میں تیرا غم خوار بھی تو نہیں ہوں
میں تیرے دریچے سے خالی لوٹا
میں تیرا رازدار بھی تو نہیں ہوں
صحرا ساز ہوائیں چلیں تھی جنگل میں
میں ندی کے پاس بھی تو نہیں ہوں
ہر کسی سے بچھڑ جاتا ہوں میں یقینا
مرواتا غم سے بچھڑتا بھی تو نہیں ہوں
میری دہلیز پر آخر کیوں نہیں آتا کوئی
میں غم کا پرستار بھی تو نہیں ہوں
تیرے آنگن سے نکلالا گیا رقابت میں
خیر اب اتنا بھی بیکار نہیں ہوں
ہر روز آتی ہے تیری یاد مجھے
تیری یاد کا پرستار بھی تو نہیں ہوں
میرے حصے میں شہزادی کو لکھ دیا گیا
اور میں بادشاہت کا طلب گار بھی نہیں ہوں
سنہرے خواب جلاتے ہیں میرے آنگن کے چراغ
پروانہ ہوں تو دیپ میں جلتا بھی تو نہیں ہوں
اس کو پانے کی جنگ میں کئی بزدل نکلے
میں بہادر ہو کر گھر سے نکلتا بھی نہیں ہوں
عجب کیفیت ہوتی ہے اس وقت میری منیب
اسے دیکھ کر پلٹتا کر دیکھتا بھی نہیں ہوں
عبدالمنیب