Written by 8:41 am ڈراؤنی کہانیاں, ناولز

پلمبر

2:پارٹ

روشن پانی پینے کے بعد تیزی سے لمبے لمبے سانس لے رہا تھا جبکہ اس دوران پلمبر سمت سب لوگ روشن کی طرف حیرت انگیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اتنے میں شاکر بابا نے روشن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیوں وہ وہاں تھی نا۔۔۔۔؟؟ روشن نے ہانپتے ہوئے شاکر بابا کی طرف دیکھتے ہوئے بنا بولے دو تین بار ہاں میں سر ہلا دیا ۔ اس دوران شوکی اور جھورا روشن کے کاندھوں کو دبا رہے تھے۔ اتنے میں پلمبر نے نعیم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے اسے کیا ہوا یہ تو سو گیا ہے۔۔؟؟ شاکر بابا نے کہا یہ سویا نہیں بے ہوش ہو گیا ہے ہم اسے یہاں سے باہر نہیں لے جا سکتے کیونکہ ان درختوں کے کٹ جانے کے بعد ہم سب اس چیز کے جانی دشمن بن چکے ہیں اور ابھی تک میرے عمل کی وجہ سے وہ ہم پر زیادہ حملہ نہیں کر رہی کیونکہ اس جگہ پر میرا عمل اس کو روک رہا ہے لیکن جیسے ہی ہم یہاں سے باہر جائیں گے عمل کا اثر ختم ہو جائے گا اور وہ ہم پر حملہ آور ہو جائے گی کیونکہ اس وقت وہ پوری طرح سے غصیلے اندر میں ہم پر حملہ کرنے کی سوچ رہی ہے لیکن دن کی روشنی ہمارے لیئے سب سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے اسی لیئے شام سے پہلے ہمیں اس عمل کو مکمل کر کے اس چیز کو یہاں سے بھگا دینا ہے۔ شوکی چلو جلدی سے مشین سٹارٹ کرو اور یہ باقی دو درخت بھی کاٹ ڈالو۔ یہ سن کر شوکی نے ڈرتے ہوئے کہا لیکن شاکر بابا۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ یہ سنتے ہی شاکر نے کہا فکر مت کرو میں تمہارے ساتھ کھڑا رہوں گا تم جلدی سے درخت کاٹو۔۔ یہ سنتے ہی شوکی نے جلدی سے مشین سٹارٹ کی اور درخت کو کاٹتے ہوئے بار بار اپنے دائیں بائیں دیکھ رہا تھا تو شاکر بابا نے کہا ارے ڈرو مت جلدی سے کاٹو اسے۔۔ یہ سنتے ہی شوکی نے ہاں میں سر ہلایا اور درخت کاٹ دیا اس کے بعد آخری درخت بھی شوکی نے کاٹ دیا پھر شاکر بابا نے کٹے ہوئے درختوں کی جگہ پر کالی سی بوتل والا پانی چھڑک دیا اس کے بعد شوکی روشن اور جھورے نے سارے درختوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر ڈالے اسی دوران رفیق اور ببی بھی واپس آ گئے رفیق نے نعیم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے اسے کیا ہو گیا۔۔ تو پلمبر نے رفیق کو وہ سب کچھ بتایا جو رفیق کے جانے کے بعد ہوا تو رفیق نے ببی سے کہا یار اسے بھی ہسپتال چھوڑ کر آنا پڑے گا۔ ببی نے کہا پہلوان پہلے شاکر بابا سے پوچھ لو یہ نہ ہو کہ کہیں ہم اسے باہر لے کر جائیں تو ہم کسی مصیبت میں پڑ جائیں۔ یہ سنتے ہی رفیق نے شاکر بابا سے نعیم کو ہسپتال لے جانے کے بارے میں پوچھا تو شاکر بابا نے کہا ہاں اب تم اس کو لے جا سکتے ہو خطرہ ٹل گیا ہے اب وہ چیز یہاں سے بھاگ گئی ہے۔ یہ سنتے ہی رفیق نے نعیم کو ببی کے ٹرک میں ڈالا تو شاکر بابا نے رفیق سے کہا پہلوان اب تم یہیں رکو روشن ببی کے ساتھ نعیم کو لے جائے گا یہ سن کر رفیق نے کہا جی ٹھیک ہے پھر شاکر نے ببی سے کہا کہ ہسپتال سے واپسی پر دو تین ٹرک اور کچھ مزدور مذید لے آئے تاکہ ان کٹے ہوئے درختوں کو ٹھکانے لگایا جا سکے ۔ یہ سنتے ہی ببی نے ہاں میں سر ہلایا پھر روشن ببی کے ساتھ نعیم کو ہسپتال لے گیا  پھر شاکر نے رفیق سے کہا پہلوان اب میں نے اسے بھگا دیا ہے لیکن ایک بار میں رات میں یہاں آ کر اس ساری جگہ پر مذید عمل کروں گا تاکہ وہ چیز کبھی دوبارہ یہاں نہ آسکے۔ یہ سن کر رفیق نے کہا شاکر بابا تو کیا اب وہ دوبارہ بھی یہاں آسکتی ہے؟؟ شاکر بابا نے کہا ہاں وہ ایک بار رات میں یہاں کا چکر ضرور لگائے گی لیکن یہاں پھر سے بسیرا نہیں کر سکے گی۔ یہ کہہ کر شاکر جھورے اور شوکی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور رفیق پلمبر کے ساتھ باتیں کرنے لگا دن ڈھل رہا تھا کہ ببی کچھ ٹرک اور کچھ مزدور کے ساتھ رفیق کے گھر آیا اور سب نے مل کر ان کٹے ہوئے درختوں کے ٹکڑوں کو ٹرکوں میں لوڈ کیا پھر شاکر بابا نے کہا ان لکڑیوں کسی ٹمبر والے کے پاس بیچ ڈالو اور جو پیسے بنے گے اسے سب آپس میں بانٹ لینا یہ کہتے ہوئے شاکر بابا نے مذید کچھ پیسے سب لوگوں کو دیئے جو بھی کام کرنے آئے تھے اور پھر جب سب وہاں سے چلے گئے تو شاکر بابا نے رفیق سے کہا جناب اب آپ مجھے ستر ہزار گیارہ روہے دے دو اب میں رات میں آخری عمل کروں گا اس کے بعد آپ اس جگہ کو جیسے چاہو بیچ دینا۔ یہ سنتے ہی رفیق نے ستر ہزار گیارہ روپے شاکر بابا کو دے دیئے تو شاکر بابا نے کہا اب مجھے آپ نے بیس ہزار مذید ادا کرنے ہیں۔ یہ سنتے ہی رفیق نے حیرانی سے شاکر بابا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا پر بابا آپ نے تو ستر ہزار گیارہ روپے کی بات کی تھی۔۔ اب یہ بیس ہزار کیوں مانگ رہے ہیں۔۔۔؟؟ شاکر بابا نے کہا پہلوان تم مجھے اتنے بیوقوف لگتے نہیں ہو جتنا تم بننے کی کوشش کر رہے ہو کیا تمہیں نظر نہیں آیا کہ ٹرک والوں اور مزدوروں کو بیس ہزار میں نے اپنی جیب سے ادا کیئے تھے وہ کون دے گا۔ یہ سنتے ہی پلمبر جو پہلوان کے ساتھ کھڑا تھا اس نے کہا شاکر بابا وہ تمہارے لوگ تھے تو انہیں پیسے بھی تمہی نے دینے تھے نا۔۔۔؟؟ تو اس میں پہلوان مذید پیسے کیوں دے گا۔ یہ سنتے ہی شاکر نے کہا ارے تم کون ہوتے ہو بیچ میں بولنے والے۔۔ تمہیں کل بھی سمجھایا تھا ان کاموں میں پیسے لگتے ہیں مفت میں نہیں ہوتے ۔ اگر پہلوان مجھے بیس ہزار مذید نہیں دے گا تو میں باقی کا عمل نہیں کروں گا ۔ یہ سنتے ہی رفیق نے کہا ارے شاکر بابا آپ ناراض مت ہوں میں آپ کو بیس ہزار اور دے دونگا جب آپ رات میں آئیں گے۔ یہ سن کر شاکر نے کہا ٹھیک ہے دن کا عمل مکمل ہوا۔ اب میں رات میں آؤں گا اور اس چیز کو یہاں ہمیشہ کے لیئے بھگا ڈالوں گا۔ یہ کہہ کر شاکر بابا نے اپنا سامان اٹھایا اور وہاں سے چلا گیا اس کے جاتے ہی پلمبر نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا لالچی کہیں کا اپنے علم کو بیچتا ہے یہ مانا اس کے پاس علم ہے لیکن اس کے دل میں لالچ ہے اسے لوگ ہمیشہ کبھی خوش نہیں رہتے۔ یہ سن کر پہلوان نے کہا ارے چھوڑو اسے دیکھو اتنا بڑا کام کر دیا ہے اس نے ۔ اور میں نے اپنے بیٹے طارق سے کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے باس سے بولے یہ جگہ ہم بیچ رہے ہیں۔ تو وہ خرید لے گا کیونکہ انہیں ایک کارخانہ بنانا ہے۔ یہ سن کر پلمبر نے کہا چلیں ٹھیک ہے پہلوان جی آپ یہ دیکھ لیں میں نے بھی اپنا کام پورا کر دیا ہے جو بھی چیک کرنا ہے آپ کر لیں کیونکہ ابھی تو میں یہیں ہوں رات کو میں کچھ ٹھیک کرنے نہیں آؤں گا آپ کو تو پتا ہے میری حالت خراب ہو جاتی ہے اور آج تو دن میں بھی یہ سب دیکھ کر ڈر لگ رہا تھا وہ تو آپ نے بولا تو میں یہاں رک گیا تھا ورنہ میں تو اسی وقت بھاگ جاتا جب کسی چیز نے اس مزدور کو گلے سے پکڑ لیا تھا۔ رفیق نے کہا ہاں اچھا ہی ہوا جو میں یہاں نہیں تھا ورنہ میری حالت بھی خراب ہو جاتی ابھی پہلوان پلمبر سے بات کر ہی رہا تھا کہ اتنے میں ممتاز ببی نے پہلوان کو کھانے کے لیئے دور سے آواز دی تو پہلوان نے پلمبر سے کہا چلو یار اب کھانا کھاتے ہیں پلمبر نے کہا بہت شکریہ لیکن اب مجھے گھر جانا ہے کچھ اور کام بھی کرنے ہیں تو پہلوان نے اسے مذید کچھ پیسے دیئے جو پلمبر نے نہیں لیئے اور چلا گیا اور پہلوان کھانے کے لیئے چلا گیا ۔ پھر پہلوان نے ممتاز بی بی کو وہ سب کچھ بتایا جو جو شاکر بابا نے کیا اور کہا۔ جسے سن کر ممتاز نے کہا الله الله باہر اتنا کچھ ہو رہا تھا اور ہمیں پتا ہی نہیں چلا کیونکہ جب میں باہر نکلی تو میں نے ایک جھلک دیکھا تھا کچھ لوگ گیٹ کے پاس درختوں کو کاٹنے میں لگے ہوئے تھے لیکن آپ وہاں موجود نہیں تھے اسی لیئے میں اور سونیا دوبارہ کمرے سے باہر ہی نہیں نکلے یہ تو اچھا ہے کہ میں نے کھانا صبح ہی بنا لیا تھا ۔ رفیق نے کہا سونیا کہاں ہے۔۔ اس نے کھانا کھا لیا کیا ؟؟ ممتاز نے کہا ہاں ہم نے تو کب سے کھانا کھا لیا تھا اور سونیا کو شاید میں نے باتھ روم جاتے ہوئے دیکھا ہے ۔ رفیق نے کہا اچھا وہ پانی وغیرہ تو ٹھیک سے آرہا ہے نا اب۔۔۔؟؟ ممتاز نے کہا ابھی چیک نہیں کیا میرے خیال سے نلکا تو لگ گیا ہے کچن میں ابھی دیکھ لیتی ہوں آپ آرام سے کھانا کھا لیجئے ۔ یہ کہتے ہوئے ممتاز باہر کچن میں چلی گئی اور کچھ ہی دیر میں اچانک ممتاز کے چیخنے کی آواز سنائی دی جسے سنتے ہی پہلوان فوراً کھانا چھوڑ کر باہر کچن کی طرف بھاگا اور جیسے ہی پہلوان کچن میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ممتاز ڈرتی ہوئی حالت میں ایک سائیڈ پر کھڑی نلکے کو دیکھ رہی تھی اور نلکے سے پانی بہہ رہا تھا تو رفیق نے ممتاز سے کہا کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے۔۔؟؟ ممتاز نے رفیق کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور ویسے ہی ساکت حالت میں کھڑی رہی۔۔ یہ دیکھتے ہوئے پہلوان نے ممتاز کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ہلاتے ہوئے کہا کیا ہوا۔۔۔؟؟ اسی وقت ممتاز نے چونکتے ہوئے رفیق کی طرف پھٹی ہوئی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ سے نلکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔  خون۔۔۔؟؟ ۔۔۔ وہ۔۔۔ نلکے میں خون۔۔۔ یہ سن کر پہلوان نے حیرانی سے پہلے ممتاز کی طرف دیکھا اور پھر نلکے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا خون۔۔۔۔؟؟ کیسا۔۔۔ خون۔۔۔ یہ کہتے ہوئے پہلوان نلکے کے پاس گیا ممتاز کی طرف دیکھتے ہوئے بولا کہاں ہے خون۔۔۔؟؟ ممتاز نے ڈرے ہوئے انداز میں کہا ۔۔وہ۔۔۔ابھی۔۔۔ابھی۔۔ نلکے سے خون نکل رہا تھا ۔ یہ سن کر پہلوان نے کہا ارے یہ تو پانی ہے دیکھو۔۔۔ یہ کہتے ہوئے پہلوان نے نلکے سے بہتے ہوئے پانی کے نیچے ہاتھ رکھ کر ممتاز سے کہا آؤ یہاں دیکھو۔۔ یہ پانی ہے۔ یہ دیکھ کر ممتاز آہستہ آہستہ سے پہلوان کی طرف گئی اور پانی کو دیکھ کر بولی۔۔ یہ۔۔۔ پانی ہے۔۔ لیکن ابھی تو اس میں سے گاڑھے رنگ کا کالا سا خون نکل رہا تھا۔۔ میں سچ کہہ رہی ہوں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ابھی اس نلکے سے خون نکل رہا تھا۔۔ یہ سن کر پہلوان نے کہا ارے وہ تمہارا وہم ہوگا درصل  مجھے لگتا ہے غلطی میری ہی ہے مجھے تمہیں وہ سب کچھ نہیں بتانا چاہیئے تھا جو کچھ آج ہوا۔ یہ انہیں باتوں کا اثر ہے کہ تمہیں وہم ہو گیا ہے اور تم ڈر گئی ہو۔ یہ کہتے ہوئے اچانک پہلوان نے باتھ روم کی طرف دیکھا تو   سونیا واشروم سے نکل کر پہلوان اور ممتاز کی طرف آتی ہوئی دکھائی دی اسے دیکھتے ہی پہلوان نے کہا ارے اس لڑکی کو میں کتنی بار بولا ہے ننگے سر کھلے آسمان تلے مت نکلا کرو لیکن یہ سنتی ہی نہیں اوپر سے شام ہو رہی ہے پتا نہیں کب اسے عقل آئے گی ۔۔ یہ کہنے کے بعد پھر پہلوان نے ممتاز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا دیکھو سونیا آرہی ہے اور جو کچھ بھی ہوا  اسے کچھ مت بتانا ورنہ وہ بھی ایسے ہی ڈرتی رہے گی ٹھیک ہے ۔۔۔؟؟ یہ سن کر ممتاز نے ہاں میں سر ہلایا دیا ۔ رفیق نے کہا ویسے بھی بس وہ تمہارا وہم ہی تھا اور کچھ نہیں یہ کہتے ہوئے اچانک رفیق نے سونیا کی طرف دیکھا تو سونیا رفیق اور ممتاز کے پاس آتی ہوئی اچانک کٹے ہوئے درختوں کی طرف چلی گئی یہ دیکھ کر رفیق نے اسے دور سے آواز دیتے ہوئے کہا ارے وہاں کیوں جا رہی ہو۔۔۔سونیا۔۔۔۔۔۔؟؟ لیکن سونیا نے رفیق کی طرف دیکھا بھی نہیں اور اسی جگہ پر جا کر کھڑی ہو گئی یہ دیکھ کر رفیق نے کہا ارے یہ لڑکی بھی نا۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے رفیق سونیا کی طرف بڑھا ہی تھا کہ اچانک پیچھے سے سونیا کی آواز آئی جی ابو۔۔۔۔۔؟؟ یہ سنتے ہی رفیق نے اور ممتاز نے پلٹ کر دیکھا تو دونوں کے ہوش ہی اڑ گئے کیونکہ سونیا اپنے کمرے کے باہر کھڑی رفیق اور ممتاز کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ اس دوران رفیق اور ممتاز حیرانی سے سونیا کی طرف دیکھ رہے تھے  پھر  اسی وقت ممتاز اور رفیق نے دوبارہ درختوں والی جگہ پر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا یہ دیکھ کر ممتاز اور رفیق ایک دوسرے کی طرف حیران کن نظروں سے دیکھا پھر سونیا کی طرف دیکھنے لگے تو سونیا نے مسکراتے ہوئے کہا ارے آپ لوگ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں کیا کچھ ہوا ہے۔۔؟؟ رفیق نے کہا بیٹی کیا تم ابھی باتھ روم گئی تھی۔۔۔ سونیا نے کہا نہیں ابو میں تو سو رہی تھی وہ تو اچانک آپ لوگوں کی آوازیں سن میری آنکھ کھلی تو میں باہر آئی ہوں لیکن ہوا کیا ہے۔۔؟؟ یہ سن کر رفیق نے ممتاز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تم نے تو کہا تھا کہ سونیا باتھ روم گئی ہے۔۔؟؟ ممتاز نے کہا ہاں جب میں کچن سے برتن لینے گئی تھی تو میں نے اسے باتھ روم کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ سن کر سونیا نے کہا پر امی میں تو سو رہی تھی باتھ روم تو میں گئی ہی نہیں۔۔ لیکن آپ لوگ مجھے بتا کیوں نہیں رہے آخر ہوا کیا ہے۔۔۔؟؟ یہ سن کر رفیق نے بات کو گول کرتے ہوئے کہا ارے نہیں نہیں بیٹی کچھ نہیں ہوا وہ بس تمہاری امی کو تھوڑا وہم ہو گیا تھا کہ اس نے تمہیں باتھ روم جاتے ہوئے دیکھا ہے بس اور کچھ نہیں ہوا۔ سونیا نے کہا او۔۔۔ ابو۔۔ جیسے آپ نے مجھے آواز دی تھی میں تو تو ڈر ہی گئی تھی کہ پتا نہیں کیا ہو گیا ہے ۔یہ کہتے ہوئے اچانک سونیا نے کٹے ہوئے درختوں کی جگہ کو دیکھ کر بولی ویسے ابو دیکھو ان درختوں کے بغیر ہمارا صحن کتنا خالی خالی لگ رہا ہے ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے گھر میں کوئی کھیل کا میدان بن گیا ہے ۔ اتنے میں ممتاز نے کہا اچھا اچھا اب چھوڑو یہ سب باتیں   اندر چلو مغرب کا وقت ہو رہا ہے یہ سنتے ہی ممتاز اور باقی لوگ کمرے میں چلے گئے۔ سونیا واپس اپنے کمرے میں چلی گئی اور پہلوان کھانے کے سامنے بیٹھ کر کسی سوچ میں پڑ گیا۔۔ یہ دیکھ کر ممتاز نے کہا اب آپ کو کیا ہو گیا ہے کھانا کیوں نہیں کھا رہے۔۔؟؟ رفیق نے کہا میں یہ سوچ رہا ہوں اگر وہ سونیا نہیں تو پھر کون تھی اور اچانک کہاں چلے گئی جبکہ ہم دونوں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ممتاز نے کہا دیکھا نا مجھے بھی ایسے ہی خون نظر آیا تھا لیکن آپ کہہ رہے تھے کہ وہ سب میرا وہم تھا۔ مجھے تو لگتا ہے ابھی بھی کوئی چیز یہاں موجود ہے جو یہ سب کر رہی ہے ۔ رفیق نے کہا لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا  کہ شاکر بابا نے تو کہا تھا کہ اس نے ان چیزوں کو یہاں سے بھگا دیا ہے اور وہ رات میں آخری بار ہمارے گھر کا چکر لگائیں گی لیکن یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے تو مجھے بھی یہی لگ رہا ہے کہ جیسے وہ چیزیں یہاں سے گئی ہی نہیں ہیں۔ یہ سن کر ممتاز نے کہا مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے کہیں ہم نے ان درختوں کو کٹوا کر کوئی غلطی تو نہیں کر دی۔۔؟؟ رفیق نے کہا پتہ نہیں لیکن اب بس شاکر بابا آکر ہی کچھ کرے گا اسی کا انتظار ہے دعا کرو کہ وہ وقت پر آ جائے ۔ ممتاز نے کہا اچھا آپ طارق سے  کچھ بات کر رہے تھے اس جگہ کے متعلق۔۔؟؟ رفیق نے کہا ہاں میں نے اسے کام پر جاتے ہوئے کہا تھا کہ اپنے باس سے اس جگہ کے بارے میں بات کرے اب وہ واپس آئے گا تو پتہ چلے گا کیا بنا۔۔ ابھی ممتاز اور رفیق یہ باتیں کر رہے تھے کہ اچانک دروازے کی گھنٹی بجی جسے سنتے ہی رفیق نے کہا مجھے لگتا ہے طارق آگیا ہے یہ کہتے ہوئے پہلوان جلدی جلدی قدم بڑھاتا ہوا باہری گیٹ پر گیا تو دیکھا کہ طارق کسی شخص کے ساتھ گیٹ پر کھڑا تھا اس نے رفیق کو دیکھتے ہی کہا ابو یہ میرے باس سیٹھ جمیل صاحب ہیں اور یہ جگہ دیکھنے آئے ہیں۔ یہ سنتے ہی رفیق نے سیٹھ جمیل سے سلام دعا کی اور انہیں اندر لے آیا اور رفیق نے درختوں والی جگہ طارق کے باس کو دکھاتے ہوئے کہا یہ جگہ ہے جناب یہ سارا حصہ ہم بیچنا چاہتے ہیں جمیل نے ہر طرف نظر دوڑاتے ہوئے کہا کیا بات ہے جگہ تو بہت ہی اچھی ہے لیکن طارق نے تو کہا تھا کہ یہاں کچھ درخت وغیرہ بھی ہیں جو ہمیں کٹوانے پڑیں گے لیکن یہاں آکر تو لگ رہا ہے کہ آپ لوگوں نے وہ پہلے سے کٹوا کر ہمارا کام آسان کر دیا ہے۔ یہ سن کر رفیق نے کہا جی جی وہ ہم نے آج صبح ہی کٹوائے ہیں ۔ جمیل نے کہا تو آپ کی کیا ڈیمانڈ ہے ویسے مجھے یہ جگہ بہت پسند آئی ہے ۔ رفیق نے کہا جمیل صاحب ہم کوئی سودے بازی تو کریں گے نہیں اس علاقے میں جو بھی فی مرلہ ریٹ چل رہا ہے آپ اس حساب سے یہ ساری جگہ کی پیمائش کر کے ہمیں اتنے پیسے دے دیں تاکہ ہم اس آدھے حصے میں اپنا گھر اچھے سے تعمیر کر سکیں۔ یہ سن کر سیٹھ جمیل نے کہا تو ٹھیک ہے رفیق صاحب میں کل صبح ہی کچھ لوگ ساتھ لے کر اس جگہ کی پیمائش کروا لوں گا اور اس حساب سے جتنے بھی پیسے بنے گے وہ میں آپ کو ادا کردوں گا لیکن اب آپ یہ جگہ کسی اور کو مت بیچنا یہ سمجھ لیں یہ جگہ آج ہی سیل ہو گئی ہے  آپ بس اس جگہ کے حقیقی کاغذات تیار رکھنا اور بیانے کے طور پر آپ یہ پانچ لاکھ کا چیک رکھ لیں باقی جو بھی بنے گا وہ میں کل ادا کروں گا یہ کہتے ہوئے سیٹھ جمیل نے ایک چیک رفیق کو پکڑا دیا اور رفیق سے سلام دعا کر کے چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی رفیق اور طارق کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور رفیق نے چیک کو دیکھتے ہوئے طارق سے کہا واہ بیٹا تم نے تو کمال ہی کر دیا اتنی جلدی یہ سب ہو جائے گا مجھے تو پتا ہی نہیں تھا۔ یہ سن کر طارق نے کہا لیکن ابو آپ نے اتنی جلدی یہ درخت کیسے کٹوا دیئے۔۔۔؟؟ رفیق نے ہنستے ہوئے کہا جیسے تم نے یہ جگہ بِکوا دی بیٹا ۔ اب چھوڑو یہ سب باتیں چلو چل کر تمہاری امی کو یہ خوشخبری سناتے ہیں ۔ یہ کہتے ہوئے دونوں باپ بیٹے خوشی سے پھولتے ہوئے ممتاز کے پاس گئے اور رفیق نے ممتاز کو وہ چیک پکڑاتے ہوئے کہا یہ دیکھو یہ کیا ہے پھر رفیق اور طارق نے سیٹھ جمیل کے ساتھ ہوئے اس جگہ کے سودے بارے میں سب کچھ بتایا تو ممتاز بھی خوشی سے جھوم گئی اتنے میں سونیا بھی آگئی اور ممتاز نے سونیا کو بھی خوشخبری سنائی تو وہ بھی خوشی سے ممتاز کو گلے لگا کر جھومنے لگی۔ ابھی یہ خوشی کا سلسلہ چل رہا تھا کہ کچھ دیر میں خالد بھی اپنے کام سے واپس آگیا تو اس نے بھی رفیق سے درختوں سے متعلق سوال کیا تو رفیق نے کہا وہ سب چھوڑو آخ ہماری جگہ بک گئی ہے پھر خالد کو بھی چیک دکھاتے ہوئے سب کچھ بتایا تو وہ بھی خوش ہو گیا اور سب مل کر نئے گھر کی تعمیر کرنے کے حوالے سے ایک دوسرے سے مشاورت میں مصروف ہو گئے اور اسی بات چیت میں کافی وقت گزر گیا اس دوران سب گھر والے ایک پل کے لیئے وہ سب کچھ بھول گئے جو ان کے ساتھ ہو رہا تھا رات ہو چکی تھی سب باتیں کرنے میں مصروف تھے کہ اچانک پھر سے گھنٹی بجی تو رفیق نے کہا لگتا ہے شاکر بابا آگیا ہے یہ کہتے ہوئے رفیق دروازے پر گیا تو باہر واقعی میں شاکر بابا کھڑا ہوا تھا رفیق نے اسے سلام دعا کے بعد اندر بلا لیا تو شاکر بابا نے کہا میرے جانے کے بعد کچھ ہوا تو نہیں تھا۔۔؟؟ رفیق نے پھر اسے وہ سب بتایا تو شاکر نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے میں نے عمل کیا تھا اس کے مطابق یہاں کوئی چیز باقی نہیں ہونی اس تھی تو پھر وہ سب کیسے ہو گیا ۔۔ لیکن جو بھی ہے اب میں اس کا ایسا حل کروں گا کہ دوبارہ کوئی چیز یہاں آنے کا کبھی سوچے گی بھی نہیں یہ کہتے ہوئے شاکر بابا نے اپنے بیگ سے کچھ چیزیں نکالی اور درختوں والی جگہ پر بیٹھ گیا پھر شاکر نے ایک مٹی کے برتن میں آگ جلائی اور رفیق سے کہا اب تم یہاں سے اندر کمرے میں چلے جاؤ اور جب تک میں نا بلاؤں کمرے سے باہر مت آنا اور نہ ہی اپنے کسی گھر والے کو کمرے سے باہر آنے دینا۔ اور ہاں یہ نقش گلے میں ڈال لو یہ کہتے ہوئے شاکر نے ایک تعویز جیسی کوئی چیز رفیق کو دیتے ہوئے کہا اسے ابھی گلے میں پہن لو۔ رفیق نے کہا لیکن بابا یہ کیا ہے؟؟ شاکر بابا نے کہا سوال مت کرو اسے پہنو جلدی وہ آ چکی ہے  ابھی شاکر یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اچانک کہیں سے ایک خوفناک سی غراہٹ کی آواز سنائی دی جسے سنتے ہی شاکر نے پہلوان سے کہا اب کھڑے مت رہو وقت ہو چکا ہے کہیں وہ تمہیں نقصان نہ پہنچا دے جلدی اسے پہنو اور جاؤ یہاں سے یہ سنتے ہی رفیق نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے تعویز گلے میں ڈالا اور بھاگتا ہوا وہاں سے کمرے میں چلا گیا اور سب گھر والوں کو شاکر بابا کی کہی ہوئی باتوں آگاہ کیا تو طارق نے حیرانی سے کہا ابو یہ سب کیا ہو رہا ہے باہر کون ہے؟؟ رفیق نے کہا بیٹا میں سب کچھ بتاؤں گا لیکن ابھی تم سب آرام سے بیٹھ جاؤ باہر بہت خطرہ ہے یہ سنتے ہی سب لوگ خاموشی سے سہم کر ایک جگہ بیٹھ گئے اس دوران کمرے میں اتنی خاموشی ہو گئی کہ سب کی سانسوں کی آوازیں بھی صاف سنائی دے رہیں تھیں کافی وقت گزرنے جانے کے بعد اچانک کسی نے کمرے کا دروازہ باہر سے کھٹکھٹایا تو سب لوگ حیرانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور پھر دروازے کی طرف دیکھنے لگے اس دوران پھر سے دروازہ کھٹکا تو رفیق نے اپنے منہ پر انگلی رکھتے ہوئے سب لوگوں کو خاموش رہنے کا بولا اور خود آرام سے اٹھ کر دروازے پر جا کر بولا کون ہے۔۔؟؟ لیکن باہر سے کوئی جواب نہیں آیا اتنے میں پھر سے دروازہ بجا تو رفیق نے دروازہ کھول دیا تو اس نے دیکھا کہ شاکر بابا اس کے کمرے کے باہر کھڑا ہوا تھا تو رفیق نے کہا شاکر بابا آپ۔۔۔۔؟؟ یہاں۔۔۔؟؟ کام ختم ہو گیا کیا۔۔۔؟؟ شاکر نے بنا بولے ہاں میں سر ہلایا اور کمرے کے اندر جھانک کر اس میں  موجود سب لوگوں کو عجیب طریقے سے دیکھنے لگا۔ اس دوران کمرے میں موجود سب لوگ بھی شاکر بابا کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے اتنے میں رفیق نے کہا کیا ہوا شاکر بابا آپ کیا دیکھ رہے ہیں یہ سنتے ہی شاکر نے ایک دم سے رفیق کی طرف غصے سے دیکھ کر نہ میں سر ہلایا اور اس کے گلے میں پہنے تعویز کی طرف دیکھنے لگا ۔ اتنے میں رفیق نے کہا تو کیا اب ہم باہر جا سکتے ہیں۔۔؟؟ شاکر نے پھر سے ہاں میں سر ہلایا تو رفیق نے جلدی سے شاکر کو باقی بیس ہزار دیتے ہوئے کہا یہ لیجئے آپ کے باقی بیس ہزار روپے ۔ لیکن شاکر ان پیسوں کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا وہ تو بس تعویز کو غور سے دیکھ رہا تھا اسے ایسا کرتے دیکھ کر رفیق نے کہا شاکر بابا ایسے کیا دیکھ رہے ہیں یہ تعویز آپ ہی نے تو مجھے دیا تھا خیر یہ پیسے آپ رکھ لیں یہ کہتے ہوئے رفیق نے  پیسے شاکر بابا کے ہاتھ پر رکھے تو شاکر نے ایک بار پھر غصے سے رفیق کی طرف دیکھا اور ہاں میں سر ہلا کر پیسے پکڑے اور بنا کچھ کہے وہاں سے چلا گیا ۔ اس کے جاتے طارق نے کہا ابو یہ کون تھا بہت ہی عجیب طریقے سے دیکھ رہا تھا رفیق نے کہا بیٹا یہی تو تھا شاکر بابا اسی نے ان درختوں کو کٹوانے میں ہماری مدد کی تھی۔ طارق نے کہا لیکن یہ اس وقت یہاں کیا لینے آیا تھا۔۔ اور آپ نے اسے کس چیز کے پیسے دیئے تھے ؟؟مجھے بتایئے کیونکہ مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا آپ لوگ کیا چھپا رہے ہیں۔۔؟؟ یہ سنتے ہی رفیق نے افسردہ سا ہو کر گھر کے سبھی لوگوں کی طرف دیکھا اور پھر رفیق نے طارق اور سونیا کو بھی وہ سب کچھ تفصیل سے بتا دیا جو صرف رفیق خالد اور ممتاز جانتے تھے۔ یہ سب سنتے ہی طارق اور سونیا بری طرح سے ڈر کر رفیق اور ممتاز کی طرف دیکھنے لگے۔ اتنے میں طارق نے کہا ابو یہاں اتنا کچھ ہو رہا تھا آپ نے ہمیں بتایا ہی نہیں اس کا مطلب گزشتہ روز وہ پلمبر جو ہوش میں آنے کے بعد کہہ رہا تھا وہ سب سچ تھا۔۔؟؟ یہ سن کر رفیق نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ تو طارق نے کہا ابو تو اب کیا سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے۔۔؟؟ رفیق نے کہا ہاں بیٹا اسی لیئے میں نے یہ سب کچھ تمہیں بتایا ہے کیونکہ اب ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اب سب کچھ ٹھیک ہے اب بس ہمیں کل سیٹھ جمیل صاحب کو یہ جگہ دے کر ان سے پیسے لینے ہیں ۔ طارق نے کہا ابو تو پھر آپ جلدی سے گھر کے ضروری کاغزات ابھی سے نکال کر رکھ لو یہ نہ ہو کل وہ آئیں اور آپ کاغزات ڈھونڈنے میں لگ جائیں۔ یہ سن کر پہلوان نے کہا ارے تم فکر نہیں کرو وہ ٹرنک میں محفوظ ہیں پھر بھی تم سہی کہتے ہو ایک بار انہیں نکال کر دیکھ لینا چاہیئے۔ یہ سنتے ہی خالد نے کہا جی ابو طارق بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ابھی سے دیکھ لو کسی چیز کی کوئی کمی پیشی تو نہیں ہے۔ رفیق نے کہا ہاں ہاں چلو دیکھ لیتے ہیں یہ کہتے ہوئے پہلوان اپنے کمرے میں پڑے صندوق کو کھول کر اس میں گھر کے کاغزات نکال کر خالد کو دکھانے لگا اور بولا بیٹا خالد دیکھ لو کسی چیز کی کوئی کمی تو نہیں ہے۔۔؟؟ خالد نے گھر کی پوری رجسٹری کا اچھے سے پڑھ کر رفیق سے کہا ابو سب کچھ ٹھیک ہے اس کے بعد رفیق نے وہ کاغزات واپس صندوق میں رکھے اور بولا چلو اب سب لوگ آرام سے سو جاؤ اور بیٹا خالد صبح تم آفس سے چھٹی کر لینا کیونکہ کل صبح تمہاری ضرورت پڑے گی کیونکہ پڑھائی لکھائی کے بھی معاملات ہوں گے تو ایسے میں تم ہی ہو جو یہ سب معاملات کو سمجھتے ہو ۔ خالد نے کہا جی ابو آپ پریشان مت ہوں میں صبح آفس نہیں جاؤں گا۔ پہلوان نے کہا تو ٹھیک ہے تو اب تم سب لوگ جا کر آرام کرو باقی باتیں صبح کریں گے۔ یہ سن کر سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے۔ پھر کچھ دیر سونے کے بعد اچانک پہلوان کی آنکھ کھلی تو وہ باتھ روم جانے کے لیئے کمرے سے باہر نکلا تو اچانک پہلوان کی نظر زمین پر پڑی تو اسے زمین پر کافی سارے پیسے گرے ہوئے دکھائی دیئے تو رفیق غور سے ان پیسوں کو دیکھنے لگا اور جب رفیق نے ان پیسوں کو قریب سے دیکھا تو یہ وہی پیسے تھے جو اس نے کچھ دیر پہلے شاکر بابا کو دیئے تھے یہ دیکھ کر رفیق حیران و پریشان ہو گیا اس نے وہ پیسے اٹھائے آہستہ سے اپنے دائیں بائیں دیکھنے لگا اور بولا ارے یہ شاکر بابا پیسے یہاں چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہے پھر اس نے وہ پیسے جیب میں ڈالے اور باتھ روم کی طرف بڑھنے لگا اتنے میں اچانک اس کی نظر ان درختوں والی جگہ پر پڑی تو رفیق چونک گیا کیونکہ وہاں سارے درخت ویسے ہی لگے ہوئے دکھائی دیئے جیسے کہ انہیں کاٹا ہی نہیں تھا یہ دیکھ کر رفیق کے پورے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی رفیق ان درختوں کی طرف دیکھتا ہوا آہستہ آہستہ سے پیچھے ہٹنے لگا پھر اچانک اسے درختوں والی جگہ کوئی کالی سی پرچھائی اپنی طرف بڑھتی ہوئی دکھائی دی یہ دیکھتے ہی رفیق کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اسی وقت رفیق پلٹا اور اندھا دھند بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں گیا اور دروازہ بند کر کے سہم کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا یہ سب کیا ہے اور وہ کیا چیز تھی جسے اس نے دیکھا ہے یہی سوچتے ہوئے رفیق نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ جیب میں ڈال کر وہ پیسے نکالے جو اس کو باہر گرے ہوئے ملے تھے تو انہیں غور سے دیکھنے لگا پھر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے آہستہ آہستہ ان  پیسوں کی گنتی کرنے لگا تو وہ پورے بیس ہزار روپے تھے۔ یہ دیکھ کر پہلوان نے خود سے کہا شاکر بابا ان پیسوں کو یہاں پھینک کر کیوں چلا گیا جبکہ وہ تو ان پیسوں کے لیئے دوپہر میں بوال مچا رہا تھا نہیں نہیں کچھ تو گڑبڑ ہے یہ پیسے اور باہر وہ درختوں اور عجیب چیز کا دوبارہ نظر آنا یہ کچھ ٹھیک نہیں ہے ابھی پہلوان خود سے یہ باتیں کر رہا تھا کہ اتنے میں ممتاز کی آنکھ بھی کھل گئی اور اس نے پہلوان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے آپ ابھی تک جاگ رہے ہیں کیا ہوا سب کچھ ٹھیک تو ہے یہ کہتے ہوئے ممتاز اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اور پھر اس کے ہاتھ میں پیسے دیکھ کر بولی یہ آدھی رات کو آپ پیسوں سے کیا کر رہے ہو۔۔؟؟ تو پہلوان نے اسے پیسے دکھاتے ہوئے کہا یہ وہی بیس ہزار ہیں جو میں نے شاکر بابا کو دیئے تھے لیکن یہ مجھے باہر صحن میں گرے ہوئے ملے ہیں۔ یہ سنتے ہی ممتاز نے حیرانی سے کہا کیا۔۔۔۔۔؟؟ لیکن یہ تو وہ شاکر بابا لے گیا تھا نا۔۔۔ ؟؟ رفیق نے کہا ہاں یہی تو سمجھ نہیں آرہا یہ سب کیا ہو رہا ہے پھر پہلوان نے ممتاز کو ان درختوں اور اس چیز کے بارے میں بتایا تو وہ ڈر گئی اور بولی سونیا کے ابو یہ جو بھی ہو رہا ہے یہ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا کیا میں تو کہتی ہوں ہم بچوں کو بھی اپنے پاس لے آتے ہیں کہیں ان کے ساتھ بھی کچھ برا نہ ہو جائے ۔ رفیق نے کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو لیکن رات کے تین بج رہے ہیں ایسے میں بچوں کی نیند خراب نہ ہو جائے۔ ممتاز نے کہا ہوتی ہے تو ہو جائے لیکن یہ جو ہو رہا ہے یہ بہت خطرناک لگ رہا ہے چلیں بچوں کو بھی لے آتے ہیں یہ کہتے ہوئے پہلوان اور ممتاز سارے بچوں کے کمرے میں جا کر انہیں اپنے کمرے میں لے آئے پھر رفیق نے انہیں بھی سب کچھ بتایا تو خالد نے کہا ابو یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ ان درختوں کا تو نام نشان بھی باقی نہیں تھا جب میں نے دیکھا تھا تو پھر وہ اپنی جگہ پر کیسے ہو سکتے ہیں پھر کالی پرچھائی آپ کی بھی تو ہو سکتی ہے جو باہر لگے بلبوں کی وجہ آپ کو نظر آئی ہو اور رہی پیسوں کی بات تو ہو سکتا ہے شاکر بابا نے یہ پیسے غلطی سے گرا دیئے ہوں اور اسے پتا نہ چلا ہو۔ رفیق نے کہا لیکن وہ درخت میں نے ابھی دیکھے ہیں یہ سن کر خالد نے کہا اگر ایسی بات ہے تو ایک بار چل کر دیکھ لیتے ہیں کہ کیا چکر ہے جبکہ مجھے پورا یقین ہے وہاں کوئی درخت باقی نہیں رہا اتنے میں طارق نے کہا جی ابو ہم تینوں چل کر دیکھ لیتے ہیں پہلوان نے کہا نہیں بیٹا باہر خطرہ بھی ہو سکتا ہے خالد نے کہا ابو جب سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے تو خطرہ کس بات کا آپ چلیں ایک بار دیکھ لیتے ہیں یہ کہتے ہوئے خالد باہر جانے لگا تو رفیق نے کہا رکو بیٹا میں بھی آرہا ہوں اتنے میں طارق بھی ان کے ساتھ جانے کے لیئے چل پڑا اور تینوں باپ بیٹے آہستہ آہستہ سے چلتے ہوئے صحن کے بیچ چلتے ہوئے ان درختوں والی جگہ سے کچھ ہی دوری پر رک گئے تو خالد نے کہا اب بتائیں ابو کہاں ہیں درخت اگر ہوتے تو اس جگہ سے تو صاف دکھائی دیتے نا  جبکہ ہم ان سے کچھ ہی دوری پر ہیں ۔۔؟؟ مجھے لگتا ہے آپ کو وہم ہوا ہے اور دیکھو ہماری پرچھائیاں کتنی بڑی دکھائی دے رہی ہیں ایسا اس لیئے ہے کہ بلب دور دور لگے ہوئے ہیں ۔ یہ دیکھ کر رفیق نے حیرانی سے کہا لیکن میرا یقین کرو میں نے ان درختوں کو دور سے ہی دیکھ لیا تھا اتنے میں طارق نے کہا ابو بھائی سہی کہہ رہا ہے اگر آپ کو وہ دور سے دکھائی دیئے تھے تو یہاں سے تو اور زیادہ صاف دکھائی دینے چاہیئے تھے واقعی میں آپ کو کوئی وہم ہی ہوا ہے ابھی سب لوگ یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں خالد نے ایک جگہ دیکھ کر کہا ایک منٹ ابو وہ کیا پڑا ہوا ہے یہ کہتے ہوئے خالد ان درختوں والی جگہ پر گیا تو دیکھا کہ وہاں زمین پر ایک مٹی کا برتن پڑا ہوا تھا جس میں ہلکی سی روشنی نظر آرہی تھی اور اس کے پاس ایک چادر بچھی ہوئی تھی جس پر عجیب سا سامان اور ایک بیگ پڑا ہوا تھا اسے دیکھتے ہی رفیق نے کہا یہ۔۔۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔ تو۔۔۔ یہ تو شاکر بابا کا سامان ہے لیکن وہ یہ سب یہاں کیسے چھوڑ کر چلا گیا۔ یہ سن کر خالد نے کہا ہو سکتا ہے ابو اسے سامان لے کر جانا یاد ہی نہ رہا ہو یا پھر اس کی طبیعت خراب ہو جس کی وجہ سے وہ یہ سب یہاں چھوڑ کر چلا گیا ہو۔ اتنے میں طارق نے کہا ہاں ابو جس طرح وہ ہماری طرف دیکھ رہا تھا مجھے تو اس کی طبیعت واقعی میں خراب لگ رہی تھی شاید اسی وجہ سے اپنے پیسے گرا کر اور سامان چھوڑ کر چلا گیا ہو گا۔ اسی لیئے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے  ہو سکتا ہے وہ کل یہ سب واپس لینے آجائے ۔ خالد نے کہا ہاں ابو چلیں اب چل کر سوتے ہیں باقی صبح دیکھیں گے اگر شاکر بابا کی طبیعت ٹھیک ہوئی تو وہ صبح ضرور آجائے گا۔ آپ پریشان نہ ہوں اب چلیں یہ کہتے ہوئے خالد نے رفیق کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ واپس کمرے میں لے گیا اور ممتاز کو ساری بات سے آگاہ کیا تو ممتاز نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہا  آہ۔۔۔ شکر ہے میں تو ڈر ہی گئی تھی جبکہ اس دوران رفیق ابھی تک گہری سوچ میں پڑا ہوا تھا تو ممتاز نے بچوں سے کہا اب تم سب ہمیں معاف کردو بس غلطی سے تم سب کہ نیند بھی خراب کر دی یہ سنتے ہی خالد نے کہا ارے نہیں نہیں امی کوئی بات نہیں بلکہ آپ نے تو ہمارے بارے میں اچھا ہی سوچ کر ہمیں جگایا تھا۔ اتنے میں سونیا نے کہا لیکن امی میں آج آپ کے ہی سو جاؤں گی مجھے تو ڈر لگتا ہے یہ سن کر ممتاز نے کہا ہاں ہاں سو جاؤ اور پھر خالد اور طارق اپنے کمرے واپس چلے گئے اور سونیا ممتاز کے ساتھ سو گئی جبکہ پہلوان لیٹ کر ساری رات کسی سوچ میں جاگتا رہا اور پھر اچانک سو گیا

writer:Demi Wolf   

ReplyForwardAdd reaction
Visited 164 times, 1 visit(s) today
Last modified: February 9, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!