پارٹ: 1
گجرانوالہ کے ایک کچے علاقے کی بات ہے جو کہ کھوتا پلی کے نام سے مشہور ہے وہاں( رفیق عرف پھیکہ پہلوان) نامی ایک شخص رہا کرتا تھا جو کہ کھانے پکانے کی وجہ سے بہت مشہور تھا اور اپنے گھر سے دور ایک ریسٹورنٹ چلایا کرتا تھا اس کے گھر میں ٹوٹل پانچ افراد تھے رفیق، اس کی بیوی ممتاز بی بی ، اور اس کے تین بچے تھے جس میں خالد جو کہ چھبیس سال کا تھا طارق بائیس سال اور ایک بیس سالہ بیٹی سونیا تھی خالد جو کہ پڑھائی میں کافی اچھا تھا اسی وجہ سے وہ کسی اچھی کمپنی میں جاب کرتا تھا جبکہ طارق کم پڑھنے کی وجہ سے کسی کارخانے میں جوتیاں بنانے کا کام کرتا تھا ایسے ہی سونیا بھی مڈل پاس تھی اور وہ گھر میں ہی ممتاز کے ساتھ کسی فیکٹری سے سامان لا کر اس کی پیکنگ کیا کرتی تھی اس طرح پورے گھر والے ہی بڑی محنت سے گھر کا سسٹم چلا رہے تھے لیکن گھر کی حالت تھوڑی عجیب تھی کیونکہ یوں تو رفیق کا گھر کافی وسیع تر تھا لیکن کچا پکا تھا اس گھر میں تقریباً سب کے الگ الگ کمرے تھے اور ایک میدان کی طرح بہت بڑا کچا صحن تھا جس میں پانچ چھ پرانے درخت اور ایک ہاتھ سے ( گیڑنے والا نلکہ) لگا ہوا تھا جو کہ باہر گیٹ سے کچھ ہی دوری پر تھا وہیں پر دو باتھ روم بھی بنے ہوئے تھے اس لیئے رفیق اور اس کے گھر والوں کو باتھ روم جانے اور پانی لانے کے لیئے باہری گیٹ کے پاس جانا پڑتا تھا تو ایک رات رفیق اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا تو خالد نے رفیق سے کہا ابو میرے خیال سے اب ہمیں گھر کی تعمیر پر توجہ دینی چاہیئے دیکھو نا اتنا بڑا گھر ہے لیکن عجیب طریقے سے بنا ہوا ہے ہمارے کمرے تو یہاں ہیں لیکن باتھ روم وہ (100 گز ) کی دوری پر بنے ہوئے ہیں اور ان میں بھی کسی وقت پانی نہیں ہوتا تو ایسے میں بہت مشکل ہوتی ہے ۔ اور اگر باہری گیٹ پر گھنٹی نہ لگی ہو تو کسی کو پتا ہی نہیں چلتا باہر دروازے پر کوئی دستک دے رہا ہے یہ سن کر ممتاز نے بھی رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جی خالد کے ابو اب تو مجھے بھی بہت پریشانی ہوتی ہے وہاں سے پانی کی بالٹیاں اٹھا کر یہاں لانے میں بہت تھکان ہو جاتی ہے عمر ڈھلنے کے ساتھ میری ہمت اور طاقت بھی جواب دے رہی ہے۔ یہ سن کر رفیق نے کہا دیکھو تم لوگ جو بھی کہہ رہے ہو وہ سب ٹھیک ہے لیکن ابھی ہم اتنی جلدی یہ سب کام نہیں کروا سکتے کیونکہ اس کے لیئے ہمیں بہت پیسے چاہیئں سب سے پہلے ہمیں ان کمروں کے پکے لینٹر ڈلوانے ہوں گے کیونکہ اکثر بارش میں چھتوں سے پانی گرتا ہے ۔ باقی پانی کا مسلہ تو حل ہو جائے گا میں کل ہی کسی پلمبر سے بات کرتا ہوں وہ ہمیں پانی کی موٹر اور ٹینکی لگا دے گا اور کچن کے پاس پانی کا ایک اور کنیکشن لگا دے گا تاکہ تم لوگوں کو پانی کے لیئے گیٹ کے پاس نہ جانا پڑے اس کے ساتھ ساتھ ایک پانی کی ٹینکی باتھرومز کے اوپر بھی لگا دے گا تاکہ باتھرومز میں بھی پانی کا مسلہ نہ ہو لیکن اس کام میں بھی کافی پیسے لگ جائیں گے۔ یہ سن کر خالد نے کہا جی ابو یہ ٹھیک ہے کم از کم ایک مسلہ تو حل ہو جائے گا نہ۔۔۔ اس دوران طارق جو کافی دیر سے سب کی باتیں سن رہا تھا اس نے کہا ابو کیا ہم یہ صحن والی جگہ کسی کو بیچ نہیں سکتے۔۔؟؟ میرا مطلب ہے جو کوئی اسے خریدے گا وہ خود ہی یہاں کوئی چار دیواری کروا کر اسے فیکڑی یاں کارخانہ بنا لے گا ویسے میرے باس بھی کارخانے کے لیئے کوئی ایسی ہی جگہ خریدنا چاہتے ہیں اگر آپ چاہیں گے تو میں ان سے بات کروں گا اس طرح ہمیں جو پیسے ملیں گے ہم اس سے اچھا سا دو منزلہ گھر بنا لیں گے پھر بھی بہت جگہ بچ جائے گی؟؟ یہ سنتے ہی رفیق نے چونک کر طارق کی طرف دیکھا پھر مسکرا کر کہا مشورہ تو اچھا ہے برخوردار لیکن یہ جگہ میرے باپ دادا کی نشانی ہے اس لیئے میرا اس جگہ کو بیچنے کا دل نہیں کرتا ورنہ یہ کام میں تب ہی کر دیتا جب تم لوگ بہت چھوٹے ہوا کرتے تھے اور مجھے ریسٹورنٹ بنانے کے لیئے پیسوں کی اشد ضرورت تھی اس وقت تمہاری امی نے اپنا زیور بیچ دیا لیکن مجھے اس جگہ کو بیچنے سے بچا لیا۔ لیکن دیکھو آج تم مجھے پھر سے اس جگہ کو بیچنے کا مشورہ دے رہے ہو۔ یہ سن کر طارق نے کہا مجھے معاف کر دیں ابو میرا وہ مطلب نہیں تھا ۔ اتنے میں سونیا نے کہا ابو لیکن دیکھا جائے تو طارق بھائی ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں ویسے بھی ہم لوگ تو ان کمروں کے آس پاس ہی رہتے ہیں ایسے میں اگر وہ فالتو جگہ آپ بیچ بھی دیں گے تو کیا فرق پڑتا ہے ویسے بھی بھائی کونسا آپ کو پورا گھر بیچنے کو کہہ رہا ہے۔۔ یہ سن کر رفیق سونیا کی طرف حیرت انگیز نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔ اوہ۔۔۔ تو اس کا مطلب اس گھر کی جگہ کو بیچنے کے حق میں دو ووٹر ہیں۔۔ یہ کہنے کے بعد رفیق نے خالد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور تم کیا کہتے ہو خالد۔۔۔؟؟؟ یہ سن کر خالد نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا ابو ۔۔ یہ تو میں نے بہت پہلے سے سوچا تھا لیکن آپ کو برا نہ لگے اس وجہ سے آپ کو نہیں کہتا تھا۔ یہ سنتے ہی رفیق نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہا ہممممم۔۔۔ تو اس کا مطلب تم سب کی رائے ایک ہی ہے۔۔ اتنے میں ممتاز نے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا دیکھیئے ان سب کی رائے ایک ہو سکتی ہے لیکن میری رائے ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے۔ یہ بچے ہیں نادان ہیں اس لیئے انہیں پتا نہیں کہ باپ دادا کی نشانی کی کیا حیثیت ہوتی ہے یہ تو کچھ بھی بولتے رہتے ہیں ۔ یہ کہتے ہوئے ممتاز نے سارے بچوں کی طرف افسردہ سا منہ بنا کر دیکھا۔ پھر رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا آپ ان کی باتوں کو درگزر کر دیں اور جیسا آپ کو مناسب لگے آپ ویسا ہی کریں ۔ ممتاز کی بات سن کر رفیق نے بنا بولے ہاں میں سر ہلایا اور کچھ سوچتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ پھر ممتاز رفیق کے پاس گئی تو رفیق کسی گہری سوچ میں الجھا ہوا تھا یہ دیکھ کر ممتاز نے کہا کیا ہوا آپ اب بھی بچوں کی باتوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔۔۔؟؟؟ اس دوران رفیق نے نا تو ممتاز کی طرف دیکھا اور نہ ہی اس کی بات کا کوئی جواب دیا ایسا لگتا تھا کہ جیسے رفیق کو ممتاز کی موجودگی کا احساس ہی نہیں ہوا تھا ۔ یہ دیکھ کر ممتاز نے آگے بڑھ کر رفیق کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ہلاتے ہوئے کہا خالد کے ابو۔۔۔۔؟؟ یہ سنتے ہی رفیق اک دم چونکتے ہوئے ممتاز کی طرف دیکھ کر بولا ہ۔۔۔ ہاں۔۔۔ ۔ ہاں۔۔ کک کیا ہوا۔۔۔کیا ہوا۔۔۔۔؟؟اس دوران رفیق اچانک پسینے سے بھیگ رہا تھا یہ دیکھ کر ممتاز نے کہا آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔۔؟؟ کیا سوچ رہے تھے آپ۔۔۔؟؟ یہ سن کر رفیق نے حیرت سے اپنے آس پاس دیکھ کر ممتاز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا پتا نہیں مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا ہے۔۔ ممتاز نے حیرت سے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا عجیب۔۔۔ لگ۔۔ رہا۔۔۔ ہے پر کیا۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا دراصل میں اس جگہ کو بیچنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں میرا خیال ہے کہ بچے سہی کہہ رہے ہیں ہمیں اس گھر کے آدھے حصے کو بیچ دینا چاہیئے۔ یہ سنتے ہی ممتاز نے کہا کیا۔۔۔۔۔؟؟ آپ گھر کی آدھی جگہ کو بیچنے کا سوچ رہے ہیں۔۔۔؟؟؟ رفیق نے کہا ہاں لیکن مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے کیونکہ جو بھی اس جگہ کو خریدے گا وہ سب سے پہلے وہاں لگے ان درختوں کو کاٹ دے گا اور اگر ایسا ہوا تو پتا نہیں مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے وہ ہمارے لیئے اچھا نہیں ہو گا۔۔ یہ سن کر ممتاز نے حیرت انگیز نظروں سے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔؟؟ لیکن کیوں۔۔۔؟؟ آخر مسلہ کیا ہے۔۔۔؟؟ یہ بات آپ نے پہلے بھی بہت بار کی ہے لیکن آپ ٹھیک سے بتاتے نہیں ہیں ہر بار بات کو گول کر دیتے ہیں لیکن آج آپ کو بتانا ہی ہو گا آخر کیوں آپ کو لگتا ہے کہ ان درختوں میں کوئی راز چھپا ہے۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا یہ تو مجھے بھی نہیں پتا لیکن میرے والد مرحوم نے مرنے سے پہلے کہا تھا کہ ان درختوں سے دور ہی رہنا اور کچھ بھی ہو جائے انہیں کھبی کاٹنے کی کوشش مت کرنا۔۔۔ بس اسی وجہ سے میں تھوڑا سا پریشان ہوں۔ یہ سن کر ممتاز بی بی نے کہا لیکن ہم تو روزانہ ان کے آس پاس سے ہی گزرتے رہتے ہیں ہمیں تو کچھ بھی عجیب نہیں لگا ۔ رفیق نے کہا وہ تو میں بھی ان کے پاس سے ہی گزرتا ہوں لیکن پتا نہیں کیوں مجھے ان کے پاس سے گزرتے ہوئے عجیب سی وحشت ہوتی ہے خاصکر اس کونے والے بیری کے درخت سے کیونکہ ایک رات جب میں باتھ روم کے لیئے جا رہا تھا تو اچانک مجھے کوئی بہت ہی ڈراونی سی چیز اس بیری کے درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی نظر آئی جو کہ کافی بڑی اور عجیب قسم کی تھی حالانکہ اس نے مجھے کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا لیکن اسے دیکھ کر میں بہت ڈر گیا اور میں بھاگ کر اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ یہ سنتے ہی ممتاز نے حیرت سے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ کب کی بات ہے۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا تقریباً دو تین مہینے پہلے کی بات ہے لیکن ایسی ہی عجیب چیزیں میں نے بہت پہلے اور بہت بار ان درختوں کے آس پاس دیکھی ہیں ۔ ممتاز نے کہا تو پھر آپ نے یہ سب ہمیں بتایا کیوں نہیں۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا میں کیا بتاتا مجھے لگا تھا کہ وہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا رہیں تو ایسے ہی تم لوگوں کو بتا کر پریشان کیوں کروں بس اسی لیئے میں بات کو گول کر دیتا تھا۔ یہ سن کر ممتاز نے کہا اس کا مطلب کہ ہمیں بھی ان درختوں کے پاس جانے سے احتیاط برتری چاہیئے۔۔ رفیق نے کہا ہاں لیکن فلحال یہ بات تمہارے اور میرے درمیان ایک راز ہی رہے گی ورنہ بچے ایسے ہی ڈر جائیں گے۔ ممتاز نے کہا تو پھر اب آپ کیا کریں گے۔۔؟؟ رفیق نے کہا پتا نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب ہمیں اس بارے میں کسی عامل یاں پیر بابا سے بات کرنی ہوگی کیونکہ ایک نہ ایک دن تو ہمیں اس گھر کو سنوارنا ہی ہے اس لیئے اب کچھ تو کرنا ہو گا۔ لیکن پہلے پلمبر کو لا کر پانی والا مسلہ حل کرنا ہوگا پھر کسی عامل سے بات کر لوں گا ۔ یہ کہہ کر رفیق اپنے بستر پر لیٹ کر سونے کی کوشش کرنے لگا اس دوران ممتاز بھی گھر کے باقی کام نمٹا کر سو گئی۔ رات کے قریب ڈھائی بجے کا وقت تھا کہ اچانک رفیق کی آنکھ کھل گئی اور وہ باتھ روم جانے کے لیئے کمرے سے باہر گیا اور صحن میں چلتا ہوا باہری گیٹ کی طرف جانے لگا ابھی رفیق باتھ روم سے کچھ ہی دور تھا کہ اچانک رفیق کو باہری گیٹ کے اوپر کوئی عورت نظر آئی جو کہ گیٹ پر بیٹھی باہر کی طرف دیکھ رہی تھی اس دوران اس کی کمر رفیق کی طرف تھی جو کہ اس کے بڑے بڑے بالوں سے ڈھکی ہوئی تھی اسے دیکھتے ہی رفیق کے رونگٹے کھڑے ہو گئے رفیق نے کانپتی ہوئی آواز سے کہا کک۔۔۔ کون۔۔ کون۔۔۔ ہے وہاں۔۔۔؟؟ یہ سنتے ہی اچانک اس عورت کا چہرہ گھوم کر رفیق کی طرف ہو گیا جبکہ اس کے دھڑ کا رخ ابھی بھی باہر کی طرف ہی تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا چہرہ اس کی کمر پر لگا ہوا ہے یہ دیکھتے ہی رفیق اور زیادہ ڈر گیا اور اسے دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ سے وہاں سے پیچھے ہٹنے لگا لیکن اس دوران وہ عورت وہیں بیٹھی رفیق کی طرف دیکھ رہی تھی جب رفیق اس سے چالیس پچاس قدم دور ہٹ گیا تو اچانک وہ عورت کسی جانور کی طرح تیزی سے باہری دیوار پر بھاگتی ہوئی درختوں کے پاس گئی اور پھر جھٹ سے کسی بندر کی طرح چھلانگ لگا کر درخت پر چھڑی اور کہیں غائب ہو گئی یہ دیکھ کر رفیق بری طرح سے ڈرتا ہوا وہاں سے اپنے کمرے کی طرف بھاگنے لگا کہ اچانک بھاگتے ہوئے رفیق کی ٹکر خالد سے ہو گئی جو کہ باتھ روم کی طرف آرہا تھا خالد سے ٹکراتے ہی رفیق زمین پر گر گیا یہ دیکھتے ہی خالد نے جلدی سے آگے بڑھ کر رفیق کو اٹھاتے ہوئے کہا۔ ابو۔۔۔۔؟؟ کیا۔۔۔ ہوا۔۔؟؟ ابو۔۔۔۔۔۔؟؟ رفیق نے خالد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ وہاں ۔۔۔ وہ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے رفیق بری طرح کانپ رہا تھا اور اس نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ سے باہری گیٹ کی طرف اشارہ کیا تو خالد نے حیرانی سے گیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جی جی ابو۔۔۔ کیا ہے وہاں۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا۔۔۔۔۔ نہیں۔۔ نہیں۔۔۔تم وہاں نہیں جانا چلو۔۔اندر چلو۔۔۔ یہ کہتے ہوئے رفیق نے خالد کا ہاتھ پکڑا تو خالد نے حیرانی سے کہا ارے ابو رکیئے تو کیا ہو گیا ہے۔۔۔؟؟ آپ اتنا ڈر کیوں رہے ہیں کیا تھا وہاں۔۔۔۔؟؟؟ بتایئے تو۔۔۔؟؟ یہ کہتے ہوئے خالد نے اپنا ہاتھ رفیق کے ہاتھ سے چھڑایا اور رفیق کی طرف غور سے دیکھنے لگا ۔ تو رفیق نے ڈرے ہوئے انداز میں کہا بیٹا وہاں گیٹ کے پاس کوئی خوفناک سی عورت ہے۔ یہ سن کر خالد نے کہا کیا۔۔۔۔۔۔؟؟ ڈراؤنی سی عورت۔۔۔۔؟؟ رفیق نے بنا بولے ہاں میں سر ہلایا تو خالد نے کہا آپ یہیں رکیں میں ابھی دیکھ کر آتا ہوں۔۔ یہ سنتے ہی رفیق نے کہا نہیں بیٹا وہاں مت جاؤ۔۔۔وہ۔۔۔بہت خطرناک اور بھیانک ہے۔۔۔ کہیں وہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ خالد نے کہا ابو مجھے کچھ نہیں ہو گا آپ رکیں میں ابھی دیکھتا ہوں یہ کہتے ہوئے خالد جلدی سے گیٹ کی طرف گیا اور وہاں جا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا لیکن خالد کو وہاں کوئی نظر نہیں آیا تو خالد نے وہیں کھڑے رہ کر رفیق سے کہا ابو۔۔۔یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے ۔۔ یہ سن کر رفیق آہستہ آہستہ سے درختوں کی طرف دیکھتا ہوا خالد کے پاس پہنچا اور ادھر اُدھر دیکھنے کے بعد ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا بیٹا وہ اس درخت کی طرف بھاگی تھی پھر کسی جانور کی طرح اس درخت پر چھڑ گئی تھی۔ یہ سن کر خالد اس درخت کے پاس گیا اور درخت کی شاخوں کو غور سے دیکھنے لگا پھر رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ابو درخت پر تو کچھ دکھائی نہیں دے رہا مجھے لگتا ہے کہ آپ کو شاید کوئی وہم ہو گیا ہوگا ۔ رفیق نے کہا نہیں بیٹا مجھے کوئی وہم نہیں ہوا میں پورے یقین سے کہہ رہا ہوں کہ میں نے اسے اس درخت پر چھڑتے ہوئے دیکھا تھا اور یہ آج کی بات نہیں بلکہ ایسا میرے ساتھ پہلے بھی بہت بار ہو چکا ہے۔ لیکن اس بارے میں کبھی میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا لیکن آج میں بہت ڈر گیا تھا اس لیئے تمہیں بتا دیا۔ میں سچ کہہ رہا ہوں یہ وہم نہیں حقیقت ہے اور میں نے یہ سب اپنی آنکھوں دیکھا ہے ۔ یہ سن کر خالد نے ایک بار پھر سے درخت کی شاخوں پر دیکھا اور بولا ابو فلحال تو اوپر کچھ دکھائی نہیں دے رہا ویسے بھی صحن بڑا ہے اور لائٹیں کم ہیں ایسے میں درختوں پر کیا دکھائی دے گا۔ یہ سن کر رفیق نے کہا اسی لیئے تو کہہ رہا ہوں چھوڑو اسے اور چلو جلدی سے کمرے میں چلو یہ کہتے ہوئے رفیق نے خالد کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ کمرے میں لے گیا۔ کمرے میں جاتے ہی خالد نے کہا ویسے ابو کیا واقعی میں آپ کو ایسی چیزیں ہمارے گھر میں نظر آتی ہیں…؟؟ رفیق نے کہا ہاں بیٹا لیکن تم اس بارے میں کسی سے کوئی بات مت کرنا ورنہ ایسے ہی سب ڈر جائیں گے اب تم اپنے کمرے میں جاؤ اور سو جاؤ۔۔ خالد نے کہا جی ٹھیک ہے ابو۔۔۔ پھر خالد اپنے کمرے میں چلا گیا اور رفیق رات دیر تک جاگ کر اس عورت کے بارے میں سوچتا رہا اور پھر اچانک سو گیا اگلے دن رفیق حسب معمول اپنے ریسٹورنٹ گیا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا اتنے میں ببی نامی ایک ٹرک ڈرائیور رفیق کے ریسٹورنٹ میں ناشتہ کرنے آیا جو کہ رفیق کا دوست تھا اور اکثر رفیق کے ریسٹورنٹ میں آیا جایا کرتا تھا تو رفیق نے اس سے گپ شپ لگانے کے دوران اسے گزشتہ رات اپنے ساتھ ہوئے واقعے کے بارے میں بتایا تو وہ سب سن کر ببی حیران و پریشان ہو گیا پھر اپنے سر کو پکڑ کر کچھ سوچنے لگا اور پھر رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ارے پھیکہ بھائی تم ٹینشن نہ لو میں کسی عامل کو جانتا ہوں وہ اس بارے میں تمہاری مدد کرے گا آج دوپہر کو ہی میں اسے تمہارے گھر لے کر آجاؤں گا وہ سارا حساب لگا کر بتا دے گا کہ تمہارے گھر میں کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے ۔ یہ سن کر رفیق نے کہا آپ کا بہت بہت شکریہ ببی بھائی۔۔ اس کے بعد ببی نے ناشتہ وغیرہ کیا اور چلا گیا پھر دوپہر کا وقت ہوا تو رفیق ایک پانی کی موٹر اور کچھ پائپ اور سینٹری کا سامان وغیرہ لے کر ایک پلمبر کے ہمراہ اپنے گھر آیا اور اس سے سینٹری کا کام کروانے لگا ابھی پلمبر باتھ روم کا کچھ کام کر رہا تھا کہ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی تو رفیق نے دروازے پر جا کر دیکھا تو ببی ایک عجیب سے شخص کے ساتھ رفیق کے دروازے پر کھڑا تھا رفیق نے ببی سے سلام دعا کی اور اس ساتھ آئے اس عجیب سے شخص کو غور سے دیکھنے لگا اس شخص نے اپنے بہت ہاتھوں میں بہت ساری طرح طرح کی آنگوٹھیاں پہنی ہوئی تھیں اور اس کا حلیہ کسی مداری کی طرح دکھائی دے رہا تھا ابھی رفیق اس شخص کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ اتنے میں ببی نے رفیق سے کہا پھیکہ پہلوان یہ شاکر بابا ہیں اور یہ بہت بڑے عامل ہیں یہ تمہارے گھر کا حساب لگانے کے لیئے آئے ہیں یہ سن کر رفیق نے او۔۔۔ اچھا اچھا آیئے آیئے اندر آجایئے یہ کہتے ہوئے رفیق ببی اور شاکر کو گھر کے اندر لے آیا پھر شاکر نے پورے گھر کا جائزہ لیا اس دوران وہ ہر جگہ کو سونگھ سونگھ کر کچھ پڑھ رہا تھا اور ایسا کرتے ہوئے وہ ان درختوں کی طرف گیا تو اچانک وہاں سے فوراً پیچھے ہٹ گیا اور رفیق کی طرف آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگا اسے ایسا کرتے دیکھ کر رفیق نے کہا کیا ہوا بابا آپ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔۔؟؟ شاکر نے پرسرار اندر میں کہا تیرے گھر میں آسیب ہے جو کہ بہت پرانا ہے۔ یہ سنتے ہی رفیق نے حیرانی سے کہا کیا۔۔۔۔۔؟؟؟ شاکر نے کہا اس گھر میں بہت ہی خطرناک چیزیں بسیرا پزیر ہیں جو کہ ابھی تو بہت خاموش اور دھیمے مزاج میں ہیں لیکن وہ زیادہ دیر تک ایسے نہیں رہ سکتیں وہ دن بدن غصیلی ہوتی جائیں گی کیونکہ ایسا لگتا ہے ان کو اب تک کسی علم کی طاقت سے روکا گیا ہے لیکن اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس علم کا اثر ختم ہو رہا ہے ۔ کیا تم لوگوں نے پہلے بھی کسی عامل سے عمل کروایا ہے۔۔؟؟ یہ سن کر رفیق نے حیرانی سے شاکر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا عمل۔۔۔۔۔؟؟؟ نہیں۔۔ ہم نے تو کسی سے کوئی عمل نہیں کروایا۔۔ ہاں لیکن میرے والد مرحوم کے ایک دوست علم دین صاحب تھے جو کہ پیری فقیری جاتنے تھے ہو سکتا ہے میرے والد نے ان سے کوئی عمل وغیرہ کروایا ہو لیکن مجھے اس بات کا پورا پتا نہیں ہے کیونکہ بہت پرانی بات ہے لیکن میری پھوپھی جان اس بارے میں کچھ کچھ جانتی ہوں گی کیونکہ انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ ہمارے گھر میں کچھ چیزیں موجود ہیں اسی سلسلے میں علم دین صاحب اس کا بندوبست کررہے ہیں لیکن وہ فیصل آباد میں رہتی ہیں اور بہت ضعیف ہیں ۔ شاکر نے کہا جو بھی ہے لیکن اب اس علم کی طاقت ختم ہو رہی ہے اور یہ چیزیں کچھ ہی دنوں میں اس علم پر حاوی ہو جائیں گی۔ یہ سن کر رفیق اور ببی ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ اتنے میں رفیق نے کہا بابا تو اس کا حل کیا ہے۔۔۔؟؟ یہ سنتے ہی شاکر نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اس کا حل صرف میرے پاس ہے میں ان چیزوں کو غصیلہ ہونے سے پہلے ہی ختم کر دونگا لیکن اس کام کے میں ستر ہزار گیارہ روپے لوں گا۔۔ نہ ایک پیسہ کم اور نہ ہی ایک پیسہ زیادہ۔۔ یہ سنتے ہی ببی اور رفیق حیرت انگیز نظروں سے شاکر کی طرف دیکھنے لگے اتنے میں ببی نے کہا شاکر بابا ستر ہزار۔۔۔۔؟؟؟ لیکن یہ تو تو بہت زیادہ ہیں شاکر بابا۔۔۔۔؟؟ میرا دوست اتنے پیسے کیسے دے سکتا ہے یہ غریب آدمی ہے اس گھر کی حالت تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں ایسے میں اتنے پیسے پہلوان کہا سے دے گا آپ تھوڑا خیال کریں بابا۔ یہ سنتے ہی شاکر نے کہا جو کام میں نے کرنا ہے اس کے لیئے یہ بہت کم پیسے ہیں کیونکہ اس کام کے لیئے مجھے بہت پڑھائی کرنی ہے اور کافی سارے عمل کرنے ہیں جس کے لیئے کافی چیزوں کی ضرورت ہو گی جو کہ صرف پیسوں سے ہی ملتی ہیں ۔۔ اور کون کہتا ہے تمہارا دوست غریب ہے یہ اتنا بڑا میدان ہے اسی کی ملکیت ہے اگر اس میں سے تھوڑی جگہ بھی یہ بیچ ڈالے تو کئی لاکھ روپے تمہارے دوست کو باآسانی مل جائیں گے اور ایسا تبھی ہوگا جب میں اس جگہ سے ان شیطانی چیزوں کو بھگا دونگا ۔ اب آپ لوگ سوچ کر مجھے بتا دینا ۔ اس دوران جو پلمبر سینٹری کا کام کر رہا تھا وہ بھی کچھ دیر سے شاکر بابا کی باتیں سن رہا تھا اس نے شاکر بابا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بابا ویسے میری بات کا برا مت مانیئے گا اور میں یہ بھی جانتا ہوں میرا آپ لوگوں کے درمیان بولنے کا کوئی حق نہیں لیکن جو کچھ میں نے سنا ہے اس سے مجھے لگتا ہے کہ آپ کو ان کی مدد کرنی چاہیئے کیونکہ میں نے سنا ہے جو سچے عامل ہوتے ہیں ان کو پیسوں کی کوئی لالچ نہیں ہوتی اور وہ فی سبیل اللہ کام کرتے ہیں اور جب کام پورا ہو جاتا ہے تو بندہ پھر اپنی خوشی سے جو کوئی بھی کچھ دینا چاہے تو وہ دے دیتا ہے ایک دو بندوں کو تو میں نے خود بھی یہ کام فی سبیل اللہ کرتے ہوئے دیکھا ہے آپ سے گزارش ہے کہ آپ بھی ان کا خیال کریں ۔ پلمبر کی یہ بات سنتے ہی شاکر آگ بگولا ہو کر بولا اچھا تو پھر تُو ہی ان کا کام کر دے۔ جا۔۔ جا کر اپنے پلے سے ایک سفید جوان بکرا لے کر آ اور ساتھ میں ایک چھٹانک زعفران لے کر آ۔۔ اس کے بعد میں تجھے بتاتا ہوں اور کیا کیا چاہیئے اور جب ساری چیزیں تیرے پاس آجائیں تو میں تجھے فری میں عمل بتا دونگا وہ تو کر لینا۔۔۔ بات کرتا ہے ۔۔۔ فری کر دو۔۔۔۔ پتا نہیں کہاں کہاں سے آجاتے ہیں۔۔۔۔ یہ کہنے کے بعد شاکر نے اپنا منہ نہ میں ہلایا اور غصے سے رفیق کے گھر سے جانے لگا تو۔۔ رفیق نے شاکر کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکتے ہوئے کہا رکیئے رکیئے بابا اس کی طرف سے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں یہ بچہ ہے اسے کچھ پتا نہیں ہے آپ خدارا اسے معاف کر دیں۔ یہ کہنے کے بعد رفیق نے پلمبر سے کہا ارے تم کیوں ہمارے کام میں ٹانگ اڑا رہے ہو جاؤ تم سینٹری کا کام مکمل کرو جو تم یہاں کرنے آئے ہو۔۔۔ یہ سنتے ہی پلمبر نے شاکر کی طرف مایوسی بھرے انداز میں دیکھتے ہوئے نہ میں سر ہلایا اور واپس اپنے کام میں مصروف ہو گیا ۔ اتنے میں رفیق نے شاکر سے دوبارہ معافی مانگتے ہوئے کہا بابا میں آپ کو ستر ہزار گیارہ روپے دے دونگا لیکن یہ جگہ میں جس کو بھی بیچوں گا وہ یہاں لگے ان پرانے درختوں کو کاٹ ڈالے گا اور اگر ایسا ہوا تو کہیں کوئی مصیبت نہ آجائے کیونکہ میرے والد مرحوم نے مرتے وقت مجھے نصیحت کی تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ان درختوں کو مت کاٹنا ایسا انہوں نے کیوں کہا تھا میں نہیں جانتا پر مجھے ان درختوں کے کٹنے سے ڈر لگتا ہے۔ یہ سن کر شاکر زور زور سے ہنسنے لگا اور پھر رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے بولا بس اتنی سی بات۔۔ اگر ایسا ہے تو میں عمل کرنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے ان درختوں کو کاٹ دونگا اور کوئی مصیبت بھی نہیں آئے گی۔ تمہیں برا لگے گا لیکن پھر بھی میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ تمہارے والد مرحوم نے کسی ہلکے عامل سے ان چیزوں کو بھگانے کا کہا ہوگا اور وہ انہیں بھگانے میں ناکام ہو گیا ہوگا اسی لیئے وہ ان چیزوں کی پناہ گاہ کو ختم کرنے سے قاصر ہو کر پیچھے ہٹ گیا ہوگا اور ایک سادہ سا عمل کر کے ان چیزوں کو کچھ وقت کے لیئے دھیما کر گیا اور اپنی جان چھڑا کر بھاگ گیا ہوگا لیکن اب اُس عمل کا اثر ختم ہو چکا ہے اسی وجہ سے وہ چیزیں اب دوبارہ سے تم لوگوں کو نظر آنے لگی ہیں۔ لیکن میں ایسا نہیں ہوں میں ان چیزوں کو اور ان کی پناہ گاہ کو تمہارے سامنے نیست و نابود کر دونگا کیونکہ میں جب بھی کوئی کام کرتا ہوں تو مکمل کرتا ہوں۔ یہ سن کر رفیق نے کہا تو ٹھیک ہے بابا میں آپ کو کل ہی پیسے دے دونگا اور آپ عمل کر کے ان درختوں کو کاٹ دینا اور ان چیزوں سے ہماری جان چھڑا دینا۔ یہ سن کر شاکر نے کہا تو اب یہ طے ہو گیا کل کا دن ان شیطانی چیزوں اور ان کی پناہ گاہ کا آخری دن ثابت ہو گا ۔ یہ کہتے ہوئے شاکر نے ایک بار پھر سے سارے درختوں کی طرف گھور کر دیکھا اور وہاں سے چلا گیا۔ اتنے میں ببی نے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا پہلوان جی یہ آپ نے کیا کِیا۔۔؟؟ آپ کل تک ستر ہزار کہاں سے لے کر آئیں گے۔۔۔؟؟ رفیق نے ببی کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا یار تم پریشان کیوں ہوتے ہو ۔ میں نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا ہے اور پیسوں کا بندوبست ہو جائے گا یہ کہتے ہوئے رفیق نے ببی کے کاندھے پر تھپکی دی اور پھر ببی نے کہا اچھا پہلوان جی اب مجھے اجازت دیں میں اب چلتا ہوں امید ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔ رفیق نے کہا ارے ببی بھائی کوئی چائے پانی تو پیتے جاؤ۔۔۔ ببی نے کہا نہیں پھیکا بھائی پھر کبھی۔۔ ابھی مجھے ذرا جلدی ہے۔۔ یہ کہتے ہوئے ببی چلا گیا ۔ اور رفیق پلمبر کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا تو پلمبر نے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا پہلوان جی گستاخی معاف لیکن مجھے لگتا ہے یہ بابا آپ کو ٹھگنے کہ لیئے آیا تھا کیونکہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جو سہی پیر اور عامل ہوتے ہیں وہ کسی سے پیسوں کی کوئی ڈیمانڈ نہیں کرتے اور ان کے عمل میں اثر بھی ہوتا ہے لیکن یہ تو کوئی زیادہ ہی لالچی عامل لگتا ہے اور ایسے لوگوں کے عمل میں بھی کوئی اثر بھی نہیں ہوتا۔ پلمبر کی یہ بات سنتے ہی رفیق نے کہا ارے تم پھر شروع ہو گئے دیکھو تم ابھی نادان ہو اس لیئے تمہیں کچھ پتا نہیں ہے ایسے کاموں میں کچھ پیسے تو لگتے ہی ہیں تو اگر شاکر بابا کہہ رہا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ اسے پیسے عمل کرنے کے لیئے چاہیئں اور اس کے عمل میں استعمال ہونے والی چیزیں پیسوں سے ہی ملیں گی نا۔۔۔۔؟؟ تو اس میں برا کیا ہے۔ یہ سن کر پلمبر نے نہ میں سر ہلاتے ہوئے کہا کیسا عمل۔۔۔۔۔؟؟ سب پیسے جھاڑنے کے طریقے ہیں میرے بس میں ہوتا تو اسے ستر ہزار کیا۔۔۔۔ اوپر والے گیارہ روپے بھی نہیں دیتا۔۔ یہ کہتے ہوئے پلمبر مسکرانے لگا۔ تو رفیق نے کہا ارے تم کیوں فضول بحث میں اپنا دماغ الجھا رہے ہو بہتر ہو گا کہ تم یہی دماغ اپنے کام میں لگاؤ اور اسے جلدی ختم کرو ابھی کافی کام باقی ہے تھوڑا جلدی ہاتھ چلاؤ ورنہ اسی کام میں ہی رات ہو جائے گی اور مجھے تمہارے لیئے الگ سے بلب لگانا پڑے گا اسی لیئے کوشش کرو کہ دن کی روشنی میں ہی اسے مکمل کر لو ۔ یہ سن کر پلمبر نے کہا جی جی وہی کر رہا ہوں پہلوان جی۔۔ آپ ٹینشن نہ لیں۔۔ رات سے پہلے ہی مکمل ہو جائے گا یہ کہنے کے بعد پلمبر اپنے کام میں مصروف ہو گیا اور رفیق اپنے کمرے میں جا کر کچھ دیر آرام کرنے لگا اور ممتاز بی بی کو عامل کے ساتھ ہوئی بات چیت بارے میں بتانے لگا جسے سنتے ہی ممتاز نے کہا اجی اتنے پیسے آپ کہاں سے لائیں گے۔۔؟؟ رفیق نے مسکرا کر ممتاز کی طرف دیکھا اور بولا ارے تم کیوں فکر کرتی ہو۔ میں نے تھوڑا تھوڑا کر کے کچھ پیسے جمع کیئے ہوئے ہیں انہی پیسوں سے دے دونگا انہی پیسوں سے ہی یہ موٹر اور پلمبری وغیرہ کا کام کروا رہا ہوں ۔ ممتاز بی بی نے کہا تو کیا شاکر بابا سب ٹھیک تو کر دیں گے نا۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا ارے ہاں ہاں وہ تو کہہ کر گئے ہیں کہ وہ خود ہی ان درختوں کو کاٹ دیں گے۔ اس کے بعد ہم ان درختوں والی جگہ کو بیچ کر جو پیسے ملیں گے اس سے اسی گھر کو بہتر ڈھنگ سے بنوا لیں گے ۔ ابھی رفیق یہ بات کر ہی رہا تھا کہ سونیا بھی رفیق کے پاس آ گئی اور رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ابو وہ باہر جو آدمی کام کر رہا ہے وہ آپ کو آوازیں دے رہا ہے ۔ یہ سنتے ہی رفیق نے کہا ارے یار۔۔ اب اس کو کیا چاہیئے بہت ہی ڈھیلا بندہ ہے یہ کہتے ہوئے رفیق کمرے سے باہر گیا تو پلمبر وہیں دروازے کے پاس کھڑا رفیق ہو آواز دے رہا تھا جب رفیق اس کے پاس پہنچا تو پلمبر نے کہا پہلوان جی اس گیٹ کے پاس ایک لاؤڈ سپیکر بھی لگا لیں تاکہ آپ کے کمرے تک آواز چلی جائے میں کب سے آوازیں دے رہا ہوں۔ رفیق نے کہا ارے مجھے تو کوئی آواز نہیں آئی سچ پوچھو تو اسی لیئے اس گھر کا کچھ حصہ بیچنا چاہتا ہوں تاکہ اس بڑے میدان کی جگہ ایک چھوٹا لیکن اچھا سا گھر بن جائے ۔ خیر چھوڑو بتاؤ کیا ہوا۔۔۔؟؟ پلمبر نے کہا پہلوان جی پائپ کم پڑ گیا ہے یہ سن کر رفیق نے کہا ارے یار۔۔۔۔ اتنا پائپ لایا تھا پھر بھی کم ہو گیا۔۔۔ پلمبر نے کہا پہلوان جی گھر بھی تو دیکھو نا کمرے کہاں ہیں اور نل کہاں ہے باتھ روم کا کام تو مکمل ہو گیا اب صرف آپ کے کچن تک پائپ لے کر جانا ہے لیکن پائپ کم پڑ گیا اس میں میری کیا غلطی ہے۔ رفیق نے کہا یار تھوڑا جلدی کر لو شام ہونے والی ہے پلمبر نے کہا اسی لیئے تو کہہ رہا ہوں آپ جا کر جلدی سے 15 فٹ پائپ اور جوائنٹ لے آئیں۔ تب تک میں باقی کا کام مکمل کرتا ہوں ۔ یہ سن کر رفیق نے ہاں میں سر ہلایا اور پائپ لینے چلا گیا۔ اور پلمبر موٹر کو نلکے کے ساتھ اٹیچ کرنے میں مصروف ہو گیا دن ڈھل چکا تھا اور تقریباً ہو چکی تھی اور اندھیرا چھا رہا پلمبر باقی کا کام مکمل کر کے نلکے کے پاس بیٹھ کر رفیق کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک درختوں کے پتوں میں سرسراہٹ سی ہونے لگی جسے سنتے ہی پلمبر نے چونک کر درختوں کی طرف دیکھا تو اسے ایک درخت کی کافی ساری شاخیں ہلتی ہوئی نظر آئیں ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی درختوں کی شاخوں سے الجھ رہا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے پلمبر آہستہ آہستہ سے اس درخت کی طرف بڑھنے لگا اور باقی درختوں کے پاس سے گزرتا ہوا اس درخت کے پاس پہنچ گیا ابھی پلمبر اوپر اس درخت کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک پلمبر کے پیچھے سے ایک دھمک کی آواز سنائی دی اسی وقت پلمبر نے چونک کر اپنے پیچھے دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا جبکہ حیرانی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگا کہ اچانک پھر سے پلمبر کے بالکل پیچھے دھمک کی آواز سنائی دی ایسا لگا جیسے کسی نے اونچی جگہ سے بالکل پلمبر کے پاس چھلانگ لگائی ہو اس آواز کو سنتے ہی پلمبر کو اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہونے لگا اور اسی وقت پلمبر کے رونگٹے کھڑے ہو گئے وہ ڈرنے سے بری طرح کانپنے لگا کیونکہ اس وقت سوائے پلمبر کے پورے صحن میں کوئی نہیں تھا پلمبر نے ہمت دکھاتے ہوئے اپنی کانپتی ہوئی گردن کو آہستہ سے آدھا گما کر اپنے پیچھے دیکھنے کی کوشش کی تو اسے اپنے پیچھے کوئی بڑے سے قد کی کوئی چیز دکھائی دی جو کہ آہستہ سے غرّا رہی تھی اور اس کی غراہٹ بھری سانسیں پلمبر کے سر کے بالوں کو چھو رہی تھیں ابھی پلمبر نے اس کی آدھی ہی جھلک دیکھی تھی کہ پلمبر نے اپنا منہ واپس سامنے کی طرف کر لیا کیونکہ اس کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی کہ اس کو پوری طرح سے دیکھ سکے اسی وقت پلمبر کا پیشاب اس کے کپڑوں میں ہی نکل گیا پلمبر خوف سے لرزتا ہوا امید بھری نظروں سے رفیق کے کمروں کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن نہ تو اس کے قدم وہاں سے ہل رہے تھے اور نہ ہی اس کی آواز نکل رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس پورے جسم پر فالج کا اٹیک ہو گیا ہے پھر اچانک پلمبر کی آنکھیں بند ہونے لگیں پھر اچانک اسے چکر سا آیا اور وہ بیہوش ہو کر گر پڑا لیکن جب پلمبر کو ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک کمرے میں لیٹا ہوا پایا تو پلمبر نے چونک ادھر اُدھر دیکھا تو اسے رفیق اور رفیق کے گھر والے آس پاس کھڑے ہوئے دکھائی دیئے جو پلمبر کی طرف حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ اتنے میں رفیق نے مسکراتے ہوئے پلمبر سے کہا جی جناب اب کیسا محسوس کر رہے ہو۔۔۔؟؟ یہ سنتے ہی پلمبر نے جلدی سے چارپائی سے اٹھتے ہوئے کہا پہلوان جی مجھے معاف کیجئے گا مجھے نہیں پتا میں یہاں کیسے سو گیا میں تو باہر کھڑا تھا۔ رفیق نے کہا ہاں ہاں میں جانتا ہوں کیونکہ یہاں تمہیں میں ہی لے کر آیا تھا ۔ یہ سن کر پلمبر نے حیرانی سے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا آپ لے کر آئے تھے۔۔۔۔؟؟ رفیق نے کہا ہاں جب میں پائپ لے کر واپس آیا تو دیکھا کہ تم ہاہری گیٹ کے پاس بیہوش پڑے تھے تو میں تمہیں اٹھا کر اندر لے آیا ۔ ویسے ہوا کیا تھا تمہیں۔۔۔؟؟ یہ سن کر پلمبر نے باہر صحن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا وہ۔۔۔۔ وہ۔۔۔ وہاں درختوں کے پاس۔۔۔ وہ بہت ہی عجیب سی چیز تھی ۔۔۔ وہ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ وہ بہت ہی ڈراؤنی تھی ۔ یہ کہتے ہوئے پلمبر اپنے ہاتھ سے باہر صحن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رفیق کی طرف آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگا۔ پلمبر کی یہ بات سن کر سب لوگ حیرانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اتنے میں پلمبر نے کہا پہلوان جی معاف کیجئے گا لیکن مجھے اب یہاں کام نہیں کرنا مجھے گھر جانا ہے مہربانی فرما کر مجھے میرے گھر تک چھوڑ دیں گے۔۔۔؟؟ وہ۔۔۔۔باہر۔۔۔وہ۔۔۔ ہے وہ بہت ہی خطرناک ہے یہ کہتے ہوئے پلمبر بہت ڈرا ہوا لگ رہا تھا۔ رفیق نے پلمبر کی حالت کو دیکھتے ہوئے کہا اچھا اچھا ٹھیک ہے میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دوں گا لیکن تم پہلے اطمینان سے بیٹھ کر میری بات سنو۔۔۔ نہیں ۔۔۔نہیں۔۔۔ پہلوان جی مجھے میرے گھر چھوڑ دیں آپ کی بڑی مہربانی ہو گی یہ کہتے ہوئے پلمبر اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں کو رفیق کے سامنے جوڑنے لگا۔ جسے دیکھ کر رفیق نے کہا ارے یہ کیا کر رہے ہو اچھا چلو پھر میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دوں ۔ یہ سنتے ہی پلمبر نے بنا بولے ہی ہاں میں سر ہلایا اور رفیق کا ہاتھ پکڑ کر باہری گیٹ کی طرف جانے لگا۔ جبکہ باقی گھر کے لوگ پلمبر کی حالت دیکھ کر خوفزدہ ہو رہے تھے۔ اتنے میں خالد نے ممتاز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا امی میں بھی ابو کے ساتھ جا رہا ہوں مجھے لگتا ہے انہیں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیئے یہ کہتے ہوئے خالد بھی رفیق کے پیچھے چلا گیا جب خالد رفیق کے پاس پہنچا تو رفیق نے کہا ارے بیٹا تم کہاں چل پڑے۔ ؟؟ خالد نے کہا ابو میں بھی آپ کے ساتھ چل رہا ہوں۔ رفیق نے کہا بیٹا تم پہلے ہی کام سے تھکے ہارے آئے تھے جاؤ جا کر آرام کرو میں اسے چھوڑ کر آجاؤں گا یہ زیادہ دور نہیں رہتا ۔خالد نے کہا ابو رات کا وقت ہے میں آپ کو اکیلا نہیں جانے دونگا ویسے بھی میری کچھ چہل قدمی بھی ہو جائے گی یہ کہتے ہوئے خالد بھی ڈرے ہوئے اندر میں درختوں کی طرف دیکھ رہا تھا رفیق نے کہا اچھا ٹھیک ہے۔ اس دوران پلمبر رفیق کا بازو تھامے خود کو رفیق کی بغل میں چھپا کر باہری گیٹ کی طرف چلتے ہوئے درختوں کی طرف ڈرتے ہوئے دیکھ رہا تھا جب سب لوگ گھر سے باہر نکل کر کچھ ہی دوری پر گئے تو اچانک خالد نے پلٹ کر گھر کی طرف دیکھا تو اسے گھر کی باہری دیوار پر کوئی بڑی سی چیز بیٹھی ہوئی دکھائی دی جو کہ دیوار پر بیٹھ کر اپنی ٹانگوں کو آگے پیچھے ہلا رہی تھی اسے دیکھتے ہی خالد نے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ابو وہ کیا چیز ہے اپنے گھر کی دیوار پر ۔۔؟؟ یہ کہتے ہوئے خالد نے دوبارہ اس طرف دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا تو رفیق نے کہا ارے بیٹا کیا ہے وہاں۔۔۔۔؟؟ خالد حیرانی سے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ابو یہ کیا۔۔۔۔۔ہوا۔۔۔؟؟ ابھی میں نے وہاں کسی کو بیٹھے ہوئے دیکھا تھا رفیق نے کہا ارے بیٹا چھوڑو اسے کچھ نہیں ہے وہاں چپ چاپ چلتے رہو ۔ اس دوران پلمبر بھی گھر کہ طرف دیکھ رہا تھا تو رفیق نے پلمبر سے کہا ارے اب تم کیا دیکھ رہے ہو کچھ نہیں ہے وہاں چلو جلدی یہ کہتے ہوئے رفیق پھر سے پلمبر کے ساتھ آگے آگے چلنے لگا جبکہ خالد چلتا ہوا بار بار پیچھے مڑ کر دیکھ رہا تھا تو رفیق نے کہا خالد آگے دیکھ کر چلو۔۔۔۔ تو خالد نے کہا جی ابو اور سامنے دیکھ کر چلنے لگا پھر جب سب لوگ گھر سے کافی دور نکل آئے تو پلمبر نے کہا پہلوان جی اب میں اکیلا چلا جاؤں گا وہ سامنے گلی آگئی ہے میری۔ آپ چاہیں تو واپس چلے جائیں آپ کا بہت بہت شکریہ جو آپ مجھے یہاں تک چھوڑنے آئے۔ رفیق نے کہا ارے نہیں نہیں کوئی بات نہیں یہ کہتے ہوئے رفیق نے کچھ پیسے کو دیتے ہوئے کہا یار یہ رکھ لو جو تم نے کام کیا ہے پلمبر نے کہا نہیں پہلوان جی ابھی کام پورا نہیں ہوا اس لیئے میں یہ پیسے نہیں لے سکتا رفیق نے کہا ارے رکھ لو کافی کام تو ہو چکا ہے تھوڑا ہی باقی ہے وہ میں کسی اور سے کروا لوں گا اب تم یہ پیسے رکھو اور جا کر آرام کرو تمہاری طبیعت ابھی پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہے یہ کہتے ہوئے رفیق نے پیسے پلمبر کی جیب میں ڈالے اور اس سے سلام دعا کر کے واپس خالد کے ہمراہ گھر کی طرف جانے لگا راستے میں خالد نے کہا ابو ویسے پلمبر تو کچھ زیادہ ہی ڈرا ہوا تھا رفیق نے کہا ہاں یہ بات تو ہے مجھے لگتا ہے اس نے بھی اسی چیز کو دیکھ لیا ہو گا جو اکثر مجھے نظر آتی ہے ۔ یہ سن کر خالد نے کہا ابو میرا یقین کریں میں نے بھی اب سے کچھ دیر پہلے اسی چیز کو ہی ہمارے گھر کی دیوار پر بیٹھے ہوئے دیکھا تھا لیکن وہ آپ کے دیکھنے سے پہلے اچانک کہیں غائب ہو گئی تھی ۔ یہ سن کر رفیق نے کہا میں جانتا ہوں بیٹا لیکن شاید تم یہ نہیں جانتے کہ بار بار اس کی طرف دیکھنے سے وہ ہمارے پیچھے آجاتی ہے اسی لیئے میں نے تمہیں کہا تھا چھوڑو اسے وہاں کچھ نہیں ہے چپ چاپ چلتے رہو۔ یہ سن کر خالد نے کہا اچھا اچھا اس کا مطلب آپ کو پتا تھا کہ وہ وہاں تھی۔ رفیق نے کہا ہاں لیکن میں پلمبر کے سامنے اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ بیچارہ تو پہلے سے ہی بہت ڈرا ہوا تھا ایسے میں اگر ہم مذید اس بارے میں بات کرتے تو پلمبر کی طبیعت اور بگڑ سکتی تھی ۔ خالد نے کہا جی میں سمجھ گیا لیکن ابو یہ سب کب اور کیسے ختم ہو گا ایسے تو وہ چیز ہمیں اور زیادہ پریشان کرے گی ؟ رفیق نے کہا بیٹا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آج ایک آدمی آیا تھا وہ کل ہماری جان ان چیزوں سے چھڑا دے گا۔ یہ کہتے ہوئے پھر رفیق نے شاکر بابا سے ہوئی تمام باتوں بتایا تو خالد نے کہا اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب کہ اب ہم اپنے گھر کو خوبصورت اور شاندار بنا سکتے ہیں۔ رفیق نے کہا ہاں ہاں ضرور جب وہ درخت کٹ جائیں گے تو ہم وہ ساری جگہ بیچ دیں گے پھر ہم اپنے گھر کو جیسے چاہیں بنا سکتے ہیں۔ یہ سنتے ہی خالد نے ہاں میں سر ہلایا پھر دونوں باپ بیٹے گھر کی تعمیر کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے گھر کے قریب پہنچ گئے رات کافی ہو چکی تھی اور ہر طرف عجیب سا سنناٹا پھیلا ہوا تھا اس دوران گلی میں انتی خاموشی تھی کہ رفیق اور خالد کے چلتے ہوئے قدموں کی آواز بہت ہی صاف سنائی دے رہی تھی ابھی رفیق اور خالد گھر آٹھ دس قدم ہی دور تھے کہ اتنے میں اچانک عجیب طریقے سے کسی کے رونے کی آواز سنائی دینے لگی جسے سنتے ہی رفیق اور خالد حیرت انگیز نطرون سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے پھر ادھر اُدھر دیکھنے لگے اتنے میں خالد نے کہا ابو ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی رو رہا ہے رفیق نے کہا ہاں مجھے بھی یہی لگ رہا ہے لیکن یہ آواز آ۔۔۔۔ کہاں سے رہی ہے گلی میں تو کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ کہتے ہوئے رفیق مسلسل ادھر اُدھر دیکھ رہا رہا تھا کہ اتنے میں اچانک خالد نے خاموشی سے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ رفیق کے کاندھے پر رکھا تو رفیق نے چونک کر خالد کی طرف دیکھا تو خالد نے اپنے دوسرے ہاتھ سے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے شرگوشی میں کہا ابو وہ دیکھو۔۔۔۔ جیسے ہی رفیق نے اس طرف دیکھا تو رفیق تو کے ہوش ہی اڑ گئے کیونکہ رفیق کے گھر کے کونے پر ایک لمبی سی عورت کھڑی تھی جس کا چہرہ پوری طرح سے اس کے بالوں سے ڈھکا ہوا تھا جبکہ اس کے بال اتنے لمبے تھے کہ اس کے پییٹ سے بھی نیچے تک جا رہے تھے اور وہ عجیب سی آوازیں نکالتے ہوئے رو رہی تھی اسے دیکھتے ہی رفیق کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تو رفیق نے اس کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے شرگوشی میں کہا ارے یہ کون ہے اور اچانک یہاں کیسے آ گئی ۔۔۔۔ ؟؟ خالد نے کہا پتا نہیں ابو میری بھی اچانک ہی نظر پڑی تھی اس پر ۔ لیکن اسے دیکھ کر مجھے وحشت سی ہو رہی ہے یہ سنتے ہی رفیق نے کہا چلو جلدی سے گھر کے اندر چلو۔۔۔ یہ کہتے ہوئے رفیق نے خالد کا ہاتھ پکڑا اور تیری سے گھر کے دروازے کی طرف بڑھا تو اچانک وہ عورت بھی اپنا ہاتھ بڑھاتی ہوئی بڑھی لیکن رفیق اور خالد جلدی سے گھر کے اندر داخل ہو گئے اور صحن میں تیزی سے بھاگتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلے گئے ۔ رفیق اور خالد کی حالت دیکھ کر باقی گھر والے خوفزدہ ہو گئے کیونکہ رفیق اور خالد دونوں کی سانس پھول رہی تھی اتنے میں ممتاز نے کہا کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے ؟؟ رفیق نے پھولتی ہوئی سانسوں کے ساتھ ہاں میں سر ہلایا اور پھر تیز تیز سانس لینے لگا اس دوران خالد بھی تیزی سے سانس لیتا ہوا پانی پینے لگا۔۔ پھر رفیق نے ممتاز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا وہ۔۔۔ ہمارے گھر کے باہر ہم نے کسی عجیب سی عورت کو دیکھا ۔۔ یہ کہنے کے بعد رفیق نے سارا واقع ممتاز کو بتایا تو ممتاز بی بی نے کہا تو کیا وہ بھی کوئی ہوائی چیز تھی۔۔؟؟ رفیق نے کہا پتا نہیں لیکن میں نے پہلے جن چیزوں کو دیکھ چکا ہوں یہ اس سے الگ دکھائی دے رہی تھی۔ اتنے میں خالد نے کہا ہاں ابو جس چیز کو میں نے دیوار پر بیٹھے دیکھا تھا وہ کچھ ڈراؤنی سی دکھائی دے رہی تھی لیکن یہ تو کوئی عورت لگ رہی تھی۔ اتنے میں سونیا نے کہا ابو کیا پتا وہ بیچاری کوئی عورت ہی ہو۔۔؟؟ رفیق نے کہا ارے ہو بھی تو کیا فرق پڑتا ہے جس طرح وہ ہماری طرف ہاتھ بڑھا کر آگے آرہی تھی مجھے تو وہ بھی خوفناک ہی لگ رہی تھی سچ پوچھو تو مجھے اس کے گھنٹے تک پھیلے لمبے بالوں کو دیکھ کر ہی ڈر لگ رہا تھا۔ یہ سنتے ہی ممتاز نے کہا کیا۔۔۔۔ ۔۔؟؟ گھٹنے تک پھیلے ہوئے بال۔۔۔؟؟ یہ سن کر خالد نے کہا جی امی ابو ٹھیک کہہ رہے ہیں واقعی میں اس کے بال بہت ہی زیادہ لمبے تھے۔ ممتاز نے کہا پھر تو پکا وہ کوئی ہوائی چیز ہی ہو گی۔ یہ سن کر سونیا نے کہا ابو ہوائی چیز کیا چڑیل ہوتی ہے۔۔۔؟؟ یہ سن کر رفیق نے بات گول کرتے ہوئے کہا ارے نہیں نہیں تم ان باتوں پر توجہ مت دو کچھ ایسا ویسا نہیں ہوتا اب چھوڑو سب باتیں رات بہت ہو چکی ہے چلو اب سب لوگ آرام کرو صبح شاکر بابا آئے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اور یہ طارق کہاں ہے ۔۔؟؟ ممتاز نے کہا وہ تو کب کا سو گیا رفیق نے کہا ٹھیک ہے اب تم سب لوگ بھی جاؤ اور آرام کرو اور اپنے اپنے کمروں کے دروازے اچھے سے بند کر کے سونا۔ یہ سنتے ہی سونیا نے کہا ابو یہ شاکر بابا کون ہیں اور وہ کیا کریں گے ۔۔؟؟ اور دروازے اچھے بند کر کے سونے سے کیا مطلب ہے ابو کوئی خطرے والی بات ہے۔۔؟؟ یہ سنتے ہی رفیق نے اکتا کر کہا ارے نہیں میری ماں۔۔۔۔۔۔ ایک تو تم سوال بہت کرتی ہو۔۔ ارے ممتاز جاؤ اسے لے جاؤ ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے رفیق سونے چلا گیا اور باقی لوگ بھی سونے کے لیئے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ اگلے دن سب حسب معمول اپنے اپنے کام پر جانے کے لیئے تیار ہوئے تو رفیق نے طارق سے کہا بیٹا تم اپنے باس سے اس جگہ کہ بارے میں بات کر کے دیکھ لینا تم نے کہا تھا نہ کہ وہ ایسی کوئی جگہ خریدنا چاہتے ہیں۔۔؟؟ طارق نے کہا جی جی میں آج ہی ان سے بات کروں گا تو کیا آپ نے اس جگہ کو بیچنے کا فیصلہ کر لیا ہے ابو۔۔؟ رفیق نے کہا ہاں تم ان سے بات کر کے دیکھ لینا ۔ یہ سن کر طارق نے خوشی دو بار ہاں میں سر ہلایا اور چلا گیا اس کے بعد خالد اور رفیق بھی اپنے کام پر روانہ ہو گئے جبکہ رفیق ریسٹورنٹ گیا اور وہاں سے شاکر بابا کو دینے کے لیئے پیسے لے آیا ابھی رفیق گھر پر بیٹھا ہی تھا کہ اتنے میں گھنٹی بجی تو رفیق نے کہا ارے لگتا ہے شاکر بابا آگئے یہ کہتے ہوئے رفیق باہری گیٹ پر گیا تو دیکھا کہ وہی پلمبر رفیق کے دروازے پر کھڑا تھا جسے رات میں رفیق اس کی گلی میں چھوڑ کر آیا تھا۔ اس نے رفیق کو سلام کیا تو رفیق نے کہا ارے کیا ہوا سب خیریت ہے۔۔۔؟؟ پلمبر نے کہا پہلوان جی مجھے معاف کر دیجیئے دراصل گزشتہ رات میں بہت ڈر گیا تھا اسی لیئے میں نے یہاں کام نہ کرنے کا کہہ دیا تھا لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ میں نے کام ادھورا چھوڑ کر غلط کیا ہے جبکہ صرف کچھ ہی دیر کا کام باقی تھا ویسے بھی آپ نے مجھے پورے کام کے پیسے دے دیئے ہیں اسی لیئے میں باقی کا کام مکمل کرنے آیا ہوں اگر آپ کو برا نہ لگے تو کیا میں ادھورا کام مکمل کر لوں ۔۔؟؟ یہ سنتے ہی رفیق نے کہا ارے اس میں برا کیوں لگے گا اگر تم کام مکمل کرنا چاہتے ہو تو یہ بہت خوشی کی بات ہے نہیں تو مجھے پھر سے کسی پلمبر کو ڈھونڈ کر لانا پڑنا تھا جبکہ آج تو میرے پاس وقت ہی نہیں تھا کیونکہ آج شاکر بابا نے آنا ہے پتا ہے نا وہ جو کل آئے تھے۔۔۔؟؟ پلمبر نے مسکراتے ہوئے کہا جی جی پہلوان جی۔ شاکر بابا نہیں شاطر بابا ہے وہ۔۔ یہ سن کر رفیق نے کہا ارے تم پھر سے شروع مت ہو جانا اب جلدی سے اپنا کام مکمل کر لو کیونکہ جب شاکر بابا آجائے گا تو میں تمہیں ٹائم نہیں دے پاؤں گا۔ یہ سن کر پلمبر نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنا کام کرنے لگا۔ اور جب پلمبر کا کام ختم ہونے والا تھا کہ پھر سے گھنٹی کی آواز سنائی دی تو رفیق نے دروازے پر جا کر دیکھا تو باہر ببی کا ٹرک کھڑا تھا جس کے ساتھ ببی شاکر اور چار پانچ مزدور طرح کے کچھ لوگ کھڑے ہوئے تھے جن کے ہاتھوں میں کلہاڑے اور درخت کاٹنے کے آلات وغیرہ پکڑے ہوئے تھے انہیں دیکھتے ہی پھیکا پہلوان نے ان سے سلام دعا کی اور انہیں گھر کے اندر لے آیا ۔ اس دوران پلمبر تقریباً اپنا کام مکمل کر چکا تھا اور وہ بھی رفیق کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اس دوران پہلوان شاکر کو گزشتہ رات والے واقعات بتا رہا تھا اور ساتھ میں پلمبر کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی بتا رہا تھا ۔پہلوان کی تمام باتیں سننے کے بعد شاکر کہا پہلوان سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا آج میں پوری تیاری کے ساتھ آیا ہوں تم یہ بتاؤں تمہارے پیسوں کا انتظام ہو گیا ہے؟؟ یہ سنتے ہی رفیق نے کہا جی جی شاکر بابا پیسے میرے پاس ہی ہیں آپ اپنا کام شروع کریں۔ یہ سن کر شاکر نے کہا تو ٹھیک ہے اب وقت آگیا ہے کہ میں ان غصیلی چیزوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکوں گا یہ کہتے ہوئے شاکر نے اپنے ساتھ آئے ایک مزدور سے کہا وہ بوری یہاں لے کر آؤ جو میں نے تمہیں پکڑائی تھی تو مزدور جلدی سے ایک بوری اٹھا کر شاکر کے پاس لایا جو کہ شاید ریت یاں مٹی سے بھری ہوئی لگ رہی تھی اسے دیکھتے ہی رفیق نے کہا شاکر بابا یہ بوری میں کیا ہے؟ شاکر بابا نے کہا یہ قبرستان کی مٹی ہے یہ کہتے ہوئے شاکر بابا نے اس بوری پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور پھر بوری سے قبرستان کی تھوڑی تھوڑی مٹی نکال کر ان سب درختوں کے گرد مٹی کے دائرے بنا دیئے اور پھر اپنے بیگ سے کوئی کالے رنگ کی شیشے کی بوتل نکالی جس میں کالے رنگ کا پانی تھا وہ پانی شاکر بابا نے سب درختوں پر تھوڑا تھوڑا چھڑک دیا پھر شاکر بابا نے مزدوروں سے کہا جیسے ہی میں عمل شروع کروں تم لوگ سارے درختوں کو کاٹ کر ان کے پرزے پرزے کر دینا ۔ یہ کہنے کے بعد شاکر بابا نے رفیق سے کہا میرے بیگ میں سفید رنگ کی چادر ہے وہ لا کر یہاں ایک طرف زمین پر بچھا دو۔ رفیق نے جلدی سے وہ سفید چادر لا کر ایک سائیڈ پر بچھا دی پھر شاکر بابا نے اس چادر پر بیٹھ کر اپنے دوسرے بیگ سے کچھ عجیب سا سامان وغیرہ نکالا جس میں ایک مٹی کا برتن اور کچھ جانوروں کی ہڈیاں اور سندھور کی ڈبیہ اور کچھ تعویز وغیرہ نکال کر اسے مٹی کے برتن میں ڈال دیئے اور پھر مزدور سے کہنے لگا اب میں اپنا عمل شروع کرنے لگا ہوں لیکن ایک بات یاد رکھنا چاہے کچھ بھی ہو تم لوگ اپنا کام مت روکنا بس جلدی سے جلدی درختوں کو کاٹ دینا ورنہ تم میں سے کسی کو بھی ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دونگا ۔ پھر رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے بولا پہلوان اب تم اپنے لوگوں کو لے کر ایک سائیڈ پر چلے جاؤ اور تم میں سے کوئی بھی اس چادر کے پاس نہیں آنا چاہیئے پھر چائے کچھ بھی ہو جائے ۔۔ لیکن کوئی بھی اس چادر کے پاس مت آئے۔ یہ کہنے کے شاکر بابا نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور کچھ پڑھنے لگا۔ اسی وقت مزدوروں نے درختوں کو کاٹنا شروع کر دیا ابھی کچھ ہی پل گزرے تھے کہ اچانک ایک مزدور نے چلا کر کہا ارے یہ کیا ہے۔۔۔؟؟ اسی وقت سب لوگوں نے اس مزدور کی طرف دیکھا تو وہ ہاتھ میں کلہاڑا پکڑ کر بیری کے درخت کو دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ اس سے پیچھے ہٹ رہا تھا جب پہلوان اور باقی لوگوں نے اس کے پاس جا کر دیکھا تو بیری کے درخت سے بے حد خون نکل رہا تھا جسے دیکھتے ہی سب کے سب حیران ہو گئے جبکہ اس دوران شاکر ٹس سے مس نہیں ہوا اور اپنے عمل میں مصروف رہا۔ اس خون کو دیکھتے ہی ببی نے کہا پہلوان جی یہ کیا چکر ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی نے یہاں گائے ذبح کر دی ہے دیکھو کتنا خون نکل رہا ہے۔ یہ سن کر رفیق نے کہا ہاں ببی بھائی یہ تو بہت ہی عجیب ہے مجھے خود سمجھ نہیں آرہی یہ سب کیا ہے ۔اس دوران پلمبر بھی اس خون کو دیکھتے ہوئے بولا یہ خون تو بہت ہی زیادہ گاڑاہ اور کالا لگ رہا ہے۔ اتنے میں ایک مزدور نے رفیق سے کہا جناب آپ لوگ یہاں سے پیچھے ہٹ جائیں ہمیں اپنا کام کرنے دیں ورنہ بابا ہمیں پیسے نہیں دے گا۔ یہ کہنے کے بعد اس مزدور سے کہا ارے تم رک کیوں گئے ہو کاٹو جلدی سے کوئی بھی اپنا کام نہیں چھوڑے گا۔ یہ خون پر توجہ نہیں دو بس جلدی سے ان درختوں کو کاٹ کر اپنا کام پورا کرو ۔ یہ سنتے ہی رفیق ببی اور پلمبر واپس وہاں سے پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو گئے اور مزدور اپنا کام کرنے لگے ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ اچانک ایک مزدور کے ہاتھ سے کلہاڑی چھوٹ کر پاس میں کام کرتے ہوئے دوسرے مزدور کی کمر میں جا لگی جس سے وہ زخمی ہو کر گر پڑا اور چلاتے ہوئے بری طرح تڑپنے لگا اسی وقت رفیق اور باقی سب لوگوں نے جا کر اس مزدور کو اٹھایا تو دیکھا کہ اس کی کمر پر بہت بڑا اور گہرا کٹ لگ گیا تھا جس سے بہت خون بہہ رہا تھا رفیق نے جلدی سے ایک کپڑا پکڑ کر اس مزدور کی قمر پر باندھا اور اسے باقی لوگوں کی مدد سے اٹھا کر ایک چار پائی پر لٹایا ۔ جبکہ اس دوران شاکر کے سر سے جوں نہیں رینگی وہ ویسے ہی آنکھیں بند کر کے اپنے عمل میں مصروف رہا اتنے میں رفیق نے ببی سے کہا یار جلدی سے اسے ہسپتال لے کر جانا پڑے گا ورنہ اس کا جتنا خون بہہ رہا ہے کہیں یہ مر نا جائے۔ یہ سن کر ببی نے کہا جی پہلوان بھائی اسے جلدی سے میرے ٹرک میں ڈالوں یہ سنتے ہی سب لوگوں نے زخمی مزدور کو اٹھا کر ببی کے ٹرک میں ڈالا اور پھر رفیق نے پلمبر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یار تم ذرا گھر میں ہی رہنا ہم اسے ہسپتال چھوڑ کر آتے ہیں یہ سن کر پلمبر نے ہاں میں سر ہلایا پھر رفیق ببی کے ساتھ مزدور کو ہسپتال لے گیا ان کے جاتے ہی پلمبر باقی مزدوروں کے ساتھ واپس گھر کے اندر چلا گیا اندر جاتے ہی ایک مزدور نے کلہاڑی والے مزدور سے کہا یار( روشن ) تونے ایسے کیسے کلہاڑی چھوڑ دی تھی جو( صابر ) کی کمر چھلنی ہو گئی روشن نے کہا یار( نعیم ) میں نے یہ جان کر نہیں کیا میں نے تو مطبوطی سے کلہاڑی پکڑی تھی پر پتا نہیں اچانک وہ میرے ہاتھ سے کیسے چھوٹ گئی لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے کہ کسی وہ کلہاڑی میرے ہاتھ سے چھینی ہو۔ اتنے میں ایک مزدور (شوکی) جو ان مزدوروں کا انچارج تھا اس نے کہا یار جو ہوا سو ہوا وہ ایک حادثہ تھا لیکن دیکھو شاکر بابا ابھی تک اپنے عمل میں مصروف ہے اس کا مطلب ہمیں جلدی سے کام مکمل کر لینا چاہیئے ورنہ شاکر ہمیں پیسے نہیں دے گا باقی باتیں ہم بعد میں کریں گے یہ سن کر ایک مزدور جس کا نام( جھورا ) تھا اس نے کہا شوکی بھائی مجھے تو لگتا ہے یہاں جن ون کا کوئی چکر ہے پہلے درخت سے خون نکلا اور اب ہمارا ایک بندہ زخمی ہو گیا یہ سنتے ہی شوکی نے کہا یار جھورے تم یہ کیا فضول کی باتیں کر رہے ہو چلو جلدی سے کام کرو ۔ یہ کہتے ہوئے شوکی نے ایک تیز دھار آلے والی مشین کو سٹارٹ کیا اور اس خون والے درخت کے پاس جا کر اسے تیز دھار آلے سے کاٹنے لگا جبکہ باقی مزدور بھی اپنے اپنے آلات کے ساتھ درختوں کو کاٹنے لگے اتنے میں نعیم ساتھ والے ایک ٹالی کے درخت پر چڑھا اور اس کی شاخیں کاٹنے لگا جبکہ اس دوران جھورا اور روشن جامن کا درخت کاٹنے میں مصروف تھے ۔ اتنے میں بیری والے درخت کی طرف سے ایک ذور دار دھمک کی آواز سنائی دی جسے سنتے ہی سب نے اس طرف دیکھا تو شوکی نے بیری کا درخت کاٹ دیا تھا لیکن شوکی پوری طرح خون سے لت پت کھڑا اسے دیکھ رہا تھا ابھی سب لوگ اسے دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک نعیم کی چیخ کی آواز آئی اور وہ اوپر سے نیچے آکر گرا جس سے اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور وہ بری طرح چلانے لگا۔ ہائے میرے ٹانگ۔۔۔۔۔ ہائے میری ٹانگ۔۔۔ اسے دیکھتے ہی باقی لوگ جلدی سے اس کے پاس گئے اور اسے اٹھا کر چار پائی پر لٹا دیا اتنے میں شاکر نے اپنی آنکھیں کھولیں اور شوکی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا تم اب اس کٹے درخت کے پاس مت جانا۔ یہ سنتے ہی شوکی نے کہا ٹھیک ہے بابا پر یہ نعیم کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے اسے بھی ہسپتال لے کر جانا پڑے گا اس سے پہلے صابر ہسپتال جا چکا ہے ۔ یہ سن کر شاکر بابا نے کہا پتہ ہے مجھے لیکن اب اس کام کو ابھی پورا کرنا ہوگا ورنہ ہم میں سے کوئی بھی زندہ یہاں سے نہیں جا سکے گا۔ شاکر بابا کی یہ بات سنتے ہی پلمبر سمیت سب لوگ حیرانی سے شاکر کی طرف دیکھنے لگے۔ شاکر بابا نے کہا وہ چیز میری سوچ سے کہیں زیادہ طاقتور نکلی جو وہ دن کی روشنی میں بھی اتنا اثر دکھا رہی ہے۔ اس لیئے ہمیں جلدی سے جلدی یہ عمل پورا کرنا ہوگا۔ اس لیئے اسے چھوڑو اور باقی کے درختوں کو بھی مشین سے کاٹ ڈالوں ۔ اتنے میں روشن نے کہا پر شاکر بابا نعیم کو ہسپتال لے کر جانا بہت ضروری ہے اس کی ٹانگ نیلی ہو رہی ہے۔ یہ سنتے ہی شاکر بابا نے کہا بکواس بند کرو بیوقوف اسے کس نے کہا تھا کہ اُس کی آنکھوں میں دیکھے ۔ اسی نے اس کو پھینکا ہے۔ یہ سنتے ہی سب لوگ ایک بار پھر سے حیرانی سے شاکر بابا کی طرف دیکھنے لگے۔ اتنے میں روشن نے کہا لیکن بابا یہ تو اوپر اپنا کام کر رہا تھا۔ شاکر نے کہا اچھا تو اس سے ہی پوچھ لو اس نے کیا دیکھا تھا۔ یہ سنتے ہی سب لوگ نعیم کی طرف دیکھنے لگے جبکہ اس دوران نعیم درد کی وجہ سے آنکھیں بند کر کے تڑپ رہا تھا یہ دیکھتے ہوئے شوکی نے نعیم سے کہا نعیم ہمیں بتاؤ یہ سب کیا چکر ہے یہ کیسے ہوا۔۔۔ ؟؟ نعیم نے درد سے جوجتے ہوئے کہا اس درخت پر کوئی عجیب سی عورت ہے اسی نے مجھے دھکا مارا تھا۔ یہ سنتے ہی پلمبر اور تینوں مزدور اس ٹالی کے درخت کی طرف دیکھنے لگے اتنے میں جھورے نے کہا شوکی بھائی میں نے تم لوگوں کو پہلے ہی کہا تھا یہاں کوئی جن ون کا چکر ہے لیکن تم لوگوں نے میری بات نہیں مانی اب مجھے تو یہاں ایک پل بھی کام نہیں کرنا میں ابھی اسی وقت یہاں سے جا رہا ہوں یہ کہتے ہوئے جھورے نے اپنا سامان پکڑا اور وہاں سے باہر جانے لگا۔ اسے جاتے دیکھ کر شاکر بابا نے کہا تم یہاں سے جا تو رہے ہو لیکن تم نقصان اٹھاؤ گے ابھی بھی وقت ہے رک جاؤ اور کام کو مکمل کرلو۔ یہ سن کر شوکی نے کہا شاکر بابا میرے خیال سے اب تو مجھے بھی یہی لگ رہا ہے کہ جھورا سہی کہہ رہا ہے آپ نے ہم سے کہا تھا کہ آپ نے ایک عمل کرنا ہے اس کے لیئے کچھ درخت کر وہ جگہ خالی کرنی ہے اسی لیئے ہم لوگ آپ کے ساتھ آئے تھے لیکن آپ نے ہمیں یہ کیوں نہیں بتایا تھا کہ یہاں کوئی شیطانی چیزیں بھی ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا سکتی ہیں ۔ شاکر نے کہا جو بھی ہے تم لوگ میرے ساتھ پیسوں کے لیئے آئے تھے اسی لیئے اب اپنا کام پورا کرو اور اپنے پیسے لے کر یہاں سے دفعہ ہو جاؤ تین درخت تم نے کاٹ دیئے ہیں اب صرف دو باقی ہیں اور تم لوگ نخرے کر رہے ہو ۔۔ شوکی نے کہا نخرے کی بات نہیں ہے شاکر بابا ہمارے لوگ یہاں زخمی ہو رہے ہیں اور یہ۔۔۔۔ دیکھو یہ کیا ہے۔۔۔۔ ایک درخت کاٹا ہے لیکن میرا سارا جسم اس طرح خون سے لت پت ہو گیا جیسے میں کوئی قصائی کا کام کر کے ہٹا ہوں شاکر بابا ہمارا کچھ تو خیال کر لیں ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں درخت کاٹیں گے تو وہ شیطانی ہمیں نقصان پہنچائیں گی اور اگر ہم بنا درخت کاٹے یہاں سے جائیں گے تو نقصان اٹھائیں گے یہ آپ نے ہمیں یہاں کس مصیبت میں ڈال دیا ہے شاکر بابا۔۔۔؟؟ یہ سنتے ہی شاکر بابا نے کہا تم لوگ سمجھ کیوں نہیں رہے اب ہم اس کام کو بیچ میں چھوڑ نہیں سکتے باقی دو درخت نہ کاٹے تو وہ جو بیری کے کٹے ہوئے درخت کے پاس کھڑی ہے وہ ہم میں سے کسی کو نہیں چھوڑے گی۔ یہ سنتے ہی سب لوگوں نے بیری والے درخت کی طرف دیکھا تو انہیں وہاں کچھ نظر نہیں آیا۔ تو روشن نے کہا شاکر بابا وہاں تو کوئی نہیں ہے آپ ہمیں ڈرانے کی کوشش مت کریں ہم پہلے سے ہی بہت ڈرے ہوئے ہیں یہ سنتے ہی شاکر بابا نے مسکراتے ہوئے کہا اچھا ٹھیک ہے وہاں جو مشین پڑی ہے تم وہ لا کر مجھے دو میں یہ کام خود ہی کر لیتا ہوں۔ پھر تم لوگ یہاں سے چلے جانا۔ یہ سن کر روشن آہستہ آہستہ سے اس بیری کے کٹے ہوئے درخت کی طرف بڑھتے ہوئے بار بار مڑ کر شاکر بابا کی طرف دیکھ رہا تھا درخت کے پاس پہنچ کر جیسے ہی مشین کو اٹھانے لگا تو اچانک روشن اپنی گردن کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر عجیب طریقے سے تڑپنے لگا اس کے قدم زمین سے اوپر اٹھ رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ کہ جیسے کسی نے اس کو گردن سے پکڑ کر ہوا میں اٹھا لیا ہے روشن کی آواز نہیں نکل رہی تھی یہ دیکھ کر شاکر بابا کے علاوہ سبھی لوگ ڈر سے کانپنے لگے جبکہ اس دوران شاکر بابا اپنی مٹھی میں قبرستان کی مٹی پکڑ کر کچھ پڑھتے ہوئے روشن کی طرف بڑھ رہا تھا اور جیسے ہی شاکر روشن کے پاس پہنچا تو اس نے روشن کے اوپر وہ مٹی پھینک دی اسی وقت ایک عجیب سی چینخ کی آواز سنائی دی اور روشن زمین پر گر گیا پھر شاکر نے روشن کو پکڑ کر اٹھایا اور اسے سہارا دے کر وہاں سے شوکی کے پاس لے آیا۔ روشن کی سانس پھول رہی تھی اور وہ بری طرح سے کانپ رہا تھا اس کے رونگٹے کھڑے ہوئے تھے اس کی یہ حالت دیکھ کر پلمبر نے جلدی سے اسے پانی پلایا ۔
writer:Demi Wolf