غالب برہان وانی
ورنہ کیا کیا نہیں کہ تم سے کہیں
وہ ہمارا نہیں کہ تم سے کہیں
یہ بھی اچھا نہیں کہ چپ بیٹھیں
یہ بھی اچھا نہیں کہ تم سے کہیں
بات یہ ہے کہ کچھ دنوں سے چین
ہم کو آتا نہیں کہ تم سے کہیں
لاکھ چاہے گا دل کہیں تم سے
ہم سے ہوگا نہیں کہ تم سے کہیں
جو خلا ہے تمہارے بعد کا دوست
اب بھرے گا نہیں کہ تم سے کہیں
ہم کو جانا ہے اک سفر پر اور
لوٹ آنا نہیں کہ تم سے کہیں
عشق ہے تم سے مانتے ہیں ہم
دل دوانہ نہیں کہ تم سے کہیں
ہم نے اب کے یہیں پہ رہنا ہے
بھاگ جانا نہیں کہ تم سے کہیں
نام پر اُس کے یہ ہمارا دل
اب دھڑکتا نہیں کہ تم سے کہیں
راس آتا ہے ہم کو رقصِ جنوں
راس لیلا نہیں کہ تم سے کہیں
دیکھتے ہیں تمہارے خالی کان
اور جھمکا نہیں کہ تم سے کہیں
کچھ دنوں سے ہمارے من میں بھی
کچھ بھی ہوتا نہیں کہ تم سے کہیں
تم سے کہنا ہمارے حق میں کبھی
کام آتا نہیں کہ تم سے کہیں
حالِ دل کہنا تم سے لازم ہے
کار فرما نہیں کہ تم سے کہیں
چاہتے ہیں کئی طرح سے تمہیں
ایک رشتہ نہیں کہ تم سے کہیں
درد ہوتا ہے ہم کو بھی وانی
لیکن اتنا نہیں کہ تم سے کہیں