عبدلمنیب
وہم کے سائے دل پہ چھائے ہوئے ہیں
خواب سب جیسے دھندلائے ہوئے ہیں
ہر اک قدم پر ہے بے یقینی کا عالم
راستے خود سے گھبرائے ہوئے ہیں
حقیقتوں کا عکس ہے یا کوئی فریب
آنکھوں میں منظر لرزائے ہوئے ہیں
سوچوں کے در پہ دستک دے رہی ہے
باتیں جو دل میں دبائے ہوئے ہیں
کبھی خوشی کا گمان ہوتا ہے
دکھ بھی ساتھ مسکرائے ہوئے ہیں
وہم کا پردہ اتارے تو جانیں منیب
ہم جو خود کو چھپائے ہوئے ہیں
Visited 10 times, 1 visit(s) today
Last modified: October 14, 2024