میں مستقبل تو نہیں
مگر تیرا حال جانتا ہوں
حال بھی ایسا کہ
کمال جانتا ہوں
مجھے علم ہے تیری سحر و شب کا
میں تیری ہجرت کے وہ ایام جانتا ہوں
تیری وہ تلخ لہجے ماضی کے
میں اپنی اوقات خوب جانتا ہوں
مجھے اپنا تو کچھ بھی یاد نہیں
تجھے میں تجھ سے زیادہ جانتا ہوں
اپنے بھٹکے قافلے سے کہو کہ رک جائے
میں اس صحرا کے رستے خوب جانتا ہوں
میرے دل میں مر گئی محبت میری
منیب میں اپنے دل کو قبر مانتا ہوں
عبدالمنیب
Visited 11 times, 1 visit(s) today
Last modified: April 18, 2024