Written by 8:44 am ڈراؤنی کہانیاں, ناولز

پلمبر

پارٹ: 3

اگلی صبح جب رفیق جاگا تو اس نے سب سے پہلے باہر جا کر دیکھا تو باہر درختوں کا نام و نشاں نہیں تھا پھر رفیق جلدی سے شاکر بابا کے سامان کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اتنے میں خالد بھی اس کے پاس آکر بولا ابو کیا ہوا آپ پھر سے اسی سامان کو دیکھ رہے ہیں رفیق نے کہا ہاں بیٹا لیکن پتا نہیں اسے دیکھ کر مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ جیسے شاکر بابا یہ سب اپنی مرضی سے یاں بھول کی وجہ سے چھوڑ کر نہیں گیا ضرور کچھ تو ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آرہا۔ ابھی رفیق یہ بات کر ہی رہا تھا کہ طارق بھی اس کے پاس آگیا اور بولا ابو امی بلا رہی ہیں ناشتہ کر لیں۔ یہ سن کر رفیق نے خالد سے کہا چلو بیٹا ناشتہ کرتے ہیں ویسے بھی آج بہت کام کرنے ہیں یہ جگہ سیٹھ جمیل کو دے کر آج ہی ہم اپنے گھر کی تعمیر شروع کروا دیں گے تاکہ وقت کی بچت کی جا سکے ویسے بھی دو دن سے میں ریسٹورنٹ بھی نہیں جا سکا۔ یہ سن کر خالد نے کہا جی ابو میں بھی یہی کہہ رہا تھا کہ ہمیں گھر کی تعمیر جلدی ہی شروع کروا لینی چاہیئے ورنہ برسات آنے والی تو ایسے میں بہت مشکل ہو جائے گی۔ یہ باتیں کرتے ہوئے سب لوگ ناشتہ کرنے چلے گئے پھر ناشتے سے فارغ ہو کر سب لوگ صحن میں آکر گھر کو بنانے کی مختلف تجاویز دینے لگے کوئی کہہ رہا تھا ایسے کرلو کوئی کچھ کہہ رہا تھا  اتنے میں خالد نے کہا ابو ایسا کرتے ہیں ہم کسی اچھے سے نقشے بنانے والے کے پاس جاتے ہیں اور اسے یہاں لے کر آتے ہیں وہ ہماری ساری جگہ کو دیکھ کر ہمیں اچھا سا نقشہ بنا دے گا پھر ہم ویسا ہی گھر تیار کروا لیں گے ۔ رفیق نے کہا ہاں یہ سب سے اچھا مشورہ ہے اس سے ہمیں یہ ضرور پتا چل جائے گا کہ ہمارا گھر کیسا تعمیر ہو گا ابھی سب لوگ یہ باتیں کر رہے تھے کہ اچانک گھنٹی کی آواز سنائی دی تو رفیق نے سونیا اور ممتاز سے کہا اب تم لوگ اندر جاؤ مجھے لگتا ہے جمیل صاحب آگئے ہیں یہ سنتے ہی ممتاز سونیا کے ساتھ کمرے میں چلے گئی اور خالد نے جلدی سے جا کر دروازہ کھولا تو باہر ببی آیا ہوا تھا خالد نے اس کے بارے میں رفیق کو بتایا تو رفیق ببی سے ملنے باہر گیا تو دیکھا ببی بہت پریشان حالت میں گھبرایا ہوا کھڑا ہوا تھا اسے دیکھتے ہی رفیق نے کہا ارے سب خیریت تو ہے ببی بھائی۔۔۔؟؟؟ ببی نے کہا پہلوان۔۔۔بھائی۔۔ وہ۔۔۔بھائی۔۔ کیا یہاں سب کچھ ٹھیک ہے۔۔؟؟ رفیق نے کہا ہاں سب ٹھیک ہے لیکن تم اتنے گھبرائے ہوئے  کیوں لگ رہے ہو کیا ہوا۔۔؟؟ ببی نے کہا وہ۔۔۔وہ۔۔۔مزدور۔۔۔وہ۔۔وہاں شاکر بابا۔۔۔۔ یہ سنتے ہی رفیق نے کہا شاکر بابا۔۔۔؟؟ ہاں کیا ہوا شاکر بابا کو۔۔۔؟؟ ببی نے کہا آپ۔۔۔ آپ۔۔۔ میرے ساتھ چلیں۔۔وہ۔۔۔۔وہاں۔وہ۔۔۔نالے۔۔ پر۔۔ یہ سنتے ہی رفیق نے کہا ہاں ہاں چلتا ہوں پر بتاؤ تو کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟ ببی نے کہا آپ ۔۔آپ۔۔ بس جلدی چلیں۔۔ یہ سنتے ہی رفیق اور خالد ببی کے ساتھ چل پڑے اس دوران پہلوان بار بار ببی سے پوچھ رہا تھا پر ببی کچھ نہیں بتا رہا تھا بس وہ جلدی جلدی چل رہا تھا پھر گھر سے کچھ دوری پر جا کر پہلوان نے دیکھا تو ایک جگہ گندے نالے کے قریب لوگوں کا بہت رش لگا ہوا تھا اور جب پہلوان وہاں گیا تو اس کے ہوش اڑ گئے کیونکہ وہاں شاکر بابا کی لاش پڑی ہوئی تھی جس کی گردن کسی نے پوری طرح سے گھما کر اس کی کمر کی طرف کر دی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے شاکر بابا کا چہرہ اس کی کمر کی طرف لگا ہوا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر خالد کے ہوش بھی اڑ گئے اتنے میں وہاں پولیس پہنچ گئی اور وہاں سے سب لوگوں کو بھگانے لگی اسی دوران رفیق ، ببی، اور خالد بھی وہاں سے واپس آ گئے۔ راستے میں رفیق نے ببی سے کہا یہ سب کیسے ہو گیا ۔۔؟؟ ببی نے کہا مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا پہلوان بھائی ۔۔ میں تو یہاں آپ کو یہ بتانے آرہا تھا کہ گزشتہ روز جو مزدور درخت کاٹنے آئے تھے ان میں سے دو مزدور مر گئے ہیں۔  یہ سنتے ہی پہلوان نے حیرانی سے ببی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا۔۔۔۔؟؟؟ دو مزدور مر گئے۔۔۔۔؟؟؟ لیکن کب اور کیسے۔۔۔؟؟؟ ببی نے کہا پتا نہیں لیکن آج صبح جب میں ٹرک لے کر اڈے پر گیا تو انہی مزدوروں کا ایک ساتھی کسی کو ان کے بارے میں بتا رہا تھا تو مجھے وہاں سے پتا چلا کہ وہ دو مزدور جنہیں ہم ہسپتال چھوڑ کر آئے تھے اچانک رات کو انہیں کسی نے مار دیا ہے اور ڈاکٹر کی رپورٹ کے مطابق ان کی موت گردنیں ٹوٹنے کی وجہ سے ہوئی ہے اور جو باقی کے تین مزدور تھے وہ پاگل ہو چکے ہیں ان کا زہنی توازن پوری طرح سے خراب ہو چکا ہے کیونکہ وہ بار بار خود کو مارنے کی کوشش کر رہے تھے تو انہیں پاگل خانے میں داخل کروا دیا گیا ہے ۔ یہی بتانے کے لیئے میں آپ کے پاس آرہا تھا کہ راستے میں رش لگا دیکھا اور رش میں جا کر دیکھا تو شاکر بابا کی لاش پڑی تھی یہ سب اتفاق نہیں ہو سکتا پہلوان بھائی مجھے تو یہ سب دیکھ کر بہت ڈر لگ رہا ہے کہیں کوئی چیز ہمیں بھی نہ مار ڈالے ۔ یہ سن کر رفیق بھی پوری طرح سے حیران و پریشان ہو کر کسی سوچ میں پڑ گیا پھر  ببی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا دیکھو جو بھی ہوا اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے اور نہ ہی ہم جانتے ہیں یہ سب کس نے کیا اسی لیئے اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھو اور اب اس بارے میں کسی سے کوئی بات نہ کرنا  بس اتنا جان لو ہمارا ان لاشوں سے کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہی ہم انہیں جانتے ہیں اس لیئے اس بات کو یہی دفن کر دو ورنہ اگر کوئی پولیس کیس ہو گیا تو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی ہم لوگ مصیبت میں ہی پڑے رہیں گے اور کورٹ کچہری کے چکروں میں پڑے رہیں گے۔ اب تم گھر جاؤ اور کچھ دن کے لیئے اڈے پر مت جانا جو اگر تم سے کوئی اس بارے میں پوچھے بھی تو کہنا پتا نہیں میں کسی کو نہیں جانتا۔ ببی نے کہا پہلوان بھائی میں کسی سے کوئی بات نہیں کروں گا لیکن ہم چاہ کر بھی اس سے بچ نہیں سکتے ۔۔ یہ سنتے ہی پہلوان نے حیرانی سے کہا لیکن کیوں؟؟ ہم تو انہیں یہاں نہیں لائے تھے اور نہ ہی کسی کو یہ پتا ہے کہ وہ ہمارے گھر آئے تھے اور نہ ہی ہم اڈا پر گئے تھے تو پھر ہم کیوں پھنسے گے ۔۔۔ ببی نے کہا اڈا پر تو کسی کو نہیں پتا وہ مزدور آپ کے گھر کام کرنے آئے تھے کیونکہ اڈا سے شاکر بابا ہی انہیں اپنے ساتھ لے کر آیا تھا لیکن فکر والی بات یہ ہے کہ وہ ان سب کو میرے ٹرک پر ہی سوار کر کے یہاں لایا تھا اور جب دوبارہ ملبہ اٹھانے والے مزدور آئے تھے تو انہیں میں ہی یہاں لے کر آیا تھا۔ اور مجھے لگتا ہے کہ ان میں سے ہی کوئی اس بات کا ذکر کر سکتا ہے۔ یاں ہسپتال سے کوئی بتا سکتا ہے کیونکہ ہم ہسپتال بھی تو لے کر گئے تھے انہیں۔۔۔ یہ سن کر پہلوان نے کہا ہاں تم سہی کہتے ہو ہم چاہ کر بھی اس معاملے سے باہر نہیں جا سکتے یہ تو واقعی میں بہت فکر والی بات ہو گئی۔ اتنے میں خالد نے کہا ابو آپ لوگ اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہیں اگر سب لوگوں کو بھی پتا جائے تو بھی آپ لوگوں کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے آپ لوگ اطمینان رکھیں اور اس سے پہلے پولیس آپ لوگوں تک پہنچے آپ لوگ خود ہی رضاکارانہ طور پر  پولس کو یہ سب بتا دیں تاکہ انہیں یہ نہ لگے کہ آپ لوگوں نے جان بوجھ کر یہ بات ان سے چھپائی ویسے بھی جو کچھ ہوا اس میں آپ میں سے کسی کا بھی کوئی قصور نہیں ہے ہم نے اپنے مسلے کے حل کے لیئے شاکر بابا کو پیسے دیئے تھے اور ہم نے ان سے کوئی غلط کام نہیں کروایا اب یہاں سے جانے کے بعد ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوا کیا نہیں اس سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ سن کر ببی نے کہا جی پہلوان بھائی مجھے لگتا ہے برخوردار ٹھیک کہہ رہا ہے ہمیں ابھی جا کر پولیس کو سب کچھ بتا دیتے ہیں انشاء الله سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ سن کر رفیق نے کہا تو ٹھیک ہے ہم ابھی اسی وقت پولیس کے پاس جاتے ہیں اور انہیں اس بارے میں سب کچھ بتاتے ہیں یہ کہنے کے بعد رفیق نے طارق سے کہا کہ وہ گھر پر ہی رہے اور سیٹھ جمیل کا انتظار کرے تب تک ہم کسی ضروری کام سے جارہے ہیں یہ سن کر طارق نے ہاں میں سر ہلایا پھر رفیق خالد اور ببی کے ساتھ پولیس اسٹیشن چلا گیا وہاں جا کر پہلوان کی ملاقات اس کے پرانے دوست بشیر سے ہوئی جو کہ اس تھانے کا اے ایس آئی نکلا اور وہ پہلوان سے بہت اچھے طریقے سے ملا اور اس نے پہلوان سے پولیس اسٹیشن آنے کی وجہ پوچھی تو پہلوان نے پھر اسے سب کچھ صاف اور تفصیل سے بتایا تو وہ سب سن کر بشیر حیران و پریشان ہو گیا پھر پھر اس نے پہلوان سے کہا کہ شاکر بابا کے تمہارے گھر آنے کے بارے میں ان مزدوروں کے علاوہ کوئی گلی یا محلے کا کوئی فرد جانتا ہے۔۔۔؟؟ پہلوان نے کہا پتا نہیں لیکن ایک پلمبر ہے وہ تقریباً سب کچھ جانتا ہے۔ بشیر نے کہا کیا وہ ابھی یہاں آسکتا ہے۔۔؟؟ پہلوان نے کہا ہاں آ تو سکتا ہے لیکن اس کی کیا ضرورت ہے۔۔۔؟؟ بشیر نے کہا دراصل بات یہ ہے پھیکا بھائی یہ جو کچھ بھی آپ نے مجھے بتایا اس پر میں پوری طرح سے یقین کرتا ہوں اس کے علاوہ میں آپ کو شروع سے جانتا ہوں کہ آپ کبھی کوئی غلط کام نہیں کر سکتے لیکن قانونی طور پر ہم ان  باتوں سے کسی کو یقین نہیں دلا سکتے کہ یہ سب ان شیطانی چیزوں کا کام ہے کیونکہ قانون ثبوت کا محتاج ہوتا ہے اسی لیئے  میں اس پلمبر کا بیان بھی قلمبند کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس معاملے میں آپ لوگوں کو کوئی پریشان نہ کرے کیونکہ یہ تین لوگوں کی موت کا معاملہ ہے اور اس معاملے کو لے کر مجھ پر بہت پریشر پڑ سکتا ہے اس لیئے میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو کوئی اس معاملے میں بار بار مت الجھائے اور تفتیش مکمل ہو جائے اس کے لیئے اس پلمبر کا بیان بہت فائدہ مند ثابت ہو گا کہ اس نے شاکر بابا کو آپ سے پیسے لیتے ہوئے دیکھا تھا اور شاکر بابا ہی ان مزدوروں کو لے کر آیا تھا ۔۔ باقی سب میں دیکھ لوں گا ۔ یہ سن کر رفیق نے کہا میں ابھی جا کر پلمبر کو لے آتا ہوں بشیر نے کہا ٹھیک ہے باقی کوئی کسی قسم کی پریشانی والی بات نہیں ہے کیونکہ نہ تو آپ نے کوئی قتل کیا ہے اور نہ ہی آپ کسی قسم غلط کام میں ملوث ہیں ۔ پہلوان نے کہا تو ٹھیک ہے میں ابھی اسے لے کر آتا ہوں یہ کہہ کر پہلوان اور باقی لوگ پولیس اسٹیشن سے باہر آگئے پھر پہلوان پلمبر کے گھر گیا اور اسے سب کچھ بتا کر اپنے ساتھ لے کر پولیس اسٹیشن آیا جہاں پلمبر نے بھی ساری بات بشیر کو بتائی اور بشیر نے اس کا بیان ریکارڈ کر لیا پھر بشیر نے رفیق سے کہا اب آپ لوگ بے فکر ہو کر جائیں اور کسی بھی قسم کی ٹینشن نہ لینا یہ انکوائری کچھ دیر چلے گی اور ہم جلد ہی کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے ۔ یہ سن کر پہلوان نے بشیر کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد سب لوگ پولیس اسٹیشن سے واپس آگئے باہر آتے ہی پلمبر نے کہا پہلوان جی میں نے پہلے ہی کہا تھا ایسے لوگوں کے عمل میں کوئی اثر ہوتا دیکھو خود تو گیا ساتھ میں مزدوروں کو بھی لے گیا ۔ رفیق نے کہا چلو جو بھی ہے کم سے کم ہم تو اس معاملے میں سرخرو ہو گئے ہیں ورنہ ایسے ہی پولیس ہمیں تنگ کرتی رہتی۔ اس کے بعد سب لوگ رفیق کے ساتھ واپس اس کے گھر آ گئے اتنے میں رفیق نے ببی کی طرف دیکھا تو وہ ابھی تک پریشان دکھائی دے رہا تھا یہ دیکھ کر رفیق نے کہا ارے ببی بھائی اب کیا مسلہ ہے پولیس کا معاملہ تو سیٹ ہو گیا پر تم ابھی تک پریشان دکھائی دے رہے ہو؟؟  ببی نے کہا پہلوان بھائی پولیس کا معاملہ تو حل ہو گیا لیکن مجھے اس بات کی فکر ہے اب ہمارے ساتھ کیا ہو گا کیونکہ مجھے لگتا ہے ان درختوں کو کاٹنے میں میرا بھی قصور ہے اس لیئے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ یہ سن کر رفیق نے کہا ارے ببی بھائی تم کیوں ڈر رہے ہو تمہارا تو ان درختوں کو کٹوانے میں کچھ لینا دینا نہیں ہے ڈرنا تو مجھے چاہیئے کیونکہ ان درختوں کو تو میں نے کٹوایا ہے لیکن دیکھو پھر بھی میں تمہارے سامنے ہٹا کٹا کھڑا ہوں اگر کچھ ہوتا تو پہلے میرے ساتھ ہونا تھا اور مجھے لگتا ہے اب ہمیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جو ہونا تھا ہو چکا ہے اب مزید کچھ نہیں ہو گا ضرور شاکر بابا کے عمل میں کوئی غلطی ہو گئی ہو گی جس کی وجہ اس پر اور مزدوروں پر مصیبت آگئی جو ایک ہی رات میں اتنا سب کچھ ہو گیا پر پھر بھی ہم دونوں ہی محفوظ ہیں اس کا یہی مطلب ہے کہ اب ہمیں کچھ نہیں ہو گا تم خود کو ایسے ہی فضول پریشانی میں مت ڈالو اب دماغ پر زور نہ ڈالو اور جا کر آرام کرو کچھ نہیں ہوگا تمہیں۔۔۔ اتنے میں پاس کھڑے پلمبر نے ببی سے کہا بھائی اگر آپ چاہو تو میں آپ حاجی بابا کے پاس لے جاتا ہوں وہ آپ کو کوئی تعویز بنا کر دے دیں گے اس سے آپ کو ڈر نہیں لگے گا اور وہ کسی قسم کا کوئی ہدیہ بھی نہیں لیتے ان کے علم میں بہت اثر ہے۔ یہ سن کر ببی نے کہا لیکن یہ حاجی بابا ہیں کون۔۔۔؟؟ اور تم انہیں کیسے جانتے ہو۔۔۔؟؟ پلمبر نے کہا دراصل میں پلمبر ہوں اور اس علاقے میں تقریباً آدھے سے زیادہ لوگوں کے گھر میں سینڑی کا کام کر چکا ہوں اور ایک دن میں کسی گھر میں پلمبری کا کام کر رہا تھا تو اس گھر میں ایک لڑکی تھی جس پر بہت ہی خطرناک چیزوں کا سایہ تھا وہ اکثر گھر سے بھاگ کر لوگوں کے جانوروں کو مار کر ان کا خون پیا کرتی تھی تو اس دن حاجی بابا کو میں نے پہلی بار دیکھا تھا انہوں نے اس لڑکی کو چند پلوں میں ہی ٹھیک کر دیا تھا پھر اس دن کے بعد وہ لڑکی پر کبھی کوئی سایہ نہیں ہوا ۔ اور حاجی بابا نے وہ کام فی سبیل اللہ کیا تھا ۔ یہ سن کر پہلوان نے پلمبر سے کہا کہیں تم اسلم صاحب کی بیٹی کی بات تو نہیں کر رہے وہ جو واپڈا میں ملازم ہیں۔۔۔؟؟ پلمبر نے کہا جی جی پہلوان جی انہی کی بیٹی کی بات کر رہا ہوں اسے حاجی بابا نے ہی ٹھیک کیا تھا اور یہ سب میرے سامنے ہوا تھا ۔ یہ سن کر ببی نے حیرانی سے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا پہلوان بھائی کیا واقعی میں ایسا ہوا تھا۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا ہاں ببی بھائی میرے خیال سے یہ سہی کہہ رہا ہے دراصل اسلم صاحب بھی میرے جاننے والے ہیں ان کی بیٹی پر کسی چیز کا سایہ ہو گیا تھا تو وہ ایسے ہی کیا کرتی تھی لیکن اسے کس نے ٹھیک کیا تھا یہ مجھے پکا نہیں پتا لیکن وہ ٹھیک ضرور ہو گئی تھی۔ یہ سنتے ہی ببی نے پلمبر سے کہا کیا تم جانتے ہو وہ ابھی کہاں ملیں گے۔۔؟؟ پلمبر نے کہا جی وہ نہر کے پاس والے دربار میں ہی ہوتے ہیں۔ ببی نے کہا تو بھائی تم پھر مجھے ابھی ان کے پاس ہی لے چلو مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ یہ سنتے ہی پہلوان نے کہا ارے ببی بھائی تم تو ایسے ہی ڈر رہے ہو ۔۔ خیر تم چلے جاؤ حاجی بابا کے پاس باقی اس کی ضرورت نہیں تھی ۔ ببی نے کہا ضرورت ہے پہلوان جی ۔۔۔۔ ضرورت ہے ۔۔ کیونکہ آپ سمجھ نہیں رہے میرے ذہن میں کیسے کیسے خیالات آرہے ہیں ۔ یہ سن کر پہلوان نے کہا اچھا اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ لیکن شام میں میری طرف ضرور چکر لگانا مجھے تم سے کام ہے ۔ یہ سن کر ببی نے ہاں میں سر ہلایا اور پلمبر کے ساتھ چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی خالد نے کہا ابو ببی انکل تو کچھ زیادہ ہی ڈرے ہوئے لگ رہے تھے۔ رفیق نے مسکراتے ہوئے کہا ڈر تو مجھے بھی لگ رہا تھا لیکن میں اسے حوصلہ دینے کی کوشش کر رہا تھا باقی دیکھا جائے تو اس کا تو کوئی قصور بھی نہیں ہے درخت تو ہم نے کٹوائے ہیں اور وہ بلا وجہ ہی ڈر رہا تھا چلو جانے دو اس کو۔۔ ابھی رفیق یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اچانک ایک بڑی سی گاڑی رفیق کے گھر کے سامنے آ کر رکی اسے دیکھتے ہی رفیق نے کہا کیا بات ہے سیٹھ جمیل صاحب بھی آگئے اتنے میں سیٹھ جمیل اور دو آدمی گاڑی سے نکلے تو رفیق ان سے سلام دعا کرنے کے بعد انہیں گھر میں لے گیا جہاں جمیل کے ساتھ آئے ان دو آدمیوں نے جگہ کی پیمائش کی اور کسی پاوڈر کی مدد سے نشانات لگائے پھر اس پیمائش کے حساب سے سیٹھ جمیل نے رفیق کو بتایا کہ اس کی جگہ کی قیمت تیس لاکھ روپے کی بنتی ہے جو کہ اس دور کے حساب سے ایک بڑی رقم بنتی تھی تو سیٹھ جمیل نے کہا رفیق صاحب تو کیا آپ اتنی رقم میں جگہ بیچنے پر راضی ہیں۔۔؟؟ یہ سنتے ہی رفیق نے کہا جی سیٹھ صاحب ہم راضی ہیں پھر سیٹھ جمیل نے گھر کی رجسٹریشن کے کاغزات وغیرہ چیک کیئے پھر جمیل نے اس کے ساتھ آئے پیمائش والوں سے کہا تم کچھ دیر یہیں طارق کے پاس رکو ہم ابھی آتے ہیں یہ کہہ کر جمیل پہلوان اور خالد کو اپنے ساتھ لے گیا پٹوار خانے لے گیا اور وہاں جا کر باقی کی کاغذی کاروائی پوری کر کے انہیں بنک لے گیا اور وہاں سے پچیس لاکھ روپے نکال کر رفیق کو دیتے ہوئے بولا رفیق صاحب یہ لیجئے یہ پچیس لاکھ روپے ہیں پانچ لاکھ روپے کا چیک پہلے سے ہی آپ کے پاس ہے وہ آپ یہاں سے کیش کروا لینا تو آپ کے تیس لاکھ پورے ہو جائیں گے یہ سن کر خالد نے کہا جی جی ہم سمجھ گئے اس کے بعد سیٹھ جمیل انہیں واپس ان کے گھر لے آیا۔ اور بولا رفیق صاحب اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو میں آج ہی کچھ لوگوں کو بھیج کر اس جگہ کی چار دیواری کروانا چاہتا ہوں تو کچھ پانی وغیرہ کی ضرورت پڑے گی تو کیا پانی کا انتظام ہے یا پھر میں پانی والی گاڑی کا بھی ارینج کر لوں۔۔؟؟ رفیق نے کہا نہیں نہیں پانی کا انتظام ہے آپ فکر مت کریں آپ کو جتنا تعاون چاہیئے ہو گا ہم کریں گے اور ہم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے اب وہ جگہ آپ کی ہے آپ جب چاہیں جیسے چاہیں کام کروا سکتے ہیں ۔ یہ سن کر جمیل نے رفیق کا شکریہ ادا کیا اور اپنے دونوں بندوں کو ساتھ لے کر چلا گیا ۔ ان کے جاتے ہی رفیق نے کمرے میں جا کر وہ سارے پیسے چارپائی پر بکھیر کر رکھے اور سب گھر والے ان پیسوں کو دیکھ کر خوش ہونے لگے کیونکہ رفیق اور اس کے خاندان والوں نے کبھی اتنے پیسے ایک ساتھ نہیں دیکھے تھے اتنے میں طارق نے کہا ابو اتنے پیسوں میں تو ہم چار منزلہ گھر بنا سکتے ہیں  رفیق نے ہاں ہاں کیوں نہیں پھر رفیق نے وہ سارے پیسے ممتاز کو دیتے ہوئے کہا انہیں صندوق میں رکھ دو اور کل جو چیک میں نے تمہیں دیا تھا وہ مجھے دے دو تو ممتاز نے ایسا ہی کیا اور وہ چیک رفیق کو دے دیا پھر رفیق نے خالد سے کہا بیٹا چلو ہم نقشہ نگار کے پاس چلتے ہیں اور اسے یہاں لا کر گھر کا نقشہ بنواتے ہیں اور ساتھ میں یہ چیک بھی کیش کروا لیں گے ۔ خالد نے کہا جی ابو چلیں ۔ یہ سن کر طارق نے کہا ابو میں بھی چلوں رفیق نے کہا نہیں بیٹا تم گھر پر ہی رکو سیٹھ جمیل صاحب  ابھی کچھ لوگوں کو بھیج رہے ہیں تم انہیں دیکھ لینا ہم بس ابھی واپس آ جائیں گے۔ طارق نے کہا جی ٹھیک ہے ابو۔ اس کے بعد پہلوان خالد کے ساتھ چلا گیا اور طارق گھر بیٹھ کر سونیا اور ممتاز کے ساتھ گھر کی تعمیر کے بارے میں باتیں کرنے لگا اتنے دروازے کی گھنٹی بجی تو طارق دوڑتا ہوا دروازے پر گیا تو دیکھا کہ باہر سیٹھ جمیل اور طارق کے ساتھ کارخانے میں کام کرنے والے دو لڑکے مزمل اور تنویر بھی کھڑے تھے جنہیں سیٹھ جمیل ساتھ لے کر آیا تھا پھر طارق نے سب سے سلام دعا کی اور انہیں اندر لے آیا۔ پھر طارق نے جلدی سے کرسیاں لا کر انہیں صحن میں بیٹھا دیا تو سیٹھ جمیل نے طارق سے پوچھا رفیق صاحب کہاں ہیں طارق نے بتایا کہ وہ کسی کام سے باہر گئے ہیں تو سیٹھ جمیل نے کہا بیٹا ابھی کچھ مزدور اور سامان آرہا ہے کیونکہ وہ یہاں چار دیواری کرنے آرہے ہیں تو انہیں پانی وغیرہ کی ضرورت پڑے گی تو ذرا آپ لوگ ان سے تعاون کر لینا ویسے اس بارے میں رفیق صاحب سے میری بات ہو چکی ہے ۔ باقی کام میں نے مزمل اور تنویر کو بتا دیا ہے یہ ہینڈل کر لیں گے اتنے میں باہر ٹرکوں کے رکنے کی آواز سنائی دی تو مزمل جلدی سے اٹھا اور باہر گیا پھر دو آدمیوں کو اپنے ساتھ اندر لے آیا ان میں سے ایک کچھ دیر پہلے آیا پیمائش والا تھا اور دوسرا شاید ٹھیکیدار تھا پھر سیٹھ جمیل نے ٹھیکیدار کو سارے نشانات دکھائے تو اس ٹھیکیدار نے کہا آپ فکر مت کریں آج رات تک کام مکمل ہو جائے گا میں پوری تیاری سے آیا ہوں ۔ پھر سیٹھ جمیل نے طارق سے کہا اچھا بیٹا اب میں چلتا ہوں اپنے ابو کو میرا سلام کہنا۔ یہ سنتے ہی طارق ہاں میں سر ہلا دیا تو سیٹھ جمیل پیمائش والے کو لے کر چلا گیا اتنے میں دس بارہ مزدور ٹرک سے اینٹیں سیمٹ وغیرہ گھر میں لا کر رکھنے لگے اور طارق اپنے دوستوں سے بیٹھ کر باتیں کرنے لگا اور کچھ ہی دیر میں کام شروع ہو گیا دوپہر کا وقت تھا اور مزدور کھدائی کر رہے تھے کہ اتنے میں ایک مزدور نے چلاتے ہوئے کہا یہ کیا ہے۔۔؟؟ یہ سن کر جب باقی لوگ نے وہاں جا کر دیکھا تو وہاں کھدائی کے دوران زمین سے خون نکل رہا تھا جس کی وجہ سے اس کے پورے پاؤں خون سے بھر گئے یہ دیکھ کر سب لوگ حیران ہو گئے اتنے میں ٹھیکیدار نے کہا ارے کوئی سانپ وغیرہ مر گیا ہوگا کھدائی کرتے وقت تم گھبراؤ نہیں اور جلدی سے کام مکمل کرو یہ سن کر مزدور دوبارہ کھدائی کرنے لگا پھر کچھ دیر میں کھدائی مکمل ہو گئی اور پھر دیوار کی تعمیر شروع ہو گئی اس دوران رفیق اور خالد بھی آگئے اور ان کے ساتھ ایک نقشے بنانے والا بھی آگیا اور اس نے ساری جگہ دیکھ کر اس حساب سے نقشہ بنانا شروع کر دیا اس دوران طارق رفیق اور خالد کھانا کھانے چلے گئے کھانے کے دوران طارق نے مزدور کے ساتھ ہوئے اس واقعے کے بارے میں رفیق کو بتایا تو اچانک رفیق پریشان ہو گیا اور کھانا چھوڑ کر باہر جا کر ان مزدوروں کو دیکھنے لگا اتنے میں خالد بھی رفیق کے پیچھے چلا گیا اس نے رفیق سے کہا کیا ہوا ابو آپ نے کھانا کیوں چھوڑ دیا رفیق نے کہا ارے بیٹا کچھ نہیں مجھے بس اتنی ہی بھوک تھی خالد نے کہا ابو آپ پھر سے پریشان لگ رہے ہیں رفیق نے کہا نہیں بیٹا بس میں ان بیچارے مزدوروں کو دیکھ رہا ہوں روٹی کے لیئے انہیں کیا کیا کرنا پڑتا ہے ان میں سے کسی کے پاؤں خون سے بھرے لیکن وہ پھر بھی کام میں مصروف ہے بس مجھے ان کی فکر ہو رہی ہے دعا کرو سب ٹھیک ہی ریے ابھی رفیق کے بات کر ہی رہا تھا کہ اتنے میں رفیق کی نظر باتھ روم سے کچھ ہی دوری پر کھڑے نقشہ بنانے والے پر پڑی تو وہ غصے سے خود کے ماتھے کو پیٹ رہا تھا یہ دیکھ کر رفیق نے اس کے پاس جا کر کہا ارے بھائی کیا ہوا گیا ہے۔۔۔؟ اس نے کہا پتا نہیں لیکن جیسے ہی میں نقشہ بناتا ہوں تو اچانک سارا نقشہ غلط ہو جاتا ہے یہ دیکھیں میرے کتنے صفحات ضائع ہو رے ہیں یہ کہتے ہوئے نقشہ نگار نے زمین پر پھینکے ہوئے ان صفحات کی طرف اشارہ کیا۔۔ پھر بولا بس اسی وجہ سے غصہ آرہا تھا ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا پھر پتا نہیں آج کیسے یہ سب ہو رہا ہے۔ رفیق نے کہا ارے بھائی مجھے لگتا ہے آج تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے کوئی بات نہیں تم ایسا کرو کل آجانا تمہیں ایڈوانس تو دیا ہے نا۔۔۔ وہ تم ابھی پاس ہی رکھو اور کل آ کر اچھے سے بنا لینا۔ ایسا ہو جاتا ہے کبھی کبھی آسان سا کام بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ سن کر نقشے والے نے کہا جی مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کیونکہ میرا سر بھاری بھاری سا محسوس ہو رہا ہے تو میں کل ہی آکر بنا لوں گا۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اتنے میں ٹھیکیدار کی آواز سنائی دی جو کسی مزدور کو ڈانٹ رہا تھا ابھی رفیق اس کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ مزمل رفیق کے پاس آیا اور بولا انکل پانی نہیں آرہا کیا۔۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا بیٹا پانی تو آرہا ہے یہ کہتے ہوئے رفیق نے باتھ روم کا نلکا کھولا تو پانی نہیں آرہا تھا یہ دیکھ کر رفیق نے خالد سے کہا 

writer:Demi Wolf

ReplyForwardAdd reaction
Visited 208 times, 1 visit(s) today
Last modified: February 9, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!