وہ رستہ بدل گیا ہے
ہر حد سے گزر گیا ہے
اب تنہا کھڑا ہوں اس موڑ پر
جانے کس راہ سے گزر گیا ہے
دل بے چین رہتا ہے میرا اکثر
میرا سکون چوری کر گیا ہے
خوابوں سے اب گلہ کیسا
میری نیندوں میں اتر گیا ہے
میری مسکراہٹ کو دوش مت دو
وہ خود میرے دل سے نکل گیا ہے
سناٹے کا اب عالم یہ ہے
دل خاموشی سے لڑ گیا ہے
کوئی تیر یا تلوار نہیں لگی مجھے
جسم مگر زخموں سے بھر گیا ہے
میں بس سسکتا رہتا ہوں ہر وقت منیب
اور یہ کنواں آنسوؤں سے بھر گیا ہے
عبدالمنیب
Visited 10 times, 1 visit(s) today
Last modified: July 1, 2024