کے ماں باپ اس کی واپسی سے بہت خوش تھے- انہوں نے عمر کی خوب خاطر مدارات کی- اسی رات عمر دوبارہ پرستان روانہ ہو گیا- جادو کا قالین اسے بڑی تیزی سے زبیدہ کے محل کی طرف اڑائے چلاجا رہا تھا- تھوڑی دیر بعد وہ پرستان پہنچ گیا-بادشاہ پرویز اور ملکہ عذرا نے عمر کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردیا کہ وہ اس کی شادی اپنی بیٹی زبیدہ سے کرناچاہتے ہیں- عمر نے ان کے فیصلے کے آگے سر جھکادیا-چند روز بعد عمر کی شادی پرستان کی شہزادی زبیدہ سے ہوگئی- بادشاہ نے ان کا محل اپنے محل کے برابر میں ہی بنوا دیا تھا- یوں ایک معمولی سپاہی اپنی ذہانت اور بہادری کی بنا پر پرستان کی شہزادی سے شادی کر کے ایک ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگا-
ختم شد