میری اداسی پر مت جانا دوستو
میں بس کردار نبھا رہا ہوں میں
کئی رشتوں میں ڈوبا شخص
جانے کون سی سزا پا رہا ہوں میں
بغیر محبت کے انسان مکمل نہیں ہوتا
پھر کیوں نفرتوں کا گمان پا رہا ہوں میں
ایک کے بعد ایک ضرب لگ رہی ہے مجھے
لگتا ہے جیسے میں ترقی کی راہ پر آ رہا ہوں میں
چلے آؤ اب بنائی بھی جا چکی ہے میری
کوئی دکھاؤ مجھے وہ رستہ جہاں جا رہا ہوں میں
جو چھوڑ جائیں ان کو ڈھونڈا نہیں کرتے کبھی
جانے والا تو کہتا ہے کہ بس جا رہا ہوں میں
اس زندگی کے غم سے نجات ملنے کو ہے
طبیب کہتا ہے اس دنیا سے جا رہا ہوں میں
سبھی آئے ہیں خالی ہاتھ منہ لٹکائے
اپنی میت خود ہی سجا رہا ہوں میں
عبدالمنیب
Visited 10 times, 1 visit(s) today
Last modified: June 6, 2024