Written by 7:18 pm شاعری

میں سب آزمائشیں پار کرنے چلا تھا

میں سب آزمائشیں پار کرنے چلا تھا
میں تجھ سے پیار کرنے چلا تھا

وقت کی آندھی نے بجھایا ہے چراغ میرا
ورنہ جنگل تو میں پار کرنے چلا تھا

چلا تھا میں آگ کے سرخ شعلوں پر
میں ایک جھیل کو پار کرنے چلا تھا

میں بس محبت میں ہی تو ہارا ہوں
میں دنیا کو آباد کرنے چلا تھا

محبت میں کہانی کشتی کی نہیں سناتے
دریا تو گڑھا پار کرنے چلا تھا

مجھ کو شام کا منظر بھا گیا اک دن
میں راتوں کا انتظار کرنے لگا تھا

کیا خوب گفتگو ٹھہری میری چاند سے
چاند بھی مجھ سے بات کرنے لگا تھا

میں تجھ کو سوچوں تو غزل اترتی ہے کاغذ پر
بن گیا شاعر خود کو مصور کرنے چلا تھا

Visited 9 times, 1 visit(s) today
Last modified: June 6, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!