Written by 8:37 pm ڈراؤنی کہانیاں, ناولز

پلمبر

قسط نمبر: 4 

یہ سن کر رفیق نے کہا مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا اگر اس نے نہیں کیا تو پھر کس نے کیا۔۔۔؟؟ یہ سن کر پلمبر نے کہا یہ اسی نے کیا ہوگا جس نے شاکر بابا اور مزدوروں کے ساتھ وہ سب کیا۔۔۔ ابھی پلمبر یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اتنے میں طارق بھاگتا ہوا رفیق کے پاس آیا اور بولا ابو۔۔۔ وہ۔۔۔ امی بلا رہی ہیں جلدی چلیں۔۔۔ رفیق نے کہا کیوں کیا ہوا۔۔۔؟؟ طارق نے کہا وہ سونیا کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے۔ یہ سن کر رفیق اور خالد جلدی سے کمرے میں گئے تو دیکھا کہ سونیا چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی اور ممتاز اس کو پانی کی پٹیاں کر رہی تھی۔ یہ دیکھ کر رفیق نے کہا کیا ہوا اسے۔۔۔؟؟ ممتاز نے کہا پتا نہیں ابھی کچھ دیر پہلے تو ٹھیک تھی لیکن اچانک اسے بہت تیز بخار ہو گیا ہے دیکھو اس کا ماتھا کتنا تپ رہا ہے۔ یہ سن کر رفیق نے سونیا کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو اس کا ماتھا آگ کی طرح جل رہا تھا۔ تو رفیق نے کہا چلو اس کو ڈاکٹر کے پاس لے چلتے ہیں خالد جلدی سے رکشہ کا انتطام کرو۔۔ یہ سن کر خالد فوراً گیا اور کچھ دیر میں رکشہ لے کر آگیا پھر ممتاز اور رفیق سونیا کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانے لگے تو رفیق نے خالد سے کہا تم گھر پر ہی رکو اور جب مزدور چلے جائیں تو دروازہ اچھے سے بند کر لینا اور طارق کو باہر مت جانے دینا۔۔ ہم جلدی ہی واپس آ جائیں گے۔ یہ کہہ کر رفیق ممتاز کے ساتھ سونیا کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ وہاں پہنچ کر اچانک سونیا بیہوش ہو گئی اور رفیق نے اسے پاس میں پڑے بیڈ پر لٹا دیا اتنے میں ڈاکٹر سونیا کا چیکپ کرنے آیا ہی تھا کہ اچانک سونیا نے اک دم سے آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر  ڈاکٹر کے چہرے پر ایک زوردار تھپڑ مارا جس کی وجہ سے ڈاکٹر پوری طرح سے چکرا گیا اور سونیا واپس بیہوش ہو گئی یہ دیکھ کر کلینک میں موجود سبھی لوگ حیرانی سے سونیا کی طرف دیکھنے لگے اتنے میں رفیق نے ڈاکٹر سے معافی مانگتے ہوئے کہا ڈاکٹر صاحب ہم بہت شرمندہ ہیں ہمیں بالکل بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ہماری بچی ایسا کرے گی لیکن اس کا پورا جسم آگ کی طرح تپ رہا ہے مہربانی فرما کر اسے دیکھ لیں۔۔ ڈاکٹر نے کہا ارے کوئی بات نہیں کبھی کبھی زیادہ بخار میں مریض ایسی عجیب سی حرکات کر دیتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر نے دوبارہ سونیا کو چیک کیا تو وہ برف کی طرح ٹھنڈی پڑی تھی۔ یہ دیکھ کر ڈاکٹر نے کہا ارے اس کے ہاتھ پاؤں تو برف کی طرح ٹھنڈے پڑے ہیں یہ سن کر رفیق نے سونیا کے ماتھے پر ہاتھ لگایا تو وہ واقعی میں بہت ٹھنڈا تھا رفیق نے کہا ڈاکٹر یہ سب کیا ہے ابھی تو اس کا جسم تپ رہا تھا اب ٹھنڈا ہے اور یہ بار بار بیہوش کیوں ہو رہی ہے ۔۔؟؟ ڈاکٹر نے کہا آپ اطمینان رکھیں میں چیکپ کر رہا ہوں یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر ( سٹیتھو سکوپ ) لگا کر  اس کی دھڑکن چیک کرنے لگا پھر اچانک سٹیتھو سکوپ کو اتار کر اسے دیکھنے لگا اور بعد میں دوبارہ سٹیتھو سکوپ لگا کر دھڑکن چیک کرنے لگا تو اسے پھر سے دھڑکن سنائی نہیں دی اتنے میں سونیا اٹھ کر بیٹھ گئی یہ دیکھ کر ڈاکٹر نے دوبارہ سٹیتھو سکوپ لگا کر سونیا سے کہا بیٹی ذرا لمبا سا سانس لو۔۔۔ تو سونیا نے سانس لیا لیکن سٹیتھو سکوپ میں دھڑکن سنائی نہیں دے رہی تھی تو ڈاکٹر نے سٹیتھو سکوپ اتار کر سائیڈ پر پھنکتے ہوئے اپنے کمپاؤنڈر سے کہا وہاں سے  دوسرا  سٹیتھو سکوپ لاؤ۔۔ تو کمپاؤنڈر جلدی سے دوسرا سٹیتھو سکوپ لے آیا لیکن اس میں بھی دھڑکن سنائی نہیں دی تو اچانک ڈاکٹر کے پسینے چھوٹ گئے اور وہ حیرت انگیز نظروں سے سونیا کی طرف دیکھنے لگا۔ اتنے میں رفیق نے ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ڈاکٹر سب کچھ ٹھیک تو ہے نا۔۔؟؟ لیکن ڈاکٹر نے رفیق کی بات نہیں سنی اور اسی طرح سونیا کی طرف دیکھتا رہا۔۔ اتنے میں ممتاز نے ڈاکٹر کے بازو کو پکڑ کر ہلاتے ہوئے کہا ڈاکٹر صاحب آپ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں کوئی گھبرانے والی بات تو نہیں ہے۔۔؟؟ تو اچانک ڈاکٹر نے چونک کر ممتاز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ جی۔۔ جی۔۔۔ ہاں۔۔ کیا ہوا۔۔۔؟؟ اتنے میں رفیق نے دوبارہ کہا ڈاکٹر صاحب سونیا ٹھیک تو ہے نا۔۔۔؟؟ ڈاکٹر نے کہا۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔؟؟ ( امپوسیبل)  ۔۔۔ رفیق نے کہا کیا۔۔ کیسے ہو سکتا ہے ؟؟ ڈاکٹر صاحب۔۔۔ ہمیں بھی تو کچھ بتائیں۔۔۔ ؟؟ اس دوران ڈاکٹر کبھی ہاتھ میں پکڑے سٹیتھو سکوپ کو دیکھ رہا تھا تو کبھی سونیا کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ یہ دیکھ کر ممتاز نے کہا ڈاکٹر آپ پہیلیاں کیوں بجھا رہے ہیں سیدھے سے بتایئے نا۔۔ کیا بات ہے۔ ڈاکٹر نے حیرت سے ممتاز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا آپ کی بیٹی ٹھیک ہے آپ اسے لے جائیں۔ جی۔۔ لے جائیں۔۔ یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر سونیا پھر سے سونیا کی طرف دیکھنے لگا۔ اتنے میں رفیق نے کہا تو ڈاکٹر کوئی دوائی وغیرہ ہی لکھ دیں اگر دوبارہ طبیعت خراب ہوئی تو ہم اسے وہ دوائی دے دیں گے۔ ڈاکٹر نے کہا اب اس کی طبیعت کبھی خراب نہیں ہو گی اس کو اب کسی دوائی کی ضرورت نہیں ہے یہ کہتے ہوئے اچانک ڈاکٹر نے سٹیتھو سکوپ ہاتھ سے چھوڑ دیا اور حیرت انگیز نظروں سے سونیا کی طرف ہی دیکھتا رہا۔ یہ دیکھ کر ممتاز نے اشارے سے رفیق کو کلینک سے چلنے کا اشارہ کیا تو رفیق نے کہا اچھا ڈاکٹر صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ اب ہم چلتے ہیں لیکن ڈاکٹر ابھی بھی اسی طرح ساکت ہی کھڑا ہوا تھا ۔ لیکن رفیق اور ممتاز سونیا کو کلینک سے باہر لے آئے پھر رفیق نے ممتاز اور سونیا کو رکشہ میں بیٹھا تو اچانک ممتاز نے کہا ارے سونیا کا ڈوپٹہ تو کلینک میں ہی رہ گیا۔ یہ سن کر رفیق نے کہا اچھا اچھا میں ابھی لے کر آتا ہوں یہ کہتے ہوئے رفیق کلینک میں دوبارہ گیا تو رفیق نے سوچا کیوں نا ڈاکٹر سے ایک بار اکیلے میں پوچھ لوں کہ سونیا کو کوئی مسلہ تو نہیں ہے۔۔ یہی سوچ کر رفیق ڈاکٹر کے کمرے کے میں گیا تو وہاں ڈاکٹر اپنے کمپاؤنڈر کو سٹیتھو سکوپ دکھاتا ہوا کہہ رہا تھا ارے یہ  بالکل ٹھیک ہے وہ بچی ہی مر چکی ہے کیونکہ اس کی دھڑکن بند ہو چکی ہے اسی لیئے میں اسے دیکھ کر شاک ہو گیا تھا کہ ( ہاؤ پوسیبل ) ۔۔ ؟؟ اتنے میں کمپاؤنڈر کی نظر رفیق پر پڑی تو اس نے آنکھوں  سے ڈاکٹر کو اشارہ کرتے ہوئے کہا ڈاکٹر صاحب وہ آپ کے پیچھے۔۔۔؟؟ یہ سنتے ہی ڈاکٹر نے مڑ کر دیکھا تو رفیق اس کے پیچھے کھڑا تھا اسے دیکھتے ہی ڈاکٹر نے کہا آپ۔۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا ڈاکٹر وہ میری بیٹی کا ڈوپٹہ یہاں رہ گیا تھا وہ لینے آیا تھا۔۔ لیکن ڈاکٹر صاحب آپ ابھی کس کی بات کر رہے تھے۔۔؟؟ کس کی دھڑکن رک گئی ہے۔۔؟؟ کون مر چکی ہے۔۔؟؟ ڈاکٹر نے بات کو گول کرتے ہوئے کہا او۔۔۔ وہ۔۔ تو۔۔۔ نہیں وہ تو ہم آپس میں کوئی بات کر رہے تھے۔۔ رفیق نے کہا ڈاکٹر آپ کو خدا کا واسطہ ہے مجھے سچ سچ بتا دیں دیکھیں میری بیوی اور بیٹی بھی یہاں نہیں ہے آپ مجھے بتا دیں جو بھی بات ہے۔۔ میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں مجھے کسی اندھیرے میں مت رکھیں۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گا؟؟ یہ سن کر ڈاکٹر نے کہا دیکھیں یہ بات تھوڑی عجیب ہے لیکن میڈیکل سائنس کے حساب سے دیکھا جائے تو آپ کی بیٹی مر چکی ہے اس کے جسم کا ضرورت سے زیادہ سرد ہو جانا اور اس کی دھڑکن کا بند ہو جانا یہی ثابت کرتا ہے کہ وہ مر چکی ہے۔ اور سچ پوچھیں تو میری زندگی میں پہلی بار میں نے کسی ایسے مریض کو دیکھا ہے جو چل پھر رہا ہے لیکن میڈیکل سائنس کے حساب سے مر چکا ہے ۔ رفیق نے کہا لیکن ڈاکٹر صاحب وہ تو ابھی میرے ساتھ چل کر باہر گئی ہے ڈاکٹر نے کہا یہی تو سمجھ نہیں آرہا لیکن آپ پریشان نہ ہو آپ اسے کسی اچھے سے ہسپتال میں جا کر چیک کروا لیں شاید یہ میرا نظریہ غلط ثابت ہو جائے۔۔ یہ سن کر رفیق نے ہاں میں سر ہلایا اور افسردہ سا ہو کر باہر چلا گیا باہر جاتے ہی رکشہ میں بیٹھی ممتاز نے کہا ارے آپ دوپٹہ لینے گئے تھے یا بنانے چلے گئے تھے جبکہ رفیق رکشہ کے باہر کھڑا سونیا کی طرف دیکھ رہا تھا۔ تحریر دیمی ولف ۔ اتنے میں ممتاز نے کہا اب بیٹھ بھی جائیں آکر کھڑے کیوں ہیں۔۔؟؟ یہ سن کر رفیق رکشہ میں بیٹھ گیا اور پورے راستے وہ بار بار سونیا کی طرف دیکھتا رہا پھر جب گھر پہنچے تو رفیق پوری طرح پریشان ہو چکا تھا وہ بار بار سونیا کی طرف دیکھ کر کہہ رہا تھا تم ٹھیک تو ہو بیٹی۔۔۔؟؟ لیکن سونیا بنا بولے صرف ہاں میں سر ہلا رہی تھی۔ اتنے میں خالد بھی ان کے پاس آگیا اور اس نے سونیا سے پوچھا اب کیسی طبیعت ہے؟؟ لیکن سونیا نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ یہ دیکھ کر ممتاز نے خالد سے کہا بیٹا سونیا کی طبیعت ابھی ٹھیک نہیں ہے اسی لیئے وہ ابھی چڑچڑی سی ہو گئی ہے۔ یہ سن کر خالد نے کہا کوئی بات نہیں امی میں سمجھ سکتا ہوں۔ اس کے بعد خالد نے رفیق کی طرف دیکھا تو وہ کسی سوچ میں الجھا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر خالد نے کہا کیا ہوا ابو سب ٹھیک تو ہے۔۔؟؟ یہ سن کر رفیق نے خالد کی طرف دیکھ کر ہاں میں سر ہلایا اور کمرے سے باہر چلا گیا اتنے میں رفیق کی نظر دیواروں پر پڑی تو دیواریں پوری طرح سے تیار ہو چکی تھیں اور مزدور وغیرہ سب جا چکے تھے۔ اتنے میں طارق باہر سے آتا ہوا دکھائی دیا تو رفیق نے طارق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تم کہاں سے آرہے ہو۔۔۔؟؟ طارق نے کہا ابو میں ذرا دوستوں کے ساتھ باہر گیا تھا رفیق نے کہا کتنی بار بولا ہے رات میں باہر مت نکلا کرو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔ جاؤ کمرے میں جاؤ۔۔ یہ سن کر طارق نے کہا ابو خیریت تو ہے آپ آج زیادہ ہی پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔۔؟؟ رفیق نے کہا نہیں کوئی پریشانی نہیں ہے تم اپنے کمرے میں جاؤ اور آرام کرو ۔۔ یہ سنتے ہی طارق چلا گیا اور رفیق افسردہ حالت میں کھڑا کسی سوچ میں گم ہو کر ان دیواروں کو دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں خالد رفیق کے پاس آیا اور بولا ابو میں جانتا ہوں آپ کسی بات کو لے کر سے پریشان ہیں لیکن میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ وہ پلمبر بھائی وہ سارے صفحات اپنے ساتھ لے کر گیا ہے یہ سنتے ہی رفیق نے کہا وہ لے گیا۔۔؟؟ پر کیوں۔۔۔ ؟؟ خالد نے کہا ابو وہ کہہ رہا تھا کہ وہ سارے صفحات کسی حاجی بابا کو دکھا کر پتا کرے گا وہ سب کیا ہے اور ان تصاویر کا مقصد ہے۔ یہ سن کر رفیق نے کہا وہ بیچارا ہمارے لیئے خود کو مصیبت میں ڈال رہا ہے کہیں کوئی چیز اس کے پیچھے بھی نہ پڑ جائے اب تک تو جو بھی ہو رہا ہے یہ کچھ ٹھیک نہیں ہے آگے کیا ہونے والا ہے اس کا پتا نہیں یہ ایک بات جو بار بار میں دل میں آرہی ہے وہ یہی ہے کہ ہمیں یہ درخت نہیں کٹوانے چاہیئں تھے۔ یہ سن کر خالد نے کہا لیکن ابو اب تو جو ہونا تھا ہو چکا اور مجھے نہیں لگتا کہ اب ہمیں مزید اس بارے میں سوچ کر خود کو پریشان کرنا چاہیئے۔ رفیق نے کہا بیٹا پریشانی تو آچکی ہے۔۔۔ یہ سنتے ہی خالد نے چونکتے ہوئے کہا کیسی پریشانی ابو۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا خیر چھوڑو یہ سب چلو اندر چلو رات گہری ہو رہی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اب ہمیں آرام کرنا چاہیئے۔ یہ سن کر خالد نے کہا جی ٹھیک ہے ابو ۔ اس کے بعد دونوں باپ بیٹے کمرے میں چلے گئے اور کھانا وغیرہ کھا کر سب آرام کرنے لگے اور پھر سو گئے۔ رات کے تقریباً بارہ بج رہے تھے کہ اچانک دروازے پر دستک ہونے لگی لیکن اس وقت سب سو رہے تھے کہ اچانک سونیا اٹھی اور دروازہ کھول کر کمرے سے باہر چلی گئی اتنے میں اچانک طارق کی آنکھ کھل گئی اور وہ باتھ روم جانے کے لیئے کمرے سے باہر نکلا تو اچانک اس نے سونیا کو صحن میں دیکھا جو بنا پاؤں زمین سے اٹھائے ہی  اس دیوار کی طرف چلی جا رہی تھی یہ دیکھ کر طارق نے اسے آواز دی لیکن وہ نہیں رکی اسے ایسا کرتے دیکھ کر طارق آہستہ آہستہ سے اس کے پیچھے جانے لگا تو اچانک وہ اندھیرے میں کہیں غائب ہو گئی یہ دیکھ کر طارق اچانک ڈر گیا اور اس طرف دیکھتا ہوا وہاں سے قدم پیچھے ہٹانے لگا ابھی وہ کچھ ہی قدم پیچھے ہٹا تھا کہ اچانک طارق کو اپنے پیچھے کوئی غراہٹ کی آواز کے ساتھ کسی کی موجودگی کا احساس ہونے لگا تو جیسے ہی اس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے کیونکہ کمرے کی چھت پر سونیا اپنی ٹانگیں لٹکائے بیٹھی ہوئی تھی لیکن اس کی شکل بہت ہی بھیانک اور اس کا وجود بہت ہی بڑا نظر آرہا تھا کیونکہ وہ بیٹھی تو چھت پر تھی لیکن اس کے پاؤں زمین سے ایک دو فٹ ہی اونچے تھے جنہیں وہ ہلاتے ہوئے عجیب سی آواز میں غرا رہی تھی یہ دیکھ کر طارق کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور اس کے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی تو اس نے سامنے کمرے کے کھلے ہوئے دروازے کی طرف دیکھ کر رفیق کو آواز دینے کی کوشش کی لیکن اس کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی کیونکہ وہ اس قدر ڈر گیا تھا کہ اس کے ہاتھ پاؤں تیزی سے کانپ رہے تھے اور اس کا جسم پوری طرح سے ڈھنڈا ہو رہا تھا لیکن جیسے ہی طارق نے ہمت دکھا کر کمرے کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تو اسی وقت سونیا نے چھت سے زمین پر چھلانگ لگا دی اور دروازے کے سامنے کھڑی ہو گئی یہ دیکھ کر طارق اس کی طرف دیکھتے ہوئے وہاں سے پیچھے ہٹنے لگا اس دوران سونیا کی آنکھیں کالی بلی طرح چمک رہیں تھیں جسے دیکھتے ہوئے طارق کا پیشاب اس کی پلتون میں ہی نکل گیا کیونکہ اس وقت سونیا کا قد بہت بڑا اور اس کے عجیب سے مڑے ہوئے پاؤں دیکھ کر طارق کی جان نکل رہی تھی اتنے میں کمرے میں کوئی ہلچل ہوئی تو اسی وقت سونیا طارق کی طرف بڑھی یہ دیکھ کر طارق نے باہری گیٹ کی طرف دوڑ لگا دی لیکن سونیا نے کچھ ہی دور جا کر اسے پکڑ کر لیا تو اسی وقت طارق کی چیخوں کی آواز گنج اٹھی جس کی وجہ سے کمروں میں موجود سب کی آنکھ کھل گئی اور وہ گھبرا کر کمرے سے باہر نکلے اتنے میں ممتاز نے چلاتے ہوئے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا طارق۔۔۔ طارق۔۔۔ ابھی ممتاز یہ بات کر ہی رہی تھی کہ ایک بار پھر سے طارق کی چینخ کی آواز سنائی دی جو کہ صحن میں نئی تعمیر ہوئی ان دیواروں کی طرف سے آرہی تھی اسے سنتے ہی خالد اور رفیق اس دیوار کی طرف بھاگے جیسے ہی وہ دیوار کے پاس گئے تو دونوں کے ہوش اڑ گئے کیونکہ انہوں نے وہاں سونیا کو دیکھا جو کہ دیوار کو اپنے دونوں ہاتھوں سے دھکیل کر اسے گرانے کی کوشش کر  رہی تھی اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے سونیا نے وہ پوری دیوار گرا دی جس کے گررتے ہیں ایک بہت بڑی دھمک سنائی دی یہ دیکھ کر رفیق نے سونیا کو آواز دی تو وہ غراتی ہوئی اندھیرے کی طرف بھاگی اور کہیں غائب ہو گئی اس دوران رفیق اور خالد ، طارق کو آوازیں دیتے ہوئے ڈھونڈنے لگے لیکن اب نہ تو طارق کہیں نظر آرہا تھا اور نہ ہی کہیں سے اس کی آواز سنائی دے رہی تھی ابھی رفیق اور خالد اسے ڈھونڈ ہی رہے تھے کہ اتنے میں اچانک ممتاز کی دلخراش چیخوں کی آواز سنائی دی تو اسی وقت رفیق اور خالد ممتاز کی طرف بھاگے لیکن وہاں پہنچنے پر دیکھا کہ ممتاز بھی وہاں موجود نہیں تھی اور اس کی چیخیں بھی بند ہو چکی تھیں۔ یہ دیکھ کر رفیق اور خالد گھبراہٹ میں سونیا طارق اور ممتاز کو آوازیں دیتے ہوئے ادھر اُدھر ڈھونڈنے لگے ۔ اتنے میں اچانک دروازے کی گھنٹی بجنے لگی لیکن خالد اور رفیق پاگلوں کی طرح روتے ہوئے اپنے گھر والوں کو آوازیں دیتے ہوئے انہیں ڈھونڈنے میں لگے ہوئے تھے اس دوران مسلسل گھنٹی بج رہی تھی تو اچانک خالد نے کہا ابو۔۔۔ دروازے کی طرف چلو امی وہاں ہیں یہ کہتے ہوئے خالد دروازے کی طرف بھاگا تو اس کے پیچھے رفیق بھی روتا ہوا بھاگا اور جیسے ہی خالد نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ باہر پلمبر کسی بزرگ کے ساتھ کھڑا ہوا تھا تو خالد نے روتے ہوئے کہا میری امی کہاں ہیں۔۔۔۔ ؟؟ میرا بھائی۔۔ کہاں گیا۔۔۔۔؟؟ اتنے میں رفیق بھی دروازے پر آیا تو پلمبر نے حیرانی سے کہا یا الله خیر۔۔۔۔  پہلوان بھائی کیا ہوا ۔۔۔؟؟ آپ لوگ رو کیوں رہے ہیں۔۔۔؟؟ کیا سب کچھ ٹھیک تو ہے۔۔۔؟؟ رفیق نے روتے ہوئے کہا میری بیٹی کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے اور میرا بیٹا طارق بھی کہیں نظر نہیں آرہا میرے گھر میں قیامت کیوں آگئی۔۔ یہ سنتے ہی اس بزرگ نے پلمبر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ہم نے بہت دیر کر دی ابھی بزرگ یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اچانک کمروں کی طرف سے ایک بھیانک سی چیخ کی آواز سنائی دی تو اسے سنتے ہی سب لوگ اس طرف بھاگے وہاں جاتے ہی سب لوگ چونک گئے کیونکہ کمرے کی چھت پر سونیا کھڑی ہوئی تھی جس نے اپنے بڑے سے منہ میں ممتاز کی گردن دبوچ رکھی تھی یہ منظر دیکھ کر سب کے ہوش اڑ گئے رفیق تو اسی وقت بیہوش ہو کر گر پڑا جبکہ خالد روتے ہوئے سونیا سے کہنے لگا سونیا وہ امی ہیں سونیا امی کو چھوڑ دو یہ کہتے ہوئے خالد گڑگڑاتے ہوئے اس کی طرف بڑھنے لگا تو اسی دوران بزرگ نے نے خالد کی بازو پکڑ کر اسے روکا اور جلدی سے کچھ پڑھتے ہوئے سونیا کی طرف پھونک ماری تو اچانک سونیا نے ممتاز کو زمین پر پھینک دیا اور چھت سے پیچھے ہٹتے ہوئے کسی طرف چلی گئی اس دوران خالد روتے ہوئے ممتاز کو اٹھانے کی کوشش کرنے لگا تو بزرگ نے کہا ( إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) یہ سنتے ہی خالد نے بزرگ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا نہیں۔۔۔ ایسا  نہیں ہو سکتا میری امی زندہ ہیں انہیں کچھ نہیں ہوا۔۔۔یہ زندہ ہیں امی۔۔۔امی۔۔امی۔۔۔اٹھو نا امی۔۔۔ یہ کہتے ہوئے رونے ڈھاڑیں مارتا ہوا رونے لگا اتنے میں پلمبر رفیق کو بھی ہوش میں لے آیا تو خالد نے اسے آواز دیتے ہوئے کہا ابو۔۔۔؟؟ امی کو اٹھاؤ نا۔۔۔۔ابو۔۔۔۔دیکھو کیا ہو گیا ہے امی کو۔۔؟؟  یہ سنتے ہی رفیق بھی ممتاز کو اٹھانے کی کوشش کرنے لگا لیکن ممتاز کا گلا یوری طرح سے خون آلود ہو چکا تھا اور اس کے گلے کا بہت سارا حصہ غائب تھا یہ دیکھ کر بزرگ نے رفیق کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا بیٹا اب یہ اس دنیا میں نہیں رہیں انہیں جھنجھوڑو مت مردے کو تکلیف ہوتی ہے۔ یہ سن کر رفیق نے حیرانی سے بزرگ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ مر چکی ہے۔۔؟؟ بزرگ نے کہا یہی حقیقت ہے بیٹا۔۔ رفیق نے کہا نہیں آپ جھوٹ بول رہے ہیں یہ نہیں مر سکتی ابھی ہم نے نیا گھر بھی بنانا ہے ممتاز اٹھو دیکھو میں تمہارے سامنے ہوں ممتاز اٹھو نا۔۔۔۔خدا کا واسطہ ہے مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔۔۔ہمیں اکیلا مت چھوڑو اٹھ جاؤ۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے رفیق بھی ممتاز کو اٹھاتے ہوئے دھاڑیں مارتے ہوئے رونے لگا۔۔ یہ دیکھ کر بزرگ نے رفیق کو پھر سے اٹھاتے ہوئے کہا صبر۔۔۔ کرو۔۔۔ بیٹا صبر کرو اور میری بات سنو تمہارا پورا خاندان بھیانک بدلے کی وجہ سے موت کی لپیٹ میں آچکا ہے اس سے پہلے کہ مزید جانیں بدلے کی بھینٹ چڑھ جائیں تمہیں خود کو ابھی اور اسی وقت سمبھال کر میری بات سننی ہو گی  اب لاش کو اٹھا کر اندر لے چلو ۔ یہ سن کر رفیق نے روتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور خالد کے ساتھ ممتاز بی بی کی لاش کو اٹھا کر کمرے میں لے گیا وہاں جا کر بزرگ نے کہا جہاں تک مجھے عظیم (یعنی پلمبر ) نے بتایا اور خاکوں کی مدد سے پتا چلا کہ تمہارا کنبہ ٹوٹل پانچ افراد پر مشتمل تھا لیکن مجھے اب صرف تم دو ہی نظر آرہے ہوئے اس کا مطلب تین لوگوں کو تم نے کھو دیا ہے۔ یہ سن کر رفیق نے کہا آپ کون ہیں ۔۔؟؟ بزرگ نے کہا میرا نام عبداللہ ہے لیکن لوگ مجھے حاجی بابا کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ سنتے ہی رفیق نے کہا حاجی بابا میری بیوی تو فوت ہو گئی لیکن آپ چاہو تو میرے بیٹے طارق اور بیٹی سونیا کو بچا سکتے ہیں۔ یہ سن کر حاجی بابا نے کہا بیٹا بچایا انہیں جاتا ہے جو زندہ ہوں۔ یہ سن کر رفیق نے کہا نہیں حاجی بابا وہ دونوں زندہ ہیں بیٹی تو آپ نے دیکھی تھی ابھی کچھ دیر پہلے جس پر کوئی اثر ہو گیا ہے لیکن میرا بیٹا طارق کہیں نظر نہیں آرہا اس کا مطلب ہے وہ زندہ ہو گا اور کہیں چھپ گیا ہوگا حاجی بابا آپ کچھ بھی کر کے اسے بچا لو۔۔۔؟؟ یہ سن کر حاجی بابا نے اپنی جیت سے وہی صفحات نکالے جن پر خاکے بنے ہوئے تھے تو اس میں سے وہ پانچ قبروں کے ساتھ پانچ تصاویر والا خاکہ نکالا اور اسے دیکھنے کے بعد رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے بولے بیٹا مجھے بے حد افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اب  صرف تم دو ہی بچے ہو۔ یہ کہنے کے بعد حاجی بابا نے وہ خاکہ رفیق کو دکھاتے ہوئے کہا دیکھو کیا یہی وہ لوگ ہیں جن کی تصویریں لال رنگ کی ہو چکی ہیں۔۔ یہ سنتے ہی رفیق نے جلدی سے وہ خاکہ پکڑ کر دیکھا تو اس میں سونیا طارق اور ممتاز کی تصویریں لال رنگ سے رنگین ہو چکی تھیں جبکہ خالد اور رفیق کی تصویریں ابھی بنا کسی رنگ کے تھیں۔ یہ دیکھ کر رفیق نے کہا حاجی بابا اس لال رنگ کی تصویروں کا کیا مطلب ہے ۔۔۔؟؟! حاجی بابا نے کہا مطلب صاف ہے اور اس کا ثبوت یہ تمہارے گھر میں پڑی اس خاتون کی لاش ہے۔ اس کی طرح باقی دو لوگ بھی اس دنیا میں نہیں رہے ۔ اب صرف تم دو ہی بچے ہو۔ یہ سن کر رفیق نے کہا حاجی بابا یہ خاکے غلط بھی تو ہوسکتے ہیں۔۔؟؟ حاجی بابا نے کہا ضرور ہو سکتے تھے اگر انہیں کسی انسان نے بنایا ہوتا کیونکہ انسان غلطی کا پتلہ ہے لیکن یہ خاکے ان چیزوں نے خود بنائے ہیں جن کے خاندان کو تم نے اجاڑ کر رکھ دیا ورنہ ان خاکوں کا رنگ خودبخود تبدیل نہ ہوتا۔ یہ سن کر رفیق نے کہا میں نے تو کسی کا خاندان نہیں اجاڑا۔۔۔؟؟ حاجی بابا نے کہا اجاڑا ہے ان درختوں میں ان چیزوں کا خاندان بس رہا تھا لیکن تم نے انہیں کٹوا کر ان کے خاندان کے چار افراد کو زخمی کر کے وہاں سے بھگا ڈالا یہ کہتے ہوئے حاجی بابا نے ایک اور خاکہ نکال کر رفیق کو دکھاتے ہوئے کہا اس خاکے کو غور سے دیکھو یہ وہی چار چیزیں ہیں جنہیں تم نے شاکر کی مدد سے بری طرح زخمی کر کے یہاں سے بھگا دیا یہ سن کر رفیق نے وہ خاکہ دیکھا تو اس پر چھ الگ الگ ڈراؤنی سی تصاویر بنی ہوئیں تھیں جن میں دو چھوٹے بچوں کی طرح دکھائی دے رہیں تھیں باقی دو بڑی تھیں ان میں ایک تصویر کو دیکھ کر اس پر انگلی رکھتے ہوئے رفیق نے کہا یہ۔۔۔یہ۔۔۔ تو وہی عورت ہے۔۔۔ہاں  یہ وہی ہے۔۔ حاجی بابا اسے میں پہلے اپنے گھر کے پاس دیکھ چکا ہوں اس کے بالوں کی وجہ سے مجھے پتا چل رہا ہے یہ وہی ہے یہ سن کر خالد نے بھی وہ خاکہ دیکھتے ہوئے کہا ہاں یہ وہی ہے یہ سن کر رفیق نے حاجی بابا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو کیا حاجی بابا یہ جو کچھ بھی یہاں ہو رہا ہے وہ سب یہ چیزیں کر رہی ہیں۔۔۔ حاجی بابا نے کہا نہیں کیونکہ کہ ان تصاویر کے رنگ پیلے ہو چکے ہیں اس کا مطلب وہ روحیں بری طرح سے زخمی ہیں لیکن یہ باقی دو روحیں جن کے رنگ سیاہ ہو رہے ہیں وہ یہ سب کر رہے ہیں اور اس وقت وہ بہت طاقتور اور غصیلے ہیں اسی وجہ سے ان کی تصاویر کا رنگ دھیرے دھیرے سیاہ ہو رہا ہے ۔ یہ سن کر رفیق نے کہا تو اس کا کیا مطلب ہے حاجی بابا  ۔۔۔؟؟ یہ سن کر حاجی بابا نے رفیق سے کہا جو تم نے کیا وہ ظلم کی انتہاء تھی اور سخت گناہ تھا کیونکہ تم نے جانے انجانے میں ان کے بچوں تک کو بھی بے دردی سے زخمی کر ڈالا اور اس کے بدلے میں اب جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ بہت ہی بھیانک ہے لیکن وہ اسے اپنا حق سمجھ کر کررہے ہیں اور وہ اس کے لیئے کسی بھی حد تک جائیں گے ۔ یہ سن کر رفیق نے کہا حاجی بابا مجھے اپنی جان کی پرواہ نہیں ہے آپ میرے اس بیٹے خالد کو ان کے بدلے سے بچا لیجئے ۔ وہ چاہیں تو میری جان لے سکتے ہیں لیکن میرے بیٹے خالد کی جان کو بچا لو حاجی بابا۔۔  یہ سن کر حاجی بابا نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ویسا ہی ایک تعویز نکالا جیسا کہ رفیق کو شاکر بابا نے دیا تھا اس تعویذ کو دیکھتے ہی رفیق نے کہا حاجی بابا۔۔ یہ۔۔۔ تعویذ تو۔۔۔ یہ تعویز تو پہلے سے ہی میرے گلے میں ہے یہ کہتے ہوئے رفیق نے اپنے گلے میں پہنا ہوا تعویز حاجی بابا کو دکھایا تو حاجی بابا نے کہا جی جی بیٹا تمہارے گلے میں پہنا تعویز بھی میرے ہاتھ کا ہی بنا ہوا ہے اسے شاکر بنوانے آیا تھا میرے پاس تو میں نے اسے بنا کر دے دیا لیکن شاید اس نے وہ تعویز تمہارے لیئے ہی بنوایا ہو گا۔ یہ سن کر رفیق نے کہا اس نے آپ سے تعویز بنوایا تھا۔۔۔؟؟ یہ سن کر حاجی بابا نے ہاں میں سر ہلایا اور بولے بیٹا دراصل شاکر اکثر کالے جادو کے عمل کرتا تھا جس سے اسے اپنی جان بچانے کے لیئے ان تعویزات کی اکثر ضرورت پڑتی رہتی تھی کیونکہ اس کا عمل کمزور تھا اس لیئے کئی بار اس کے کالے جادو کی چیزیں اسی پر حملہ آور ہو جاتیں تھیں تو وہ اکثر مجھ سے مدد مانگنے آجایا کرتا تھا اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی مدد کر دیتا تھا کیونکہ میرا علم مجھے انسانیت کی فلاح کے لیئے کام کرنے کا درس دیتا ہے اور میں شاکر کو سمجھاتا تھا کہ وہ کالے جادو کا عمل چھوڑ دے لیکن وہ کبھی کسی کی سنتا ہی نہیں تھا۔ اور پھر جب شیطانی چیزیں اسے پریشان کرتی تھیں تو وہ مجھ سے مدد لینے کے لیئے آ جاتا تھا اور ایک بات وہ یہ کہ ایسا ہی تعویز آج عظیم نے کسی ٹرک ڈرائیور کے لیئے بھی بنوایا تھا اور پھر مجھے بعد میں پتا چلا کہ وہ بھی تمہاری طرح ہی اس لڑائی کا حصہ تھا لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس کے کلام میں اتنی طاقت ہے کہ موت کا راستہ بھی بدل دیتا ہے ورنہ ابھی کچھ دیر پہلے جیسا اس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اس سے تو یہی لگ رہا تھا کہ شاید آج وہ نہیں بچے گا ۔ یہ سن کر رفیق نے روتے ہوئے پلمبر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا یہ ببی کی بات کر رہے ہیں۔۔؟؟ پلمبر نے کہا جی پہلوان بھائی ابھی یہاں آنے سے کچھ دیر پہلے ہی ببی بھائی ملے تھے تو انہوں نے بتایا کہ آج جب وہ کسی کا سامان چھوڑ کر واپس آرہے تھے تو ڈرائیونگ کے دوران اچانک کسی چیز نے ان کے ٹرک کا سٹیئرنگ گما کر سامنے سے آتے ہوئے تیز رفتار ٹرک کی طرف موڑ دیا جس سے اچانک ان کے ٹرک کا تصادم ہو گیا لیکن معجزاتی طور پر ببی بھائی اس ٹرک کے تصادم سے پہلے ہی باہر گر گئے جس کی وجہ سے ان کی جان بچ گئی جبکہ ٹرک پوری طرح سے پچک کر تباہ ہو گیا اور یہ سب الله کے کلام سے تیار کیئے ہوئے اسی تعویز کی وجہ سے ہوا تھا۔ یہ سنتے ہی رفیق اپنے گلے میں پہنے تعویز کو پکڑ کر دیکھا اور پھر اسے جلدی سے اتار کر خالد کے گلے میں پہنانے لگا تو حاجی بابا نے کہا ارے بیٹا تم اسے پہنے رہو یہ ہے نا تمہارے بیٹے کے لیئے۔ یہ کہتے ہوئے حاجی بابا نے وہ تعویز خالد کو دیتے ہوئے کہا برخوردار یہ تعویز تم پہن لو۔ یہ سنتے ہی خالد نے روتے وہ ہوئے اپنے گلے میں پہن لیا تو حاجی بابا نے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بیٹا میں معافی چاہتا ہوں کہ مجھے یہاں آنے میں بہت دیر ہو گئی کیونکہ اگر میں یہاں وقت پر آجاتا تو شاید میں اس لڑائی کو پہلے ہی روکنے میں کامیاب ہو جاتا۔لیکن ایسا نہیں ہوا دراصل۔ 

جاری ہے ۔۔۔۔

Writer:Dimy wolf  

Visited 126 times, 1 visit(s) today
Last modified: February 11, 2024
Close Search Window
Close
error: Content is protected !!